جاسم محمد
محفلین
ماحولیاتی سمٹ: امریکی صدر جو بائیڈن کی 40 عالمی رہنماؤں کو شرکت کی دعوت، پاکستان کا نام شامل نہیں
27 مار چ 2021
،تصویر کا ذریعہEPA
،تصویر کا کیپشن
جو بائیڈن کے دورِ صدارت کا آغاز صدارتی حکم ناموں سے ہوا تھا اور انھوں نے پیرس ماحولیاتی معاہدے کی بحالی کا اعلان کی تھا
امریکی صدر جو بائیڈن نے ماحولیاتی تبدیلی پر اپریل 22-23 کو ایک ورچوئل سمٹ (اجلاس) کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلے میں 40 عالمی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے جمعے کو جاری کردہ بیان کے مطابق اس ورچوئل اجلاس میں اس حوالے سے آگاہی دی جائے گی کہ ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے سے بہتر نوکریاں فراہم کی جاسکیں گی، اعلیٰ ٹیکنالوجی تیار ہو گی اور کمزور ممالک کی مدد ہو سکے گی۔
بیان کے مطابق صدر بائیڈن چاہتے ہیں کہ عالمی رہنما اس سمٹ کو ایک موقع سمجھیں جہاں وہ بتا سکتے ہیں کہ ان کے ممالک کیسے ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے بہتر کردار ادا کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ سمٹ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے کے بعد امریکہ دوبارہ پیرس معاہدے میں شامل ہو گیا ہے اور رواں سال نومبر کے دوران اسی موضوع پر گلاسگو میں اقوام متحدہ کی کانفرنس ہونے جا رہی ہے۔
سمٹ میں کسے مدعو کیا گیا ہے؟
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق ایسے 17 ممالک کے رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے جو قریب 80 فیصد کاربن کے عالمی اخراج اور عالمی پیداوار کے ذمہ دار ہیں۔
’صدر نے ان ملکوں کے سربراہان کو بھی مدعو کیا ہے جنھوں نے مضبوط کلائمیٹ لیڈرشپ کا مظاہرہ کیا ہے، جو ماحولیاتی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں یا اپنی معیشت کو کاربن کے صفر اخراج کی طرف لے جانے کے لیے نئے طریقے استعمال کر رہے ہیں۔‘
’سمٹ میں چھوٹے پیمانے پر کاروباری اور سول سوسائٹی کے رہنما بھی شرکت کریں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہEPA
،تصویر کا کیپشن
امریکہ نے کلائمیٹ سمٹ میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی (بائیں) اور بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ (دائیں) کو مدعو کیا ہے
صدر بائیڈن نے انڈین وزیراعظم نریندر مودی، بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن، ترک صدر طیب اردوغان، سعودی حکمران سلمان بن عبدالعزیز آل سعود، اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو، فرانس کے صدر میکخواں، یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈرلائن سمیت دیگر رہنماؤں کو مدعو کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کو بھی اس میں شرکت کی دعوت کی گئی ہے تاکہ ’بڑی معیشتیں ماحولیاتی بحران کو قابو کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرسکیں۔‘
جرمن چانسلر اینگلا مرکل اور کینیڈا کے صدر جسٹن ٹروڈو کے علاوہ جنوبی افریقہ، ویتنام، جنوبی کوریا، نائجیریا، میکسیکو، کینیا، انڈونیشیا، بھوٹان اور برازیل کے رہنماؤں کو بھی ورچوئل شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
’عمران خان فہرست میں شامل کیوں نہیں؟‘
سوشل میڈیا پر اس خبر کے ردعمل میں کئی صارفین نے سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیوں نہیں کیا گیا اور ورچوئل اجلاس میں وزیر اعظم پاکستان کو دعوت کیوں نہیں دی گئی۔
مائیکل کوگلمین نے لکھا کہ ’پاکستان میں کئی کوگ خوش نہیں کہ عمران خان اجلاس کے شرکا میں نہیں ہوں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER/@MICHAELKUGELMAN
انھوں نے مزید لکھا: ’مدعو کیے جانے والوں میں سر فہرست امریکہ کے اتحادی تھے، دوسرے نمبر پر زیادہ آلودگی پھیلانے والے ملک، تیسرے پر وہ ملک جو ماحولیاتی اثرات سے متاثر ہو رہے ہیں۔۔۔ پاکستان تیسری شرط کے تحت اہل تھا۔‘
اسماعیل خان نے طنزیہ ٹویٹ میں کہا کہ ’لگتا ہے پاکستان نے ماحولیاتی مسئلے کو حل کر دیا ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا: ’مگر سنجیدہ بات یہ ناانصافی ہے کہ ایسے مسئلے پر بولنے کے لیے عمران خان کو نہیں بلایا گیا جو ان کے نزدیگ انتہائی اہم ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER
سلیم علی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ان 10 ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔‘
علی رفیق نے اس پر تبصرہ کیا کہ ’علاقائی اعتبار سے بنگلہ دیش سے شیخ حسینہ اور انڈیا سے نریندر مودی کو مدعو کیا گیا لیکن پاکستان سے عمران خان کو نہیں۔۔۔ کچھ لوگوں کی تجویز ہے کہ پاکستان امریکہ تعلقات میں ماحولیاتی تبدیلی ایک بنیادی عنصر ہونا چاہیے۔‘
غریدہ فاروقی کے مطابق اس سے ’عالمی منظر نامے میں پاکستان کی اہمیت اور وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے کرادر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔‘ جبکہ اجمل جامی نے لکھا کہ وہ ’اس فہرست میں عمران خان کو نہ دیکھ کر حیران‘ ہیں۔
،تصویر کا ذریعہTWITTER/@SOHAILANWER
حامد میر نے سوال کیا کہ ’صدر بائیڈن نے ایسے ملک کو کیوں نظر انداز کیا ہے جس نے بلین ٹری سونامی کے منصوبے کو شروع کیا؟‘
لیکن بعض صارفین نے اصرار کیا ہے کہ اس سے فرق نہیں پڑتا۔
سہیل نامی صارف لکھتے ہیں کہ ’بلین ٹری کو ورلڈ اکنامک فورم، اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ان گنت اداروں نے سراہا اور قابل تقلید کہا۔۔۔ چھوڑ دیں یہ ذہنیت کہ جب تک وہاں سے سرٹیفکیٹ نہ آئے ہم اپنی عزت نہیں کرائیں گے۔ پاکستان کی دنیا میں عزت ہم سب نے کرانی ہے، امریکہ نے نہیں۔‘
اسما عثمان مزاحیہ انداز میں کہتی ہیں کہ ’میرے خیال سے پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور ایسے سمٹ کا صدر منتخب ہو چکا ہے۔ پاکستان کو دعوت دی نہیں جائے گی کیونکہ پاکستان صدارت کرے گا؟‘
27 مار چ 2021
،تصویر کا ذریعہEPA
،تصویر کا کیپشن
جو بائیڈن کے دورِ صدارت کا آغاز صدارتی حکم ناموں سے ہوا تھا اور انھوں نے پیرس ماحولیاتی معاہدے کی بحالی کا اعلان کی تھا
امریکی صدر جو بائیڈن نے ماحولیاتی تبدیلی پر اپریل 22-23 کو ایک ورچوئل سمٹ (اجلاس) کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلے میں 40 عالمی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے جمعے کو جاری کردہ بیان کے مطابق اس ورچوئل اجلاس میں اس حوالے سے آگاہی دی جائے گی کہ ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے سے بہتر نوکریاں فراہم کی جاسکیں گی، اعلیٰ ٹیکنالوجی تیار ہو گی اور کمزور ممالک کی مدد ہو سکے گی۔
بیان کے مطابق صدر بائیڈن چاہتے ہیں کہ عالمی رہنما اس سمٹ کو ایک موقع سمجھیں جہاں وہ بتا سکتے ہیں کہ ان کے ممالک کیسے ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے بہتر کردار ادا کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ سمٹ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے کے بعد امریکہ دوبارہ پیرس معاہدے میں شامل ہو گیا ہے اور رواں سال نومبر کے دوران اسی موضوع پر گلاسگو میں اقوام متحدہ کی کانفرنس ہونے جا رہی ہے۔
سمٹ میں کسے مدعو کیا گیا ہے؟
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق ایسے 17 ممالک کے رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے جو قریب 80 فیصد کاربن کے عالمی اخراج اور عالمی پیداوار کے ذمہ دار ہیں۔
’صدر نے ان ملکوں کے سربراہان کو بھی مدعو کیا ہے جنھوں نے مضبوط کلائمیٹ لیڈرشپ کا مظاہرہ کیا ہے، جو ماحولیاتی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں یا اپنی معیشت کو کاربن کے صفر اخراج کی طرف لے جانے کے لیے نئے طریقے استعمال کر رہے ہیں۔‘
’سمٹ میں چھوٹے پیمانے پر کاروباری اور سول سوسائٹی کے رہنما بھی شرکت کریں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہEPA
،تصویر کا کیپشن
امریکہ نے کلائمیٹ سمٹ میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی (بائیں) اور بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ (دائیں) کو مدعو کیا ہے
صدر بائیڈن نے انڈین وزیراعظم نریندر مودی، بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن، ترک صدر طیب اردوغان، سعودی حکمران سلمان بن عبدالعزیز آل سعود، اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو، فرانس کے صدر میکخواں، یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈرلائن سمیت دیگر رہنماؤں کو مدعو کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کو بھی اس میں شرکت کی دعوت کی گئی ہے تاکہ ’بڑی معیشتیں ماحولیاتی بحران کو قابو کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرسکیں۔‘
جرمن چانسلر اینگلا مرکل اور کینیڈا کے صدر جسٹن ٹروڈو کے علاوہ جنوبی افریقہ، ویتنام، جنوبی کوریا، نائجیریا، میکسیکو، کینیا، انڈونیشیا، بھوٹان اور برازیل کے رہنماؤں کو بھی ورچوئل شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
’عمران خان فہرست میں شامل کیوں نہیں؟‘
سوشل میڈیا پر اس خبر کے ردعمل میں کئی صارفین نے سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیوں نہیں کیا گیا اور ورچوئل اجلاس میں وزیر اعظم پاکستان کو دعوت کیوں نہیں دی گئی۔
مائیکل کوگلمین نے لکھا کہ ’پاکستان میں کئی کوگ خوش نہیں کہ عمران خان اجلاس کے شرکا میں نہیں ہوں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER/@MICHAELKUGELMAN
انھوں نے مزید لکھا: ’مدعو کیے جانے والوں میں سر فہرست امریکہ کے اتحادی تھے، دوسرے نمبر پر زیادہ آلودگی پھیلانے والے ملک، تیسرے پر وہ ملک جو ماحولیاتی اثرات سے متاثر ہو رہے ہیں۔۔۔ پاکستان تیسری شرط کے تحت اہل تھا۔‘
اسماعیل خان نے طنزیہ ٹویٹ میں کہا کہ ’لگتا ہے پاکستان نے ماحولیاتی مسئلے کو حل کر دیا ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا: ’مگر سنجیدہ بات یہ ناانصافی ہے کہ ایسے مسئلے پر بولنے کے لیے عمران خان کو نہیں بلایا گیا جو ان کے نزدیگ انتہائی اہم ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER
سلیم علی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ان 10 ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔‘
علی رفیق نے اس پر تبصرہ کیا کہ ’علاقائی اعتبار سے بنگلہ دیش سے شیخ حسینہ اور انڈیا سے نریندر مودی کو مدعو کیا گیا لیکن پاکستان سے عمران خان کو نہیں۔۔۔ کچھ لوگوں کی تجویز ہے کہ پاکستان امریکہ تعلقات میں ماحولیاتی تبدیلی ایک بنیادی عنصر ہونا چاہیے۔‘
غریدہ فاروقی کے مطابق اس سے ’عالمی منظر نامے میں پاکستان کی اہمیت اور وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے کرادر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔‘ جبکہ اجمل جامی نے لکھا کہ وہ ’اس فہرست میں عمران خان کو نہ دیکھ کر حیران‘ ہیں۔
،تصویر کا ذریعہTWITTER/@SOHAILANWER
حامد میر نے سوال کیا کہ ’صدر بائیڈن نے ایسے ملک کو کیوں نظر انداز کیا ہے جس نے بلین ٹری سونامی کے منصوبے کو شروع کیا؟‘
لیکن بعض صارفین نے اصرار کیا ہے کہ اس سے فرق نہیں پڑتا۔
سہیل نامی صارف لکھتے ہیں کہ ’بلین ٹری کو ورلڈ اکنامک فورم، اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ان گنت اداروں نے سراہا اور قابل تقلید کہا۔۔۔ چھوڑ دیں یہ ذہنیت کہ جب تک وہاں سے سرٹیفکیٹ نہ آئے ہم اپنی عزت نہیں کرائیں گے۔ پاکستان کی دنیا میں عزت ہم سب نے کرانی ہے، امریکہ نے نہیں۔‘
اسما عثمان مزاحیہ انداز میں کہتی ہیں کہ ’میرے خیال سے پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور ایسے سمٹ کا صدر منتخب ہو چکا ہے۔ پاکستان کو دعوت دی نہیں جائے گی کیونکہ پاکستان صدارت کرے گا؟‘