حبیب جالب مادرِ ملّت

مادرِ ملّت

ایک آواز سے ایوان لرز اُٹھے ہیں
لوگ جاتے ہیں تو سلطان لرز اُٹھے ہیں

آمدِ صبحِ بہاراں کی خبر سنتے ہی
ظلمتِ شب کے نگہبان لرز اُٹھے ہیں

دیکھ کے لہر مرے دیس میں آزادی کی
قصرِ افرنگ کے دربان لرز اُٹھے ہیں


مشعلیں لے کے نکل آئے ہیں مظلوم عوام
غم و اندوہ میں ڈوبی ہے محلّات کی شام

یاس کا دور گیا خوف کی زنجیر کٹی
آج سہمے ہوئے لوگوں کو ملا اذنِ کلام

راہ میں لاکھ صداقت کے مخالف آئے
قوم نے سُن ہی لیا مادرِ ملّت کا پیام
 
(اس میں ایک بند اور شامل ہے، جسکا سکَین کٹا ہوا ہے اسکا تکّا لگا کر ٹائپ نہیں کر سکتا، اس لیئے جوں کا توں ٹائپ کر رہا ہوں، جس کسی کے پاس اوریجنل پرنٹ ہو وہ تصحیح فرما دے۔ شکریہ کلیات حبیب جالب صفحہ 188-189)

۔۔۔ کے قدموں ہی میں جنّت ہے ادھر آجاؤ
۔۔۔ بے لوث محبت ہے ادھر آجاؤ

۔۔۔ کر آئی ہیں ہمیں ملک دلانے کے لئے
--- کی یہ ہم پر عنایت ہے ادھر آجاؤ

۔۔۔ طرف ظلم ہے بیداد ہے حق تلفی ہے
۔۔۔ طرف پیار ہے الفت ہے ادھر آجاؤ
 
ماں کے قدموں ہی میں جنّت ہے ادھر آجاؤ
ایک بے لوث محبت ہے ادھر آجاؤ

وہ پھر آئی ہیں ہمیں ملک دلانے کے لئے
ان کی یہ ہم پر عنایت ہے ادھر آجاؤ

’اس طرف ظلم ہے بیداد ہے حق تلفی ہے
اِس طرف پیار ہے الفت ہے ادھر آجاؤ
 
Top