مارشل لا سے پارلیمانی جمہوریت

مارشل لا سے پارلیمانی جمہوریت
عنبر خیری بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
آخری وقت اشاعت: بدھ 29 مئ 2013 ,‭ 15:34 GMT 20:34 PST
130529145924_junejo_with_zia_304x171_pakgov_nocredit.jpg


جنرل ضیا نے جنیجو کو یہ سمجھ کر نامزد کیا تھا کہ یہ ان کی باتیں مانیں گے
انتیس مئی سنہ انیس سو اٹھاسی کو پاکستان کے صدر نے اچانک ہی وزیراعظم کو برطرف کر دیا اور ملک کی قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے ہی نامزد کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو کس طرح گھر بھیجا اور کیوں؟ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے جو نہ صرف پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے بلکہ ملک میں اقتدار کی حقیقت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
انتیس مئی کو پاکستان کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو ایک غیر ملکی دورے سے واپس ملک پہنچے جس کے کچھ ہی دیر بعد ان کو برطرف کر دیا گیا۔ رانا نعیم، جونیجو کے کابینہ میں وزیر مملکت برائے دفاع تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اُس شام انہوں نے دیکھا کہ وزیر اعظم کی ایئرپورٹ پر پریس کانفرنس سے کئی صحافی نکلنا شروع ہو گئے۔ انہوں نے ان پوچھا کہ ’تم لوگ وزیراعظم کی باتیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟‘ جواب ملا کہ ’صدر کی پریس کانفرنس میں‘۔

ایئرپورٹ پر موجود پریس انفامریشن ڈیپارٹمنٹ یعنی پی آئی ڈی کے اہلکاروں نےصحافیوں کو بتایا کہ صدر ضیا الحق ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرنے والے ہیں۔ جنرل ضیا نے اس انتہائی مختصر پریس کانفرنس میں وزیر اعظم اوراسمبلیوں کی برطرفی کا اعلان کیا اور پھر سوالات لینے سے انکار کر دیا۔

اس بات کا علم جونیجو کو کچھ دیر بعد ہی ہوا۔ پی آئی ڈی نے صدر کی ’ہنگامی‘ پریس کانفرنس کے بارے میں ایئرپورٹ پر موجود صحافیوں کو تو بتا دیا لیکن وزیر اعظم کے کسی اہلکار کو نہیں۔ سید انور محمود اس وقت جونیجو کے پریس سیکرٹری تھے اور دورے پر وزیر اعظم کے ساتھ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ برطرفی کے فیصلے کی خبر ان کو ٹی وی سے ملی۔

رانا نعیم بتاتے ہیں کہ انہوں نے کچھ افواہیں تو سنی تھیں کہ جنرل ضیا یہ کام کرنے والے ہیں لیکن ایئرپورٹ پہنچ کر انہیں اس کا یقین تب ہوا جب انہوں نے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل اختر عبد الرحمان کو دیکھا۔

وہ حسب معمول وزیراعظم کے استقبال کے لیے کابینہ کے ارکان کے ساتھ موجود تھے لیکن رانا نعیم کہتے ہیں ’جنرل اختر نے ٹوپی نہیں پہنی تھی۔ جب کوئی فوجی سلیوٹ نہیں کرنا چاہتا تو وہ ٹوپی نہیں پہنتا‘۔ رانا نعیم کا کہنا ہے کہ جنرل اختر وزیروں سے بھی آ کر اس طرح نہیں ملے جیسے ماضی میں کیا کرتے تھے اور نہ ہی انہوں نے وزیروں سے ہاتھ ملایا۔

رانا نعیم کہتے ہیں کہ وہ جونیجو کو تو نہیں بتا پائے کیونکہ ان کو حالات کا اندازہ ہو گیا لیکن انہوں نے وزیراعظم کی پریس کانفرنس کے بعد خود ایئرپورٹ سے روانہ ہونے سے پہلے اپنی گاڑی سے جھنڈا اتار دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ برطرفی کے فوراً بعد جونیجو سے کسی کو ملنے نہیں دیا گیا اور نہ ہی فون پر بات ہونے دی ’حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ایک طرح ہاؤس اریسٹ تھا‘۔

رانا نعیم کہتے ہیں کہ جب وہ جونیجو سے ملنے پہنچے تو چودھری شجاعت، ظفر اللہ جمالی، اقبال احمد خان اور یاسین وٹو بھی وہاں تھے۔ ان سب نے بیٹھ کر بات کی کہ اب حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اور اخبار نویسوں کے لیے ایک بیان تیار کیا گیا جس میں کہا گیا ’جنرل ضیاء کا حکومت برطرف کرنے کا فیصلہ غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی تھا‘۔

رانا نعیم کو یہ بھی یاد ہے کہ جب میاں نواز شریف جونیجو سے ملنے آئے تو ان دونوں کی ملاقات الگ سے ہوئی (اس کے کئی ہفتے بعد ہی مسلم لیگ کے کنونشن میں ہنگامے کے بعد پارٹی تقسیم ہو گئی اور ایک دھڑے کی قیادت نواز شریف نے سنبھال لی۔)

عدالت کا انوکھا فیصلہ

محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی کے خلاف پھر عدالت سے بھی رجوع کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں چلنے والا یہ کیس حاجی سیف اللہ کیس کہلاتا ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ حکومت کی برطرفی غیر آئینی تھی لیکن انہوں نے حکومت بحال نہیں کی۔

رانا نعیم کا کہنا ہے کہ جس دن فیصلہ آیا عدالتی کارروائی کی تعطیل میں ججوں کی طرف سے جونیجو کو پیغام بھیجا گیا۔ وہ ان سے یہ یقین دہانی چاہتے تھے کہ اگر ان کی حکومت بحال کی گئی تو وہ صدر ضیا الحق کے اعلان شدہ انتخابات کے شیڈول پر چلیں گے۔

’میں نے جونیجو کو مشورہ دیا کہ وہ مان جائیں کیونکہ آگے الیکشن تو لڑنا ہی ہوگا لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں یہ وزیر اعظم کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ الیکشن کا اعلان کرے اور اس کا وقت تعین کرے‘۔

انہوں نے اس اصولی بنیاد پر یہ شرط نہیں مانی اور ججوں کو کہا کہ وہ اپنا فیصلہ خود ہی کریں، وہ فیصلہ جو بھی ہو۔

صحافی ناصر ملک کو بھی یہ کیس اچھی طرح سے یاد ہے اور وہ کہتے ہیں ’سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہم سب کو واضح نظر آرہا تھا کہ عدالت جونیجو حکومت بحال کرنے جا رہی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ وہ جونیجو سے کہیں کہ وہ عدالت میں آئیں تاکہ ہم ان کو سن سکیں‘۔

ناصر ملک کہتے ہیں کہ اس روز جونیجو عدالت میں آئے اور ان کو حاضر وزیر اعظم کا پورا پروٹوکول دیا جانا تھا۔ وہ کہتے ہیں ’میں اس کا عینی شاہد ہوں‘۔ تعطیل کے بعد جونیجو عدالت میں آئے لیکن ان کا بیان نہیں سنا گیا اور پھر عدالت کے فیصلے میں ان کی حکومت کو بحال نہیں کیا گیا۔

عدالت نے وزیر اعظم کی برطرفی کو غلط اور غیر قانونی تو قرار دیا لیکن ان کی حکومت بحال نہیں کی۔ کیوں؟ صحافی ناصر ملک کہتے ہیں کہ یہ چند سال بعد ہی واضح ہوا۔

’کچھ سال بعد ایک اور کیس میں، شاید اسلم بیگ کیس تھا، وسیم سجاد نے یہ اعتراف کیا کہ جس دن جونیجو کا فیصلہ آیا، اس روز کی صبح انہوں نے چیف جسٹس کو فون کر کے انہیں فوج کا پیغام دیا کہ فوج نہیں چاہتی کہ جونیجو حکومت بحال ہو۔ وسیم سجاد نے اعتراف کیا کہ وہ ہی وہ شخص تھے جنہوں نے ججوں کو یہ پیغام پہنچایا۔ یہ عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔‘ (نامور وکیل ویسم سجاد سینیٹ کے چیرمین رہے اور بعد میں وزیر قانون بھی)

عدالت کے فیصلے کے بعد محمد خان جونیجو گھر چلے گئے، شاید وہ صدر اور فوجی حلقوں سے لڑائی نہیں لینا چاہتے تھے۔ صحافی ماریانا بابر کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ ان سے گفتگو میں پوچھا گیا کہ وہ اتنی خاموشی سے کیوں چلے گئے تو انہوں نے کوئی ایسی بات کی کہ ’سندھ کے ایک وزیر اعظم کا جنازہ پہلے ہی جا سکا ہے۔‘

سنہ اٹھاسی کے انتخابات میں محمد خان جونیجو اپنے حلقے سے ہار گئے۔ سنہ نوے میں پھر وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور تین سال بعد ان کا انتقال ہوگیا۔

جونیجو کی طرز حکمرانی

محمد خان جونیجو پاکستان کے دسویں وزیراعظم تھے اور ان کا مارشل لا اور فوجی حکمرانی سے پارلیمانی جمہوریت کی طرف سفر میں ایک اہم کردار تھا لیکن آج کل ان کے نام کو بہت کم شہری جانتے ہیں۔

صحافی ماریانا بابر کہتی ہیں کہ جب انہوں نے اخباری تحریروں میں محمد خان جونیجو کا ذکر کیا تو پڑھنے والوں کے ردعمل سے ان کی لا علمی کا اندازہ ہوتا ہے ’لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کون جونیجو تھے؟ یہ کونسے وزیراعظم تھے؟‘

محمد خان جونیجو کا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم کردار تھا کیونکہ انہوں نے ایک نازک وقت میں انتہائی مشکل فیصلے کیے اور ایسے فیصلے جن سے جنرل ضیا ناخوش تھے۔

افغانستان کے معاملے پر انہوں نے مخالفت کے باوجود فوج اور جنرل ضیا سے ہٹ کر پالیسی اپنائی اور جنیوا معاہدوں پر دستخط کیے۔

(جنیوا اکورڈز ان معاہدوں کا نام ہے جو امریکہ اور سویت یونین کی یقین دہانی کے تحت پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پائے اور جن میں روسی فوج کی افغانستان سے انخلا، افغان پناہ گزینوں کی واپسی اور دونوں مملک کے باہمی تعلقات سے متعلق نکات پر اتفاق کیا گیا)

معاہدوں پر دستخط سے پہلے وزیر اعظم نے فوج سے نہیں بلکہ سیاسی حلقوں سے مشاورت کی۔ انہوں نے ایک کُل جماعتی کانفرنس طلب کی جس میں بینظیر بھٹو کو بھی بلایا گیا۔ صحافی زاہد حسین یاد دلاتے ہیں کہ بینظیر بھٹوں کی جلا وطنی کے بعد واپسی جونیجو حکومت کے ہی دور میں ہوئی اور کہتے ہیں کہ وہ پورے ملک میں جلسے کرتی تھیں اور حکومت کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں دیکھنے میں آئی۔

محمد خان جونیجو مارشل لا کے خاتمے کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے تھے حالانکہ اس کی قیمت آئین کی اٹھویں ترمیم تھی۔

مارشل لا کے خاتمے کے بعد جونیجو نے سیاسی جماعتیں بحال کیں اور اپنی پارٹی مسلم لیگ کو اثر نو منظم کیا اور یہ پارلیمان کی بڑی جماعت بن گئی۔ یہ اقدام جنرل ضیا کے خواہشات کے خلاف تھا کیونکہ وہ ایک ’غیر جماعتی‘ سیاسی نظام چاہتے تھے۔

اپنے ڈھائی سالہ دور حکومت میں محمد خان جونیجو نے قانوں اور اصول پر عمل کیا اور اس کی ایک مثال سامنے رکھنے کی کوشش کی۔ اگر کسی وزیر پر کرپشن کا الزام یا شبہ ہوتا تو وہ اس کو کابینہ میں برداشت نہیں کرتے تھے، اس طرح ان کے تین وزیر کابینہ سے رخصت کیے گئے۔

سابق وزیر اعظم سادگی سے رہتے تھے اور اپنے گھر کے خرچوں کو وزیر اعظم ہاؤس کے کھاتوں میں نہیں ڈالتے تھے۔ لوگوں کو یاد ہے کہ و ہ ہر روز رات کو وزیراعظم ہاؤس کی تمام بتیاں جا کر بجھاتے تھے لیکن یہ سادگی اور فضول خرچی کم کرنے کی کوشش شاید انہیں مہنگی پڑی گئی۔

بجٹ کی تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ اب بڑی گاڑیاں نہیں لی جائیں گی اور پاکستان میں تیار گاڑیوں کو حکومت میں استعمال کرنے میں ترجیح ملے گی۔ تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ اب جرنیلوں اور سیکرٹریوں کو چھوٹی گاڑیوں میں بیٹھنا ہوگا۔

ان کے اس طرح کے فیصلوں نے اعلیٰ عہدوں پر فائز بہت سے لوگوں کو ناراض کر دیا لیکن شاید کلِک اوجڑی کیمپ کے واقعے کے بعد ان کا موقف ہی ان کی حکومت کی برطرفی کے معاملے میں فیصلہ کن بنا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ذمہ داروں کو سزا ضرور دی جائے گی۔

اوجڑی کیمپ راولپنڈی میں آئی ایس آئی کا ایک اسلحے کا کیمپ تھا جہاں دس اپریل 1988 کو دھماکے شروع ہوئے جس کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک شہر پر راکٹ برستے رہے۔ اس میں وفاقی وزیر خاقان عباسی سمیت سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔

اوجڑی کیمپ پر پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کے سامنے آنے سے پہلے ہی جونیجو حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔

اپنے دور میں محمد خان جونیجو نے جنرل ضیا کو دیگر معاملات پر چیلنج کیا حالانکہ وہ ان کے ہی نامزد کردہ وزیر اعظم تھے۔

مارشل لا اور غیر جماعتی انتخابات سے ابھرنے والے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے پارلیمانی جمہوریت کے لیے جنگ لڑی اور وہ بھی ایک انتہائی مشکل وقت میں۔
 
Top