مارگلہ ڈائیلاگ 21 سے وزیر اعظم عمران خان کا خطاب

الف نظامی

لائبریرین
وزیراعظم کا کہنا ہےکہ ہمارے ملک کے تمام مسائل کا حل قانون کی حکمرانی میں ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام مارگلہ ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت وہاں مستحکم ہوتی ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ایک وقت تھا جب کہا جا رہا تھا کہ پاکستان ایشیا کا کیلیفورنیا بننے جا رہا ہے، پاکستان ایشیا میں بڑی تیزی سےترقی کر رہا تھا، پھر ہم نے اپنے ملک کازوال بھی دیکھا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کرپشن قانون کی حکمرانی نہ ہونےکی علامت ہے، قانون کی حکمرانی جرائم پیشہ افراد کو آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیابھرمیں اسلاموفوبیا کے ذمہ دارہم نہیں، کوئی بھی مذہب دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا، دہشتگردی کیخلاف جنگ میں80 ہزارجانوں کی قربانیاں دیں، پاکستان کوجنگ میں معاشی طورپربھی نقصان ہوا، اتنی قربانیوں کےباوجودڈبل گیم کاالزام لگایاجارہاتھا، اتحادی ہونے کے باوجود ہمیں ذمہ دارٹھہرایاگیا۔

عمران خان نے کہاکہ اتحادی ہی ہم پربم گرارہےتھے، قربانیاں دینےکےباوجودمغرب نےپاکستان کوکریڈٹ نہیں دیا، غلطیاں وہ کررہےتھےلیکن پاکستان سےکوئی جواب دینےوالانہیں تھا،ملک میں پڑھی لکھی لیڈرشپ نہ ہونےکی وجہ سےخلاتھا۔

وزیراعظم نے کہاکہ بھارتی حکومت کی پالیسیاں فاشسٹ ہیں، بھارت میں اقلیتوں کومشکلات کا سامنا ہے، بھارت کشمیرمیں مظالم کررہاہےمغربی ممالک خاموش ہیں، کشمیرمیں کوئی اورملک ظلم کرتاتواتناشور مچ جاتا۔

انہوں نے کہاکہ قانون کی حکمرانی جرائم پیشہ افرادکوآگےبڑھنےسےروکتی ہے، قانون پرعمل درآمد نہ ہوتوملک نیچےچلاجاتاہے، کرپشن بھی قانون پرعمل درآمد نہ ہونےکی وجہ سے ہے ، ایلیٹ طبقے کی کرپشن کی وجہ سےہم پیچھےہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے مزید کہاکہ پاکستان میں تعلیم کے 3 طرح کےنظام چل رہے ہیں،ملک میں تحقیق کےشعبےمیں بہت کم کام ہوا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تنازعہ کشمیر کو حل کئے بغیر جنوبی ایشیاءکے لوگوں کو دائمی عدم استحکام سے نجات نہیں مل سکتی، اقوام متحدہ اور عالمی برادری بے ضمیری اور بے حسی کی صورتحال پر بھارت کو جواب دہی کے لیے کٹہرے میں کھڑا کرے، روس کے ساتھ ہماری مفاہمانہ تعلقات کی استواری مضبوط ہوئی ہے،امریکہ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، افغانستان میں اجتماعیت کی حامل حکومت کی تشکیل کے حامی ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو یہاں تبدیل ہوتے جیوپولیٹیکل منظر نامے میں مستقبل کی خارجہ پالیسی کے مسائل کے عنوان پر ”مارگلہ ڈائیلاگ فورم2021“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی طاقتوں کے درمیان حالیہ سٹرٹیجک مقابلے نے عالمی امن کی نزاکتوں میں اضافہ کر دیا ہے اور سفارتکاری کی ایسی سمت پر ڈال دیا ہے جس کے بارے میں حتمی طورپر کچھ کہنا کافی مشکل ہوگیا ہے۔ اس دور میں خارجہ پالیسی اور جیوپالیٹیکس زیادہ تر جیواکنامکس سے جُڑ گئی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان جیوپالیٹیکس سے جیواکنامکس کا سٹرٹیجک مدار ومحور بن چکا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشی سفارت کاری کی اہمیت دو چند ہوچکی ہے۔ ہمیں موجودہ جیوپالیٹیکس کی ذہنیت کو ازسرنوتشکیل دینا اور جیواکنامکس کی اہمیت کو قبول کرنا ہوگا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ جیو اکنامکس پر ہماری توجہ کے یقیناً ثمرات حاصل ہورہے ہیں۔ دسمبر 2019 میں اسلام آباد میں ’افریقہ کے ساتھ روابط‘ (انگیج افریقہ) کانفرنس کے بعد سے افریقہ کے ساتھ ہماری تجارت میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل کی خارجہ پالیسی سے معیشت کو جوڑنا ہمیں جدید سفارت کاری کے کلیدی ذرائع کی طرف لاتی ہے جو ڈیجیٹل پہلو ہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ کورونا عالمی وبا نے ڈیجیٹل ڈپلومیسی کے دریچوں کو بڑھا دیا ہے۔ سفارت کاری اب محض قیادت کے درمیان ٹیلی فون کالز یا ریاستی دوروں کی حد تک محدود نہیں رہی۔ٹیکنالوجی نے اس سے قبل تعلقات کار میں ایسا فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیاتھا۔

آج فہم وادراک کی جنگیں ٹویٹر پر جیتی اور ہاری جارہی ہیں۔ لہذا آج سفارت کاری کی بہترین جگہ آن لائن ہے جہاں آپ کم وسائل خرچ کرکے زیادہ بڑے نتائج کم وقت میں حاصل کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مستقبل کی سفارتی پالیسی سازی کے لئے ڈیجیٹل اکانومی سے جڑنے کی طرف یہ اولین قدم ہے۔انقلابی سائنسی تبدیلیاں پہلے ہی، جنگ اور امن، ماحولیاتی تبدیلیوں ، ہماری معیشتوں، جیوپالیٹیکس اور ہمارے طرز زندگی پر اثرانداز ہورہی ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹو (جس کا چین پاکستان اقتصادی راہداری، ایک ہراول منصوبہ ہے) کے تحت، معاشی جغرافیے اور ایشیائ، یورپ اور افریقہ کے تین متصل براعظموں کے جُڑنے سے تمام دنیا کے شہریوں کے لئے خوش حالی کے نئے در کھلیں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے ہم امریکہ کے ساتھ سودے بازی والے تعلقات نہیں چاہتے۔ ہم کثیرالجہتی تعلقات چاہتے ہیں جو علاقائی اور عالمی پالیسیز کی مدوجزر سے متاثر نہ ہوں۔

وزیراعظم عمران خان کے وژن کی روشنی میں جیوپالیٹیکس سے جیواکنامکس کی طرف تبدیلی سے ہم امریکہ کے ساتھ ایسے تعلقات چاہتے ہیں جو ہماری تبدیل شدہ ترجیحات سے ہم آہنگ ہوں۔ امریکہ کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کارانہ تعلقات میں اضافہ اور خطے کو جوڑنے سے متعلق تعاون ہمارے باہمی مفاد میں کام آسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ روس کے ساتھ ہماری سفارتی رسائی سے نہ صرف مفاہمانہ تعلقات کی استواری مضبوط ہوئی ہے بلکہ سلامتی اور معاشی شعبوں میں تعلقات میں ایک نئی زندگی پیدا ہونے سے نئے دروازے کُھلے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جنوبی، وسطی اور مغربی ایشیاءکے سنگم پر واقع پاکستان جیسا ملک، دوہرے انتخاب نہیں کرسکتا۔ ہم مساوی فاصلہ رکھیں گے، سب کی رسائی میں رہیں گے اور سب تک پہنچیں گے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان کی تین کروڑ اسی لاکھ لوگوں میں سے ساٹھ فیصد بھوک افلاس اور قحط کا سامنا کررہے ہیں۔

انسانی بحران کی انتہائی سنگین صورتحال درپیش ہے جس کے نتائج کا سامنا نہ صرف افغانستان کے عوام کو ہے بلکہ ہمسایہ ممالک کے طور پر ہمیں ، خطے اور دنیا کو بھی یقینی طور پر کرنا ہو گا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا ’’او۔آئی۔سی‘‘ کی وزرائے خارجہ کونسل کے افغانستان پر اس غیرمعمولی اجلاس کی میزبانی کرنا اس قائدانہ کردار کے مطابق ہے جو پاکستان نے خطے میں ادا کیا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے افغانستان میں اجتماعیت کی حامل حکومت کی تشکیل کے حامی ہیں جس میں تمام نسلی اور مذہبی اقلیتوں سمیت خواتین کے حقوق کا احترام ہو۔افغان حکومت نے اپنے تمام ہمسایوں کو یقین دلایا ہے کہ ان کی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ یہی پیغام کابل نے تمام خطے کے باہر کی قوتوں کو بھی دیا ہے۔

کامیاب خارجہ پالیسی کے مستقبل کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ سٹرٹیجک غلطیاں نہ دوہرائی جائیں جو 1990 کی ابتدا میں ہوئیں جس کے نتیجے میں خانہ جنگی، قحط اور دہشت گردی کی لہریں اٹھیں اور جن کے اثرات کا سامنا گذشتہ تیس برس سے کیاجارہا ہے۔دنیا کو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کے بارے میں بات کئے بغیر خارجہ پالیسی مسائل کے بارے میں بات مکمل نہیں ہوتی۔ امن اور جیواکنامک کو مضبوط بنانے کے لئے پاکستان کی کوششیں یک طرفہ نہیں ہوسکتیں۔ ہمارے مشرقی ہمسایہ نے ہر قسم کی بات چیت کے لئے تمام دروازے بند کرنے کا انتخاب کیا۔

اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ اس نے غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر کے متنازعہ خطے میں فوجی کشی کرتے ہوئے یلغار کی اور محاصرہ کرکے ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں سے ان کا حق رائے شماری چھین لیا اور آج ان پر جبر واستبدادکے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں نئی دہلی کے اقدامات کشمیر میں بھارت کے وکیلوں اور بھارت کے غیرملکی دوستوں کے لئے بھی معمہ بن گئے ہیں۔

بھارتی مظالم اور جبر واستبداد اتنا کُھلا اور بہیمانہ وقابل مذمت ہے کہ جسے سیکولرازم اور جمہوریت کے خوش نما نعروں یا پردوں میں چھپایا نہیں جاسکتا۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بے ضمیری اور بے حسی کی صورتحال پر بھارت کو جواب دہی کے لیے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ بھارت کو سمجھنا ہوگا کہ تنازعہ کشمیر کو حل کئے بغیر جنوبی ایشیاءکے لوگوں کو دائمی عدم استحکام سے نجات نہیں مل سکتی۔ اور امن وخوشحالی ایک بڑا چیلنج رہے گا
 
Top