انیس الرحمن
محفلین
روس کی لوک کہانی
ایک دن ماشا کے سب دوست جنگل میں بیر توڑنے جا رہے تھے۔ ماشا کا بھی جی چاہا کہ ان کے ساتھ جائے۔ اس کے نانا نے اجازت تو دے دی، مگر ساتھ میں یہ بھی کہا کہ دیکھنا دھیان سے جانا، جنگل میں کہیں راستہ نہ بھول جاؤ۔
سب بچے جنگل میں چلے گئے۔ وہاں وہ جھاڑیوں میں سے بیر توڑنے لگے۔ ماشا نے بھی بہت سے بیر اکھٹے کر لیے، لیکن نئی سی نئی جھاڑی کی تلاش میں وہ باقی دوستوں سے دور نکل گئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس پاس کوئی نہیں تھا اور اسے راستے کا بھی نہ پتا تھا۔
گھنے جنگل کا یہ سب سے گھنا حصّہ تھا۔ ماشا کو ڈر لگ رہا تھا۔ اچانک سامنے اسے ایک چھوٹا سا گھر نظر آیا۔ ماشا نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، مگر کوئی باہر نہیں آیا اور نہ کسی کی آواز آئی۔ وہ دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔ اندر تو کوئی بھی نہیں تھا۔ جانے اس گھر میں کون رہتا تھا۔
اس گھر میں دراصل ایک بہت بڑا بھالو رہتا تھا۔ وہ جنگل میں سیر کرنے گیا ہوا تھا۔ جب وہ واپس آیا تو ماشا کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس سے بولا، "اے لڑکی! اب تو ہمیشہ یہیں رہے گی، میرا کھانا پکائے گی اور میری خدمت کرے گی۔ ہو ہو۔"
اس طرح غریب ماشا نے وہیں رہنا شروع کردیا۔ کچھ دن تو بہت اداس رہی پھر صبر کر لیا اور کرتی بھی کیا اس کو تو وہاں سے گھر کا راستہ بھی نہیں آتا تھا۔
وہ سارا سارا وقت یہی سوچتی رہتی کہ اپنے نانا نانی کے پاس کس طرح پہنچے۔ آخر اس کو ایک ترکیب سوجھ گئی۔ اس دن شام کو جب بھالو گھر آیا تو ماشا کہنے لگی، "بھالو میاں! مجھے ایک دن کے لیے اپنے گاؤں چلا جانے دو۔ میں اپنی نانی کے لیے حلوہ پکا کر لے جانا چاہتی ہوں۔"
"نہیں لڑکی نہیں۔" بھالو غرّایا، "تو جنگل میں راستہ بھول جائے گی۔ حلوہ پکا کر مجھے دے دے۔ میں خود انہیں پہنچادوں گا۔"
بس یہی تو ماشا چاہتی تھی۔
اس نے حلوہ پکایا، ایک تھالی میں ڈالا اور تھالی کو ایک بڑی ٹوکری پر رکھ دیا اور بھالو سے کہنے لگی، "لو یہ لے جاؤ، مگر دیکھو راستے میں نہ ٹوکری کھولنا اور نہ حلوہ کھانا۔ میں ایک اونچے درخت پر چڑھ کر تمہیں دیکھتی رہوں گی، میری نظر بڑی تیز ہے۔"
"اچھا بابا اچھا۔" بھالو بولا، "لا ٹوکری دے۔"
"اچھا پہلے باہر نکل کر تو دیکھ لو کہیں بارش تو نہیں ہورہی۔" ماشا بولی اور بھالو باہر نکلا تو ماشا نے جلدی سے خود ٹوکری میں بیٹھ گئی۔ پھر حلوے کی تھالی سر کے اوپر رکھی اور ٹوکری بند کرلی۔
بھالو واپس اندر آیا، ٹوکری کندھے پر اٹھائی اور گاؤں کی طرف چل پڑا۔ چلتے چلتے بھالو تھک کر چور ہوگیا۔ راستے میں ایک ندی آئی تو بھالو کہنے لگا، "ندی کا کنارا ہے اور حلوے کی خوشبو بھی آرہی ہے۔ میرا خیال ہے یہیں بیٹھ کے آرام کروں اور تھوڑا سا حلوہ بھی اڑا لوں۔"
ماشا فورا ٹوکری میں سے بولی، "میں دیکھ رہی ہوں، خبردار! جو تم بیٹھے اور خبردار! جو تم نے میری نانی کا حلوہ کھایا۔"
"ارے! اس لڑکی کی آنکھیں تو بہت ہی تیز ہیں۔" بھالو بولا اور جلدی سے ٹوکری اٹھا کے چل پڑا۔
چلتے چلتے جب وہ تھکن سے بالکل گرنے لگا تو اس نے پھر کہا، "گاؤں تو ابھی بہت دور ہے اور حلوے کی خوشبو آرہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ تھوڑا سا اڑا لوں۔"
ماشا پھر ٹوکری میں سے بولی، "میں دیکھ رہی ہوں، میں دیکھ رہی ہوں۔ خبردار! جو تم نے حلوہ کھایا۔"
"ارے باپ رے باپ،" بھالو کہنے لگا، "یہ لڑکی تو بڑے کمال کی ہے۔ میرے گھر کے پاس درخت پر بیٹھی ہے اور اتنی دور سے میری ہر بات دیکھ بھی رہی ہے اور سن بھی رہی ہے۔"
سٹپٹا کر اس نے ٹوکری اٹھائی اور جلدی جلدی ماشا کے گھر پہنچا اور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔
اتنی دیر میں گاؤں کے کتوں کو بھالو کی بو لگ گئی تھی۔ وہ سب کے سب اکھٹّے ہو کر بھونکتے ہوئے اس کے پیچھے پڑ گئے۔ بھالو جو گھبرایا تو ٹوکری وہیں دروازے پر چھوڑ کر سیدھا اپنے گھر کی طرف بھاگا۔ شور سن کر ماشا کے نانا باہر نکلے تو دیکھا ایک ٹوکری پڑی ہوئی ہے۔ ٹوکری کھولی تو ماشا جیتی جاگتی ہنستی ہوئی باہر نکل آئی۔ نانا اور نانی نے ماشا کو خوب پیار کیا اور اس کی عقلمندی پر بھی شاباشی دی۔ پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
ماشا کی کہانی
ساجدہ رحمٰن، وزیر حسین شاہ
ماشا ایک چھوٹی سی لڑکی تھی۔ وہ اپنے نانا اور نانی کے ساتھ رہتی تھی۔ ان کا گھر جنگل کے قریب تھا۔ایک دن ماشا کے سب دوست جنگل میں بیر توڑنے جا رہے تھے۔ ماشا کا بھی جی چاہا کہ ان کے ساتھ جائے۔ اس کے نانا نے اجازت تو دے دی، مگر ساتھ میں یہ بھی کہا کہ دیکھنا دھیان سے جانا، جنگل میں کہیں راستہ نہ بھول جاؤ۔
سب بچے جنگل میں چلے گئے۔ وہاں وہ جھاڑیوں میں سے بیر توڑنے لگے۔ ماشا نے بھی بہت سے بیر اکھٹے کر لیے، لیکن نئی سی نئی جھاڑی کی تلاش میں وہ باقی دوستوں سے دور نکل گئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس پاس کوئی نہیں تھا اور اسے راستے کا بھی نہ پتا تھا۔
گھنے جنگل کا یہ سب سے گھنا حصّہ تھا۔ ماشا کو ڈر لگ رہا تھا۔ اچانک سامنے اسے ایک چھوٹا سا گھر نظر آیا۔ ماشا نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، مگر کوئی باہر نہیں آیا اور نہ کسی کی آواز آئی۔ وہ دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔ اندر تو کوئی بھی نہیں تھا۔ جانے اس گھر میں کون رہتا تھا۔
اس گھر میں دراصل ایک بہت بڑا بھالو رہتا تھا۔ وہ جنگل میں سیر کرنے گیا ہوا تھا۔ جب وہ واپس آیا تو ماشا کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس سے بولا، "اے لڑکی! اب تو ہمیشہ یہیں رہے گی، میرا کھانا پکائے گی اور میری خدمت کرے گی۔ ہو ہو۔"
اس طرح غریب ماشا نے وہیں رہنا شروع کردیا۔ کچھ دن تو بہت اداس رہی پھر صبر کر لیا اور کرتی بھی کیا اس کو تو وہاں سے گھر کا راستہ بھی نہیں آتا تھا۔
وہ سارا سارا وقت یہی سوچتی رہتی کہ اپنے نانا نانی کے پاس کس طرح پہنچے۔ آخر اس کو ایک ترکیب سوجھ گئی۔ اس دن شام کو جب بھالو گھر آیا تو ماشا کہنے لگی، "بھالو میاں! مجھے ایک دن کے لیے اپنے گاؤں چلا جانے دو۔ میں اپنی نانی کے لیے حلوہ پکا کر لے جانا چاہتی ہوں۔"
"نہیں لڑکی نہیں۔" بھالو غرّایا، "تو جنگل میں راستہ بھول جائے گی۔ حلوہ پکا کر مجھے دے دے۔ میں خود انہیں پہنچادوں گا۔"
بس یہی تو ماشا چاہتی تھی۔
اس نے حلوہ پکایا، ایک تھالی میں ڈالا اور تھالی کو ایک بڑی ٹوکری پر رکھ دیا اور بھالو سے کہنے لگی، "لو یہ لے جاؤ، مگر دیکھو راستے میں نہ ٹوکری کھولنا اور نہ حلوہ کھانا۔ میں ایک اونچے درخت پر چڑھ کر تمہیں دیکھتی رہوں گی، میری نظر بڑی تیز ہے۔"
"اچھا بابا اچھا۔" بھالو بولا، "لا ٹوکری دے۔"
"اچھا پہلے باہر نکل کر تو دیکھ لو کہیں بارش تو نہیں ہورہی۔" ماشا بولی اور بھالو باہر نکلا تو ماشا نے جلدی سے خود ٹوکری میں بیٹھ گئی۔ پھر حلوے کی تھالی سر کے اوپر رکھی اور ٹوکری بند کرلی۔
بھالو واپس اندر آیا، ٹوکری کندھے پر اٹھائی اور گاؤں کی طرف چل پڑا۔ چلتے چلتے بھالو تھک کر چور ہوگیا۔ راستے میں ایک ندی آئی تو بھالو کہنے لگا، "ندی کا کنارا ہے اور حلوے کی خوشبو بھی آرہی ہے۔ میرا خیال ہے یہیں بیٹھ کے آرام کروں اور تھوڑا سا حلوہ بھی اڑا لوں۔"
ماشا فورا ٹوکری میں سے بولی، "میں دیکھ رہی ہوں، خبردار! جو تم بیٹھے اور خبردار! جو تم نے میری نانی کا حلوہ کھایا۔"
"ارے! اس لڑکی کی آنکھیں تو بہت ہی تیز ہیں۔" بھالو بولا اور جلدی سے ٹوکری اٹھا کے چل پڑا۔
چلتے چلتے جب وہ تھکن سے بالکل گرنے لگا تو اس نے پھر کہا، "گاؤں تو ابھی بہت دور ہے اور حلوے کی خوشبو آرہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ تھوڑا سا اڑا لوں۔"
ماشا پھر ٹوکری میں سے بولی، "میں دیکھ رہی ہوں، میں دیکھ رہی ہوں۔ خبردار! جو تم نے حلوہ کھایا۔"
"ارے باپ رے باپ،" بھالو کہنے لگا، "یہ لڑکی تو بڑے کمال کی ہے۔ میرے گھر کے پاس درخت پر بیٹھی ہے اور اتنی دور سے میری ہر بات دیکھ بھی رہی ہے اور سن بھی رہی ہے۔"
سٹپٹا کر اس نے ٹوکری اٹھائی اور جلدی جلدی ماشا کے گھر پہنچا اور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔
اتنی دیر میں گاؤں کے کتوں کو بھالو کی بو لگ گئی تھی۔ وہ سب کے سب اکھٹّے ہو کر بھونکتے ہوئے اس کے پیچھے پڑ گئے۔ بھالو جو گھبرایا تو ٹوکری وہیں دروازے پر چھوڑ کر سیدھا اپنے گھر کی طرف بھاگا۔ شور سن کر ماشا کے نانا باہر نکلے تو دیکھا ایک ٹوکری پڑی ہوئی ہے۔ ٹوکری کھولی تو ماشا جیتی جاگتی ہنستی ہوئی باہر نکل آئی۔ نانا اور نانی نے ماشا کو خوب پیار کیا اور اس کی عقلمندی پر بھی شاباشی دی۔ پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
٭٭٭