عبدالحسیب
محفلین
ذہن جب بھی ماضی کے سفر پر نکلتا ہے تو اکثر ایک منظر پر آکر ٹھہر جا تا ہے۔ ایک قدیم عمارت ، ایک تنگ کمرہ جہاں چند نو عمر طلباء ایک ادھیڑ عمر استاد کے سوال کے جوابات دینے میں مشغول ہیں۔ استاد کے سوال میں دلچسپی اور طلباء کے جوابات میں سنجیدگی کے عناصر واضح نظر آ تے ہیں۔ میں معلم، میں ڈاکٹر، میں کھلاڑی، میں اداکار۔۔۔۔۔۔۔بننا چاہتا ہوں ، استاد جی۔ اسی تسلسل میں جوابات سنائی دیتے ہیں۔ انہی طلباء میں ایک آشنا خد و خال نظر آتے ہیں ۔ اس شبیہ کا جواب ذہن میں بازگشت کرنے لگتا ہے اور اسی وقت سارا منظر ذہن سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ ذہن تیزی سے ماضی سے حال تک کا سفر طے کرتا ہے۔ دورانِ سفر کئی مانوس، غیر مانوس صورتیں ، دلکش، دلفریب مناظر کا دیدار ہوتا ہے۔ لیکن ذہن ایک لمحہ بھی کہیں رُکنا گوارا نہیں کرتا۔ ذہن حال میں واپس پہنچ جاتا ہے لیکن ایک آواز بھی اُسکے تعقب میں حال تک پہنچ جاتی ہے ۔ یہ آواز ذہن میں ایک انتشار پیدا کر دیتی ہے۔ ناجانے کتنی مرتبہ یہی معاملہ پیش آتا ہے۔ ماضی کا سفر، ایک منظر،ایک آواز ، واپسی اور ایک مستقل انتشار!!!
'پائلٹ'۔۔۔۔میں پائلٹ بننا چاہتا ہوں جناب!! دھیمے لہجے کا یہ جملہ ماضی سے حال تک کے سفر میں وقت کے چاک پر ناجانے کتنے الفاظ بدلتا ہے۔ سائنس داں ، خلائی مسافر، سیاست داں، شاعر، ادیب وغیرہ وغیرہ۔ وہ جواب ماضی سے حال اپنا مستقبل دیکھنے کے لیے پہنچتا ہے۔ پر حال کا منظر تو کچھ اور ہی ہے۔ یہاں تو اُن میں سے کوئی بھی موجود نہیں جن کے ہونے کے امکان سفر تمام موجود رہے! ایک ایسی کیفیت رونما ہوئی ہے جس میں حال کو ماضی سے گلا ہے اور ماضی کو حال سے شکوہ۔ اس تصادم کے عالم میں ذہن کی حالت بھی عجیب سی ہوجاتی ہے۔ ذہن میں یہ خیال رقص کرنے لگتے ہیں کہ 'میں تو ایک لامحدود کائنات ہوں۔ میری کوئی انتہا نہیں۔ پھر کیوں یہ منجمد سی کیفیت مجھ پر طاری ہوجاتی ہے؟ کیوں اس کیفیت سے فرار ممکن نہیں؟ ذہن کی فضاء میں تب ہی ایک آواز گونجتی ہے۔ 'مستقبل' ۔۔۔'کہاں ہے تمہارامستقبل؟' یہ ماضی کی آواز تھی۔ واقعی ، کہاں ہے میرا مستقبل؟ میں کیا ہوں؟ نہ میں پائلٹ ، نہ سائنس داں ، نہ شاعر نہ ادیب۔۔وہ سارے کردار جو ماضی نے مستقبل کے لیے محفوظ کر رکھے تھے۔ سب غائب ہیں۔میرا حال تو کچھ اور ہی ہے۔ کیا ماضی کی تمام کوششیں، تمام خواہشات سب ضائع ہوگئیں؟ ہاں سب کچھ فنا ہوگیا۔ مستقبل جس کی تمنا کی گئی تھی وہ کہیں نہیں ہے۔ وہ مستقبل جو اب حال ہے۔، ماضی کے خیال سے بلکل جدا ہے۔ حال کا حال یہ ہے کہ یہاں اس کا وجود ہی گُم ہے۔ ایک طرف زندگی کی تمام آسائشیں جو ماضی کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھی حال کو میسر ہیں لیکن حال کا اپنا وجود ہی نہیں ہے۔ محفل میں حال تنہائی کو تلاش کرتا ہے اور تنہائی میں محفل کو یاد کرتا ہے۔ حال کے پاس سکون نہیں ہے ۔ وہ سکون جو وجود کے ساتھ کہیں فرار ہے۔ حال خالق کی طرف رجوع ہوا ہے ۔ پر وہاں کا سارا سکون تو اس کی اشرف مخلوق نے تباہ کر دیا ہے۔ مجبوراً حال کوچہ الحاد کا رخ کرتا ہے لیکن وہاں بھی رزمِ عقل و وجدان سے اس کی طبیعت اوب جاتی ہے ۔ وجود کا متلاشی حال ایک انتشار کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ بس ایک یہی کیفیت ہے جو نا تمام ہے۔۔۔۔ ممکن ہے وہ وجود جس کی سب کو تلاش ہے اسی کیفیت میں کہیں روپوش ہو۔
'پائلٹ'۔۔۔۔میں پائلٹ بننا چاہتا ہوں جناب!! دھیمے لہجے کا یہ جملہ ماضی سے حال تک کے سفر میں وقت کے چاک پر ناجانے کتنے الفاظ بدلتا ہے۔ سائنس داں ، خلائی مسافر، سیاست داں، شاعر، ادیب وغیرہ وغیرہ۔ وہ جواب ماضی سے حال اپنا مستقبل دیکھنے کے لیے پہنچتا ہے۔ پر حال کا منظر تو کچھ اور ہی ہے۔ یہاں تو اُن میں سے کوئی بھی موجود نہیں جن کے ہونے کے امکان سفر تمام موجود رہے! ایک ایسی کیفیت رونما ہوئی ہے جس میں حال کو ماضی سے گلا ہے اور ماضی کو حال سے شکوہ۔ اس تصادم کے عالم میں ذہن کی حالت بھی عجیب سی ہوجاتی ہے۔ ذہن میں یہ خیال رقص کرنے لگتے ہیں کہ 'میں تو ایک لامحدود کائنات ہوں۔ میری کوئی انتہا نہیں۔ پھر کیوں یہ منجمد سی کیفیت مجھ پر طاری ہوجاتی ہے؟ کیوں اس کیفیت سے فرار ممکن نہیں؟ ذہن کی فضاء میں تب ہی ایک آواز گونجتی ہے۔ 'مستقبل' ۔۔۔'کہاں ہے تمہارامستقبل؟' یہ ماضی کی آواز تھی۔ واقعی ، کہاں ہے میرا مستقبل؟ میں کیا ہوں؟ نہ میں پائلٹ ، نہ سائنس داں ، نہ شاعر نہ ادیب۔۔وہ سارے کردار جو ماضی نے مستقبل کے لیے محفوظ کر رکھے تھے۔ سب غائب ہیں۔میرا حال تو کچھ اور ہی ہے۔ کیا ماضی کی تمام کوششیں، تمام خواہشات سب ضائع ہوگئیں؟ ہاں سب کچھ فنا ہوگیا۔ مستقبل جس کی تمنا کی گئی تھی وہ کہیں نہیں ہے۔ وہ مستقبل جو اب حال ہے۔، ماضی کے خیال سے بلکل جدا ہے۔ حال کا حال یہ ہے کہ یہاں اس کا وجود ہی گُم ہے۔ ایک طرف زندگی کی تمام آسائشیں جو ماضی کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھی حال کو میسر ہیں لیکن حال کا اپنا وجود ہی نہیں ہے۔ محفل میں حال تنہائی کو تلاش کرتا ہے اور تنہائی میں محفل کو یاد کرتا ہے۔ حال کے پاس سکون نہیں ہے ۔ وہ سکون جو وجود کے ساتھ کہیں فرار ہے۔ حال خالق کی طرف رجوع ہوا ہے ۔ پر وہاں کا سارا سکون تو اس کی اشرف مخلوق نے تباہ کر دیا ہے۔ مجبوراً حال کوچہ الحاد کا رخ کرتا ہے لیکن وہاں بھی رزمِ عقل و وجدان سے اس کی طبیعت اوب جاتی ہے ۔ وجود کا متلاشی حال ایک انتشار کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ بس ایک یہی کیفیت ہے جو نا تمام ہے۔۔۔۔ ممکن ہے وہ وجود جس کی سب کو تلاش ہے اسی کیفیت میں کہیں روپوش ہو۔