مال جس کی جیب میں ہو، وہ ڈگریاں خرید لے

کعنان

محفلین
مال جس کی جیب میں ہو، وہ ڈگریاں خرید لے
سید امجد حسین بخاری
ایکسپریس نیوز، بدھ 24 اگست 2016


پنجاب کے تعلیمی بورڈز کی جانب سے اس قدر زیادہ نمبرز دینا بورڈز کے طریقہ امتحانات کی شفافیت اور کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔

گزشتہ دنوں انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی بدعنوانی اور کرپشن کے حوالے سے خبروں کی زینت بنا رہا۔ نااہل اور کرپٹ انتظامیہ نے پیسے لے کر من مانے لوگوں کو اے گریڈ میں مارک شیٹس جاری کیں۔ مال بناؤ پالیسی کے تحت جتنی زیادہ جیب ڈھیلی کرو گے اتنے ہی زیادہ نمبرز ملیں گے۔


محکمہ اینٹی کرپشن کے حکام کے مطابق تادم تحریر اٹھانوے کے قریب کیسز سامنے آئے ہیں جن کے تحت نتائج میں ردوبدل کیا گیا۔ جبکہ کراچی انٹربورڈ کے ڈپٹی کنٹرولر امتحانات دبیر احمد نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے نتائج میں ردوبدل کرنے کے لیے کروڑوں روپے بطور رشوت وصول کئے جو کہ ایک رشتہ دار کے اکاؤنٹ میں ہیں۔ دبیر احمد نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے۔ واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2015ء کو چئیرمین انٹر بورڈ کراچی اختر غوری نے ایک اخباری بیان میں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ سابقہ ادوار میں نتائج 24 کروڑ روپے میں فروخت کئے گئے تھے۔ تعلیم کا یہ معیار کراچی یا اندرون سندھ تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک بھر میں ایسے نتائج معمولی بات ہے۔


نرسری کے نتائج سے لے کر اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں تک ہر جگہ دولت، رعب و دبدبہ کام آتا ہے۔ اس میں محض افراد ہی نہیں بلکہ اسکول، کالجز، تعلیمی بورڈز اور یونیورسٹیز بھی شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں میڈیا پر گوجرانوالہ بورڈ کی ایک طالبہ نورین کوثر نے نویں جماعت کے امتحانات میں 505 میں سے 504 نمبرز حاصل کرکے ریکارڈ قائم کیا۔ میڈیا پر اس بارے میں بریکنگ نیوز چلیں، سوشل میڈیا بھی پیچھے نہ رہا، دھڑا دھڑ مبارکباد پیش کی جانے لگی۔ راقم کو جب اس خبر کی اطلاع ملی تو اتفاقاََ اس وقت کچھ ماہرین تعلیم سے چند امور پر گفتگو کر رہا تھا۔ چینل نے اس طالبہ کی ریکارڈ کارکردگی کی خبر نشر کی تو تمام ماہرین کی آنکھیں حیرت اور تذبذب سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ تمام ماہرین پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن میں اعلیٰ عہدوں پر ہیں اس لئے ان کے نام اس تحریر میں شائع نہیں کئے جا رہے۔


ماہرین تعلیم کے مطابق ریاضی کے مضمون کے علاوہ کسی بھی مضمون میں 100 فیصد کارکردگی دکھانا یا اس کارکردگی کو پورے نمبر دینا ناممکن ہے۔ یہاں ایک بات اور بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ میٹرک اور انٹر کے امتحانات کا 70 فیصد حصہ معروضی سوالات پر مشتمل ہوتا ہے جس کی وجہ سے نقل کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔ نگران جتنی بھی نگرانی کرلے اس کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ جبکہ محکمہ تعلیم کے جانب سے بیشتر حصہ معروضی کرنے کی وجہ رٹا کلچر کا خاتمہ بتائی گئی ہے مگر میری نظر میں اس وجہ سے رٹا کلچر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر سال اکثر معروضی سوالات دہرائے جاتے ہیں جبکہ مارکیٹ سے امدادی کتب باآسانی دستیاب ہیں جن میں موجود پیپرز کو طلبہ و طالبات رٹے کے ذریعے تیار کر لیتے ہیں اور معذرت کے ساتھ ہمارے امتحانی بورڈز کے پیپرز تیار کرنے والے اکثر ممتحن بھی انہیں پیپرز کی مدد سے ہر سال سوالیہ پرچے تیار کرتے ہیں۔

محکمہ تعلیم اگر اس کی تحقیق کرے تو کئی چشم کشا انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔ سارا امتحانی اور تعلیم نظام بگاڑ کا شکار ہے جبکہ اس پر نظر رکھنے والے ماہرین بھی محض مراعات کے حصول میں مگن ہیں۔ طلحہ ادریس نصاب سازی کرنے والے ایک نجی ادارے سے منسلک ہیں ان سے جب نہم کے موجودہ نتائج کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ،

’’رٹا کلچر اور معروضی طریقہ امتحانات دولت اور اقربا پروری ہی معیار تعلیم کی گراوٹ کا باعث ہیں۔‘‘

امداد اللہ ایجوکیشن کے محقق ہیں۔ نظام تعلیم اور طریقہ تدریس پر گہری نظر رکھتے ہیں، وہ بھی تعلیمی تحقیق کے ایک نجی ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں ان کے مطابق، ’’سفارش، اثر و نفوس، پیپرز کا آؤٹ ہو جانا اور امتحانی نظام میں خرابیاں تعلیمی نظام کو خراب کر رہے ہیں۔ طلبہ کو مشقی سوالات اور رٹا کلچر سے باہر نکال کر انہیں تعلیم دی جائے۔ حکام طریقہ امتحانات اور طریقہ تدریس پر نظر کریں‘‘۔

قارئین ملتان بورڈ میں 505 کل نمبروں میں ایک طالبعلم نے 505 نمبر حاصل کئے اور گوجرانوالہ کے ایک طالبعلم نے 505 میں سے 504 نمبر حاصل کئے۔ ہر گلی میں ہر اسکول نے 90 فیصد اور 95 فیصد سے زائد نمبروں والے بچوں کے بینرز معہ تصاویر لگائی ہیں۔ اس ملک میں حافظ پیدا کئے جا رہے ہیں، چاہے وہ دینی مدارس ہوں یا پرائیویٹ اسکولز جن کا تخلیق کاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے میں جن بچوں کے نمبرز کم ہیں وہ ایک نفسیاتی مسئلہ کا شکار ہیں۔ کل بہت سے بچوں کے رونے اور افسردہ ہونے کی خبر سنی ہے، اللہ نہ کرے یہ تعلیمی رجحان بچوں میں مایوسی کا سبب بنے۔

طلبہ کے اتنے زیادہ نمبرز لینا کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں اردو، انگریزی میں مکمل نمبرز دینا کسی بھی طرح سے ممکن نہیں۔ میں نے گوجرانوالہ بورڈ کے نتائج میں ریکارڈ نمبرز لینے والی طالبہ کے حوالے سے اپنے ذرائع سے تحقیق کی تو مجھے باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ طالبہ کے والد اور والدہ دونوں سرکاری ہائی اسکولز میں صدر معلمین ہیں۔ اس طالبہ کی ایک بہن اور بھائی پہلے بھی میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں بورڈ میں اول پوزیشنز حاصل کر چکے ہیں۔ ایک بہن کنگ ایڈورڈ میں میڈیکل کی طالبہ ہیں اور وہاں ان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ میرے ذرائع نے شک کی بنیاد پر بتایا ہے کہ مذکورہ طالبہ کے والدین گوجرانوالہ بورڈ کے ممبران بھی ہو سکتے ہیں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ میٹرک کے نتائج پر اثر انداز ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے پنجاب حکومت اور محکمہ تعلیم کے حکام کو اس بات کی چھان بین کرکے ملوث افراد کے خلاف بھرپور کارروائی کرنی چاہیئے۔ جب معیار تعلیم بہتر اور طریقہ امتحانات شفاف ہوتا ہے تو علم کے دیئے جھونپڑیوں میں روشن ہوتے ہیں۔ گدڑیوں کے لعل بھی علم کے زیور کو زیب تن کرتے ہیں، جس کی واضح مثالیں چکوال کی خانہ بدوش لڑکی نرگس گل کی میڑک کے امتحان میں نمایاں کارکردگی، تندور لگانے والے طالب علم کا اول پوزیشن لینا اور ہر سال مختلف بے بس، مجبور اور لاچار والدین کے بیٹے اور بیٹیوں کی اعلیٰ کارکردگی ہیں۔ لیکن پنجاب کے تعلیمی بورڈز کی جانب سے اس قدر زیادہ نمبرز دینا بورڈز کے طریقہ امتحانات کی شفافیت اور کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔


ماہرین تعلیم ششدر ہیں کہ یہ کیوںکر ممکن ہوا۔ کوئی بھی طالب علم جتنا بھی ذہین کیوں نہ ہو اس کے لئے سو فیصد کارکردگی دکھانا ممکن ہی نہیں۔ پڑھو پنجاب کا نعرہ لگانے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نتائج کا جائزہ لیں اور اس بات کی تحقیق کریں کہ کہیں انٹر بورڈ کراچی کی طرح پنجاب میں بھی تو ڈگریوں کی لوٹ سیل تو نہیں لگی ہوئی۔ علم کے دیئے فروخت کرنے کی بجائے ان گھروں میں جلنے چاہیں جو واقعی اس کی روشنیوں کے حق دار ہیں۔


نوٹ: اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

سید امجد حسین بخاری
لکھاری نے جامعہ پنجاب سے جرنلزم میں ایم ایس ای کیا۔ نوجوانوں کے میگزین ہم قدم کا مدیر رہے ۔ بچپن سے بچوں کے لئے کہانیاں لکھنا شروع کیں ۔آج کل قومی اخبارات میں ’’جلتی کتابیں‘‘ کے نام سے تعلیمی اور معاشرتی مسائل پر لکھ رہے ہیں۔

588287-degree-1472040779-336-640x480.jpg

ح
 

فاخر رضا

محفلین
السلام علیکم.
بھائی تعلیم سب کا حق ہے. یہ ایک ایسا حق ہے جو انسان ہونے کے لئے ضروری ہے ورنہ روٹی کپڑا اور مکان تو کسی بھی زندہ کی ضروریات ہیں.
جدید دور کی بات کریں تو اب تو اوپن بک ٹیسٹ بھی ہوتا ہے. نقل کا تصور تبدیل ہورہا ہے.
آپ خود ہی غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم اپنی زندگی میں سب کچھ نقل ہی سے تو سیکھتے ہیں. بچہ پیدا ہونے کے بعد نقل ہی تو کر کے بولنا سیکھتا ہے.
امتحانی کمرے کے تین گھنٹے کسی کی نا تو قابلیت کا ثبوت ہوتے ہیں نہ ہی نا لائقی کا. بہت اچھا طالبعلم بیماری کی وجہ سے امتحان نہ دے سکے تو کیا کیا جائے؟
زندگی ایسی نہیں ہے جیسی امتحانی کمرے میں پیش کی جاتی ہے.
شروع شروع میں میں بعض اوقات مریض کے سامنے ہی اپنے سینیئر کو فون کر کے مشورہ لے لیتا تھا اور آج میرے جونیئر مجھ سے پوچھ لیتے ہیں. کبھی کبھی کتاب کھول کر بھی آپریشن تھیٹر میں کام کرنا پڑتا ہے.
یہ دوسرے سے پوچھنا کب مذموم ہوا مجھے نہیں معلوم مگر یہ امتحان کا ڈھونگ اب بند ہونا چاہئے. پورے سال کی کارکردگی پر فیصلہ ہونا چاہئے.
مگر ہمیں تو شارٹ کٹ کی عادت ہوگئی ہے
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

معذرت کے ساتھ، نقل پر میں آپکی رائے سے متفق نہیں۔

بچہ نقل کر کے بولنا نہیں سیکھتا بلکہ بچہ کو بولنا سکھایا جاتا ہے، جس پر کچھ بچے وقت سے پہلے بولنا سیکھ جاتے ہیں اور کچھ وقت پر اور کچھ وقت کے بعد بھی بہت عرصہ تک بولنا نہیں سیکھتے۔

جب آپ کسی بھی فیلڈ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو اسے نقل نہیں کہتے، پھر جو آپ کو سکھایا گیا یا آپ نے سیکھا اس پر آپکی ذہانت کے لئے ایک امتحان لیا جاتا ہے جس پر آپ اگر امتحان میں کوئی بھی ایسا میٹیریل استعمال کرتے ہیں جو آپ کو اس میں مدد فراہم کرے اسے نقل کہتے ہیں۔ نقل، فراڈ، دھوکہ دہی۔

انٹرمیڈیٹ میں جو طالب علم پاس ہوتے ہیں ان میں سے جو شعبہ میڈیکل میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان سب کو میڈیکل میں داخلہ نہیں ملتا۔

دور نہ جائیں مڈل سے میٹرک میں انٹری پر سکول سٹاف فیصلہ کرتا ہے کہ کونسا طالب علم کو آرٹس میں سیٹ ملے گی اور کونسے طالب علم کو سائنس میں، اگر کوئی طالب علم کسی بھی طرح طاقت یا کوئی اور طریقہ سے سائنس میں سیٹ حاصل کر لیتا ہے تو دوران تعلیم، نہ سمجھنے پر 3 مہینے میں آرٹس کے مضامین میں تبدیلی کروا لیتا ہے، اور جو ایسا نہیں کرتے وہ فائنل ایگزیم میں ناکام ہی رہتے ہیں یا 33 فیصد میں اگر پاس ہو بھی گئے تو اس سے کیا حاصل، کوشش کر کے کسی نہ کسی کالج میں آرٹس مضامین میں داخلہ مل ہی جاتا ہے مگر فیوچر۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی بھی فیلڈ میں جب ذمہ رادی ملتی ہے تو نئے ہونے کی وجہ سے احتیاط ہی برتی جاتی ہے اس پر سینیئر سے مشورہ حاصل کرنا ہی بہتر ہوتا ہے پھر جب اس میں تجربہ یا مہارت حاصل ہوتی جاتی ہے تو یہ بھی کم ہو جاتا ہے، اور جب کوئی نیا کیس سامنے آئے تو کتاب کھولنے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی اس کا شمار نقل میں ہوتا ہے۔

نوکری حاصل کرتے وقت سب اپنی درخواستیں ٹائپ کروا کے لائے ہوتے ہیں اور جب ان سے یہ کہا جائے کہ یہاں اپنے قلم سے درخواست لکھو تو وہاں ایک دو ہی باقی بچتے ہیں جو درخواست لکھ سکتے ہیں باقی کو وہیں گھر بھیج دیا جاتا ہے، نقل یہاں بھی کام نہیں آتی۔ ادارہ نے انہیں مہینہ کا معاوضہ کام کرنے پر دینا ہے، نہ کہ نقل مار کے کام کرنے کا، یوں سمجھ لیں کہ کچھ کمپنیاں ابھی بھی سیکریٹری کی پوسٹ پر ٹائپنگ سپیڈ مانگتی ہیں وجہ۔۔۔۔۔
والسلام
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
السلام علیکم

معذرت کے ساتھ، نقل پر میں آپکی رائے سے متفق نہیں۔

بچہ نقل کر کے بولنا نہیں سیکھتا بلکہ بچہ کو بولنا سکھایا جاتا ہے، جس پر کچھ بچے وقت سے پہلے بولنا سیکھ جاتے ہیں اور کچھ وقت پر اور کچھ وقت کے بعد بھی بہت عرصہ تک بولنا نہیں سیکھتے۔

جب آپ کسی بھی فیلڈ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو اسے نقل نہیں کہتے، پھر جو آپ کو سکھایا گیا یا آپ نے سیکھا اس پر آپکی ذہانت کے لئے ایک امتحان لیا جاتا ہے جس پر آپ اگر امتحان میں کوئی بھی ایسا میٹیریل استعمال کرتے ہیں جو آپ کو اس میں مدد فراہم کرے اسے نقل کہتے ہیں۔ نقل، فراڈ، دھوکہ دہی۔

انٹرمیڈیٹ میں جو طالب علم پاس ہوتے ہیں ان میں سے جو شعبہ میڈیکل میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان سب کو میڈیکل میں داخلہ نہیں ملتا۔

دور نہ جائیں مڈل سے میٹرک میں انٹری پر سکول سٹاف فیصلہ کرتا ہے کہ کونسا طالب علم کو آرٹس میں سیٹ ملے گی اور کونسے طالب علم کو سائنس میں، اگر کوئی طالب علم کسی بھی طرح طاقت یا کوئی اور طریقہ سے سائنس میں سیٹ حاصل کر لیتا ہے تو دوران تعلیم، نہ سمجھنے پر 3 مہینے میں آرٹس کے مضامین میں تبدیلی کروا لیتا ہے، اور جو ایسا نہیں کرتے وہ فائنل ایگزیم میں ناکام ہی رہتے ہیں یا 33 فیصد میں اگر پاس ہو بھی گئے تو اس سے کیا حاصل، کوشش کر کے کسی نہ کسی کالج میں آرٹس مضامین میں داخلہ مل ہی جاتا ہے مگر فیوچر۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی بھی فیلڈ میں جب ذمہ رادی ملتی ہے تو نئے ہونے کی وجہ سے احتیاط ہی برتی جاتی ہے اس پر سینیئر سے مشورہ حاصل کرنا ہی بہتر ہوتا ہے پھر جب اس میں تجربہ یا مہارت حاصل ہوتی جاتی ہے تو یہ بھی کم ہو جاتا ہے، اور جب کوئی نیا کیس سامنے آئے تو کتاب کھولنے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی اس کا شمار نقل میں ہوتا ہے۔

نوکری حاصل کرتے وقت سب اپنی درخواستیں ٹائپ کروا کے لائے ہوتے ہیں اور جب ان سے یہ کہا جائے کہ یہاں اپنے قلم سے درخواست لکھو تو وہاں ایک دو ہی باقی بچتے ہیں جو درخواست لکھ سکتے ہیں باقی کو وہیں گھر بھیج دیا جاتا ہے، نقل یہاں بھی کام نہیں آتی۔ ادارہ نے انہیں مہینہ کا معاوضہ کام کرنے پر دینا ہے، نہ کہ نقل مار کے کام کرنے کا، یوں سمجھ لیں کہ کچھ کمپنیاں ابھی بھی سیکریٹری کی پوسٹ پر ٹائپنگ سپیڈ مانگتی ہیں وجہ۔۔۔۔۔
والسلام
السلام علیکم. مزید تبصروں کا انتظار ہے. دیکھیں تو اور لوگ کیا سوچتے ہیں. میں نے تو صرف اپنا مافی الضمیر بیان کیا ہے. آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں. ہمیشہ کی طرح
 

نایاب

لائبریرین
نقل اور رٹا بازی تو بلاشبہ ناسور ہیں پاکستانی تعلیمی نظام میں ۔
نقل اور رٹا بازی کے خلاف مہم چلانا اچھا امر ہے ۔
مگر جہاں تک بات ہے بچی کی ریکارڈ نمبرز کے ساتھ کامیابی کی ۔
تو اس بارے نیک گمان رکھنا بہتر کہ اس بچی نے محنت کی ۔ اور نمبرز لیئے ۔
میٹرک کے امتحان میں پہلی دس پوزیشن لینے والے طلبا میں سات بچیاں شامل ہیں ۔
صرف شک کی بنیاد پر کسی بچی کی ریکارڈ کامیابی کو مشکوک کرنا اچھا عمل نہیں ۔۔۔۔۔
میرے ذرائع نے شک کی بنیاد پر بتایا ہے کہ مذکورہ طالبہ کے والدین گوجرانوالہ بورڈ کے ممبران بھی ہو سکتے ہیں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ میٹرک کے نتائج پر اثر انداز ہوئے ہیں۔
ڈھیروں دعائیں
 
مجھے بھی یہی اطلاع ملی ہے اور باوثوق ذرائع نے اطلاع دی ہے، بچی کے والدین صدر معلمین ہیں، جس ادارے میں طالبہ کے امتحان ہوئے ہیں وہاں اس کے والد صدر معلم تھے اس کی ایک بہن بھی میٹرک اور ایف ایس سی میں اول پوزیشن حاصل کر چکی ہے اور کنگ ایڈورڈ میں میڈیکل کی طالبہ ہے جہاں اس کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ اس کے نتائج واقعی مشکوک ہیں
 

محمدصابر

محفلین
مجھے بھی یہی اطلاع ملی ہے اور باوثوق ذرائع نے اطلاع دی ہے، بچی کے والدین صدر معلمین ہیں، جس ادارے میں طالبہ کے امتحان ہوئے ہیں وہاں اس کے والد صدر معلم تھے اس کی ایک بہن بھی میٹرک اور ایف ایس سی میں اول پوزیشن حاصل کر چکی ہے اور کنگ ایڈورڈ میں میڈیکل کی طالبہ ہے جہاں اس کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ اس کے نتائج واقعی مشکوک ہیں
اور ملتان میں؟
 
Top