مامتا از کرشن چندر

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
آج کرشن چندر کے افسانوں کو پڑھ رہا تھا کہ مامتا افسانہ پسند آیا سوچا آپ کے لیے بھی لکھ دوں آپ بھی پڑھیں

مامتا​

یہ کوئی دو بجے کا وقت تھا، بادلوں کا ایک ہلکا سا غلاف چاند کو چھپائے ہوئے تھے۔ یکا یک میری آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا وہں کہ ساتھ والی چارپائی پراماں سسکیاں لے رہی ہیں
”کیوں امی؟“ میں‌نے گھبرا کر آنکھیں ملتے ملتے پوچھا۔
”کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امی!“ اماں نے سسکیاں اور ہچکیوں کے درمیاں میرے سوال کو غصہ سے دہراتے ہوئے کہا۔ ”شرم نہیں آتی، باپ کو بھی اور بیٹے کو بھی اتنے بڑے ہوگئے ہو، کچھ خدا کا خوف نہیں۔“
” آخر ہوا کیا؟“ میں نے جلدی سے بات کاٹ کر پوچھا۔ ”یہ آدھی رات کے وقت رونا کیسا؟“
گریوں کے دن تھے ہم سب برآمدے میں سورہے تھے۔ مگر ابا اندر سامنے ایک کمرے میں سورہے تھے۔ ان کی طبیعت ناسازتھی اور انھیں اکثر گرمیوں میں بھی سردی لگ جانے کا اندیشہ لاحق رہتا تھا۔ اس لیے عماماََ وہ اندر ہی سویا کرتے ہیں۔ آخر ان کی آنکھ بھی کھل گئی۔ وہیں بستر پر سے کروٹ بدل کر بولے۔ ” کیا بات ہے وحید؟ تمہاری اماں کویں رورہی ہے؟“
”میں کیا بتاؤں ابا۔ بس رو رہی ہیں۔“
”ہاں اور تمھیں کس بات کی فکر ہے۔“ اماں کی ہچکیاں اور تیز ہوگئیں۔ ”پتہ نہیں میرا لال اس وقت کس حالت میں ہے۔ میرا چھوٹا محمود، اور تم یہاں پڑے سو رہے ہو۔ وہاں اس کا کون ہے، نہ ماں، نہ بھائی، نہ بہن اور تم خراٹے لے رہے ہو۔ آرام سے جیسے تمھیں کسی بات کی فکر ہی نہیں(سسکتے ہوئے( میں نے ابھی ابھی اپنے چھوٹے محمود کو خواب میں دیکھا ہے۔ وہ ایک میلے کچیلے بستر میں پڑا بخار سے تپ رہا تھا۔ اس کا پنڈا تنور کی طرح گرم تھا۔ وہ کرہتے ہوئے اماں، اماں کہہ رہا تھا۔۔۔۔“ یہ کہہ کر اماں زور زور سے رونے لگیں۔
اماں کا ”چھوٹا محمود“ اور میرا بڑا بھائی لاہور بی۔اے میں تعلیم پاتا تھا، تھرڈایر میں، میں ایف اے کا امتحان دے کر لاہور سے یہاں مئی کے مہنے ہی میں‌آگیا تھا، مگر محمود کو ابھی ہالور کی تپتی ہوئی فضاؤں میں پورا ایک مہنہ اور گزارنا تھا۔ لیکن اب جون کا مہنہ بھی گزر گیا تھا اور محمود ابھی تک لاہور سے واپس نہ آیا تھا۔ اماں بہت پرشان تھیں اور سچ پوچھیے تو ہم سب بہت پرشان تھے۔ ہم نے اسے پرسوں ایک تاربھی دے دیا تھا اور مدتوں کے بعد اچانک محمود کا ایک خط بھی آیا تھا۔ چند مخنی سطور تھیں۔ لکھا تھا۔ ” میں بیمار ہوں، ملیریے کا بخار ہے۔ لیکن اب ٹوٹ رہا ہے۔ چند دنوں سے یہاں بہت بارش ہو رہی ہے۔ اگر لاہور کا یہ حال ہے تو اسلام آباد میں کیا ہوگا۔ کیا کشمیر آنے کا راستہ کھل گیا۔ لدی لکھیے کہ کس راستے سے آؤں، کیا جموں بانہال روڈ سے آؤں۔۔۔۔۔۔ کہ کوہالہ اوڑی سڑک سے، کونساراستہ بہتر رہے گا؟“ ہم نے سوچ بچار کے بعد ایک تار اور دے دیا تھا۔ گوباش بہت ہورہی تھی اور دونوں سڑکیں شکستہ حالت میں تھیں۔ پھر بھی کوہالہ اوڑی روڈ، بانہال روڈ سے بہتر حالت میں تھی۔ اس لیے یہی مناسب سمجھا کہ محمود کو ہالہ روڈہی سے آئے۔ اب آدھی رات کے وقت یہ افتاد آپڑی۔
ابا کی نید پریشان ہوگئی تھی چیں بجیں ہوتے ہوئے بولے۔ ”تو اس کا کیا کیا جائے؟ اور تمھیں تو یونہی دل میں وسوسے اٹھاکرتے ہیں۔ بھلا اس کا علاج کیا؟ آخر محمود کوئی بچہ تو نہیں؟ تمھیں فکر کس بات کی ہے۔ ہزاروں ماؤں کے لال لاہور میں پڑھتے ہیں اور ہوسٹلوں میں رہتے ہیں۔ آتا ہی ہوگا، اگر آج صبح وہ لاہور سے چلا تو شام کو وہ راولپنڈی پہنچ گیا ہو گا کل کوہالہ اور۔۔۔۔“
اماں جلدی سے بولیں۔ ”اور ۔۔۔۔اور؟ کیا غضب کرتے ہو اور اگر خدانہ کرے۔ اس کا بخار ابھی نہ ٹوٹا ہو تو پھر؟ میں پوچھتی ہوں تو پھر؟“ یہ کہ کر اماں رک گئیں اور دوپٹے سے آنسو پونچھ کر کہنے لگیں۔
”مجھے موٹر منگوادو۔ میں ابھی لاہور جاؤں گی۔“
”اب تم سے کون بحث کرے ہمیں تو نیند آئیہے۔“ یہ کہہ کر ابا کروٹ بدل کر سورہے۔ میں نے بھی یہی‌مناسب جان کر آنکھیں بند کرلیں۔ مگر کانوں میں ماں کی مدھم سسکیوں کی آواز جسے وہ دبانے کی بہت کوشش کر رہی تھیں برابر آرہی تھی۔ کیا دل ہے ماں کا اور کتنی عجیب ہستی ہے اس کی؟ میں آنکھیں بند کیے سوچنے لگا۔ ماں کا دل، ماں کی محبت، مامتا، کس قدر عجیب جذبہ ہے، عالمِ جذبات میں اس کی نظیر ملنی محال ہے۔ نہیں یہ تو اپنی نظیر آپ ہے۔ ایک سپنے کے دھندے لکے میں اپنے بیمار بیٹے کو دیکھتی ہے اور چونکپڑتی ہے۔ لرزجاتی ہے۔ مامتا۔۔۔۔۔کیا اس جزبے کا اساس محض جسمانی ہے، محض اس لیے کہ بیٹا ماں کے گوشت و پوسٹ کا ایک ٹکڑاہے؟ اور کیا ہم سچ مچ فلابیر کے تخیل کے مطابق اس کائنات میں اکیلے ہیں، تنہا، بے یارومددگار، ایک دوسرے کو سمجھتے ہوئے بھی ناآشنا، مگر میں بھی تو محمود کا بھائی ہوں، میری رگوں میں وہی خون موجزن ہے، ہم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کے ان بیس سالوں میں صرف دودفعہ محمود سے جداہواہوں اور وہ بھی نہایت قلیل عرصوں کے لیے۔ ھر میں کویں اس قدر اس کے لیے بیتاب و بیقرار نہیں۔ مامتا ۔۔۔۔ کیا ہم سچ مچ پتھروں کے تودوں کی طرح ہیں مصر کے میناروں کی طرح خوبصورت لیکن بے جان اشوک کے کتبوں کی طرح سبق آموز لیکن بے حس، بے روح؟مامتا!۔۔۔۔۔۔۔۔ بدھ نے کہا تھا کہ یہ دنیا دھوکا ہے، سراب ہے، مایاہے، ہوگی۔ لیکن یقین نہیں پڑتا آخر یہ حسین جذبہ کہاں سے آیا؟ اور کائنات کے ایک گوشے میں سسکتی ہوئی اماں کیا یہ بھی ایک دھوکاہے؟ سچ جانیے یقین نہیں پڑتاہے۔
چھوٹا محمود۔۔۔۔۔میراننھامحمود۔۔۔۔میرالال
امی ہلکی ہچکیوں میں بھائی کا نام لے رہی تھیں۔ کتنی معمولی سی بات تھی۔بھائی جان شاہد ابھی لاہورہی میں ہوں گے۔ ضیافتیں اڑاتے ہوں گے، سینما دیکھتے ہوں گے۔ یااگر لاہور سے چلے آئے ہوں تو راولپنڈی میں اس وقت خوابِ خرگوش میں پڑے خراٹے لے رہے ہوں گے۔ملیریا کیا عجب ملیریا کا بخار مطلق ہی نہ ہو۔ میں بھائی جان کے بہانوں کو خوب جانتا ہوں، اماں بھی جانتی ہیں مگر پھر بھی رورہی ہیں۔ آخر کیوں؟ مامتا! شاہد یہ کوئی روخانی قرابت ہے، شاید اس دنیا کے وسیع صرا میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔ شاید ہم محض پتھروں کے تودوں کی طرح نہیں ہیں۔ شاید اس انسانی مٹی میں کسی ازلی آگ کے شعلوں کی تڑپ ہے معاِِ مجھے موپاساں کا افسانہ ” تن تنہا“ یاد آگیا۔ جس میں اس نے اس شدید احساس تنہائ کا رونا رویاہے۔ آہ بے چارہ موپاساں، وہ ایک ماہر نفسیات تھا اور ایک ماہر نفسیات کی طرح وہ کئی بار نفسیاتی واردات کا صحیح اندازہ کرنے سے قاصر رہا اس کے افکار نے اسے کثرت غلط راستہ پرڈال دیا۔ ”تن تنہا“ ایک ایسی ہی مثال ہے۔ وہ لکھتا ہے:۔
”عورت ایک سراب ہے اور حسن ایک فرددعی امر ہم ایک دوسرے کے متعلق کچھ نہیں جانتے، میاں بیوی سالہا سال ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بیگانہ ہیں۔۔۔۔۔۔ دو دوست ملتے ہیں اور ہر دوسری ملاقات میں ایک دوسرے دور چلے جارہے ہیں۔۔۔۔نسوانی محبت مستقل دھوکاہے۔۔۔۔۔۔۔اور جب میں عورت کو دیکھتا ہوں تو مجھے چاروں طرف موت ہی موت نظر آتی ہے۔“
میں نے آنکھیں کھول کر اماں کی طرف دیکھا، امی روتے روتے سوگئی تھیں، گال آنسؤں سے گیلے تھے اور بند آنکھوں کی پکوں پر آنسو چمک رہے تھے۔ کیا امی موت ہے؟ اور کیا مامتا بھی کوئی ایسا ہی ہلاکت آفریں جذبہ ہے؟ شاید موپاساں غلطی پر تھا، شاید اسے یہ لکھتے وقت اپنی شفیق ماں کی یاد نہ آئی تھی۔ وہ اس کی جان بخش لوریاں، وہ نرم نرم تھپکیاں جبکہ وہ بچوں کی طرح صرف ”اوں اوں“ کہہ کر بلبلااٹھتا تھا اور اس کی چھاتی سے لپٹ جاتا تھا۔۔۔۔۔۔ نسوانی محبت مستقل دھوکاہے ۔۔۔۔۔۔ شاید اسے اپنی اماں کے وہ طویل بوسے بھول گئے کہ جب بڑا ہونے پر بھی اس کانفسیاتی سراپنے بازوؤں میں لے لیتی تھی اور پیار کرتی تھی۔ جب وہ مامتا سے بیقرار ہوجاتی تھی اور ان کی غیر حاضری میں بھی اس کی راہ دیکھاکرتی تھی۔ اس کی ہر غلطی کو بچوں کی بھول سے تعبیر کیا کرتی تھی اور گناہ کو نیکی میں مبدل کردیتی تھی۔ اس دنیا میں ہم اکلے نہیں ہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہماری مائیں ہیں وہ اس شدید احساس تنہائی جس کی موپاساں کو شکایت ہے، جو دنیاوی کلفتوں اور الفتوں میں بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا، نجانے وہ ماں کی گود میں آکر کیسے ناپید ہوجاتا ہے؟ ماں کے جذبہ محبت میں ایک ایسی دیونگی و وارفتگی ہے جو اس کی انانیت کو فنا کر دیتی ہے اور اس کی ذات کو بچوں میں منتقل کر دیت ہے۔ یقیناََ ہم اس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں۔ بلکہ ہمارے ساتھ ہماری مائیں ہیں۔۔۔۔ یقیناََ۔۔۔۔مگر۔۔۔۔
غٹر غوں، غٹر غوں، ککڑوں کوں، کبوتر، مرغ، چڑیاں، دوشیزہ سحر کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ ان کی خوش الحانی نے مجھے بیدار کر دیا، میں اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔ ٹانگیں چار پائی سے نیچے لغکادیں اور آنکھیں ملنے گا۔ اتنے میں آنگن سے اماں کی آواز آئی۔
”بیٹا وحید اٹھو، محمود آگئے۔“
آنکھیں کھول کر دیکھا تو سچ مچ۔۔۔۔۔اماں آنگن میں اگے ہوئے پنجتار کے بوٹے کے نیچے ایک مونڈے پر بیٹھی تھیں اور محمود ان کےپیروں پر جھکا ہوا تھا۔ میں جلدی سے اٹھا آنگن میں ہم دونوں بھائی بغل گیر ہوئے۔
”اتنے دنکہاں رہے“ میں نے محمود سے پوچھا۔
محمود نے شوخ نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور ایک آنکھ میچ لی۔ پھر گردن موڑ کر پنچ تارے کے سرخ سرخ پھولوں کے گچھوں کو غور سے دیکھنے لگا۔
”کوئی سات روز جھڑی رہی، متواتر بارش ہونے سے سڑک جابجا سے بہ گئی تھی اور سپرنٹنڈنٹ ٹریفک نے راستہ بند کر دیا تھا۔“ اس نے آہستہ سے جواب دیا اور یہ کہہ کر ایک ہاتھ میرے ہاتھ کو پکڑ کر زور سے ہلانے لگا۔
اماں کدوچھیل رہی تھیں اور ہم دونوں کو دیکھتی جاتی تھیں۔ ان کی آنکھیں پرنم تھیں۔ آنسوؤں کے ان دوسمندروں میں خوشیوں کی جل پریاں ناچ رہی تھیں۔

کرشن چندر
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت شکریہ میں سوچ رہا تھا اتنی محنت کر کے لکھ رہا ہوں پتہ نہیں کوئی پڑھے گابھی یا نہیں لیکن یہاں تو پانچ منٹ میں ہی سب نےپڑھ لیا بہت شکریہ
 
Top