میری تباہی میں اگر کسی کا ہاتھ ہے بھی تو سب سے پہلے میرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، کیا اس کی وجہ گھٹن ہے؟
ہمارے معاشرے میں سیکس اور دیگر موضوعات پر بات کرنے کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے گھٹن بہت زیادہ ہے۔ جنسی گھٹن کے مسئلے سے نفسیاتی اور طبی حوالوں سے جدید وقت کے خطرات کے حساب سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
تنزیلہ مظہر
جمعرات 30 جنوری 2020 13:00
جب تک معاشرتی برائیوں کی وجوہات پر پردہ ڈالنے کی بجائے ان کو سامنے نہیں لایا جائے گا ان پر کھل کے بات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تب تک اسی طرح معصوم بچے زیادتیوں کا نشانہ بنتے رہیں گے (اے ایف پی)
صرف لاشوں پر ہی ماتم کرنا ہمارا نصیب نہیں ہمیں ایسے واقعات پر بھی سینہ کوبی کرنا ہوتی ہے جہاں کوئی انسان تو نہیں مرتا نہیں لیکن انسانیت مر جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں انسانیت کا قتل اور انسانوں کا قتل جیسے ایک معمول بن چکا ہے۔ ہم ان لاشوں پر سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنا کر ماتم کرتے ہیں بھاری بھر کم الفاظ میں مذمتی ٹویٹس کرتے ہیں آنسوؤں والے اور ٹوٹے دل والے ایموجی پوسٹ کرتے ہیں اور دوبارہ زندگی کے میلے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
زینب، ہزنور، عوض نور، اور قصور کے بچوں جیسے جانے کتنے زندہ اور مردہ زندگیوں کے جنازے ہمارے دل پر بوجھ ہیں۔ اس معاشرے میں پھیلے تعفن کو سامنے لانے والے لوگوں پر ملک کا نام خراب کرنے کے الزامات لگ جاتے ہیں۔ چار اور تین سال کے بچوں کی مسخ لاشوں سے اس ملک کا اس معاشرے کا اور ہم سب کا نام خراب نہیں ہوتا؟ ایک اور بچے کی معصومیت کو دن دیہاڑے ایک مدرسے میں تار تار کیا جا رہا تھا، واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ پھر وہی بین سینہ کوبی کرتے ٹویٹس کا سلسلہ شروع ہے۔
جس تواتر سے بچوں کے ساتھ زیادتی اور بدکاری کے واقعات سامنے آ رہے ہیں اس کو دیکھ کر ہمارے سوشل میڈیا کے مجاہدین کو اپنے مذمتی پیغامات کو ڈرافٹ میں محفوظ کر لیں تا کہ بار بار ایک جیسے ہی پیغامات ٹائپ کرنے میں وقت کا زیاں نہ ہو۔ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والوں کو پھانسی دینے کے مطالبات پر مبنی ٹرینڈ چلانا کافی ہے؟ کیا زندہ معاشرے ایسی برائیوں کے خلاف اتنا ہی کردار ادا کرتے ہیں؟
زندہ معاشروں میں اس نوعیت کا ایک انسانیت سوز واقعہ سامنے آئے وہاں ہر شخص ہر ادارہ اس برائی کی وجوہات کے تدارک میں لگ جاتا ہے تاکہ آئندہ ایسے جرائم کا راستہ روکا جا سکے۔ وائرل ہونے والی ویڈیو پھر ہمارے معاشرے کی گلی سڑی لاش کو ہوا دے کر بدبو پھیلا رہی ہے۔ ویڈیو میں ایک مدرسہ میں ایک کم عمر بچے کو ایک درمیانی عمر کا شخص احاطے میں جس دیدہ دلیری سے بدکاری کا شکار کر رہا ہے وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ شخص اس طرح کے واقعات میں پہلے بھی ملوث رہا ہے۔
مدرسے سے مذہبی جذباتیت کی بنیاد پر واقعے پر ردعمل بھی زیادہ کیا جا رہا ہے۔ مدرسہ جہاں لوگ اپنے بچوں کو خدا کی پہچان کے لیے بھیجتے ہیں۔ مدرسہ وہ جگہ ہے جہاں پاک کلام کا ورد ہوتا ہے جو نور کا منبع ہے پھر بھی ان وحشیوں کے دل اور آنکھوں پر اتنی کالک کیوں ہے کہ ننھی کلیاں مسخ کرتے ان کے دل نہیں کانپتے۔ میرا دل تو یہ سوچ کر کانپ گیا کہ اگر ایسے کسی واقعے کی ویڈیو باہر نہ آتی اور سینکڑوں بچے اپنی معصومیت کے روندے جانے پر آواز اٹھائے بغیر زندگی ناکردہ گناہ کی سزا میں گزار دیتے۔ ان بچوں کا قصور کیا ہے؟ اور زندہ معاشرے یہ سوچتے ہیں کہ ان بچوں کو کیسے بچایا جائے۔
مدرسوں سکولوں سے ایک دو یا کچھ واقعات کی ویڈیوز سامنے آئیں ہم چیخے چلائے اور بس۔ لیکن ان ہزاروں بچوں کی چیخوں کا کیا جن کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی کوئی ویڈیو نہ بن سکی۔ وہ چیخیں جو خوف اور دہشت سے معصوم بچوں کے حلق میں ہی دبی رہ جاتی ہیں ان چیخوں کا شور ہمارے مردہ ضمیروں کو کب جگائے گا؟؟؟
ہمارے بچے کہاں محفوظ ہیں؟
گھر میں؟ گھر جس کو جنت کہتے ہیں۔۔۔ کھیل کے میدان میں جہاں ان بچوں کو مضبوط ہونے بھیجا جاتا ہے، سکول میں جہاں علم کی روشنی سے ان کے ذہنوں کو جِلا بخشنے کی امید میں بھیجا جاتا ہے یا پھر مدرسے میں جہاں بچوں کو رب کائنات کی تلاش اور پہچان کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ کاش کوئی جگہ ہوتی جہاں یہ بچے محفوظ ہوتے۔ کہیں بھی کوئی بھیڑیا معصوم جسموں کو نوچنے لگتا ہے۔ اس برائی کی وجوہات کو تلاش کرنا سب سے اہم اور بنیادی ہے۔ زندہ معاشرے ایسے جرائم ہونے سے پہلے روکنے پر غور کرتے ہیں۔ جرائم کے بعد کے لیے قوانین، عدالتیں اور جیلیں موجود ہیں مگر وہاں تک پہنچنے سے پہلے جن ہزاروں زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے ان کے لیے کیا کریں۔
ہمارے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ درندگی اور بے حسی ان لوگوں کی شخصیت کا حصہ کیوں بنی۔ اب تک ہمارے شور شرابے سے، ہاتھ ملنے سے بچوں سے زیادتی کا سلسلہ نہیں رکا۔ اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں مدرسے میں بچے کو بدکاری کا نشانہ بنتے دکھانے والی وائرل ویڈیو پر ردعمل کا سلسلہ جاری ہے۔ لوگ جذباتی ہیں غصے میں ہیں اور سرکار سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ایسے مجرموں کو سرعام پھانسی کی سزا دینی چاہیے۔ دوسری جانب لوگ مدرسے کو غیرمحفوظ کہنے والوں کو لعن طعن کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ مدارس غیر محفوظ ہیں یا سکول در اصل یہ معاشرہ بچوں کے لیے غیرمحفوظ ہے۔ بچوں کا تحفظ یقینی بنانا بہت ہی مشکل کام ہے۔
والدین سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر بربریت کی کہانیاں دیکھ کر سہمے ہوئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ایک بھی پل اپنی آنکھ سے اوجھل نہ کریں مگر انہوں نے ان بچوں کو سکول اور مسجد مدرسہ میں تو بھیجنا ہے۔ والدین کیا کریں سب کام چھوڑ کر بچوں کی رکھوالی میں لگ جائیں تو پیٹ کا دوزخ بھڑک اٹھے گا۔ والدین کے لیے بچوں کو وقت سے پہلے اس معاشرے کی مکروہ شکل دکھا دیں۔ ڈراؤنے خیال سے صرف ان کی معصوم آنکھوں کی چمک ماند ہو گی وہ کبھی بھی کسی حادثے سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہو سکیں گے۔ کیا کریں؟
قانون مسخ شدہ لاشوں کے سامنے آنے کے بعد ہی حرکت میں آ سکتا ہے۔ جب چاند جیسی کوئی زینب کوئی ہذنور خاک میں ملا دی جاتی ہے اس کے بعد قانون مجرموں کی تلاش میں نکلتا ہے۔ اور وہ بدنصیب بچے جو کسی تاریک گوشے میں بدکاری کا نشانہ بنا کر زندہ چھوڑ دئیے جاتے ہیں ان پر ہونے والے ظلم کا کسی کو معلوم تک نہیں ہوتا۔ جو بچے اپنے والدین کو اپنی مظلومیت بتا پاتے ہیں ان میں سے بھی چند کے والدین ہی مجرم کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ ایسے بچے سانس تو لیتےہیں مگر زندہ نہیں ہوتے۔
معاشرے کا کیا کردار ہے؟
لاشوں پر بین کرنا متحرک معاشروں کا خاصہ نہیں ہوتا۔ معاشرے کے ہر طبقے کو اپنی اپنی حیثیت میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس معاشرے کو گھٹن سے نکالنے کے لیے تازہ ہوا کا انتظام کرنا ریاستی اداروں، حکومتوں اور معاشرے کی سانجھی ذمہ داری ہے۔ ہمارے معاشرے میں سیکس اور دیگر موضوعات پر بات کرنے کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے گھٹن بہت زیادہ ہے۔ جنسی گھٹن کے مسئلے سے نفسیاتی اور طبی حوالوں سے جدید وقت کے خطرات کے حساب سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ بغیر وجوہات اور اثرات بتائے جب بچوں پر مخصوص موضوعات پر بات کرنے کی پابندی لگائی جاتی ہے تو اس بات کا امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ وہ ان معلومات تک غلط طریقے سے رسائی حاصل کریں اور ان کا غلط اثر لیں۔
جب تک معاشرتی برائیوں کی وجوہات پر پردہ ڈالنے کی بجائے ان کو سامنے نہیں لایا جائے گا ان پر کھل کے بات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تب تک اسی طرح معصوم بچے زیادتیوں کا نشانہ بنتے رہیں گے۔