ایک
سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 50 فی صد اہل سنت اہل تشیع کو کافر گردانتے ہیں۔
آپ نے یہ بات اٹھائی ہے ذیشان صاحب سو میں بھی کچھ عرض کردوں۔
یہ سروے درست ہو سکتا ہے لیکن اس میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس "پاکستانی اہلِ سنت" میں دو بڑے گروہ ہیں جو خود کو اہل سنت تو کہتے ہیں لیکن خود بھی ایک دوسرے کو مشرک کافر اور گستاخ کافر کہتے ہیں۔
ان دو بڑے گروہوں میں ایک مقلد حنفی بریلوی مسلک ہے اور دوسرا مقلد حنفی دیوبندی مسلک ہے، دونوں اپنے آپ کو اہلِ سنت کہتے ہیں اس فرق کے ساتھ کہ بریلوی اپنے آپ کو "جماعتِ اہل سنت" کہتے ہیں اور دیوبندی خود کو "اہلِ سنت و الجماعت"۔ دیوبندی مسلک اپنے عقائد میں جماعت اہلحدیث سے بہت ملتے ہیں لیکن اہلحدیث غیر مقلد ہیں اور دیوبندی حضرت امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور انکی فقہ پر عمل کرتے ہیں اور یہ ان دونوں کا بنیادی فرق ہے۔
بریلوی اور دیوبندی دونوں خود کو اہل سنت کہتے ہیں اور اسی وجہ سے اس سرورے کے نتائج ایسے ہیں وگرنہ بریلوی، اہل تشیع کو کافر ہر گز نہیں کہتے بلکہ محرم میں مجالس اور لنگر کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ طالبان افغانی اور پاکستانی دونوں کا تعلق دیوبندی مسلک سے ہے۔
اوپر ناموں کی بات بھی ہوئی ہے اور یہ بالکل درست اس کو نہ ماننا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔
مثلاً اگر کسی نام میں جعفری، رضوی، نقوی، زیدی شامل ہے تو وہ ضرور اہل تشیع سے ہے۔
کچھ نام جیسے علی، حسن، حسین، زین، جعفر، فاطمہ، زینب، سکینہ، صغریٰ وغیرہ اہل تشیع اور بریلوی حضرات میں مشترک ہیں اور ایسے نام دیوبندی اور اہلحدیث نہیں رکھتے اگر کوئی ہے تو استثائی مثال ہوگی، سو ان ناموں سے بھی علم ہو جاتا ہے کہ یہ کس مسلک کا ہے۔
ایک بھائی نے اوپر بات کی کہ ناحق انسان قتل ہوئے، بالکل درست ہے لیکن ہم اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتے کہ پاکستان میں مسالک کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، شیعہ زائرین کی بسوں کا نشانہ بنانا، شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر اور جسم سے کپڑے اترا کر کمر پر زنجیر زنی کے نشان دیکھ کر قتل کرنا، ماتمی جلوسوں پر حملے، درگاہوں، خانقاہوں، مزاروں پر بم دھماکے اور میلاد کی محفلوں پر حملے، یہ سب کس بات کی نشاندہی کرتے ہیں؟