محمد بلال اعظم

لائبریرین
احمد فراز صاحب کی زمین کا قافیہ بدل کے ایک غزل۔ برائے اصلاح

ایک جگنو کہ مقدر ہے بھٹکنا جس کا​
ایک تتلی کہ جو جگنو سے اجالے مانگے​
ایک ساحل کہ تڑپتا رہے موجوں کے لئے​
اور اک دل ہے، زباں پر بھی جو تالے مانگے​
کون جانے بھلا معیار کیا ہے اس کا​
وہ مسافر جو اندھیروں سے اجالے مانگے​
جانے کس دور میں زمیں پر اترا ہوں میں کہ آج​
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے​
میری تصویر میں ٹوٹے ہوئے کردار ہیں سب​
اور مرا یار تو شہکار نرالے مانگے​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
احمد فراز صاحب کی زمین کا قافیہ بدل کے ایک غزل۔ برائے اصلاح

ایک جگنو کہ مقدر ہے بھٹکنا جس کا​
ایک تتلی کہ جو جگنو سے اجالے مانگے​
÷÷ جو اور جگنو آپس میں ٹکراتے ہوئے لگ رہے ہیں یعنی عیب تنافر کا شائبہ سا ہے۔۔ اگر یہ شائبہ درست ہے تو’’کہ‘‘ اور ’’جو ‘‘ کی جگہ آپس میں بدلی جاسکتی ہے۔۔لیکن اس سے بہتر صورت ہے: ایک تتلی ہے کہ جگنو سے اجالے مانگے۔۔۔
ایک ساحل کہ تڑپتا رہے موجوں کے لئے​
اور اک دل ہے، زباں پر بھی جو تالے مانگے​
÷÷درست لگ رہا ہے۔۔۔
کون جانے بھلا معیار کیا ہے اس کا​
وہ مسافر جو اندھیروں سے اجالے مانگے​
÷÷÷کون جانے بھلا معیار کیا ہے اس دل کا۔۔۔جہاں میں نے دل لکھا ہے، وہاں شاید آپ کچھ لکھنا بھول گئے۔۔۔ کیونکہ یہ مصرع مجھے وزن سے گرا ہوا لگتا ہے۔۔۔ پہلے اس مصرع کا فیصلہ ہوجائے، دوسرا اپنی جگہ درست ہے لیکن اس کا پہلے سے تعلق کیا ہے، وہ بعد میں دیکھیں گے۔۔
جانے کس دور میں زمیں پر اترا ہوں میں کہ آج​
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے​
÷÷÷پہلا مصرع طویل ہے اور وزن سے گرا ہوا بھی۔۔دوسرا اچھا ہے۔۔پہلا شاید اس طرح ہوسکے: جانے کیا دور ہے جس میں ، میں ہوا ہوں پیدا۔۔لیکن میرا مصرع قبول کر لیاجائے تب بھی مجھے یہ شعر دولخت لگتا ہے۔۔۔ تو آپ خود ہی سوچئے۔۔۔
میری تصویر میں ٹوٹے ہوئے کردار ہیں سب​
اور مرا یار تو شہکار نرالے مانگے​
÷÷تصویر میں کردار کی بجائے رنگ زیادہ مناسب تھا۔۔۔ تصویر کی جگہ تخلیق کرلیجئے، یہ مسئلہ تو حل ہو ہی جائے گا۔۔۔
نوٹ: یہ وہ بحر ہے جس کا وزن میں زیادہ ٹھیک نہیں سمجھتا، اس لیے میرے مصرعوں کو قبول کرنے سے پہلے ان کی تقطیع کرنا بہتر ہوگا۔
 

اسد قریشی

محفلین
ایک جگنو ہے کہ منزل کے حوالے مانگے​
ایک تتلی ہے کہ جگنو سے اُجالے مانگے​

مقدر بھٹکتا ہے یا جگنو خود مقدر، منزل کی تلاش میں ہے، مفہوم قریب ہی ہے، اس لیے ذرا سی تبدیلی کے ساتھ مطلع ہو سکتا ہے۔

ایک محشر ہے کہ دل میں بپا رہتا ہے​
اور دل ہے کہ زباں پر بھی یہ تالے مانگے​

ساحل اگر موجوں کے لیے تڑپتا ہے تو اس کا دل اور پھر زباں پر تالے لاگانے سے کیا تعلق ؟ ایک تجویز ہے جو کہ شعر کا مفہوم واضح کر سکتی ہے۔


کیسے پائے گا وہ منزل کا پتا سوچو تو!​
وہ مسافر جو اندھیروں سے اُجالے مانگے​

معیار کا تعلق مصرعہِ ثانی سے کچھ واضح نہیں ہے، اگر یوں کر لیں تو؟

جانے کس دور میں پہنچے ہیں یہ انساں کہ جہاں​
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے​

ہم اکیلے ہی اس دور میں نہیں اُتارے گئے ہیں ہمارے ساتھ اور بھی بہت سے لوگ ہیں، ہاں اگر آپ "مس فٹ" ثابت کرنا چاہتے ہیں تو بات اور ہے۔

میری تصویر کے سب رنگ شکستہ ہوئے​
اور مرا یار کہ شہکار نرالے مانگے​

شاہد شاہنواز بھائی نے درست فرمایا، شاہکار کا تعلق تخلیق سے ہی ہوتا ہے اس لیے ایک تجویز حاضر ہے۔

پیرِ سُخنفراز صاحب کی زمین ہو اور اسد قریشی خاموش رہ جائیں ایسا ممکن نہیں ۔لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ جوشِ جذبات میں کچھ زیادہ بول گئے ہوں جس کے لیے معاف چاہتے ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شاہد شاہنواز صاحب اور اسد قریشی صاحب​
بہت بہت شکریہ آپ کا۔​
باقی اشعار کو بھی دیکھتا ہوں۔ فی الوقت تو بس ایک مشورہ​
اگر اس شعر کو ایسے کر دیا جائے​
جانے کس دور میں زمیں پر اترا ہوں میں بلال​
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے​
ویسے "مس فٹ" کیا چیز ہوتی ہے؟​
اس کی کوئی تفصیل بتائیں۔​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اسد قریشی صاحب نے تو جو کچھ لکھا ہے، اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن آپ کا یہ خیال:
اگر اس شعر کو ایسے کر دیا جائے​
جانے کس دور میں زمیں پر اترا ہوں میں بلال​
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے​
ویسے "مس فٹ" کیا چیز ہوتی ہے؟​
اس کی کوئی تفصیل بتائیں۔​
پہلا مصرع پھر مس فٹ ہے۔ یہاں مس فٹ سے مراد بے وزن ہونا ہے کیونکہ میں اس کو تحت اللفظ نہیں پڑھ سکتا۔ تقطیع اچھی طرح کرلیجئے گا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
پیرِ سُخنفراز صاحب کی زمین ہو اور اسد قریشی خاموش رہ جائیں ایسا ممکن نہیں ۔لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ جوشِ جذبات میں کچھ زیادہ بول گئے ہوں جس کے لیے معاف چاہتے ہیں۔
واہ واہ
بہت خوشی ہوئی آپ کی فراز صاحب سے اتنی عقیدت دیکھ کر۔
 
ایک محشر ہے کہ دل میں بپا رہتا ہے​
اور دل ہے کہ زباں پر بھی یہ تالے مانگے​

ساحل اگر موجوں کے لیے تڑپتا ہے تو اس کا دل اور پھر زباں پر تالے لاگانے سے کیا تعلق ؟ ایک تجویز ہے جو کہ شعر کا مفہوم واضح کر سکتی ہے۔

اسد قریشی بھائی ! شاید ٹائیپو ہے اس شعر میں ۔ اگر اسے یوں کردیں تو؟
ایک محشر ہے جو اِ س دِل میں بپا رہتا ہے​
 

الف عین

لائبریرین
پہلے شعر کی اصلاح اسد کی بہت عمدہ ہے، قبول کر لو۔
دوسرے شعر کی صورت میرے نزدیک یوں بہتر ہے؛

ایک وہ حشر ہے جو دل میں بپا رہتا ہے​
اور اک دل ہے، زباں پر بھی جو تالے مانگے​
تیسرا شعر سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہنا چاہتے ہو، اسد کی اصلاح میں تو مفہوم ہی بدل جاتا ہے۔​
اس شعر کو ذرا سی تبدیلی سے یوں کر دیں تو وزن میں درست آ جائے:​
جانے کس دور میں دھرتی پہ میں اترا ہوں بلال
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے
آخری شعر کی اصلاح اسد کی درست تو ہے لیکن بے وزن۔ اس کو یوں کر دو:
میری تصویر کے سب رنگ زوال آمادہ
اور مرا یار کہ شہکار نرالے مانگے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
فی الحال تو غزل اس طرح بنی ہے (جن میں سے آدھے مصرع آپ کے ہیں اور باقی آدھے بھی آپ کے ہی ہیں)

ایک جگنو ہے کہ منزل کے حوالے مانگے​
ایک تتلی ہے کہ جگنو سے اُجالے مانگے​
ایک وہ حشر ہے جو دل میں بپا رہتا ہے​
اور اک دل ہے، زباں پر بھی جو تالے مانگے​
میری تصویر کے سب رنگ زوال آمادہ​
اور مرا یار کہ شہکار نرالے مانگے​
جانے کس دور میں دھرتی پہ میں اترا ہوں بلال​
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے​
اب ایک دو اشعار اور ہو جائیں تو غزل کی کوئی صورت نکل ہے۔​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
دو شعر

وہ حسیں شکل بھی تھی، وصل کی رُت بھی تھی، مگر
دل نے مانگے بھی تو بس خوں کے پیالے مانگے

اوپر والے کا مجھے پتہ نہیں لیکن یہ شعر مجھے تو بالکل بھی رواںمحسوس نہیں ہوا
قسمتِ قیس کی اب دربدری ختم ہوئی
آج تو لیلیٰ نے بھی دیس نکالے مانگے
 

الف عین

لائبریرین
پہلا شعر دو لخت ہے، دوبوں مصرعوں میں بطاہر ربط نہیں۔
قسمتِ قیس کی اب دربدری ختم ہوئی​
آج تو لیلیٰ نے بھی دیس نکالے مانگے​
قسمتِ قیس؟​
صرف یوں بہتر ہوگا​
قیس کی آخرش اب دربدری ختم ہوئی​
آج تو لیلیٰ نے بھی دیس نکالے مانگے​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
پہلا شعر دو لخت ہے، دوبوں مصرعوں میں بطاہر ربط نہیں۔
قسمتِ قیس کی اب دربدری ختم ہوئی​
آج تو لیلیٰ نے بھی دیس نکالے مانگے​
قسمتِ قیس؟​
صرف یوں بہتر ہوگا​
قیس کی آخرش اب دربدری ختم ہوئی​
آج تو لیلیٰ نے بھی دیس نکالے مانگے​

اب شعر زبردست ہو گیا ہے۔

دل نے مانگے بھی تو بس خوں کے پیالے مانگے​
یہ مصرع ذاتی طور پہ اچھا لگا ہے، اس لئے کوشش کرتا ہوں شاید اس کی کوئی صورت نکل آئے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
استادِ محترم اگر شعر ایسے کر لیا جائے:

رسم ہی اب کے کچھ ایسی چلی جاناں کہ مرے،
دل نے مانگے بھی تو بس خوں کے پیالے مانگے
 

الف عین

لائبریرین
رسم تو یہی کہ دل خون پینا چاہ رہا ہے!!
لیکن شعر میں ’جاناں‘ جیسے بھرتی کے الفاظ مجھے پسند نہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس اور دل نے کو جدا کرنا آپ کا ہمیں تو اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔

اس طرح کی ایک مثال میں نے احمد فراز کی ایک نظم "اب کس کا جشن مناتے ہو!" میں دیکھی تھی:

اُن معصوموں کا جن کے لہو
سے تم نے فروزاں راتیں کی
یا ان مظلوموں کا جن سے
خنجر کی زباں میں باتیں کی

ویسے اچھا تو مجھے بھی نہیں لگا لیکن میں نے سوچا کہ باقی محفل پہ پتہ چل جائے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
فراز کی نظم کا معاملہ دوسرا ہے، وہاں ممکن ہے کہ دو ٹکڑوں کو ملا کر ایک طویل مصرع کیا گیا ہو۔
یہ مصرع بہتر ہے مفہوم کے لحاظ سے، لیکن ’دل نے مانگے بھی تو‘ سے بات بگڑ جاتی ہے۔
رسم کچھ ایسی چلی موسم گل میں کہ یہاں
سب نے مانگے بھی تو بس خون کے پیالے÷ خوں کے پیالے مانگے
 
Top