احمد فراز صاحب کی زمین کا قافیہ بدل کے ایک غزل۔ برائے اصلاح
ایک جگنو کہ مقدر ہے بھٹکنا جس کا
ایک تتلی کہ جو جگنو سے اجالے مانگے
÷÷ جو اور جگنو آپس میں ٹکراتے ہوئے لگ رہے ہیں یعنی عیب تنافر کا شائبہ سا ہے۔۔ اگر یہ شائبہ درست ہے تو’’کہ‘‘ اور ’’جو ‘‘ کی جگہ آپس میں بدلی جاسکتی ہے۔۔لیکن اس سے بہتر صورت ہے: ایک تتلی ہے کہ جگنو سے اجالے مانگے۔۔۔
ایک ساحل کہ تڑپتا رہے موجوں کے لئے
اور اک دل ہے، زباں پر بھی جو تالے مانگے
÷÷درست لگ رہا ہے۔۔۔
کون جانے بھلا معیار کیا ہے اس کا
وہ مسافر جو اندھیروں سے اجالے مانگے
÷÷÷کون جانے بھلا معیار کیا ہے اس دل کا۔۔۔جہاں میں نے دل لکھا ہے، وہاں شاید آپ کچھ لکھنا بھول گئے۔۔۔ کیونکہ یہ مصرع مجھے وزن سے گرا ہوا لگتا ہے۔۔۔ پہلے اس مصرع کا فیصلہ ہوجائے، دوسرا اپنی جگہ درست ہے لیکن اس کا پہلے سے تعلق کیا ہے، وہ بعد میں دیکھیں گے۔۔
جانے کس دور میں زمیں پر اترا ہوں میں کہ آج
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے
÷÷÷پہلا مصرع طویل ہے اور وزن سے گرا ہوا بھی۔۔دوسرا اچھا ہے۔۔پہلا شاید اس طرح ہوسکے: جانے کیا دور ہے جس میں ، میں ہوا ہوں پیدا۔۔لیکن میرا مصرع قبول کر لیاجائے تب بھی مجھے یہ شعر دولخت لگتا ہے۔۔۔ تو آپ خود ہی سوچئے۔۔۔
میری تصویر میں ٹوٹے ہوئے کردار ہیں سب
اور مرا یار تو شہکار نرالے مانگے
÷÷تصویر میں کردار کی بجائے رنگ زیادہ مناسب تھا۔۔۔ تصویر کی جگہ تخلیق کرلیجئے، یہ مسئلہ تو حل ہو ہی جائے گا۔۔۔
نوٹ: یہ وہ بحر ہے جس کا وزن میں زیادہ ٹھیک نہیں سمجھتا، اس لیے میرے مصرعوں کو قبول کرنے سے پہلے ان کی تقطیع کرنا بہتر ہوگا۔