محمد بلال اعظم
لائبریرین
یعنی اب غزل یوں ہو گئی ہے:
ایک جگنو ہے کہ منزل کے حوالے مانگے
ایک تتلی ہے کہ جگنو سے اُجالے مانگے
ایک وہ حشر ہے جو دل میں بپا رہتا ہے
اور اک دل ہے، زباں پر بھی جو تالے مانگے
میری تصویر کے سب رنگ زوال آمادہ
اور مرا یار کہ شہکار نرالے مانگے
قیس کی آخرش اب دربدری ختم ہوئی
آج تو لیلیٰ نے بھی دیس نکالے مانگے
رسم کچھ ایسی چلی موسم گل میں کہ یہاں
سب نے مانگے بھی تو بس خون کے پیالے مانگے
جانے کس دور میں دھرتی پہ میں اترا ہوں بلال
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے