لوک موسیقی مانی ہزار مَنتیں رد نہ ہوئی بلائے دل۔ عطاءاللہ خان نیازی عیسٰی خیلوی

کیوں مجھے موت کے پیغام دیئے جاتے ہیں۔
یہ سزا کم تو نہیں ہے کہ جیئے جاتے ہیں۔

نشہ دونوں میں ہے ساقی مجھے غم دے یا شراب۔
مہ بھی پی جاتی ہے آنسو بھی پیئے جاتے ہیں۔

آبگینوں کی طرح دل ہیں غریبوں کے ‛‛شمیم‛‛۔
ٹوٹ جاتے ہیں کبھی توڑ دیئے جاتے ہیں۔

مانی ہزار مَنتیں رد نہ ہوئی بلائے دل۔
درد کچھ اور بڑھ گیا میں نے جو کی دوائے دل۔
مانی ہزار مَنتیں ۔ ۔ ۔ ۔

میری طرح خدا کرے تیرا کسی پہ آئے دل ۔
تو بھی جگر کو تھام کہ کہتا پھرے کے ہائےدل ۔
مانی ہزار مَنتیں ۔
مانی ہزار مَنتیں ۔

‛‛ہووو ۔
پئیاں صاف تنہائیاں ڈسدیاں ھِن وہ تے وِچ قسمت چکر عجیب اے ۔
معمول مطابق زندگی وِچ ڈِٹھے درد ہزار غریب اے ۔
ہویا اے جو اج تئیں زندہ ہاں رہی بالکل موت قریب اے۔
پرویز وصال نی ہو سگیا کوئی ایہجیا نیک نصیب اے‛‛۔

غنچہ سمجھ کے لے لیا چُٹکی سے یوں مسل دیا ۔
ان کا تو اک کھیل تھا لُٹ گیا میرا ہائے دل۔
مانی ہزار مَنتیں ۔
مانی ہزار مَنتیں ۔

‛‛دل ہمارا زلف کی زنجیر کے قابل نہ تھا۔
یہ ابھی معصوم تھا تعزیر کے قابل نہ تھا ۔
تم سے ایک تصویر مانگی تھی تمہیں مانگا نہ تھا ۔
ارے عاشقِ دلگیر کیا تصویر کے قابل نہ تھا‛‛ ۔

روندو نہ میری قبر کو اس میں دبی ہیں حسرتیں ۔
رکھنا قدم سنبھال کر دیکھو کُچل نہ جائے دل۔
مانی ہزار مَنتیں رد نہ ہوئی بلائے دل ۔
مانی ہزار مَنتیں ۔

عاشقِ نامراد کی قبر پہ تھا لکھا ہوا ۔
جس کو ہو زندگی عزیز وہ نہ کہیں لگائے دل۔
مانی ہزار مَنتیں۔
مانی ہزار مَنتیں ۔

‛‛ہم نے جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو۔
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں۔
آﺅ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں۔
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں‛‛۔

پوچھتے کیا ہو میرے غم ملتے ہیں بے وفا صنم۔
چھوڑو بُتوں کی دوستی دیتا یہی ہے رائے دل۔
مانی ہزار مَنتیں رد نہ ہوئی بلائے دل ۔
درد کچھ اور بڑھ گیا میں نے جو کی دوائے دل۔
 
Top