میاں وقاص
محفلین
زندگئ کے ہر عام دنوں کی طرح یہ بھی اک عام دن تھا کہ میری امی نے کہا کہ وقاص کے ابو شاہدہ آج بتا رہی تھی کہ کچھ دن بعد سعودی عرب سے سردار واپس آرہا ہے۔ ۔
ابو جو ہمیشہ کی طرح اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کچھ سوچ رہے تھے
چونک کر بولے اچھا کب آ رہا ہے کسی نے بتایا ہی نہیں۔
امی نے جواب دیا اگلے اتوار کی فالیٹ ہے۔۔ ۔
فیر دونوں خاموش ہو گئے۔ ۔
میں یہ تمام باتئیں اپنی کتاب میں نظریں جماے سن رہا تھا ۔ ۔
کہ اچانک بول پڑا امی چاچؤ ہر بار کی طرح اس بار کی ٹافیاں لائیں گئے۔ ۔
اس بار میں ضرور ان سے ٹافیاں لو گا۔ ان میں مکھن بہت مزے دار ہوتا ہے۔۔ ماں سن کر کچھ نا بولی ۔
مگر میں اب اس دن کے انتظار میں تھا۔ ۔
جوں توں دن۔ختم ہوئے چاچا جی کو گھر کے صدارت براجمان لاہور سے گھر لاے ۔
وہ بڑے بڑے ٹیچی کیس سامان سے بھرے ہوئے استقبال کرنے والوں نے گھر میں ڈھیر لگا دیئے۔ ۔
میری ہر نظر ہر اس بنڈل پر کہ کس میں ٹافیاں ہوں گئ۔
مگر اس دن کسی نے سامان ہی نا کھولا اور میں مایوس ہو کر اپنے گھر چلا آیا۔ ۔
اگلے دن سکول سے واپسی پر بستہ پھنک کر پھر چاچا کے گھر ٹافیاں کا لالچ مجھے کھنچ کر لے گیا۔
گھر داخل ہوتے ہی دیکھتا ہوں کہ ٹافیوں کے شاپر اردگرد بکھرے پڑے ہیں ۔ انتظار کی حد ختم ہو گئی کسی نے پوچھا تک نہیں۔ ۔
دل برداشتہ ہو کر گھر واپس آ کر ماں کے بال کھنچے کہ امی مجھے بھی ٹافیاں لا کر دو ۔
ماں نے حوصلہ دے کر ان کے گھر سے لانے پر راضا مند ہو گئ۔ ۔ دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا ۔
کافی انتظار کے بعد ماں ابھی گھر داخل ہی ہوئی کہ میں نے بھگ کر امی سے شاپر چھین لیا ۔ شاپر کی تلاشی سے
ایک چھوٹی بوتل زم زم ایک تسبح اور تین کھجورں کے سوا کچھ نا ملا۔
مایوسی کی فلک شگاف لہر نے میرے اوپر ایسا شیطان حاوی کیا کہ زم زم سامیت سب زور کے ساتھ دیوار پر دے مارا۔ ۔
اور ماں کے طماچو نے زندگئ سے ٹافیوں کی حسرت کو ہمیشہ کے لے زمین بوس کر دیا۔ ۔
اب وہ دن ہیں وہ بچہ جس کی ٹافیوں کی عمر ہی نا رہی ۔ ۔
زم زم کے پانی سے چاے بنا کر پیتا ہے
عجوا کجھور کا ملک شیک پیتا ہے ۔
ویسی تسبیع ہر وقت اس کے جیب میں رہتی ہے۔ ۔
واپس اسی بچپن میں جانا چاہتا ہے۔ ۔
کہ اس بچے کے منہ پر طمچے مارے اور اپنی ماں کے۔قدم بوس ہو کر معافی مانگے کہ جن ٹافیوں کے لیے اس نے ماں سے لڑائی کی تھی وہ ہی ٹافیاں اسے ہر دکاندار نصف ریال نہ ہونے کے بدلے دیتا ہے۔
اور وہ بچہ دکان سے۔نکل کر ٹافیاں پھنک دیتا ہے۔ ۔ ۔
مذرات امی جان۔ ۔
از وقاص
ابو جو ہمیشہ کی طرح اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کچھ سوچ رہے تھے
چونک کر بولے اچھا کب آ رہا ہے کسی نے بتایا ہی نہیں۔
امی نے جواب دیا اگلے اتوار کی فالیٹ ہے۔۔ ۔
فیر دونوں خاموش ہو گئے۔ ۔
میں یہ تمام باتئیں اپنی کتاب میں نظریں جماے سن رہا تھا ۔ ۔
کہ اچانک بول پڑا امی چاچؤ ہر بار کی طرح اس بار کی ٹافیاں لائیں گئے۔ ۔
اس بار میں ضرور ان سے ٹافیاں لو گا۔ ان میں مکھن بہت مزے دار ہوتا ہے۔۔ ماں سن کر کچھ نا بولی ۔
مگر میں اب اس دن کے انتظار میں تھا۔ ۔
جوں توں دن۔ختم ہوئے چاچا جی کو گھر کے صدارت براجمان لاہور سے گھر لاے ۔
وہ بڑے بڑے ٹیچی کیس سامان سے بھرے ہوئے استقبال کرنے والوں نے گھر میں ڈھیر لگا دیئے۔ ۔
میری ہر نظر ہر اس بنڈل پر کہ کس میں ٹافیاں ہوں گئ۔
مگر اس دن کسی نے سامان ہی نا کھولا اور میں مایوس ہو کر اپنے گھر چلا آیا۔ ۔
اگلے دن سکول سے واپسی پر بستہ پھنک کر پھر چاچا کے گھر ٹافیاں کا لالچ مجھے کھنچ کر لے گیا۔
گھر داخل ہوتے ہی دیکھتا ہوں کہ ٹافیوں کے شاپر اردگرد بکھرے پڑے ہیں ۔ انتظار کی حد ختم ہو گئی کسی نے پوچھا تک نہیں۔ ۔
دل برداشتہ ہو کر گھر واپس آ کر ماں کے بال کھنچے کہ امی مجھے بھی ٹافیاں لا کر دو ۔
ماں نے حوصلہ دے کر ان کے گھر سے لانے پر راضا مند ہو گئ۔ ۔ دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا ۔
کافی انتظار کے بعد ماں ابھی گھر داخل ہی ہوئی کہ میں نے بھگ کر امی سے شاپر چھین لیا ۔ شاپر کی تلاشی سے
ایک چھوٹی بوتل زم زم ایک تسبح اور تین کھجورں کے سوا کچھ نا ملا۔
مایوسی کی فلک شگاف لہر نے میرے اوپر ایسا شیطان حاوی کیا کہ زم زم سامیت سب زور کے ساتھ دیوار پر دے مارا۔ ۔
اور ماں کے طماچو نے زندگئ سے ٹافیوں کی حسرت کو ہمیشہ کے لے زمین بوس کر دیا۔ ۔
اب وہ دن ہیں وہ بچہ جس کی ٹافیوں کی عمر ہی نا رہی ۔ ۔
زم زم کے پانی سے چاے بنا کر پیتا ہے
عجوا کجھور کا ملک شیک پیتا ہے ۔
ویسی تسبیع ہر وقت اس کے جیب میں رہتی ہے۔ ۔
واپس اسی بچپن میں جانا چاہتا ہے۔ ۔
کہ اس بچے کے منہ پر طمچے مارے اور اپنی ماں کے۔قدم بوس ہو کر معافی مانگے کہ جن ٹافیوں کے لیے اس نے ماں سے لڑائی کی تھی وہ ہی ٹافیاں اسے ہر دکاندار نصف ریال نہ ہونے کے بدلے دیتا ہے۔
اور وہ بچہ دکان سے۔نکل کر ٹافیاں پھنک دیتا ہے۔ ۔ ۔
مذرات امی جان۔ ۔
از وقاص