ماں ..... منور رانا

الف عین

لائبریرین
اس وقت بھی اکثر تجھے ہم ڈھونڈ نے نکلے
جس دھوپ میں مزدور بھی چھت پر نہیں جاتے

شرم آ تی ہے مز دوری بتا تے ہو ئے ہوئے ہم کو
اتنے میں تو بچوں کا غبارہ نہیں ملتا

ہم نے بازار میں دیکھے ہیں گھر یلو چہرے
مفلسی تجھ سے بڑے لوگ بھی دب جاتے ہیں

بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں میں
غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال دیتی ہے

امیر شہر کا رشتے میں کوئی کچھ نہیں لگتا
غریبی چاند کو بھی اپنا ما ما مان لتی ہے

تو کیا مجبو ریاں بے جان چیز یں بھی سمجھتی ہیں
گلے سے جب اتر تا ہے تو زیور کچھ نہیں کہتا

کہیں بھی چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے
ہمیں بلاتی ہے دنیا ہمیں نہیں جاتے

زمیں بنجر بھی ہو جائے تو چاہت کم نہیں ہوتی
کہیں کوئی وطن سے بھی محبت چھوڑ سکتا ہے

ضرورت روز ہجرت کے لئے آواز دیتی ہے
محبت چھوڑ کر ہندوستاں جانے نہیں دیتی

پیدا یہیں ہوا ہوں یہیں پر مرو ں گامیں
وہ اور لوگ تھے کراچی چلے گئے

میں مروں گا تو یہیں دفن کیا جاؤں گا
میری مٹی بھی کراچی نہیں جانے والی

وطن کی راہ میں دینی پڑے گی جان اگر
خدا نے چا ہا تو ثابت قدم ہی نکلیں گے

وطن سے دور بھی یا رب وہاں پہ دم نکلے
جہاں سے ملک کی سر حد دکھائی دینے لگے

 

الف عین

لائبریرین
بزرگ


خود سے چل کر نہیں یہ طرز سخن آیا ہے
پاؤں دابے ہیں برزرگوں کے تو فن آیا ہے

ہمیں بزرگوں کی شفقت کبھی نہ مل پائی
نتیجہ یہ ہے کہ ہم لو فر وں میں رہنے لگے

ہمیں گرتی ہو ئی دیوار کو تھامے رہے ورنہ
سلیقے سے بزرگوں کی نشانی کون رکھتا ہے

روش بزرگوں کی شامل ہے میری گھٹی میں
ضرورتاً بھی سخی کی طرف نہیں دیکھا

سڑک سے جب گزرتے ہیں تو بچے پیڑ گنتے ہیں
بڑے بوڑھے بھی گنتے ہیں وہ سو کھے پیڑ گنتے ہیں

حویلیوں کی چھتیں گر گئیں مگر اب تک
مرے بزرگوں کا نشّہ نہیں اتر تا ہے

بلک رہے ہیں زمینوں پہ بھوک سے بچے
مرے برزرگوں کی دولت کھنڈ ر کے نیچے ہے

مرے بزر گوں کو اسکی خبر نہیں شاید
پنپ نہیں سکا جو پیڑ برگدوں میں رہا

عشق میں رائے بزر گوں سے نہیں لی جاتی
آگ بجھتے ہوئے چولہوں سے نہیں لی جاتی

مرے بزرگوں کا سایہ تھا جب تلک مجھ پر
میں اپنی عمر سے چھو ٹادکھائی دیتا تھا

بڑے بوڑھے کوئیں میں نیکیاں کیوں پھینک آتے ہیں
کنویں میں چھپ کے آخر کیوں یہ نیکی بیٹھ جاتی ہے

مجھے اتنا ستا یا ہے مرے اپنے عزیز وں نے
کہ اب جنگل بھلا لگتا ہے گھر اچھا نہیں لگتا
 

الف عین

لائبریرین
خود

ہمارے کچھ گناہوں کی سزا بھی ساتھ چلتی ہے
ہم اب تنہا نہیں چلتے دوا بھی ساتھ چلتی ہے

کچے ثمر شجر سے الگ کر دیے گئے
ہم کمسنی میں گھر سے الگ کر دیے گئے

گوتم کی طرح گھر سے نکل کر نہیں جاتے
ہم رات میں چھپ کر کہیں باہر نہیں جاتے

ہمارے ساتھ چل کر دیکھ لیں یہ بھی چمن والے
یہاں اب کوئلہ چنتے ہیں پھو لوں سے بدن والے

اتنا رو ئے تھے لپٹ کر درودیوار سے ہم
شہر میں آ کے بہت دن رہے بیمار سے ہم

میں اپنے بچوں سے آنکھیں ملا نہیں سکتا
میں خالی جیب لیے اپنے گھر نہ جاؤ ں گا

ہم ایک تتلی کی خاطر بھٹکتے پھر تے تھے
کبھی نہ آ ئیں گے وہ دن شرارتوں والے

مجھے سنبھا لنے والا کہا ں سے آئے گا
میں گر رہا ہوں پرانی عمارتوں کی طرح

پیروں کو میرے دیدۂ تر باندھے ہوئے ہے
زنجیر کی صورت مجھے گھر باندھے ہوئے ہے

دل ایسا کہ سیدھے کیے جو تے بھی بڑوں کے
ضد اتنی کہ خود تاج اٹھا کر نہیں پہنا

چمک ایسے نہیں آ تی ہے خود داری کے چہرےپر
انا کو ہم نے دو دو وقت کا فاقہ کر ا یا ہے

ذرا سی بات پہ آنکھیں برسنے لگتی تھیں
کہا ں چلے گئے موسم وہ چا ہتوں والے

میں اس خیال سے جاتا نہیں ہوں گاؤ ں کبھی
وہاں کے لوگوں نے دیکھا ہے بچپنا میرا

ہم نہ دلّی تھے نہ مزدور کی بیٹی لیکن
قافلے جو بھی ادھر آئے ہمیں لوٹ گئے

اب مجھے اپنے حریفوں سے ذرا بھی ڈر نہیں
میرے کپڑے بھائیوں کے جسم پر آ نے لگے

تنہا مجھے کبھی نہ سمجھنا مرے حریف
ایک بھا ئی مر چکا ہے مگر ایک گھر میں ہے

میدان سے اب لوٹ کے جانا بھی ہے دشوار
کس موڑ پہ دشمن سے قرابت نکل آئی
مقدر میں لکھا کر لائے ہیں ہم دربدر پھر نا
پرندے کوئی موسم ہو پریشانی میں رہتے ہیں

میں پٹر یوں کی طرح زمیں پر پڑا رہا
سینے سے غم گز رتے رہے ریل کے طرح

میں ہوں مٹی تو مجھے کوز ہ گروں تک پہنچا
میں کھلونا ہوں تو بچوں کے حوالے کر دے

ہماری ز ندگی کا اس طرح ہر سال کٹتا ہے
کبھی گاڑی پلٹتی ہے کبھی ترپال کٹتا ہے

شاید ہمارے پاؤں میں تل ہے کہ آ ج تک
گھر میں کبھی سکون سے دو دن نہیں رہے

 

الف عین

لائبریرین
میں وصیت کر سکا کوئی نہ وعدہ لے سکا
میں نے سوچا بھی نہیں تھا حادثہ ہو جائےگا

ہم بہت تھک ہا ر کے لوٹے تھے لیکن جانے کیوں
رینگتی، بڑ ھتی ، سر کتی چیو نٹیا ں اچھی لگیں

مدتوں بعد کوئی شخص ہے آ نے والا
اے مرے آنسوؤ تم دیدۂ تر میں رہنا

تکلفات نے زخموں کو کر دیا ناسور
کبھی مجھے کبھی تا خیر چا رہ گر کو ہوئی

اپنے بکنے کا بہت دکھ ہے ہمیں بھی لیکن
مسکراتے ہو ئے ملتے ہیں خریدار سے ہم

ہمیں دن تاریخ تو یاد نہیں بس اس سے اندازہ کر لو
ہم اس موسم میں بچھڑے تھے جب گاؤں میں جھولا پڑتاہے

میں اک فقیر کے ہونٹوں کی مسکراہٹ ہوں
کسی سے بھی مری قیمت ادا نہیں ہوتی

ہم تو اک اخبار سے کاٹی ہوئی تصویر ہیں
جس کو کاغذ چننے والے کل اٹھالے جائیں گے

انا نے میرے بچوں کی ہنسی بھی چھین لی مجھ سے
یہاں جانے نہیں دیتی وہاں جانے نہیں دیتی

جانے اب کتنا سفر باقی بچا ہے عمر کا
زندگی ابلے ہوئے کھانے تلک تو آگئی

ہمیں بچوں کا مستقبل لئے پھر تا ہےسڑکوں پر
نہیں تو گر میوں میں کب کوئی گھر سے نکلتاہے

سونے کے خریدار نہ ڈھونڈو کہ یہاں پر
اک عمر ہوئی لوگوں نے پیتل نہیں دیکھا

میں اپنے گاؤں کا مکھیا بھی ہو ں بچوں کا قاتل بھی
جلا کر دودھ کچھ لوگوں کی خاطر گھی بنا تا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
بہن

کس دن کوئی رشتہ مری بہنوں کو ملے گا
کب نیند کا موسم مری آنکھوں کو ملے گا

میری گڑیا سی بہن کو خود کشی کرنی پڑی
کیا خبر تھی دوست میرا اس قدر گر جائے گا

کسی بچے کی طرح پھوٹ کے روئی تھی بہت
اجنبی ہاتھ میں وہ اپنی کلائی دیتے

جب یہ سنا کہ ہار کے لوٹا ہوں جنگ سے
راکھی زمیں پہ پھینک کے بہنیں چلی گئیں

چاہتا ہوں کہ ترے ہاتھ بھی پیلے ہو جائیں
کیا کروں میں کوئی رشتہ ہی نہیں آتا ہے

ہر خوشی بیاج پہ لا یا ہوا دھن لگتی ہے
اور اداسی مجھے منہ بولی بہن لگتی ہے

دھوپ رشتوں کی نکل آ ئے گی یہ آس لیے
گھر کی دہلیز پہ بیٹھی رہیں بہنیں میری

اسلئے بیٹھی ہیں دہلیز پہ میری بہنیں
پھل نہیں چاہتے تاعمر شجر میں رہنا

نا امید ی نے بھر ے گھر میں اندھیرا کر دیا
بھائی خالی ہاتھ لوٹے اور بہنیں بجھ گئیں

 

الف عین

لائبریرین
بھائی

میں اتنی بے بسی سے قیدِ دشمن میں نہیں مرتا
اگر میر ابھی اک بھائی لڑکپن میں نہیں مرتا

کانٹوں سے بچ گیا تھا مگر پھول چبھ گیا
میرے بدن میں بھائی کا ترشول چبھ گیا

اے خدا تھوڑی کرم فر مائی ہو نا چا ہیئے
اتنی بہنیں ہیں تو پھر اک بھائی ہو نا چا ہیئے

باپ کی دولت سے یوں دونوں نے حصہ لے لیا
بھائی نے دستا ر لے لی میں نے جو تا لے لیا

نہتا دیکھ کے مجھ کو لڑا ہے
جو کام اس نے کیاہے وہ بھائی کرتا ہے

یہی گھر تھا جہاں مل جل کے سب اک سا تھ رہتے تھے
یہی گھر ہے الگ بھا ئی کی افطاری نکلتی ہے

وہ اپنے گھر میں روشن سار ی شمعیں گنتا رہتا ہے
اکیلا بھائی خاموشی سے بہنیں گنتا رہتا ہے

میں اپنے بھائیوں کے ساتھ جب باہر نکلتا ہوں
مجھے یوسف کے جانی دشمنوں کی یاد آ تی ہے

مرے بھا ئی و ہا ں پانی سے روزہ کھو لتے ہوں گے
ہٹا لو سامنے سے مجھ سے افطاری نہیں ہوگی

جہاں پر گن کے روٹی بھائیوں کو بھا ئی دیتے ہیں
سبھی چیز یں وہاں دیکھیں مگر برکت نہیں دیکھی

رات دیکھا ہے بہار وں پہ خزاں کو ہنستے
کوئی تحفہ مجھے شاید مرا بھائی دے گا

تمھیں اے بھائیو یوں چھوڑ نا اچھا نہیں لیکن
ہمیں اب شام سے پہلے ٹھکانا ڈھونڈ لینا ہے

 

الف عین

لائبریرین
غم سے لچھمن کی طرح بھائی کا رشتہ ہے مرا
مجھ کو جنگل میں اکیلا نہیں رہنے دیتا

جو لو گ کم ہوں تو کاندھا ضرور دے دینا
سر ہا نے آ کے مگر بھا ئی بھائی مت کرنا

محبت کا یہ جذبہ جب خدا کی دین ہے بھائی
تو میرے راستے سے کیوں یہ دنیا ہٹ نہیں جاتی

یہ قر بِ قیامت ہے لہو کیسامنور
پانی بھی تجھے تیرا برادر نہیں دیگا

آپنے کھل کے محبت نہیں کی ہے ہم سے
آپ بھائی نہیں کہتے ہیں میاں کہتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
بچے

فرشتے آکے انکے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبے میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

ہمکتے کھیلتے بچوں کی شیطانی نہیں جاتی
مگر پھر بھی ہمارے گھر کی وہرانی نہیں جاتی

اپنے مستقبل کی چادر پر رفو کر تے ہوئے
مسجد وں میں دیکھیئے بچے وضو کرتے ہوئے

مجھے اس شہر کی سب لڑکیا ں آداب کر تی ہیں
میں بچوں کی کلائی کے لئے راکھی بنا تا ہوں

گھر کا بوجھ اٹھا نے والے بچے کی تقدیر نہ پوچھ
بچپن گھر سے باہر نکلا اور کھلو نا ٹو ٹ گیا

جو اشک گو نگے تھے وہ عرض حال کر نے لگے
ہمارے بچے ہمیں سے سوال کر نے لگے

جب ایک واقعہ بچپن کا ہم کو یادآیا
ہم ان پرندوں کو پھر گھونسلے میں چھوڑ آ ئے

بھرے شہروں میں قر بانی کا موسم جب سے آیا ہے
مرے بچے کبھی ہولی میں پچکاری نہیں لاتے

مسجد کی چٹا ئی پہ یہ سوتے ہوئے بچے
ان بچوں کو دیکھو کھبی ریشم نہیں دیکھا

بھوک سے بے حال بچے تو نہیں روئے مگر
گھر کا چولہا مفلسی کی چغلیاں کھانے لگا

تلوار تو کیا میری نظر تک نہیں اٹھی
اس شخص کے بچوں کی طرف دیکھ لیا تھا

ریت پر کھیلتے بچوں کو ابھی کیا معلوم
کوئی سیلاب گھر وندا نہیں رہنے دیتا

دھواں بادل نہیں ہوتا کہ بچپن دوڑ پڑتا ہے
خوشی سے کون بچہ کار خانے تک پہنچتا ہے

میں چاہوں تو مٹھائی کی دکانیں کھول سکتا ہوں
مگر بچپن ہمیشہ رام دانے تک پہنچتا ہے

ہو ا کے رخ پہ رہنے دو یہ جلنا سیکھ جائے گا
کہ بچہ لڑکھڑا ئے گا تو چلنا سیکھ جائے گا

اک سلگتے شہر میں بچہ ملا ہنستا ہوا
سہمے سھمے سے چراغوں کے اجالے کی طرح

میں نے اک مدت سے مسجد بھی نہیں دیکھی مگر
ایک بچے کا اذاں دینا بہت اچھا لگا

انہیں اپنی ضرورت کے ٹھکانے یاد رہتے ہیں
کہاں پر ہے کھلو نو ں کی دکاں بچے سمھتے ہیں

زمانہ ہو گیا دنگے میں اس گھر کو جلے لیکن
کسی بچے کے رونے کی صدائیں روز آتی ہیں

 

الف عین

لائبریرین
وہ

کسی بھی موڑ پر تم سے وفاداری نہیں ہوگی
ہمیں معلوم ہے تم کو یہ بیماری نہیں ہوگی

نیم کا پیڑ تھا برسات تھی اور جھولا تھا
گاؤں میں گزرا زمانہ بھی غزل جیسا تھا

ہم کچھ ایسے ترے دیدار میں کھو جاتے ہیں
جیسے بچے بھرے بازار میں کھو جاتے ہیں

تجھے اکیلے پڑھوں کوئی ہم سبق نہ رہے
میں چاہتا ہوں کہ تجھ پر کسی کا حق نہ رہے

وہ اپنے کاندھوں پہ کنبہ کا بو جھ رکھتا ہے
اسی لئے تو قدم سو چ کر اٹھا تا ہے

آنکھیں تو اسے گھر سے نکلنے نہیں دیتیں
آنسو ہیں کہ سامان سفر باندھے ہو ئے ہیں

سفید ی آگئی بالوں میں اس کے
وہ باعزت گھر انا چاہتا تھا

نہ جانے کون سی مجبور یاں پردیس لائی تھیں
وہ جتنی دیر تک زندہ رہا گھر یاد کرتا تھا

تلاش کرتے ہیں ان کو ضرورتوں والے
کہاں گئے وہ پرانی شرافتوں والے

وہ خوش ہے کہ بازار میں گالی مجھے دے دی
میں خوش ہوں کہ احسان کی قیمت نکل آئی

اسے جلی ہوئی لاشیں نظر نہیں آتیں
مگر وہ سوئی سے دھاگا گزار دیتا ہے

وہ پہروں بیٹھ کر طوطے سے باتیں کرتا رہتا ہے
چلو اچھا ہے اب نظریں بدلنا سیکھ جائے گا

اسے حالات نے روکا مجھے میرے مسائل نے
وفا کی راہ میں دشوار یاں دونوں طرف سے ہیں

تجھ سے بچھڑا تو پسند آ گئی بے تر تیبی
اس سے پہلے مرا کمرا بھی غزل جیسا تھا

کہا ں کی ہجرتیں کیسا سفر کیسا جدا ہونا
کسی کی چا ہ پیروں پر دوپٹہ ڈال دیتی ہے

غزل وہ صنف نازک ہے جسے اپنی رفاقت سے
وہ محبوبہ بنا لیتا ہے میں بیٹی بنا تا ہوں

وہ ایک گڑیا جو میلے میں کل دکان پہ تھی
دنوں کی بات ہے پہلے مرے مکان پہ تھی

لڑکپن میں کیے وعدے کی قیمت کچھ نہیں ہوتی
انگوٹھی ہاتھ میں رہتی ہے منگنی ٹو ٹ جاتی ہے

وہ جسکے واسطے پر دیس جا رہا ہوں میں
بچھڑتے وقت اسی کی طرف نہیں دیکھا

 

الف عین

لائبریرین
متفر قات

ہم سایہ دار پیڑ زمانے کے کام آئے
جب سوکھنے لگے تو جلانے کے کام آئے

کوئل بولے یا گوریا اچھا لگتاہے
اپنے گاؤں میں سب کچھ بھیّا اچھا لگتا ہے

خاندانی وراثت کے نیلام پر آپ اپنے کو تیا ر کرتے ہوئے
اس حویلی کے سارے مکیں رو دیئے اس حویلی کو باز ار کرتےہوئے

اڑ نے سے پرندے کو شجر روک رہا ہے
گھر والے تو خاموش ہیں گھر روک رہا ہے

وہ چا ہتی ہے کہ آ نگن میں موت ہو میری
کہا ں کی مٹی ہے مجھ کو کہاں بلاتی ہے

نمائش پر بدن کی یوں کو ئی تیار کیوں ہوتا
اگر سب گھر کے ہو جاتے تو یہ بازار کیوں ہوتا

کچا سمجھ کے بیچ نہ دینا مکان کو
شاید کبھی یہ سر کو چھپا نے کے کام آئے

اندھیری رات میں اکثر سنہری مشعلیں لیکر
پرندوں کی مصیبت کا پتہ جگنو لگاتے ہیں

تو نے ساری باز یا ں جیتی ہیں مجھ پر بیٹھ کر
اب میں بوڑھا ہو رہا ہوں اصطبل بھی چا ئیے

مہا جرو یہی تاریخ ہے مکانوں کی
بنانے والا ہمیشہ برآمد وں میں رہا

تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو
تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے

کسی دکھ کا کسی چہرے سے اندازہ نہیں ہوتا
شجر تو دیکھنے میں سب ہرے معلوم ہوتے ہیں

ضرورت سے انا کا بھا ری پتھر ٹوٹ جاتا ہے
مگر پھر آدمی بھی اندر اندر ٹوٹ جاتا ہے

محبت ایک ایسا کھیل ہے جس میں مرے بھائی
ہمیشہ جیتنے والے پریشانی میں رہتے ہیں

پھر کبوتر کی وفاداری پہ شک مت کرنا
وہ تو گھر کو اسی مینار سے پہچا نتا ہے

انا کی مو ہنی صورت بگاڑ دیتی ہے
بڑے بڑوں کو ضرورت بگاڑ دیتی ہے

بنا کر گھونسلہ رہتا تھا اک جوڑا کبوتر کا
اگر آندھی نہیں آتی تو یہ مینار بچ جاتا

ان گھروں میں جہاں مٹی کے گھڑے رہتے ہیں
قد میں چھو ٹے ہوں مگر لوگ بڑے رہتے ہیں

پیاس کی شدت سے منہہ کھولے پرندہ گر پڑا
سیڑھیوں پر ہانپتے اخبار والے کی طرح

وہ چڑیا ں تھیں دعا ئیں پڑھ کے جو مجھ کو جگاتی تھیں
میں اکثر سوچتا تھا یہ تلاوت کو ن کرتا ہے

پرندے چونچ میں تنکے دبا ئے جاتے ہیں
میں سوچتا ہوں کہ اب گھر بسا لیا جائے

اے میرے بھائی مرے خون کا بدلہ لے لے
ہاتھ میں روز یہ تلوار نہیں آئے گی

نئے کمروں میں اب چیزیں پرانی کون رکھتا ہے
پرندوں کے لیئے شہروں میں پانی کون رکھتا ہے

جسکو بچوں میں پینچنے کی بہت عجلت ہو
اس سے کہیے نہ کبھی کار چلانے کے لئے

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھاکر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

پیٹ کی خاطر فٹ پاتھوں پر بیچ رہا ہوں تصویر یں
میں کیا جانوں روزہ ہے یا میرا روزہ ٹوٹ گیا

جب اس سے گفتگو کر لی تو پھر شجر نہیں پوچھا
ہنر بخیہ گری کا ایک تر پائی میں کھلتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
غربت

گھر کی دیوار پہ کوے نہیں اچھے لگتے
مفلسی میں یہ تماشے نہیں اچھے لگتے

مفلسی نے سارے آنگن میں اندھیرا کر دیا
بھائی خالی ہاتھ لو ٹے اور بہنیں بجھ گئیں

امیری ریشم و کمخواب میں ننگی نظر آئی
غریبی شان سے اک ٹاٹ کے پردے میں رہتی ہے

اسی گلی میں وہ بھوکا کسان رہتا ہے
یہ وہ زمیں ہے جہاں آسمان رہتا ہے

دہلیز پہ سر کھو لے کھڑی ہوگی ضرورت
اب ایسے میں گھر جانا مناسب نہیں ہوگا

عید کے خوف نے روزوں کا مزہ چھین لیا
مفلسی میں یہ مہینہ بھی بر ا لگتا ہے

اپنے گھر میں سر جھکا ئے اسلئے آیا ہوں میں
اتنی مزدوری تو بچے کی دوا کھا جائے گی

اللہ غریبوں کا مددگار ہے راناؔ
ہم لوگوں کے بچے کبھی سردی نہیں کھاتے

بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے
رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہو جاتے ہیں

 

الف عین

لائبریرین
بیٹی

گھروں میں یوں سیانی لڑکیاں بے چین رہتی ہیں
کہ جیسے ساحلوں پر کشتیاں بے چین رہتی ہیں

یہ چڑ یا بھی مری بیٹی سے کتنی ملتی جلتی ہے
کہیں بھی شاخ گل دیکھے تو جھولا ڈال دیتی ہے

رو رہے تھے سب تو میں بھی پھوٹ کر رونے لگا
ورنہ مجھ کو بیٹیوں کی رخصتی اچھی لگی

بڑی ہونے لگی ہیں مورتیں آنگن میں مٹی کی
بہت سے کام باقی ہیں سنبھا لا لے لیا جائے

تو پھر جا کر کہیں ماں باپ کو کچھ چین پڑتا ہے
کہ جب سسرال سے گھر آ کے بیٹی مسکرا تی ہے

ایسا لگتا ہے کہ جیسے ختم میلہ ہو گیا
اڑ گئیں آنگن سے چڑیاں گھر اکیلا ہو گیا

 
Top