محمد بلال اعظم
لائبریرین
ماں میں آیا تھا
گلزارؔ کی اپنی جنم بھومی دینہ جہلم سے واپسی پر ایک نظم
ماں میں آیا تھا
تری پیروں کی مٹی کو، میں آنکھوں سے لگانے کو
وصل کے گیت گانے کو، ہجر کے گیت گانے کو
ترے جہلم کے پانی میں نہانے کو
ترے میلوں کے ٹھیلوں میں
جھمیلوں میں، میں خوش ہونے اور ہنسنے کو اور رونے کو
میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ
نیلم کی ندی میں خود کو دھونے کو میں آیا تھا
شکاری تاک میں تھے پر
ہجر کے شجر پر بیٹھے پرندے کی طرح میں لوٹ آیا تھا
وطن کے آسمانوں کو، ندی نالوں، درختوں اور ڈالوں کو
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے، جلاوطنی کی لمبی رات ہے
صدیوں کو جاتی ہے، وہاں سے ٹرین آتی ہے
دکھوں کے دھندلکوں میں شام میں لپٹی ہوئی
یادوں کی ریکھاؤں
ریلوے کی پٹڑیوں پہ جھلملاتی ہیں
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
میرے گاؤں کے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں
رکھی شیشم کی ٹیبل پر کوئی بھولا ہوا ناول ملا تھا
زندگی کا جو کوئی بھولا ہوا بھٹکا مسافر بھول گیا تھا
میں وہ ناول بھول آیا
پر میں ویٹنگ روم اپنے ساتھ لایا تھا
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
ویٹنگ روم میں بھولا ہوا ناول وہ میں ہی تھا
میں چھوٹا تھا، میں پونے سات برسوں کا اک بچہ تھا
یہیں دینے کی گلیوں میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ
میں بوڑھے پن کی سرحد کب کی پار کر کے آیا ہوں
میں کئی گیت لایا ہوں تری خاطر
میں ویٹنگ روم سے نکلا نہیں اب تک
گاؤں کا ویران اسٹیشن میرے خوابوں میں جو آباد ہے
اب تک حقیقت میں وہاں کوئی ٹرین ایسی بھی نہیں رکتی
جو مجھ کو تیرے پیروں میں لے آئے
تیرے پیروں کی جنت میں جگہ دے دے
دفن کر دے مجھے اس آم کی گٹھلی کی مانند
جو میرے گھر کے آنگن میں کھلا تھا جس پر بیٹھی
شام کو وہ شور چڑیوں کا مری ہر شام
میں اب بھی آتا ہے بلاتا ہے
میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ، یہ سرحد میں بٹی دنیا
جو شیشم کے درختوں جنگلوں کو، جہلم کے دریا کو
نیلم کے نیلے پانیوں کو، ندی جتنے ہمارے آنسوؤں کو
مندروں میں گھنٹیوں جیسی ہواؤں کو
یہ سرحد میں بٹی دنیا وہ آری ہے
جو شیشم کے درختوں جنگلوں کو کاٹ دیتی ہے
پاٹ دیتی ہے مری ماں کو
میرے دادا کے دینے کو
خوں پسینے کو
سمادھی گردواروں، مندروں اور مسجدوں، گرجوں کو
مزاروں اور مڑھیوں خانقاہوں کو
یہ سرحد میں بٹی دنیا
شیشم کے درختوں جنگلوں کو کاٹ کر
کچھ بھی بنا دے
کتابوں سے بھری کوئی شیلف
یا چوباروں میں کھلتی نرگسی آنکھوں کی کھڑکی
کوئی بھگوان، کوئی بدھا
کسی سوہنے سلونے یار سانول ڈھول کی مورت
یا مصنوعی اعضا سپاہی کے
یا کسی پھانسی کے تختے کو بنائے
یہ سرحد میں بٹی دنیا
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
ماں میں آیا تھا
جنم بھومی میری بھومی
جنم تو نے دیا مجھ کو
تیرے پیروں کے نیچے
وہ جو جنت ہے
وہ جو ندی بہتی ہے کہتی ہے مجھ سے
تھک گیا ہے تو، اب تو سو جا، پر سو نہیں سکتا
مری مٹی مجھے کہتی ہے تو آ مٹی میں مٹی بن جا
چاک پر چڑھ جا کمہارن کے
پر ایسا ہو نہیں سکتا مگر میں سو نہیں سکتا
کیوں تیرا ہو نہیں سکتا؟
یہ سرحد میں بٹی دنیا
ماں!
میں آیا تھا
Inside The Pak Tea House سے انتخاب
گلزارؔ کی اپنی جنم بھومی دینہ جہلم سے واپسی پر ایک نظم
ماں میں آیا تھا
تری پیروں کی مٹی کو، میں آنکھوں سے لگانے کو
وصل کے گیت گانے کو، ہجر کے گیت گانے کو
ترے جہلم کے پانی میں نہانے کو
ترے میلوں کے ٹھیلوں میں
جھمیلوں میں، میں خوش ہونے اور ہنسنے کو اور رونے کو
میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ
نیلم کی ندی میں خود کو دھونے کو میں آیا تھا
شکاری تاک میں تھے پر
ہجر کے شجر پر بیٹھے پرندے کی طرح میں لوٹ آیا تھا
وطن کے آسمانوں کو، ندی نالوں، درختوں اور ڈالوں کو
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے، جلاوطنی کی لمبی رات ہے
صدیوں کو جاتی ہے، وہاں سے ٹرین آتی ہے
دکھوں کے دھندلکوں میں شام میں لپٹی ہوئی
یادوں کی ریکھاؤں
ریلوے کی پٹڑیوں پہ جھلملاتی ہیں
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
میرے گاؤں کے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں
رکھی شیشم کی ٹیبل پر کوئی بھولا ہوا ناول ملا تھا
زندگی کا جو کوئی بھولا ہوا بھٹکا مسافر بھول گیا تھا
میں وہ ناول بھول آیا
پر میں ویٹنگ روم اپنے ساتھ لایا تھا
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
ویٹنگ روم میں بھولا ہوا ناول وہ میں ہی تھا
میں چھوٹا تھا، میں پونے سات برسوں کا اک بچہ تھا
یہیں دینے کی گلیوں میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ
میں بوڑھے پن کی سرحد کب کی پار کر کے آیا ہوں
میں کئی گیت لایا ہوں تری خاطر
میں ویٹنگ روم سے نکلا نہیں اب تک
گاؤں کا ویران اسٹیشن میرے خوابوں میں جو آباد ہے
اب تک حقیقت میں وہاں کوئی ٹرین ایسی بھی نہیں رکتی
جو مجھ کو تیرے پیروں میں لے آئے
تیرے پیروں کی جنت میں جگہ دے دے
دفن کر دے مجھے اس آم کی گٹھلی کی مانند
جو میرے گھر کے آنگن میں کھلا تھا جس پر بیٹھی
شام کو وہ شور چڑیوں کا مری ہر شام
میں اب بھی آتا ہے بلاتا ہے
میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ، یہ سرحد میں بٹی دنیا
جو شیشم کے درختوں جنگلوں کو، جہلم کے دریا کو
نیلم کے نیلے پانیوں کو، ندی جتنے ہمارے آنسوؤں کو
مندروں میں گھنٹیوں جیسی ہواؤں کو
یہ سرحد میں بٹی دنیا وہ آری ہے
جو شیشم کے درختوں جنگلوں کو کاٹ دیتی ہے
پاٹ دیتی ہے مری ماں کو
میرے دادا کے دینے کو
خوں پسینے کو
سمادھی گردواروں، مندروں اور مسجدوں، گرجوں کو
مزاروں اور مڑھیوں خانقاہوں کو
یہ سرحد میں بٹی دنیا
شیشم کے درختوں جنگلوں کو کاٹ کر
کچھ بھی بنا دے
کتابوں سے بھری کوئی شیلف
یا چوباروں میں کھلتی نرگسی آنکھوں کی کھڑکی
کوئی بھگوان، کوئی بدھا
کسی سوہنے سلونے یار سانول ڈھول کی مورت
یا مصنوعی اعضا سپاہی کے
یا کسی پھانسی کے تختے کو بنائے
یہ سرحد میں بٹی دنیا
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
ماں میں آیا تھا
جنم بھومی میری بھومی
جنم تو نے دیا مجھ کو
تیرے پیروں کے نیچے
وہ جو جنت ہے
وہ جو ندی بہتی ہے کہتی ہے مجھ سے
تھک گیا ہے تو، اب تو سو جا، پر سو نہیں سکتا
مری مٹی مجھے کہتی ہے تو آ مٹی میں مٹی بن جا
چاک پر چڑھ جا کمہارن کے
پر ایسا ہو نہیں سکتا مگر میں سو نہیں سکتا
کیوں تیرا ہو نہیں سکتا؟
یہ سرحد میں بٹی دنیا
ماں!
میں آیا تھا
Inside The Pak Tea House سے انتخاب
مدیر کی آخری تدوین: