خرد اعوان
محفلین
ماں کوئی تجھ سا کہاں؟؟
موت کی آغوش میں جب تھک کر سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں
فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گھل جاتی ہے ماں
نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں
روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیئے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
ہڈیوں کا رس پلا کر اپنے دل کے چین کو
کتنی ہی راتوں میں خالی پیٹ سو جاتی ہے ماں
فکر کے شمشان میں آخر چتاؤں کی طرح
جیسے سوکھی لکڑیاں ہیں اس طرح جل جاتی ہے ماں
موت کی آغوش میں جب تھک کر سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں
فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گھل جاتی ہے ماں
نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں
روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیئے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
ہڈیوں کا رس پلا کر اپنے دل کے چین کو
کتنی ہی راتوں میں خالی پیٹ سو جاتی ہے ماں
فکر کے شمشان میں آخر چتاؤں کی طرح
جیسے سوکھی لکڑیاں ہیں اس طرح جل جاتی ہے ماں