بہادر شیرو
رمضان اور عید الفطر کی گہما گہمی ختم ہوتے ہی سب بچوں کو قربانی کی فکر شروع ہوجاتی ۔ ہر وقت جانوروں کے قصے چھڑے رہتے کھیل کا موقع ہوتا یا کھانے کا دستر خوان ہر بات کی تان بکروں ، چھتروں اور ویہڑوں پر ٹوٹتی ۔
روز بڑے پاپا سے کہا جاتا کہ قربانی کے جانور لے آئیں لیکن وہ ہنس کر ٹال دیتے ۔ پھر چھوٹے پاپا سے سفارش کروائی جاتی جو سنتے ہی کہہ دیتے بابا کے پاس جاؤ ۔
اس سال عجیب قصہ ہوا رمضان سے پہلے ہی بڑے پاپا تین سفید چھترے لے آئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ گرمی بہت ہے اور ڈیرے پر ان کی اچھی دیکھ بھال نہیں ہو رہی یہاں گھر میں انہیں رکھیں گے اور خوب کھلا پلا کر ان کی خدمت کریں گے ۔ بکرے نانو کے گھر رکھے گئے کیوں کہ وہاں کھلی جگہ تھی ۔
بکروں کے گھر آتے ہی گھر میں ہر طرف ہنگامہ مچ گیا بچوں کا خوشی سے عجب حال تھا ۔
ابوبکر نے جلدی سے آگے بڑھ کر سب سے موٹے گول مٹول بڑے بڑے بالوں والے چھترے کی رسی پکڑ لی اور بولا یہ میرا ہے ۔ چھوٹے پاپا کی افراح نے دوسرے کی رسی کو دبوچ لیا اور اعلان کردیا یہ میرا ہے ۔ حسن نے تیسرے کی طرف دیکھا کیونکہ اب وہی رہ گیا تھا نسبتا چھوٹے چھترے نے ایک ادا سے حسن کی طرف نگاہ کی ۔ حسن تو اس پر فدا ہوگیا اور دوڑکر اس کی رسی کو پکڑتے ہوئے بولا یہ میرا ہے یہ میرا ہے ۔
بابا نے بتایا کہ یہ چھترے گھر کے پلے ہوئے ہیں اورانہوں نے ان کے نام بھی رکھے ہوئے تھے ۔ ابوبکر والے کا نام شیرو تھا وہ سب کا لیڈر تھا تینوں جدھر جاتے وہ سب سے آگے ہوتا بڑی شان سے اکڑ کر چلتا اور دونوں کو اپنے رعب میں رکھتا ۔
دوسرے والے کا نام ببلو تھا ۔ صحت میں وہ شیرو سے تھوڑا ہی کم تھا لیکن شرارت میں اس سے بڑھ کر تھا ۔ افراح نے جب اس کی رسی کو پکڑا تو ایک دم اس نے شوخی سے چھلانگ لگا کراسے ایک ہلکی سی ٹکر رسید کی۔
حسن کا بکرا جس کا نام معصوم تھا اسم بامسمّی تھا ۔ معصوم شکل والا جسامت میں چھوٹا لیکن صحت میں ان سے موٹا تھا ۔ اس کی آنکھیں کالی تھیں جیسے سرمہ لگایا ہو منہ ایسے بھولے بھالے بناتا کہ بے اختیار اس پر پیار آجاتا ۔ حسن تو اس کے گلے میں باہیں ڈال کر اس سے لپٹ گیا اور اس نے بھی حسن کو اپنا پکا والا دوست بنا لیا
بابا نے کہا بہت گرمی ہے چلو ان چھتروں کو نہلا دیتے ہیں۔ تینوں جھٹ پٹ اندر سے صابن لے آئے لان میں پانی کا پائپ لایا گیا اور انہیں خوب صابن مل مل کر نہلا دیا ۔ وہ بالکل سفید روئی کے گالوں میں بدل گئے ۔
گھر جا کر پورا ہفتہ ابوبکر اور حسن چھتروں کو یاد کرتے رہے چھٹی کے دن وہ پھر نانو کے گھر پہنچ گئے اوراپنے اپنے چھترے کی رسی پکڑلی اور انہیں اپنے ہاتھوں سے چارا کھلانے لگے ۔ اتنے میں بڑے پاپا آتے دکھائی دئیے وہ اپنے ساتھ ایک آدمی کو لائے تھے جس نے مشین سے باری باری تینوں چھتروں کے بال اتار دئیے ۔ اتنے لمبے لمبے بال جب جسم سے اترے تو معلوم ہوا کہ ان کی ساری صحت اور موٹاپا بالوں کی وجہ سے تھا ۔ ابھی سب انہیں دیکھ رہے تھے کہ اچانک شیرو کی ٹانگیں کانپیں اور وہ نیچے گر گیا ۔ پاپا نے جلدی سے اسے پکڑکر بٹھایا ، پانی پلایا اور بھیا کو جانوروں کا ڈاکٹر لینے بھیج دیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے دیکھ کر بتایا اس کا بلڈ پریشر کم ہو گیا ہے اور اسے دوا دے دی ۔
کچھ دیر میں اس کی طبیعت بہتر ہوگئی ۔ پاپا نے کہا دراصل شیرو کی ساری پہلوانی اون کے ساتھ اتر گئی اور وہ صدمے سے گر گیا سب ہنسنے لگے لیکن اسے کوئی پرواہ نہیں تھی وہ اب بھی اپنی پتلی پتلی ٹانگوں سے دونوں کی لیڈری کر رہا تھا اور دونوں اس کے پیچھے پیچھے تھے۔
اسی گہما گہمی میں رمضان گزر گیا گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوگئیں ۔ تھوڑی بہت پڑھائی کے بعد بچوں کا سارا دن چھتروں کی ناز برداری میں گزرتا جو اچھی خوراک اور دیکھ بھال کی وجہ سے خوب موٹے ہوچکے تھے اور سب سے مانوس ہوگئے تھے ۔
شام کے وقت بھیا اپنی ریموٹ سے چلنے والی گاڑی باہر لے آئے تینوں چھترے لان میں گھاس چر رہے تھے بھیا نے برآمدے میں کھڑے ہوکر گاڑی کو چھتروں کی طرف گھما دیا ۔ پھر کیا تھا وہ تینوں گاڑی کو اپنے پیچھے آتے دیکھ کر حیران وپریشان ہوگئے اور بھاگتے ہوئے بھیا کے پاس آگئے معصوم تو باقاعدہ منہ اٹھا کر کبھی گاڑی کی طرف دیکھتا اور کبھی بھیا کے اور قریب ہوجاتا جیسے بھیا کو اس عجیب سی چیز کے بارے میں شکایت لگا رہا ہو ۔ ابوبکر اور حسن کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا حسن بولا جو ڈرا رہا ہے اسی سے شکایت کر رہے ہیں ۔ اب تو روز ہی شام کو بھیا اپنی گاڑی ان کے پیچھے بھگاتے اوروہ بھی مدد کے لیے بھیا ہی کے پاس آتے
اسی کھیل تماشے میں دن گزرتے جا رہے تھے ۔
جوں جوں عید قریب آرہی تھی ابوبکر، افراح اور حسن چُپ چپ رہنے لگے ۔ حسن جب بھی معصوم کے ساتھ کھیلتا تو اسے دیکھ کر اداس ہوجاتا اور گہری سوچ میں ڈوب جاتا ۔ کبھی کبھی تینوں سر جوڑ کر آہستہ آہستہ باتیں کرتے ، ادھر اُدھر دیکھتے اور سرجھکا کر چپکے سے آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرلیتے ۔
آخر عید کا دن آپہنچا ۔ معمول کے مطابق رات کو ہی ڈیرے سے پانچ چھ آدمی اپنے ساتھ ایک بڑا ویہڑہ لے کر آگئے ۔ پاپا چھریاں اورٹوکے وغیرہ دھار لگوا کر تیز کروا چکے تھے ۔ مُڈیاں جن پر گوشت بنایا جاتا ہے دو دن پہلے ہی سٹور سے نکلوا کر خوب اچھی طرح دھلوا لی تھیں ۔ صبح صبح ابوبکر اور حسن بھی سب گھروالوں کے ساتھ عید گاہ میں نماز ادا کرنے گئے ۔ واپس آتے ہی جانوروں کو ذبح کرنے کی تیاری شروع کردی گئی ایک طرف لوہے کے پائپ سے رسیاں باندھ دی گئیں ۔ چھترے لان میں دوسری طرف بندھے ہوئے تھے سب سے پہلے ویہڑے کوبڑے طریقے سے نیچے گرایا گیا اور اس کی ٹانگوں کو مضبوط رسی سے باندھ دیا گیا ۔ بڑے پاپا نے چھری پکڑی اور بسم االله الله اکبر کہہ کر ویہڑے کے گلے پر پھیر دی اس کے منہ سے ایک بلند آواز نکلی اور گردن سے بھل بھل خون بہنے لگا ابوبکر اور حسن بھیا کے ساتھ تھوڑے فاصلے پر کھڑے دیکھ رہے تھے ۔ دو آدمی ویہڑے کی کھال اتارنے کی تیاری کرنے لگے
اب چھتروں کی باری تھی جوایک طرف کھڑے چپکے چپکے ادھر دیکھ رہے تھے اگرچہ پاپا نے پردے کے خیال سے ان کے سامنے ایک چارپائی کھڑی کروا دی تھی ۔ پاپا نے بھیا کو آواز دی چھترا لے کر آؤ ۔ بھیا جب ان چھتروں کے پاس پہنچے تو شیرو فورا آگے بڑھا بھیا نے اس کی رسی کھولی شیرو گردن اٹھائے سینہ تانے بھیا کے پیچھے بڑی شان سے اکڑ کر چل رہا تھا ابوبکر ، حسن اور افراح حیران ہوکر آنسو بھری چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے ۔ نانو نے کھڑکی سے یہ منظر دیکھا تو شیرو کی بہادری پر انہیں بے ساختہ پیار آگیا ۔ اُن کے دل اے دعا نکلی کہ کاش ہم مسلمان بھی اپنے رب کے ہر حکم پر اسی جذبے سے عمل کرنے والے بن جائیں ۔
نزہت وسیم
فروری کے آخری دن تھے مارچ سے بچوں کے سکول میں نئے داخلے شروع ہونے والے تھے ۔ چھٹی کے دن ابوبکر ، حسن اور زیان نانو سے ملنے آئے ۔ سب اکٹھے بیٹھے باتیں کر رہے تھے تبھی زیان کی امی جان نے بتایا زیان چار سال کا ہوگیا ہے اس لیے اس سال وہ اسے سکول داخل کروا دیں گی ۔ زیان نے رونا شروع کر دیا نہیں میں سکول نہیں جاؤں گا ۔ آنسو اس کی گالوں پر بہہ رہے تھے اور وہ زور زور سے رو رہا تھا ۔ سب ایک دم پریشان ہوگئے ۔ ابوبکر نے زیان کو چُپ کرواتے ہوئے کہا بھلا تم سکول کیوں نہیں جاؤ گے سکول میں تو بہت مزا آتا ہے وہاں جھولے ہوتے ہیں پلے گروپ کے بچے کھلونوں سے کھیلتے ہیں اور پھر وہاں نئے نئے دوست بنتے ہیں بہت مزہ آتا ہے ۔ حسن بھی سر ہلا ہلا کر اس کی تائید کر رہا تھا ۔
زیان کی امی نے بتایا کہ جب بھی میں اس کے سامنے سکول جانے کا کہتی ہوں یہ رونے لگتا ہے ۔ نانو نے زیان کو اپنی گود میں بٹھا لیا ۔ اس کے آنسو صاف کیے اور اسے پیار کرتے ہوئے کہنے لگیں ۔
اچھے بچے سکول جاتے ہیں ۔ خوب پڑھتے ہیں اور اچھے انسان بنتے ہیں ۔ نانو نے کہا یہ آپ کے ماموں بیٹھے ہیں ان سے پوچھو کہ انہیں اپنے سکول کا پہلا دن یاد ہے ؟
ماموں جان نے ہنستے ہوئے بچوں کو بتایا مجھے سکول کا پہلا دن بہت اچھی طرح یاد ہے ۔ سکول میں پہلی جماعت میں داخلے کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویو تھا ۔ اس سے پہلے میں دو سال ایک اکیڈمی میں پڑھنے جایا کرتا تھا جہاں کھیل بھی ہوتے تھے اور پڑھائی بھی ۔ وہاں مجھے سکول میں داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کروائی جاتی تھی مجھے سب کچھ اچھی طرح آتا تھا ۔
ٹیسٹ کے دن امی جان اور دادا ابو بھی میرے ساتھ تھے ۔ سکول بہت بڑا اور خوبصورت تھا چاروں طرف بڑے بڑے گراؤنڈ تھے اور درمیان میں بے شمار کمرے گولائی میں بنے ہوئے تھے ۔ کمروں کے سامنے کھلے برآمدے تھے ۔ برآمدوں میں جگہ جگہ خوبصورت اور رنگ برنگے گملے رکھے تھے جن میں پیارے پیارے پھول کھلے ہوئے تھے ۔ سکول کی دیواروں کا رنگ سرخ تھا اور انہیں مختلف رنگوں کے پینٹ سے سجایا گیا تھا ۔ کہیں علم کی فضیلت پر قرآن مجید اور احادیث سے منتخب کلمات اور ان کا ترجمہ لکھا تھا توکہیں قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصویر کے ساتھ ان کے فرمان لکھے تھے۔ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ وہاں بے شمار بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ ٹیسٹ دینے کے لیے آئے ہوئے تھے ۔ بڑے سے گراؤنڈ میں مختلف کھیلوں کے لیے چیزیں لگی ہوئی تھیں ایک طرف سوئمنگ پول بنا ہوا تھا ۔ ابھی میں یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک بچہ اپنی امی اور ابو کے ساتھ آیا اور تیزی سے بھاگتے ہوئے سوئمنگ پول میں چھلانگ لگا دی ۔ اس کی امی اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی اور اس بچے کے ابواسے آوازیں دے رہے تھے لیکن بچہ کچھ نہیں سن رہا تھا سیدھا دھڑام سے پانی میں کود گیا ۔ کچھ لوگ ہنسنے لگے میں بہت حیرانی سے ادھر دیکھ رہا تھا ۔ اس بچے کو اس کے امی ابو نے سوئمنگ پول سے باہر نکالا اور پھر اسی طرح گیلے کپڑوں میں وہ ٹیسٹ دینے پہنچ گیا ۔
ابوبکر ، حسن اور زیان حیرانی سے ماموں جان کا قصہ سُن رہے تھے ۔ پھر کیا ہوا ماموں جان ابوبکر نے بے تابی سے پوچھا ۔
ماموں جان نے بتایا وہاں کچھ بچے ٹیسٹ کے ڈر سے رو رہے تھے ۔ جیسے زیان سکول کا نام سن کر رونے لگتا ہے ۔ امی جان نے کہا ادھر مت دیکھو آپ بہت بہادر بچے ہو اور آپ کو تو سب کچھ آتا ہے ۔ آپ احتیاط سے سارا پرچہ حل کرلینا ۔ میں نے جواب دیا ٹھیک ہے ۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے ڈر لگ رہا تھا ۔
حسن بولا ماموں جان آپ کو بھی ڈر لگا تھا ۔ ماموں نے کہا بھئی میں اس وقت ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور جیسے آپ لوگوں کو ڈر لگتا ہے مجھے بھی لگتا تھا ۔ سب ہنسنے لگے
اچھا پھر کیا ہوا ؟ نانو نے پوچھا
پھر یوں ہوا کہ سارے بچے اندر ایک بڑے سے ہال میں چلے گئے اور ان کے ماں باپ باہر رہ گئے ۔ سب بچوں کو بٹھا کر انہیں حل کرنے کے لیے پرچے دے دیے گئے ۔
میں نے آرام سے اپنا پرچہ کھولا اور اسے حل کرنا شروع کر دیا ۔ جب اردو کے حصے میں پہنچا تو جوڑ توڑ پر آکر اٹک گیا ۔ مجھے وہ لفظ لکھنا آتا تھا لیکن اس وقت بھول گیا ۔
وہ کیا لفظ تھا ۔ ابوبکر نے جلدی سے پوچھا
وہاں “میرا” لکھا ہوا تھا جس کا توڑ کرنا تھا ۔ اور میں چھوٹی ی اور بڑی ے کے بارے میں شک میں پڑ گیا کہ یہاں چھوٹی لکھنی ہے یا بڑی ۔
اسی وقت میں نے سر اٹھا کر ادھر اُدھر دیکھا تو اپنے ساتھ والی لائن میں مجھے ایک بچہ روتا ہوا نظر آیا ۔۔۔ میں بھی گھبرا گیا میری آنکھوں میں آنسوآگئے اور میں رونے لگا
سب بڑے دھیان سے ماموں جان کی داستانِ غم سن رہے تھے زیان کی تو آنکھوں میں آنسو آنا شروع ہوگئے اور ابوبکر اور حسن کا منہ بھی رونے والا ہو گیا
پھر پھر کیا ہوا ابوبکر نے تیزی سے سوال کیا ۔
وہاں ایک استانی صاحبہ تھیں انہوں نے مجھے دیکھا تو کہا آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ میں نے انہیں بتایا مجھے یہ لفظ لکھنا نہیں آرہا ۔ انہوں نے مجھے پیار کیا اور کہا اس کو چھوڑ دو اور باقی پرچہ حل کرو جب یاد آجائے گا تو لکھ لینا انہوں نے مجھے ٹشو پیپر دیا اور کہا اپنا منہ صاف کرو اور شاباش اچھے بچوں کی طرح رونا بند کرو اورباقی پرچہ حل کرو ۔
مجھے کچھ تسلی ہوئی اور میں باقی پرچہ حل کرنے لگا ۔
کیا آپ نے اس لفظ کو صحیح کرلیا تھا ؟ حسن نے سوال کیا
ہاں جب میں پرچہ حل کررہا تھا تو اسی دوران مجھے یاد آگیا کہ اسے کیسے لکھنا ہے پھر میں نے اسے بھی صحیح لکھ لیا ۔
جب ہم باہرآئے تو جو بچہ اندر رو رہا تھا اس نے باہر آتے ہی زور سے میری امی جان اور دادا ابو کے سامنے اپنی امی سے کہا امی امی یہ بچہ اندر رو رہا تھا ۔ مجھے بہت غصہ آیا
امی جان نے مجھ سے پوچھا کیا آپ روئے تھے ۔ میں نے کہا میں تو اتنی زور سے نہیں رویا جیسے یہ بچہ خود زور زور سے رو رہا تھا ۔ کیونکہ اس کے بعد انٹرویو بھی تھا اس لیے دادا ابو نے امی کواشارے سے منع کیا اور مجھے کہنے لگے میرا بچہ تو بہت بہادر ہے امی جان بھی ہنسنے لگیں ۔
کیا آپ کا انٹرویو بھی اسی دن ہوا ۔ ابوبکر نے پوچھا
ہاں دو گھنٹے کے بعد ہمارا انٹرویو بھی ہوا لیکن تب امی جان اور دادا ابو میرے ساتھ ہی تھے ۔ سکول کی ہیڈمسٹریس نے میرا انٹرویو لیا ۔ وہ جو بھی سوال پوچھتیں میں فورا کرسی پر سے کھڑا ہوجاتا اور جلدی سے جواب دے دیتا ۔ آخر انہوں نے کہا بیٹھے رہو لیکن میں پھر بھی ہر سوال کا جواب دینے کے لیے کھڑا ہوجاتا ۔
کیا آپ اس انٹرویو میں کامیاب ہوگئے ۔ ابوبکر نے ہوچھا
اور کیا وہ لڑکا جس نے سوئمنگ پول میں چھلانگ لگائی تھی وہ بھی پاس ہوگیا تھا ۔
ہاں بھئی میرا داخلہ اس سکول میں ہی ہوا اور وہ لڑکا بھی میری کلاس میں تھا اور ہم جب بھی سوئمنگ کی کلاس لیتے اس کا مذاق بنایا کرتے تھے ۔
ماموں جان نے بتایا کہ سکول میں بہت مزا آتا ہے پڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف کھیل اور نئے بچوں سے دوستی کا بہت مزا آتا ہے ۔
زیان کیا آپ سکول پڑھنے جاؤ گے ؟ ماموں جان نے زیان سے پوچھا
جی میں بھی سکول جاؤں گا ۔ پڑھوں گا ، کھیلوں گا بھی اور پانی میں تیرنا بھی سیکھوں گا زیان نے پورے عزم سے جواب دیا ۔
نزہت وسیم
سلام کہنے کی حکمت
یوں تو ابوبکر بہت سمجھدار اور تمیز دار بچہ تھا گھر میں جو بھی مہمان آتے وہ انہیں سلام کرتا نانوجان آتیں خالہ جان یا ماموں جان آتے سب کو آگے بڑھ کر سلام کرتا ۔ چچا جان اور ان کے بچے سب سے خوش ہوکر ملتا اورمسکرا کر سلام کرتا ابو جان کے دوست آتے یا تایا ابوکے یا پھر دادا جان سے ملنے ان کے دوست آجاتے وہ بھاگ کر جاتا اور سب کو سلام کرتا لیکن آج کل وہ بہت الجھن میں تھا
ہوا یوں کہ وہ سب لوگ اس جگہ کوچھوڑ کر نئی کالونی میں رہنے کے لیے آگئے نئی جگہ پر نیا سکول اور نئے لوگ تھے جنہیں ابوبکر بالکل نہیں جانتا تھا شروع شروع میں تو بہت اجنبیت محسوس کرتا رہا لیکن آہستہ آہستہ اس کی اپنے ہم جماعت بچوں سے دوستی ہونے لگی اور نئی جگہ پر اس کا دل لگنے لگا ۔ اگرچہ چھوٹے بھائی حسن کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا لیکن اس کا سکول جانا یہیں آکرشروع ہوا تھا اس لیے اسے زیادہ محسوس نہیں ہوا
ابوبکر اور حسن سکول سے واپس آئے سکول کی وردی بدل کر اورکھانا کھا کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ دادا جان کی آواز سنائی دی چلو بچو عصر کی نماز کا وقت ہوگیا ہے آؤ مسجد میں نماز پڑھنے چلیں ۔ دونوں نے جلدی جلدی وضو کیا اور دادا جان کے ساتھ مسجد کی طرف روانہ ہوگئے ۔ دیکھنا بھیا اب دادا جان ہر ایک کوسلام کریں گے ۔ باہر نکلنے سے پہلے حسن نے آہستہ آواز میں بھیا سے کہا تاکہ دادا جان سُن نہ سکیں ۔
ابوبکر نے حیران ہوکر اسے دیکھا اور سوچا کیا اسے بھی اس بات کا احساس ہے کہ دادا جان یونہی ہر کسی کو سلام کرتے ہیں کتنی شرمندگی ہوتی ہے ۔ نہ جان نہ پہچان اور ہر ایک کو سلام ۔ اس نے اپنے پاس سے محاورہ گھڑا ۔
باہر نکلے تو سامنے والے شیخ صاحب بھی گھر سے باہر آرہے تھے ۔ دادا جان نے اونچی آواز میں شیخ صاحب کو السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ کہا اور ان کا حال دریافت کیا ۔ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ سڑک کے موڑ پر ایک پھل والے کی دکان دکھائی دی دادا جان نے پھل والے کو بلند آواز سے سلام کیا اور خیریت دریافت کی ۔ ان کے گھر سے مسجد تھوڑے فاصلے پر تھی ۔ چلتے چلتے راستے میں جو شخص نظر آتا دادا جان اسے بلند آواز سے السلام علیکم کہتے ۔
دادا جان کی ہمیشہ سے یہی عادت تھی کہ وہ سب سے پہلے بلند آواز سے سلام کرتے ۔جب بھی گھر میں داخل ہوتے تو زور سے السلام علیکم کہتے
پہلے جس علاقے میں رہتے تھے وہاں کے تمام لوگوں سے ابوبکر اور عمر کی واقفیت تھی ۔ وہاں تو ابوبکر اور عمر اکیلے مسجد بھی چلے جاتے کیونکہ مسجد گھر کے بالکل قریب تھی ۔ وہاں بھی دادا جان جب گھر سے نکلتے ہر ایک کو بلند آواز سے سلام کرتے اور اس کا حال دریافت کرتے تھے ۔ لیکن وہاں ان دونوں کو عجیب نہیں لگتا تھا کیونکہ وہ سب کو جانتے تھے ۔ اس نئے علاقے میں دادا جان ہر انجان شخص کو جب سلام کرتے تو ابوبکر اور حسن بہت حیران ہوتے اور انہیں اس بات پر حیرت ہوتی کہ دادا ابو اس شخص کو جانتے بھی نہیں پھر بھی سلام کرتے ہیں ۔
یہی سب سوچتے سوچتے مسجد قریب آگئی ۔ اتنے میں ان کے پاس ایک گاڑی آکر رکی اور سوٹ بوٹ پہنے ایک شخص گاڑی سے اترا دادا جان نے فورا اسے اونچی آواز سے السلام علیکم کہا اس شخص نے حیران نظروں سے دادا جان کی طرف دیکھا اور آہستہ سے سلام کا جواب دیا دادا جان آگے بڑھ چکے تھے لیکن ابوبکر اس شخص کو مڑ کر دیکھ رہا تھا جو دادا جان کے سلام کرنے پر غور سے انہیں اور ان کے ساتھ دونوں بچوں کو دیکھ رہا تھا ۔ دادا جان نے جب دیکھا کہ ابوبکر پیچھے رہ گیا ہے تو انہوں نے آواز دی آجاؤ ابوبکر نماز کا وقت ہورہا ہے ۔ جب ابوبکر دادا ابو کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا کیا بات ہے تم کس الجھن میں ہو ؟
بالاخر ابوبکر نے دادا جان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ تو ان صاحب کو جانتے نہیں نہ ہی وہ آپ سے واقف ہیں پھر آپ نے انہیں سلام کیوں کیا ؟
دادا جان نے جواب دیا کہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے ایک فرمان مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ سلام کو پھیلاؤ اور یہ کہ ہر جاننے والے اور انجان کو سلام کرو ۔ یہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے اور ہر سنت میں حکمت ہے دادا جان نے اپنا مشہور قول دہرایا پھر بتایا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھی اس سنت پر اس قدر عمل کرتے تھے کہ اگر دو لوگوں کے درمیان درخت بھی آجاتا تو وہاں سے گزر کر ایک دوسرے کو سلام کہتے تھے ۔ اور راستے میں کوئی انجان شخص بھی ملتا تو اسے بھی سلام کرتے تھے یہ کہہ کر دادا جان ابوبکر اور حسن کا ہاتھ پکڑ کر دعا پڑھتے ہوئے مسجد میں داخل ہوگئے ۔
اس واقعے کو دودن ہی ہوئے تھے عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ابوبکر اپنی سائیکل لے کر گھر سے باہر نکل آیا ۔ چند ماہ پہلے یہ سائیکل کلاس چہارم میں پہلی پوزیشن لینے پر ابا جان نے اسے انعام کے طور پر لے کر دی تھی اور اب ابوبکر کو اسے چلانے میں کافی مہارت ہوگئی تھی ۔ امی جان نے اسے ہدایت کی کہ گھر کے آس پاس ہی رہنا نیا علاقہ ہے ابھی آپ یہاں کے راستوں سے انجان ہیں ایسا نہ ہو کہ گھر کا راستہ بھول جائیں ۔ ابوبکر نے سعادت مندی سے اچھا جی کہا اور باہر نکل آیا ۔ ادھر اُدھر دیکھتے اور سائیکل چلاتے ہوئے ایک سڑک سے دوسری پر مڑتے مڑتے اسے احساس ہی نہ ہوا کہ وہ گھر سے کافی دور نکل آیا ہے ۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ اس کا گھر کس طرف ہے اس نے سائیکل کو واپس موڑا تو سامنے ہی اسے ایک بڑا سا باغ نظر آیا جس میں سائیکل چلانے کا ٹریک بھی بنا ہوا تھا وہ بہت خوش ہوا اور سائیکل لے کر باغ میں داخل ہوگیا ۔ سائیکل چلانے والے ٹریک کے ساتھ دوسرا ٹریک جوگنگ کرنے اور پیدل چلنے والوں کے لیے تھا ۔ ابوبکر اپنے ٹریک پر تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اس باغ کے مالی نے اسے روک لیا اور کہا اچھا تو تم ہی وہ لڑکے ہو جو ہر روز باغ سے پھول توڑ کر لے جاتے ہو ۔ کہاں سے آئے ہو تم ؟
ابوبکر یہ سن کر گھبرا گیا اور فورا بولا نہیں جناب میں نے تو کسی پھول کو ہاتھ بھی نہیں لگایا اور نہ ہی میں اس سے پہلے یہاں آیا ہوں ۔ لیکن مالی بابا اس کی بات ماننے کے لیے تیار نہ تھے اس لیے انہوں نے پھر پوچھا کہاں رہتے ہوتم ۔ ابوبکر گڑبڑا گیا اور گھبراہٹ میں الٹے سیدھے جواب دینے لگا کہ میں پچھلی گلی میں رہتا ہوں ۔ مالی بابا نے کہا پیچھے تو بڑی سڑک ہے کیا تم سڑک پار سے آئے ہو ؟ نن نن نہیں ۔۔ نیا علاقہ ہونے کی وجہ سے ابوبکر کو سمتوں کی سمجھ نہیں آرہی وہ مزید گھبرا گیا اتنے میں جوگنگ ٹریک سے ایک شخص نے انہیں دیکھا اور پوچھا عبدل کیا بات ہے کیا ہوا ہے ؟
عبدل نے کہا احمد صاحب یہ لڑکا ناجانے کہاں سے آیا ہے مجھے لگتا ہے کہ یہی ہر روز باغ سے پھول توڑ کر لے جاتا ہے آج میں نے اسے پکڑ لیا ہے ۔ یہ سن کر ابوبکر بہت پریشان ہوااس کا رنگ اڑ گیا اس نے سوچا میں تو یہاں کسی کو نہیں جانتا اور نہ کوئی مجھے جانتا ہے اب کیا ہوگا ؟ اس نے فورا کہا میں چور نہیں ہوں
احمد صاحب نے کہا عبدل یہ تو بہت اچھا بچہ ہے برابر والی کالونی سے آیا ہے ہر روز اس کے دادا ابو سے میری سلام دعا ہوتی ہے ۔ بھلے خاندان کا بچہ ہے یہ چور نہیں اور انہوں نے ابوبکر کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار کیا ابوبکر کا دھڑکتا دل ٹہر سا گیا اسےبہت تسلی ہوئی ۔اس نے غور سے دیکھا یہ تو وہی صاحب تھے جو اس دن مسجد کے پاس گاڑی سے اترے تھے اور جنہیں دادا ابو کے سلام کرنے پر اس نے خفت محسوس کی تھی ۔ احمد صاحب اس کے ساتھ چلتے اسے باغ سے باہر لے آئے اور اس کے گھر کی سمت چلنے لگے ۔ کیا تم گھر کا راستہ بھول گئے ہو ؟ انہوں نے نرمی سے سوال کیا
ابوبکر گم سم سا ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ کیا جواب دے اسے اپنے گھر کا راستہ دکھائی دیا سڑک کے موڑ پر پھل والے نے جونہی ابوبکر کو دیکھا تو فورا بولا بیٹا تم کہاں گئے تھے ابھی تمہارے دادا جان تمہیں ڈھونڈ رہے تھے اور یہ تمہارے ساتھ کون ہے کیا تم انہیں جانتے ہو اس نے مشکوک نظروں سے احمد صاحب کو دیکھا ۔
میں گھر کا راستہ بھول گیا تھا اور دوسری کالونی میں چلا گیا تھا یہ صاحب مجھے یہاں تک لائے ہیں ۔ آپ کا بہت شکریہ
احمد صاحب نے کہا اچھا تم اس گلی میں رہتے ہو اب سیدھے اپنے گھر جاؤ یہ کہہ کر وہ واپس لوٹ گئے ۔ دادا جان مغرب کی نماز کے لیے گھر سے نکل رہے تھے انہوں نے ابوبکر سے کہا جلدی سے سائیکل کھڑی کرکے آجاؤ حسن بھی ان کے ہمراہ تھا ۔ ابوبکر سائیکل گھر میں چھوڑ کر بھاگ کر آ گیا ۔ دادا ابو راستے میں ملنے والے ہر شخص کو اونچی آواز سے السلام علیکم کہہ رہے تھے اور ابوبکر بھی ساتھ ہی کہتا السلام علیکم انکل ۔
دادا جان نے بڑے غور سے ابوبکر کو سلام کرتے سنا اور مطمئن انداز میں یہ سوچ کر مسکرا دیے کہ ابوبکر نے آج میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کی ایک سنت کی حکمت کو جان لیا ہے انہوں نے زیرلب الحمد لله کہا اور وضو کرنے لگے ۔
نماز کے بعد گھر لوٹتے ہوئے دادا جان کے ساتھ ساتھ ابوبکربھی بلند آواز سے السلام علیکم انکل کہہ رہاتھا کیونکہ آج اسے بڑوں کو سلام کرنے کی حکمت خوب سمجھ آگئی تھی ۔
نزہت وسیم
سلام کہنے کی حکمت
یوں تو ابوبکر بہت سمجھدار اور تمیز دار بچہ تھا گھر میں جو بھی مہمان آتے وہ انہیں سلام کرتا نانوجان آتیں خالہ جان یا ماموں جان آتے سب کو آگے بڑھ کر سلام کرتا ۔ چچا جان اور ان کے بچے سب سے خوش ہوکر ملتا اورمسکرا کر سلام کرتا ابو جان کے دوست آتے یا تایا ابوکے یا پھر دادا جان سے ملنے ان کے دوست آجاتے وہ بھاگ کر جاتا اور سب کو سلام کرتا لیکن آج کل وہ بہت الجھن میں تھا
ہوا یوں کہ وہ سب لوگ اس جگہ کوچھوڑ کر نئی کالونی میں رہنے کے لیے آگئے نئی جگہ پر نیا سکول اور نئے لوگ تھے جنہیں ابوبکر بالکل نہیں جانتا تھا شروع شروع میں تو بہت اجنبیت محسوس کرتا رہا لیکن آہستہ آہستہ اس کی اپنے ہم جماعت بچوں سے دوستی ہونے لگی اور نئی جگہ پر اس کا دل لگنے لگا ۔ اگرچہ چھوٹے بھائی حسن کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا لیکن اس کا سکول جانا یہیں آکرشروع ہوا تھا اس لیے اسے زیادہ محسوس نہیں ہوا
ابوبکر اور حسن سکول سے واپس آئے سکول کی وردی بدل کر اورکھانا کھا کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ دادا جان کی آواز سنائی دی چلو بچو عصر کی نماز کا وقت ہوگیا ہے آؤ مسجد میں نماز پڑھنے چلیں ۔ دونوں نے جلدی جلدی وضو کیا اور دادا جان کے ساتھ مسجد کی طرف روانہ ہوگئے ۔ دیکھنا بھیا اب دادا جان ہر ایک کوسلام کریں گے ۔ باہر نکلنے سے پہلے حسن نے آہستہ آواز میں بھیا سے کہا تاکہ دادا جان سُن نہ سکیں ۔
ابوبکر نے حیران ہوکر اسے دیکھا اور سوچا کیا اسے بھی اس بات کا احساس ہے کہ دادا جان یونہی ہر کسی کو سلام کرتے ہیں کتنی شرمندگی ہوتی ہے ۔ نہ جان نہ پہچان اور ہر ایک کو سلام ۔ اس نے اپنے پاس سے محاورہ گھڑا ۔
باہر نکلے تو سامنے والے شیخ صاحب بھی گھر سے باہر آرہے تھے ۔ دادا جان نے اونچی آواز میں شیخ صاحب کو السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ کہا اور ان کا حال دریافت کیا ۔ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ سڑک کے موڑ پر ایک پھل والے کی دکان دکھائی دی دادا جان نے پھل والے کو بلند آواز سے سلام کیا اور خیریت دریافت کی ۔ ان کے گھر سے مسجد تھوڑے فاصلے پر تھی ۔ چلتے چلتے راستے میں جو شخص نظر آتا دادا جان اسے بلند آواز سے السلام علیکم کہتے ۔
دادا جان کی ہمیشہ سے یہی عادت تھی کہ وہ سب سے پہلے بلند آواز سے سلام کرتے ۔جب بھی گھر میں داخل ہوتے تو زور سے السلام علیکم کہتے
پہلے جس علاقے میں رہتے تھے وہاں کے تمام لوگوں سے ابوبکر اور عمر کی واقفیت تھی ۔ وہاں تو ابوبکر اور عمر اکیلے مسجد بھی چلے جاتے کیونکہ مسجد گھر کے بالکل قریب تھی ۔ وہاں بھی دادا جان جب گھر سے نکلتے ہر ایک کو بلند آواز سے سلام کرتے اور اس کا حال دریافت کرتے تھے ۔ لیکن وہاں ان دونوں کو عجیب نہیں لگتا تھا کیونکہ وہ سب کو جانتے تھے ۔ اس نئے علاقے میں دادا جان ہر انجان شخص کو جب سلام کرتے تو ابوبکر اور حسن بہت حیران ہوتے اور انہیں اس بات پر حیرت ہوتی کہ دادا ابو اس شخص کو جانتے بھی نہیں پھر بھی سلام کرتے ہیں ۔
یہی سب سوچتے سوچتے مسجد قریب آگئی ۔ اتنے میں ان کے پاس ایک گاڑی آکر رکی اور سوٹ بوٹ پہنے ایک شخص گاڑی سے اترا دادا جان نے فورا اسے اونچی آواز سے السلام علیکم کہا اس شخص نے حیران نظروں سے دادا جان کی طرف دیکھا اور آہستہ سے سلام کا جواب دیا دادا جان آگے بڑھ چکے تھے لیکن ابوبکر اس شخص کو مڑ کر دیکھ رہا تھا جو دادا جان کے سلام کرنے پر غور سے انہیں اور ان کے ساتھ دونوں بچوں کو دیکھ رہا تھا ۔ دادا جان نے جب دیکھا کہ ابوبکر پیچھے رہ گیا ہے تو انہوں نے آواز دی آجاؤ ابوبکر نماز کا وقت ہورہا ہے ۔ جب ابوبکر دادا ابو کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا کیا بات ہے تم کس الجھن میں ہو ؟
بالاخر ابوبکر نے دادا جان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ تو ان صاحب کو جانتے نہیں نہ ہی وہ آپ سے واقف ہیں پھر آپ نے انہیں سلام کیوں کیا ؟
دادا جان نے جواب دیا کہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے ایک فرمان مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ سلام کو پھیلاؤ اور یہ کہ ہر جاننے والے اور انجان کو سلام کرو ۔ یہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے اور ہر سنت میں حکمت ہے دادا جان نے اپنا مشہور قول دہرایا پھر بتایا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھی اس سنت پر اس قدر عمل کرتے تھے کہ اگر دو لوگوں کے درمیان درخت بھی آجاتا تو وہاں سے گزر کر ایک دوسرے کو سلام کہتے تھے ۔ اور راستے میں کوئی انجان شخص بھی ملتا تو اسے بھی سلام کرتے تھے یہ کہہ کر دادا جان ابوبکر اور حسن کا ہاتھ پکڑ کر دعا پڑھتے ہوئے مسجد میں داخل ہوگئے ۔
اس واقعے کو دودن ہی ہوئے تھے عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ابوبکر اپنی سائیکل لے کر گھر سے باہر نکل آیا ۔ چند ماہ پہلے یہ سائیکل کلاس چہارم میں پہلی پوزیشن لینے پر ابا جان نے اسے انعام کے طور پر لے کر دی تھی اور اب ابوبکر کو اسے چلانے میں کافی مہارت ہوگئی تھی ۔ امی جان نے اسے ہدایت کی کہ گھر کے آس پاس ہی رہنا نیا علاقہ ہے ابھی آپ یہاں کے راستوں سے انجان ہیں ایسا نہ ہو کہ گھر کا راستہ بھول جائیں ۔ ابوبکر نے سعادت مندی سے اچھا جی کہا اور باہر نکل آیا ۔ ادھر اُدھر دیکھتے اور سائیکل چلاتے ہوئے ایک سڑک سے دوسری پر مڑتے مڑتے اسے احساس ہی نہ ہوا کہ وہ گھر سے کافی دور نکل آیا ہے ۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ اس کا گھر کس طرف ہے اس نے سائیکل کو واپس موڑا تو سامنے ہی اسے ایک بڑا سا باغ نظر آیا جس میں سائیکل چلانے کا ٹریک بھی بنا ہوا تھا وہ بہت خوش ہوا اور سائیکل لے کر باغ میں داخل ہوگیا ۔ سائیکل چلانے والے ٹریک کے ساتھ دوسرا ٹریک جوگنگ کرنے اور پیدل چلنے والوں کے لیے تھا ۔ ابوبکر اپنے ٹریک پر تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اس باغ کے مالی نے اسے روک لیا اور کہا اچھا تو تم ہی وہ لڑکے ہو جو ہر روز باغ سے پھول توڑ کر لے جاتے ہو ۔ کہاں سے آئے ہو تم ؟
ابوبکر یہ سن کر گھبرا گیا اور فورا بولا نہیں جناب میں نے تو کسی پھول کو ہاتھ بھی نہیں لگایا اور نہ ہی میں اس سے پہلے یہاں آیا ہوں ۔ لیکن مالی بابا اس کی بات ماننے کے لیے تیار نہ تھے اس لیے انہوں نے پھر پوچھا کہاں رہتے ہوتم ۔ ابوبکر گڑبڑا گیا اور گھبراہٹ میں الٹے سیدھے جواب دینے لگا کہ میں پچھلی گلی میں رہتا ہوں ۔ مالی بابا نے کہا پیچھے تو بڑی سڑک ہے کیا تم سڑک پار سے آئے ہو ؟ نن نن نہیں ۔۔ نیا علاقہ ہونے کی وجہ سے ابوبکر کو سمتوں کی سمجھ نہیں آرہی وہ مزید گھبرا گیا اتنے میں جوگنگ ٹریک سے ایک شخص نے انہیں دیکھا اور پوچھا عبدل کیا بات ہے کیا ہوا ہے ؟
عبدل نے کہا احمد صاحب یہ لڑکا ناجانے کہاں سے آیا ہے مجھے لگتا ہے کہ یہی ہر روز باغ سے پھول توڑ کر لے جاتا ہے آج میں نے اسے پکڑ لیا ہے ۔ یہ سن کر ابوبکر بہت پریشان ہوااس کا رنگ اڑ گیا اس نے سوچا میں تو یہاں کسی کو نہیں جانتا اور نہ کوئی مجھے جانتا ہے اب کیا ہوگا ؟ اس نے فورا کہا میں چور نہیں ہوں
احمد صاحب نے کہا عبدل یہ تو بہت اچھا بچہ ہے برابر والی کالونی سے آیا ہے ہر روز اس کے دادا ابو سے میری سلام دعا ہوتی ہے ۔ بھلے خاندان کا بچہ ہے یہ چور نہیں اور انہوں نے ابوبکر کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار کیا ابوبکر کا دھڑکتا دل ٹہر سا گیا اسےبہت تسلی ہوئی ۔اس نے غور سے دیکھا یہ تو وہی صاحب تھے جو اس دن مسجد کے پاس گاڑی سے اترے تھے اور جنہیں دادا ابو کے سلام کرنے پر اس نے خفت محسوس کی تھی ۔ احمد صاحب اس کے ساتھ چلتے اسے باغ سے باہر لے آئے اور اس کے گھر کی سمت چلنے لگے ۔ کیا تم گھر کا راستہ بھول گئے ہو ؟ انہوں نے نرمی سے سوال کیا
ابوبکر گم سم سا ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ کیا جواب دے اسے اپنے گھر کا راستہ دکھائی دیا سڑک کے موڑ پر پھل والے نے جونہی ابوبکر کو دیکھا تو فورا بولا بیٹا تم کہاں گئے تھے ابھی تمہارے دادا جان تمہیں ڈھونڈ رہے تھے اور یہ تمہارے ساتھ کون ہے کیا تم انہیں جانتے ہو اس نے مشکوک نظروں سے احمد صاحب کو دیکھا ۔
میں گھر کا راستہ بھول گیا تھا اور دوسری کالونی میں چلا گیا تھا یہ صاحب مجھے یہاں تک لائے ہیں ۔ آپ کا بہت شکریہ
احمد صاحب نے کہا اچھا تم اس گلی میں رہتے ہو اب سیدھے اپنے گھر جاؤ یہ کہہ کر وہ واپس لوٹ گئے ۔ دادا جان مغرب کی نماز کے لیے گھر سے نکل رہے تھے انہوں نے ابوبکر سے کہا جلدی سے سائیکل کھڑی کرکے آجاؤ حسن بھی ان کے ہمراہ تھا ۔ ابوبکر سائیکل گھر میں چھوڑ کر بھاگ کر آ گیا ۔ دادا ابو راستے میں ملنے والے ہر شخص کو اونچی آواز سے السلام علیکم کہہ رہے تھے اور ابوبکر بھی ساتھ ہی کہتا السلام علیکم انکل ۔
دادا جان نے بڑے غور سے ابوبکر کو سلام کرتے سنا اور مطمئن انداز میں یہ سوچ کر مسکرا دیے کہ ابوبکر نے آج میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کی ایک سنت کی حکمت کو جان لیا ہے انہوں نے زیرلب الحمد لله کہا اور وضو کرنے لگے ۔
نماز کے بعد گھر لوٹتے ہوئے دادا جان کے ساتھ ساتھ ابوبکربھی بلند آواز سے السلام علیکم انکل کہہ رہاتھا کیونکہ آج اسے بڑوں کو سلام کرنے کی حکمت خوب سمجھ آگئی تھی ۔
نزہت وسیم
یہ کہانی خاص طور پہ پسند آئ -اس میں بچوں کے لئے تو ایک سبق ہے کہ سلام میں پہل چاہے شناسا ہو یا انجان -بڑوں کے لئے دو سبق ہیں ایک تو وہی جو بچوں کے لئے تھا دوسرا یہ کہ بچے بہت باریک بین ہوتے ہیں ان کی تربیت کو ہرگز سطحی اور سرسری طور پہ نہ لینا چاہئے نیز که کر دکھانے سے کر کے دکھانا زیادہ مؤثر ہے اچھی بات کے فروغ کے لئے -پھر کہانی میں ایک سنّت کی حکمت کو بیان کیا گیا جس سے کہانی میں دلچسپی کا عنصر بھی پیدا ہو گیا -
یہ کہانی خاص طور پہ پسند آئ -اس میں بچوں کے لئے تو ایک سبق ہے کہ سلام میں پہل چاہے شناسا ہو یا انجان -بڑوں کے لئے دو سبق ہیں ایک تو وہی جو بچوں کے لئے تھا دوسرا یہ کہ بچے بہت باریک بین ہوتے ہیں ان کی تربیت کو ہرگز سطحی اور سرسری طور پہ نہ لینا چاہئے نیز که کر دکھانے سے کر کے دکھانا زیادہ مؤثر ہے اچھی بات کے فروغ کے لئے -پھر کہانی میں ایک سنّت کی حکمت کو بیان کیا گیا جس سے کہانی میں دلچسپی کا عنصر بھی پیدا ہو گیا -
جوائے لینڈ کی سیر
گرمی رخصت ہوئی اور موسم کچھ خوشگوار ہوا تو ابوبکر اور حسن کے امی ابو بچوں کے اصرار پر انہیں جوائے لینڈ لے گئے ۔ جوائے لینڈ فورٹرس سٹیڈیم لاہور میں بنایا گیا ایک تفریحی پارک ہے ۔ جہاں مختلف قسم کے جھولے لگائے گئے ہیں ۔ان جھولوں میں بچوں کے علاوہ بڑے بھی بہت شوق سے بیٹھتے اور لطف اٹھاتے ہیں ۔ جوائے لینڈ میں ہر قسم کے جھولے ہیں جن میں بہت چھوٹے بچوں کے مزے مزے کے اوپر نیچے ہونے والے جھولے ، گول گول گھومنے والے گھوڑے اور بطخ کی شکل کے جھولے شامل ہیں ۔ پھر ذرا بڑی عمر کے بچوں کے لیے آکٹوپس جو گول گول اوپرگھومتے ہیں اور اوپر نیچے جاتے ہیں ، ہوا میں گھومنے والے پینگ کی شکل کے جھولے جو پہلے نیچے گھومتے ہیں پھر آہستہ آہستہ بلندی پر جا کر گھومتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ٹرین جو پورے جوائے لینڈ کا چکر لگاتی ہے ۔ اور بلندی پر بنی مونو کار جس میں بیٹھ کر اوپر سے سارے گراؤنڈ کا چکر لگاتے ہیں اور سب جھولوں اور جھولے میں بیٹھے لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں ۔
ابوبکر اور حسن کے ساتھ ان کی پھوپھو جان اور ان کے بچے عبد الله ، اردھم اور نور بھی تھے ۔ بچے جھولوں میں سیر کرنے اور وہاں گھومنے پھرنے کے لیے بہت پرجوش تھے ۔ ماما اور پھوپھو آگے آگے تھیں ان کے پیچھے بچے اور سب سے آخر میں بابا اور انکل ۔ ابوبکر اور حسن کا خوشی سے چہک رہے تھے ، عبد الله بھی بہت پرجوش تھا ، اردھم اور نوری ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں ۔
کیا تم پہلے کبھی یہاں آئے ہو ؟ عبد الله نے حسن سے پوچھا ۔ جی ہاں ہم پہلے بھی کئی بار آچُکے ہیں ۔ یہاں بہت اچھے جھولے ہیں ۔ اورڈوجنگ کار بھی ہیں ۔ عبد الله نے جلدی سے کہا ۔
ہاں بھئی ہم ڈوجنگ کار پر بھی بیٹھیں گے پہلے سب بچے بینڈ لگوا لو ۔ بابا نے حسن کا بازو پکڑ کر کہا ۔
جوائے لینڈ میں ہر جھولے کے لیے الگ ٹکٹ خریدنی پڑتی ہے ۔ لیکن بچوں کے لیے ایک مخصوص بینڈ ہوتا ہے جسے خرید کر لگا لیں تو کچھ جھولوں کے علاوہ باقی سارے جھولوں سے بچے جتنی بار چاہیں جھولے لے سکتے ہیں ۔
سب بچوں نے جلدی جلدی بینڈ لگوایا ۔۔
ابوبکر نے کہا میں سب سے پہلے فری فال پر بیٹھوں گا ۔
اس کی امی کہنے لگیں نہیں بھئی فری فال بہت خوفناک جھولا ہے اور بچے اس پر نہیں بیٹھتے ۔ ابو بکر کی پھوپھو جان جلدی سے بولیں ہاں بھئی سات سال سے چھوٹے بچے نہیں بیٹھتے ابوبکر نو سال کا ہے اور اردھم دس سال کی اس لیے ہم فری فال پر بیٹھ سکتے ہیں ۔ اور وہ دونوں کو لے کر فری فال میں بیٹھ گئیں ۔ فری فال ریل گاڑی کی بوگی جیسا جھولا ہے جو اوپر سے کھلا ہوتا ہے لیکن ہر سیٹ کے ساتھ سیٹ لاک لگا ہوتا ہے ۔ بیٹھ کر حفاظتی جنگلا لگا کر اسے لاک کر دیتے ہیں ۔ بوگی سیدھی اوپر چلی جاتی ہے اور کافی بلندی پر جا کر تھوڑی دیر رُک جاتی ہے ۔ پھر ایک دم سے اسے چھوڑ دیا جاتا ہے چنانچہ تیزی سے نیچے آتی ہے ۔ اسی لیے اسے فری فال یعنی ایک دم گرنا کہتے ہیں ۔ تینوں اس میں بیٹھ گئے اور باقی لوگ نیچے کھڑے ہوکر انہیں دیکھنے لگے ۔ جھولا آہستہ آہستہ بلندی پر گیا اور وہاں رُک گیا ۔ پھر جونہی تیزی سے نیچے آیا ابوبکر اور اردھم زور زور سے چیخنے لگے ۔ پھوپھو کے چہرے پر بھی کچھ دیر کے لیے خوف نظر آیا پھر ہنسنے لگیں ذرا سی دیر میں جھولا دھڑم کرکے نیچے آگیا ۔ تھوڑی دیر بعد پھر دوبارہ اوپر کو جانے لگا اب ابوبکر اور اردھم دوبارہ ڈر سے چیخ رہے تھے حالانکہ ابھی ڈرنے کی کوئی بات نہیں تھی جھولے میں ایک بار بیٹھ جائیں تو جب تک باری مکمل نہیں ہوتی اسے بند نہیں کرتے اس لیے اب ابوبکر اور اردھم کوڈر کے باوجود فری فال میں بیٹھے رہنا تھا دوسری بار بھی جھولا ایک دم نیچے آیا ۔
ابوبکر نے نیچے اتر کر حسن ، عبد الله اور نور کو بتایا کہ سچ میں جب جھولا نیچے آتا ہے تو بہت ڈر لگتا ہے ۔
اس جھولے کے ساتھ ہی پیرٹ بوٹ تھی سب اس میں بیٹھ گئے ماما اور بابا بچوں کے ساتھ تھے پھوپھو اور انکل بھی اپنے بچوں کو لے کر بیٹھ گئے ۔ یہ ایک بڑی سی کشتی کی شکل کا جھولا ہے جب بجلی کی مدد سے چلتا ہے تو شروع میں یوں محسوس ہوتا ہے کی آہستہ آہستہ سمندر میں کشتی بہہ رہی ہے پھر ہولے ہولے تیز ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جیسے سمندری طوفان کی اونچی لہروں پر کشتی اوپر چلی جاتی ہے پھر نیچے آتی ہے پھر اوپر اور اوپر جاتی ہے ۔ اسی طرح یہ کشتی ایک طرف سے دوسری طرف تیز تیز جھولے دیتی ہے ۔ جونہی کشتی تیز ہوئی بچوں نے ڈر سے چیخنا شروع کر دیا ۔ اردھم کو اگرچہ ڈر نہیں لگ رہا تھا لیکن اسے بھی چیخنے سے بہت مزہ آیا ۔ ابوبکر کی ماما بھی اس کے ساتھ مل کر ہنستے ہوئے چیختیں ۔ اصل میں جھولے جھولتے ہوئے چیخوں اور شور کرنے سے مزہ آتا ہے ۔ بعد میں انہوں نے ابوبکر کی پھوپھو جان کو بتایا تو حسن بہت حیران ہوا ۔ اس نے سوچا اگلے جھولے میں بیٹھوں گا تو میں بھی یہ تجربہ کرکے دیکھوں گا ۔
بابا نے کہا چلو اب ذرا گھومنے والے کپوں کا مزہ لیتے ہیں ۔
ابوبکر نے اس جھولے کو غور سے دیکھا ۔ ایک بڑی سی پلیٹ نظر آرہی تھی جس میں اتنے بڑے کپ تھے کہ ایک کپ میں چار پانچ لوگ بیٹھ سکتے تھے اور درمیان میں ایک بڑی سی چائے دانی بنی ہوئی تھی ۔ واہ یہ تو چائے کا سیٹ ہے ۔ سب بچے بھاگتے ہوئے چائے کے پیالوں میں بیٹھ گئے اردھم ،نور اور عبدالله اپنے ماما بابا کے ساتھ دوسرے کپ میں بیٹھے اور پھر کپوں نے گھومنا شروع کردیا ۔ یہ کپ اپنے اردگرد بھی گھوم رہے تھے اور پھر اس بڑی سی پلیٹ میں بھی گول گول گھومتے تھے ۔ اور پلیٹ بھی اوپر نیچے گھومتی تھی ۔ حسن نے پہلے تو خوشی سے آواز نکالی لیکن بعد میں گھومنے کی وجہ سے اسے چکر آنے لگا ۔ ماما بابا بھی زور زور سے ہنس رہے تھے بچے ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوش ہورہے تھے اور تیزی سے گول گول گھوم رہے تھے ۔ چکر مکمل ہوا تو سب گھومتے سروں کے ساتھ جھولے سے اتر آئے ۔ سب کو بہت لطف آرہا تھا ۔ اب انہیں بھوک بھی لگنے لگی تھی چنانچہ بابا نے انہیں کینٹین کی کرسیوں پر بیٹھنے کو کہا اور سب کو ان کی پسند کی چیزیں کھانے کے لیے لے دیں ، ساتھ جوس بھی لے دیا ۔ کھانے پینے کے دوران ابوبکر، حسن اور عبد الله ڈاجنگ کار میں بیٹھنے کی مصوبہ بندی کرنے لگے ۔ چنانچہ بابا اور انکل انہیں ڈاجنگ کار کی طرف لے گئے ۔ بجلی سے چلنے والی ان گاڑیوں کو چلانے کا بہت مزہ آتا ہے ۔ جب ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو زور کا جھٹکا لگتا ہے اور جب ٹکر سے بچا کر لے جائیں تو اپنی مہارت پر فخر محسوس ہوتا ہے ۔ ابوبکر ، حسن اور عبد الله کے ساتھ ساتھ نور اور اردھم بھی ڈاجنگ کار پر بیٹھیں ۔ انہیں دیکھ کر بابا کو اتنا مزہ آیا کہ انہوں نے اپنے اور انکل کے لیے بھی ٹکٹ خرید لی اور وہ دونوں بھی اپنی ڈرائیونگ کی مہارت آزمانے لگے ۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد گاڑیاں آپس میں ٹکراتیں اور گاڑی میں بیٹھنے والا پورے کا پورا ہل جاتا ۔ بچے بار بار ڈوجنگ کار میں سوار ہوتے اور ایک دوسرے کی گاڑیوں کو ٹکراتے رہے ۔ آخر کار بابا نے زبردستی انہیں وہاں سے دوسرے جھولوں کی طرف جانے کے لیے آمادہ کیا ۔
بچے اس کے بعد اور بھی بہت سے جھولوں میں بیٹھے جن میں آسمانی جھولا ، آکٹوپس اور ٹاپ رائیڈ بھی شامل تھی ۔ ڈسکوری کو بھی حیرت اور خوف سے دیکھتے رہے ۔ ڈسکوری ایک گول جھولا ہے جس پر بیٹھنے کے لیے بہت سی سیٹیں بنی ہیں ۔ ان پر حفاظتی جنگلے اور بیلٹ بھی لگے ہیں ۔ یہ جھولا ایک بڑے سے ڈنڈے کے ایک کنارے پر بنا ہے ۔ اور اس پر پندرہ سال سے کم عمر کے بچے نہیں بیٹھ سکتے ۔ جھولا آہستہ آہستہ اوپر اٹھنا شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ بہت بلندی پر جا کر بالکل الٹ جاتا ہے ۔ اور جھولے میں بیٹھے لوگوں کے سر نیچے اور پاؤں آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں ۔ پھر وہ جھولا گول گول گھومتا ہوا تیزی سے نیچے آتا ہے ۔ وہ سب کھڑے ہوکر اس جھولے کو دیکھنے لگے جونہی ڈسکوری اوپر جا کر اُلٹی ہوئی اوراس میں بیٹھے لوگوں کے سر نیچے ہوئے تو حسن ڈر کر ماما سے لپٹ گیا ۔ ماما نے ہنستے ہوئے اسے بتایا کہ سب لوگ مضبوطی سے سیٹ پر جنگلے سے بندھے ہوئے ہیں نیچے نہیں گریں گے ۔ تب حسن کو تسلی ہوئی ۔
شام رات میں ڈھل چکی تھی ۔ بچے بھی جھولے لیکر تھک گئے تھے چنانچہ سب گھر جانے کے لیے باہر نکلے
گیٹ کے پاس نور پور والے بچوں میں چھوٹا سا مقابلہ کروا رہے تھے ۔ ابوبکر حسن اور عبد الله اس طرف چلے گئے ۔ وہاں جتنے بچے تھے انہوں نے ان کو دودھ کے چھوٹے ڈبے دئیے اور کہا جو سب سے پہلے دودھ پی لے گا وہ مقابلہ میں شامل ہوگا ۔ ابوبکر نے سنتے ہیں غٹا غٹ دودھ پی لیا ۔ عبدالله ، حسن اور نوری نے بھی تیزی سے اپنے ڈبے پی لیے لیکن اردھم سے دودھ پیا نہیں گیا ۔ چنانچہ وہ مقابلہ میں شامل نہیں ہوسکی ۔ مقابلے کے لیے چھ بچوں کا انتخاب ہوا ۔ جن میں ابوبکر ، عبد الله اور حسن بھی شامل تھے ۔ ماما بابا ، پھوپھو جان اور انکل بھی اشتیاق سے کھڑے ہو کر دیکھنے لگے ۔
ان چھ بچوں کو چھوٹی ریموٹ کنٹرول گاڑیاں دی گئیں اور جگہ کی نشاندھی کی گئی کہ یہاں سے لیکر یہاں تک جو دو منٹ میں سب سے زیادہ گاڑی کے چکر لگائے گا وہ جیت جائے گا ۔ باری باری سب نے اس ٹریک پر گاڑی چلائی ۔ بچوں کے ماں باپ انہیں شوق اور بڑھاوا دیتے رہے اور ان کی ہمت افزائی کرتے رہے ۔ ابوبکر نے اپنی گاڑی کو سب سے زیادہ چکر لگوا کر 9.5 پوائنٹ لیے اور پہلے نمبر پر رہا ، عبد الله 8پوائنٹس لے کر تیسرے نمبر پر آیا اور حسن نے 6 اور نوری نے 5.5 پوائنٹ حاصل کیے ۔ نور پور والوں نے بچوں کو چھوٹے چھوٹے تحائف دئیے ۔ ابوبکر کو جوائے لینڈ میں مفت جھولے لینے کا ایک بینڈ بھی دیا گیا ۔
اس مقابلے سے بچے بہت زیادہ خوش اور پرجوش تھے ۔ سب بہت تھک بھی گئے تھے ۔ آج کے دن کے بارے میں باتیں کرتے بہت خوش خوش گھر کو روانہ ہوئے ۔
نزہت وسیم
نانو جان یہ بلیو ویل کیا ہوتی ہے ؟
حسن نے نانو کے پاس لیٹتے ہوئے سوال کیا ۔ ابو بکر نے کہا کیا تم نانو سے بلیو ویل گیم کے بارے میں پوچھ رہے ہو ؟
وہ تو بڑی خطرناک گیم ہے ۔ میرے دوست نے مجھے بتایا کہ اس میں بچے چاقو سے اپنے جسم پر زخم لگا لیتے ہیں اور چھت سے چھلانگ لگا کر مر جاتے ہیں ۔ ہے نا نانو جان ۔۔ ابو بکر نے نانو سے پوچھا
پیارے بچو یہ گیم اصل میں روس کے ایک لڑکے نے بنائی تھی جسے اس کے کالج سے نکال دیا گیا تھا ۔ وہ سمجھتا تھا کہ کمزور ذہن والے بچے اس دنیا میں رہنے کے قابل نہیں ہیں ۔ صرف طاقتور لوگوں کو زندہ رہنا چاہیے ۔
لیکن اس گیم میں کیا ہوتا ہے کہ بچے چھت سے چھلانگ لگا دیتے ہیں ؟
ابو بکر نے بڑی سمجھداری سے نانو سے پوچھا ۔
میری جان یہ گیم بچوں کے ذہن صاف کر دیتی ہے اور انہیں کچھ سوچنے سمجھنے نہیں دیتی ۔ نانو انہیں بتانے لگیں ۔ رات کے وقت ان کو ڈراؤنی فلمیں دکھائی جاتی ہیں اور عجیب و غریب گانے جن میں خوفناک مناظر ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے کہا جاتا ہے ۔ اور یہ سب کچھ انہیں اپنے ماں باپ اور بڑوں سے چھپ کر کرنا ہوتا ہے ۔ الله تعالی نے رات سونے کے لیے بنائی ہے اگر ہر روز رات کو نیند پوری نہ کریں اور مار کٹائی اور خون خرابے والی فلمیں دیکھیں تو اس کا اثر دماغ پر ہوتا ہے ۔ راتوں کو مسلسل بیدار رہ کر ان بچوں کا دماغ کچھ سوچنے کے قابل نہیں رہتا ۔
اسی طرح بچوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا شوق ہوتا ہے ۔ اس گیم میں بچوں کا آپس میں مقابلہ کروایا جاتا ہے ۔ ان کو خطرناک کام کرنے اور اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے کام کرنے پر مقابلے کے لیے اُکسایا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ خود کو نقصان پہنچا لیتے ہیں ۔
اس کے علاوہ انہیں ان کی نانو نے ایک بات نہیں بتائی ہوتی ۔ نانو نے ابوبکر اور حسن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
کون سی بات نانو جان ۔۔ دونوں حیران ہوکر ایک ساتھ بولے
الله تعالی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور الله تعالی ہی انسان کی زندگی اور موت کا مالک ہے ۔ کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ الله تعالی کی دی ہوئی زندگی کو نقصان پہنچائے یا ختم کردے ۔
کیا تم نے الله تعالی کے بھیجے ہوئے ایک پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام کا واقعہ سنا ہے ؟
نہیں نانو جان ۔ ابو بکر نے نہ کہتے ہوئے سر ہلایا ۔
آپ ہمیں سنائیں ۔ حسن بھی جلدی سے بولا
اچھا تو سنو ! نانو نے کہا
الله تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنی بستی کے لوگوں کو ایک الله کی عبادت کرنے کا حکم دیں ۔ اور ان سے کہیں کہ وہ برے کام کرنا چھوڑ دیں ۔ جھوٹ نہ بولیں ۔ چوری نہ کریں ، کمزوروں پر ظلم نہ کریں ، بڑوں کا ادب کریں ، چھوٹوں سے محبت کریں اور الله کے سارے حکم مانیں ۔
اس بستی کے رہنے والے بتوں کی پوجا کرتے تھے اور بہت ظالم تھے ۔ انہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا ۔ کئی سال تک الله کے یہ پیغمبر انہیں توحید کی دعوت دیتے رہے ۔ لیکن وہ نہ مانے آخر تنگ آکر حضرت یونس علیہ السلام نے ان پر عذاب نازل ہونے کی بد دعا کی ۔ اور بستی چھوڑ کر چلے گئے ۔
لیکن یہاں ان سی ایک چھوٹی سی بھول ہوگئی ۔
وہ کیا نانو جان ! ابوبکر نے نیند بھری آنکھوں سے سوال کیا ۔
بچو جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ الله کے نبی الله تعالی سے جو بھی دعا کرتے ہیں وہ قبول ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح یونس علیہ السلام نے سوچا اب میری دعا قبول ہوجائے گی اور اس بستی پر عذاب نازل ہوگا ۔ اس لیے انہوں نے الله کے حکم کے آنے کا انتظار نہیں کیا اور بستی چھوڑ کر چلے گئے ۔ چلتے چلتے وہ سمندر کے پاس پہنچ گئے ۔ وہاں ایک کشتی مسافروں کو لے جانے کے لیے تیار کھڑی تھی ۔ حضرت یونس علیہ السلام اس پر سوار ہوگئے ۔ جب کشتی سمندر کے درمیان میں پہنچی تو کھڑی ہو گئی۔
لیکن کیوں نانو ۔ وہ کشتی کیوں کھڑی ہو گئی حسن نے حیران ہو کر پوچھا ۔
وہاں کے لوگ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی نوکر اپنے مالک سے بھاگ کر کشتی پر سوار ہو تو وہ کشتی سمندر میں کھڑی ہو جاتی ہے ۔ کشتی والوں نے قرعہ اندازی کی ۔ جس میں حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکلا۔ کشتی والوں نے آپ کو سمندر میں پھینک دیا اور کشتی لے کر روانہ ہو گئے
الله تعالی کے حکم سے ایک بڑی سی مچھلی آپ کو نگل گئی اور مچھلی کے پیٹ میں جہاں بالکل اندھیرا تھا آپ قید ہو گئے۔
ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا نانو ! وہ تو نبی تھے ۔ ابوبکر نے سمجھداری سے سوال کیا ۔ الله کے نبی اگر چھوٹی سی خطا کریں تو الله تعالی کی طرف سے ان کی آزمائش ہوتی ہے ۔ اور پھر الله تعالی نے ہمارے لیے اس میں ایک سبق اور نشانی بنانی تھی اس لیے الله تعالی نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں بند کر دیا ۔ اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں نہ کھائے ۔
بچے نہایت توجہ اور حیرت سے یہ سب سن رہے تھے ۔ پھر کیا ہوا ۔ حسن نے بے چینی سے پوچھا ۔ اس کی آنکھوں سے نیند غائب ہو چکی تھی ۔
نانو نے کہا !
پھر سمندر کے اندھیرے میں مچھلی کے پیٹ کی تاریکی میں الله کے نبی حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا ۔ اور بار بار کہتے رہے ۔
اے میرے الله تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا
الله تعالی نے ان کی دعا قبول فرمائی ۔ اور مچھلی کو حکم دیا کہ انہیں سمندر کے کنارے اگل دے ۔ چنانچہ مچھلی نے آپ کو سمندر کے کنارے ڈال دیا ۔
تو کیا ان کی قوم پر عذاب نازل ہو گیا ؟
ابوبکر نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا ان کی قوم کو الله تعالی نے کیسے تباہ کیا ؟
نانو نے کہا ! نہیں بلکہ ہوا یوں کہ !
جب حضرت یونس علیہ السلام نے قوم کے لیے بد دعا کی تو انہیں احساس ہوا کہ یونس علیہ السلام ایک اچھے انسان اور الله کے سچے نبی تھے اگر ان کی دعا قبول ہوگئی تو ہم سب تباہ و برباد ہوجائیں گے ۔
انہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کو تلاش کیا ۔ جب آپ کہیں نہ ملے تو وہ ڈر گئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ اس بستی پر ضرور الله کا عذاب نازل ہوگا ۔ چنانچہ سب لوگ بستی سے باہر نکل آئے اور اپنے گھر والوں کو لے کر جنگل کی طرف چل پڑے ۔ رو رو کر الله سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور سچے دل سے توبہ کی ۔ الله تعالی نے اپنی رحمت سے ان کی توبہ کو قبول فرمایا اور انہیں معاف کردیا ۔
حضرت یونس علیہ السلام جب اپنی قوم میں واپس تشریف لائے تو سب لوگ بہت محبت و احترام کے ساتھ پیش آئے اور آپ پر ایمان لے آئے ۔
پیارے بچو ! جو لوگ الله کے بندے ہیں اور اس پر مکمل یقین رکھتے ہیں وہ مچھلی کے پیٹ کے اندھیروں میں بھی الله تعالی کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے ۔ اور الله تعالی کی مدد کی امید رکھتے ہیں اور جو الله تعالی کے حکم کو نہیں مانتے وہ ایک موبائل گیم کھیلتے ہوئے اپنی زندگی سے مایوس ہوجاتے ہیں اور خود اپنی جان کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔
دیکھو بچو ! پہلی بات تو یہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو موبائل پر گیمز نہیں کھیلنی چاہیے ۔ موبائل امی ابو اور بڑوں کی ضرورت کی چیز ہے ۔
جی ہاں نانو یہ بات تو ٹھیک ہے ۔ ابو بکر اور حسن دونوں نے سر ہلائے ۔
اس لیے پیارے بچوں کو چاہیے کہ وہ اپنی پڑھائی میں دلچسپی لیں اور دوڑنے بھاگنے والے کھیل کھیلیں ۔ جیسے سائیکل چلانا کرکٹ ، فٹبال اور ہاکی کھیلنا ۔ تاکہ ان کے جسم مضبوط ہوں اور صحت بھی اچھی رہے ۔
اس کے علاوہ وہ نماز پڑھیں ۔ الله تعالی کے احکام کے بارے میں جانیں اور اسلام کی تعلیمات سیکھ کر اس پر عمل کریں ۔ تاکہ کسی بھی بلیو ویل گیم کا شکار نہ بنیں ۔
بچوں نے نانو سے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کریں گے ۔ ان شاء الله
پیارے بچو! کیا تم جانتے ہو حلال اور حرام کیا ہوتا ہے ؟
نانو نے اپنے ساتھ لیٹے بچوں سے سوال کیا ؟
ابوبکر نے کہا جی نانو ۔۔۔۔ وہ لیز کا پیکٹ ہے نا اس پر حلال لکھا ہوتا ہے ۔ اور جیلی کے پیکٹ پر بھی ۔۔۔
جی جانو ! اب یہ بتاؤ کیوں لکھا ہوتا ہے ؟ اور اس کا مطلب کیا ہے ؟
حسن نے جھٹ سے کہا اس کا مطلب ہے ہم اسے کھا سکتے ہیں ۔
اچھا اب میں آپ کو بتاتی ہوں حلال اور حرام کیا ہے ؟ اور اسے جاننے کی کیوں ضرورت ہوتی ہے ۔
کچھ چیزوں کے بارے میں الله تعالی نے حکم دیا کہ مسلمان ان کو نہیں کھائیں گے ۔ ان کو حرام چیزیں کہتے ہیں اور اس کے علاوہ باقی چیزوں کو حلال کہتے ہیں ۔
اور کسی چیز کو حرام کرنا صرف الله کے اختیار میں ہے ۔ کوئی انسان حرام یا حلال نہیں کر سکتا ۔
جیسے الله تعالی نے مرے ہوئے جانور حرام کردئیے ۔ اور ایسے جانور جن کو الله اکبر کہہ کر ذبح نہ کیا جائے ۔ اور سور کو
توبہ ۔۔۔ توبہ ۔۔۔ الله توبہ ۔۔۔ دونوں بچے ایک دم سے چلائے ۔۔۔ نام نہیں لیتے ۔۔۔ نام نہیں لیتے
P.....I.....G
کہتے ہیں ۔۔۔ ورنہ زبان گندی ہوجاتی ہے ۔
ارے یہ کس نے بتایا ؟
بابا نے بتایا ۔۔۔ بہت گندی چیز ہے ۔۔۔ اس کا تو نام بھی نہیں لینا چاہئیے ۔۔۔ ابوبکر نے بُرا سا منہ بنایا ۔۔۔ اور حسن نے بھی منہ بنا کر تصدیق کی ۔
نانو جیسے عید پر بکرے اور ویہڑے حلال کرتے ہیں ؟ حسن نے اپنے ذہن کا سوال بیان کیا ۔
جی ہاں ۔
اور مرغی کا گوشت بھی حلال ہے ۔ ابوبکر نے سمجھدار انداز میں بتایا ۔
کون کون سے جانور حرام ہیں ۔۔۔ ؟
کتا ، بلی ، شیر ، ہاتھی ، اور اسی طرح جو پرندے اپنے پنجوں میں چیزیں دبا کر کھاتے ہیں وہ حرام ہیں ۔
اور بچو۔۔۔ انسان کا گوشت اس کی عزت کی وجہ سے حرام ہے ۔۔۔
بچے اپنے اپنے خیالوں کے گھوڑے دوڑاتے مختلف جانوروں کا حرام حلال پوچھتے پوچھتے نیندیا پور پہنچ گئے ۔
دوسری صبح ۔۔۔۔ ایک عجیب واقعہ پیش آیا ۔
بچوں کی والدہ نے سوال کیا آج کیا پکے گا ؟
نانو نے بتایا ۔۔۔۔ چائنیز
اتنا سننا تھا کہ حسن چلّا اٹھا نہیں ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔ چائنیز نہیں پکانا ۔۔۔ حرام ۔۔۔ حرام ہے
ارے اسے کیا ہو گیا ہے ۔ نانو نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔
اسی وقت ابو بکر باہر سے دوڑتا ہوا آیا ۔۔۔ اور حسن سے بولا ۔۔۔ غبارے والا آیا ہے آؤ غبارے لیں ۔ اور دونوں بچے بھاگتے ہوئے باہر چلے گئے ۔
تھوڑی دیر بعد حسن بھاگتا ہوا آیا ۔۔۔ نانو ۔۔۔ کیا آپ چائنیز کا گوشت پکائیں گی ۔ وہ تو حرام ہے نا ۔
بھئی کون چائینیز ۔۔۔ میں تو چائنیز چاول بناؤں گی اور ساتھ میں شاشلک ۔۔۔ تمہیں پسند ہے نا ۔۔۔؟؟
جی جی ۔۔۔ حسن نے سر ہلایا ۔۔۔ لیکن آپ اس میں چائنیز کا گوشت ڈالیں گی ۔۔۔ وہ تو حرام ہے ۔ آپ نے رات کو بتایا تھا نا ۔۔۔۔؟؟؟
اوہ میرے الله ۔۔۔ نانو پریشان ہوگئیں ۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رھا تھا کہ حسن ایسا کیوں کہہ رہا ہے ۔
بچوں کی اماں کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اسے بات سمجھ آگئی تھی ۔
امی وہ ہمارے گھر کے پاس ہی چین سے آئے دو آدمیوں نے گھر لیا ہے ۔۔۔ اور ہر روز صبح سکول جاتے ہوئے بچے انہیں دیکھتے ہیں ۔ اور میں نے انہیں بتایا تھا کہ یہ چائنیز ہیں ۔ ان سے سلام دعا کرتے ہیں ۔۔۔۔ اوہ اسی لئے بے چارے حسن کا رنگ اڑا چکا تھا ۔ اور وہ پریشان تھا کہ آخر نانو چائنیز کو کیسے پکائیں گی اور آخر کیوں ؟
تب نانو نے پیار سے حسن کو پاس بٹھایا اور اسے سمجھایا ۔۔۔۔ چائنیز چاول وہ ہوتے ہیں جیسے چین کے لوگ پکا کر کھاتے ہیں ۔ ان میں سبزیاں اور مرغ کا گوشت ڈالتے ہیں ۔ چائنہ کے لوگوں کو نہیں ڈالتے ۔۔۔۔۔ حسن نے ایک لمبا ، گہرا اور سکون کا سانس لیا ۔۔۔ اور ہنستا ہوا کہنے لگا ۔۔۔
شکر ہے ۔۔۔ چائنیز چاول تو مجھے بہت پسند ہیں ۔ میں تو خوب کھاؤں گا ۔
نانو نے جواب دیا ہاں ہاں ضرور اور مسکراتی ہوئیں چائنیز چاول بنانے میں مصروف ہو گئیں ۔
بچے ہر بات بہت دھیان سے اور غور سے سنتے ہیں ۔۔۔ ابتدا ہی سے انہیں حرام و حلال اور اچھے بُرے کی تمیز سکھا دینی چاہئیے ۔
پیارے بچو ! آج میں تمہیں ایک ایسے شخص کی کہانی سناؤں گی جس نے اپنی قوم سے غداری کی ۔ یعنی اپنے دوستوں اور پیاروں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے دشمنوں سے جا ملا ۔۔۔۔
کیا ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں نانو ! ابوبکر نے بڑی سمجھداری سے سوال کیا ۔۔
جی بیٹا جی ۔۔۔۔ اس سے پہلے میں نے آپ کو ہاتھی والوں کی کہانی سنائی تھی نا ۔۔۔ ان کے بادشاہ کا نام ابرہہ تھا ۔۔۔۔ جب وہ مکہ معظمہ کی طرف آرہا تھا تاکہ الله کے گھر خانہ کعبہ کو گرا دے تو راستے میں اس کے لشکر نے ایک آدمی سے مکہ کا راستہ پوچھا ۔۔۔۔
اس شخص کا نام " ابو رغال " تھا ۔
اس نے اپی برادری اور اپنی قوم سے دھوکا کرتے ہوئے انعام و اکرام کے لالچ میں "ابرہہ "کو راستہ بتا دیا ۔ اپنی قوم کا ساتھ دینے کی بجائے ان کے دشمنوں کی مدد کی ۔
الله تعالی نے ہاتھی والوں کے ساتھ سب سے پہلے اسے ہلاک کیا ۔۔۔۔ الله تعالی نے ہاتھیوں کے اس لشکر کو تباہ کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے پرندوں کو بھیجا ۔ یہ چڑیاں یا ابابیلیں اپنی چونچوں سے چھوٹی چھوٹی کنکریاں پھینکتی تھیں جو پتھروں کی طرح ان کے سروں میں گھس کر پورے بدن کو چیرتی ہوئی پار ہو جاتی تھیں ۔ جیسے آجکل گولیوں اور چھوٹے چھوٹے بموں سے اتنا زیادہ نقصان ہو جاتا ہے کہ بہت سے لوگ مرجاتے ہیں ۔
الله تعالی کے اس لشکر نے ہاتھی والوں کو ان کے بڑے بڑے ہاتھیوں سمیت ہلاک کر دیا ۔ جس شخص کو یا ہاتھی کو کنکری لگتی اس کا جسم ریزہ ریزہ ہوجاتا ۔
ان کا بادشاہ جس کا نام ابرہہ تھا وہ اسی وقت نہیں مرا تھا بلکہ وہ اسے اپنے وطن صنعاء لے گئے اور وہاں اس کا جسم گل سڑ کر ٹکرے ٹکرے ہوگیا ۔ اور اس طرح اسے الله تعالی سے مقابلہ کرنے کی سزا ملی تھی ۔
لیکن سب سے پہلے جس شخص کو الله تعالی نے ہلاک کیا وہ أبو رغال تھا ۔
قوم سے غداری اور دھوکا کرنے کی سزا کے طور پر آج بھی أبو رغال کی قبر پر لوگ پتھر مارتے ہیں ۔۔۔ تاکہ یاد رہے کہ قوم سے غداری اور دھوکا کرنے کی یہ سزا ہے ۔
الله تعالی بہت شان اور طاقت والا ہے ۔۔۔ اس کے پاس ساری دنیا سے بڑھ کر قوت موجود ہے وہ سب سے زیادہ طاقت و عظمت والا ہے ۔۔۔ اسی لئے اس کو جل جلالہ ۔۔۔ اور مالک الملک کہتے ہیں یعنی بڑی عظمت والا اور بادشاہوں کا بادشاہ اور سب سے زیادہ طاقت والا ۔
وہ اپنے دشمنوں کو جب چاہے جس طریقے سے چاہے ہلاک کر سکتا ہے ۔ میرے بچو ۔۔۔ اس لیے الله تعالی کے دوستوں اور فرمانبرداروں میں شامل ہونا چاہیے ۔ اس سے دوستی اور محبت کرنی چاہیے ۔ اور اسی کی فرمانبرداری اور اطاعت کرنی چاہیے ۔ تاکہ ہم اس کے غصے اور غضب سے محفوظ رہیں ۔
نانو نے اپنی بات ختم کرکے حسن اور ابوبکر کی طرف دیکھا ۔ وہ دونوں یہ کہانی سن کر بہت متاثر نظر آرہے تھے ۔ حسن نے پوچھا نانو!
کیا اور بھی لوگوں نے اپنی قوم سے غداری کی ہے ؟
نانو نے جواب دیا : کیوں نہیں ۔ پاکستان بننے سے پہلے پورے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی مگر غداروں ہی کی وجہ سے رفتہ رفتہ سارے ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا ۔ دو غدار تو بہت ہی مشہور ہوئے ایک میر جعفر اور ایک میر صادق ۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا ۔ مگر ان کی کہانی پھر کبھی سناؤں گی ۔ ابھی تو میری نماز کا وقت ہورہا ہے ۔
نانو :ابوبکر نے سنجیدگی سے کہا ۔ نماز کے بعد آپ دعا مانگیے گا کہ الله تعالی ہمارے پیارے پاکستان کو غداروں سے محفوظ رکھے ۔
آمین ۔۔ نانو اور حسن نے بیک آواز کہا ۔
فیل بہ مقابلہ ابابیل
ماما ۔۔۔ ماما ۔۔۔ دیکھیں بھیا مجھے تنگ کررہا ہے ۔۔۔۔ یہ جنگلی بچہ ہے ۔
اچھا جی نانو نے حسن کو گود میں لے کر پوچھا ۔۔۔ یہ تو بتائیں جنگلی بچہ کون سا ہوتا ہے ؟
نانو ۔۔۔ وہ جو جنگل میں رہتا ہے ۔
بھلا بتاؤ تو جنگل میں کون کون رہتا ہے ۔۔۔۔؟؟
نانو نے دوسری طرف سے ابوبکر کو اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے پوچھا ۔
شیر ۔۔۔ بھالو ۔۔۔ ہاتھی ۔۔۔ چیتا ۔۔۔ بندر
ہاتھی دیکھا ہے کیسا ہوتا ہے ؟ نانو نے پوچھا
حسن جھٹ سے بولا وہ جس کی لمبی سی ناک ہوتی ہے ۔ بڑے بڑے کان اور اتنا بڑا سا دونوں ہاتھ پھیلاتے ہوئے بولا ۔
اچھا جی کیا تمہیں ہاتھی والوں کا پتہ ہے ۔۔۔؟
اب دونوں ہی حیران رہ گئے ۔۔۔ ہاتھی والے ۔۔۔ نانو وہ کون ہیں ۔۔۔ ابوبکر نے حیرت سے آنکھیں پٹپٹائیں ۔۔۔۔
آؤ میں تمہیں بتاؤں ۔۔۔۔
بہت پہلے کی بات ہے ۔۔۔۔ حبشہ ایک ملک ہے ۔ وہاں کی ایک جگہ جس کا نام یمن تھا وہاں کے گورنر کا نام ابرہہ تھا ۔ اس نے جب دیکھا کہ سارے لوگ خانہ کعبہ کی طرف جاتے ہیں وہاں جا کر حج کرتے اور الله کی عبادت کرتے ہیں ۔ تو اس نے بھی یمن میں ایک کعبہ بنا لیا ۔ اور لوگوں کو وہاں آنے کے لئے کہا ۔
لیکن لوگ تو الله کے گھر عبادت کے لئے جاتے تھے ان میں سے کوئی بھی اس کے نقلی کعبہ میں نہیں آتا تھا ۔۔۔ اسے بہت غصہ آیا ۔۔۔ اس نے ایک بڑا لشکر تیار کیا تاکہ اصلی والے خانہ کعبہ کو گرا دے ۔ اس کے لشکر میں بڑے بڑے ہاتھی تھے ۔ جن کی مدد سے وہ خانہ کعبہ کو ڈھا دینا چاہتا تھا ۔ جب وہ مکہ معظمہ جہاں الله کا گھر ہے کے قریب پہنچا تو الله تعالی نے چھوٹی چھوٹی چڑیوں کو بھیجا ۔ جن کو ابابیل کہتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ابابیل کی چونچ میں ایک ننھا سا پتھر تھا ۔ الله کے حکم سے ابابیلوں نے وہ پتھر ہاتھیوں پر مارے ۔۔۔ جس سے سارے کے سارے ہاتھی مر گئے ۔ ان لوگوں کو ہاتھی والے کہتے تھے ۔ یعنی اصحاب الفیل ۔۔۔
اب پتہ چلا میرے بچو ۔۔۔ !!!
ہاتھی والے کون تھے ۔۔۔۔ اور الله تعالی نے ان سے اپنے گھر کی کیسے حفاظت کی ۔۔۔۔ کیونکہ الله تعالی سب سے زیادہ طاقت اور قوت والا ہے ۔۔۔ وہ جو چاہے کر سکتا ہے ۔۔۔
ابوبکر کراٹے کا پوز بنا کر کھڑ ا تھا ۔۔۔۔ اور بڑے ماہرانہ سے انداز میں ہا۔۔ ہا ۔۔۔ ہو کرتے ہوئے ہاتھ اور ٹانگیں چلا رہاتھا ۔۔۔ جب نانو کمرے میں داخل ہوئیں ۔
کیا ہو رہا ہے بچو ۔۔۔!
نانو نانو ۔۔۔ مجھے کراٹے میں گولڈ میڈل ملا
اچھا جی ۔۔۔ یہ کب کی بات ہے
آج ۔۔۔ ہم گئے تھے سکول کے ساتھ سارے بچے نیشنل سٹیڈیم ۔۔۔ وہاں مقابلہ تھا نا ۔۔! مجھے گولڈ میڈل ملا
الحمد لله ۔۔۔۔۔ نانو نے خوش ہو کر کہا ۔۔۔ کیسے مقابلہ کیا ۔۔۔؟
ایسے ۔۔۔ ہا ۔۔ ہا ۔۔۔ہو
ابوبکر ۔۔۔ حسن پر کراٹے کے ابتدائی داؤ پیچ آزمانے کی کوشش کرنے لگا ۔
حسن نے بھی اس کی نقل میں ویسے ہی پوز بنا لئے ۔۔۔ تھوڑی دیر کراٹے کراٹے کھیلنے کے بعد بچے دوسرے کمرے میں چلے گئے ۔
اتنے میں ان کی ماما کمرے میں آئیں ۔
امی جان آپ کو پتا ہے آج کیا ہوا۔۔۔۔!
ابوبکر کرآتے کمپیٹیشن کے لئے گیا تھا ۔۔۔ اس کے دوست نے بتایا کہ یہ دوسرا راؤنڈ نہیں کھیلا ۔ اور ہار گیا ۔۔۔ لیکن مان نہیں رہا ۔۔ اور کہہ رہا ہے ان کے پاس میڈل کم تھے اس لئے نہیں ملا اور کبھی کہتا ہے ۔۔۔۔ کل میڈل ملے گا ۔۔۔۔ مان نہیں رہا کہ یہ ہار گیا ہے ۔۔۔
اوہ ۔۔۔۔ نانو فکر مند ہوئیں ۔۔۔
دونوں بچے جب رات کو نانو کے پاس کہانی سننے کے لئے لیٹے تو نانو نے انہیں ایک کہانی سنائی ۔۔۔۔
پیارے بچو ۔۔۔۔!
ایک بار ایسا ہوا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا ۔۔۔ اُس نے کہا
میں ایک بُرا آدمی ہوں ۔۔۔ میں لوگوں کو دھوکا دیتا ہوں ۔۔۔ چوری کرتا ہوں ۔۔ لوگوں سے لڑائی جھگڑا کرتا ہوں ۔۔۔ اور بہت ہی گندا ہوں کہ شراب بھی پیتا ہوں ۔ اور مجھے ان سب کاموں کی بہت عادت اور ان سے محبت ہو گئی ہے ۔۔۔ میں ایمان لانا چاہتا ہوں اور آپ کا دین قبول کرنا چاہتا ہوں ۔ لوگ کہتے ہیں یہ سب کا م حرام ہیں ۔ لیکن میں انہیں چھوڑ نہیں سکتا ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم ۔۔۔ صرف ایک برائی چھوڑ دو ۔۔۔
وہ بہت حیران ہوا ۔۔ اور اس نے دل میں سوچا کہ کون سی برائی سب سے بڑی ہے کہ ۔۔۔ مجھے صرف اسے چھوڑنے کا کہا جا رہا ہے ۔
جھوٹ ۔۔۔ تم جھوٹ بولنا چھوڑ دو ۔۔۔ اور وعدہ کرو کبھی جھوٹ نہیں بولو گے ۔۔۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بڑے پیار سے اسے کہا ۔۔۔ اور کل بھی مجھ سے ملنے آنا ۔۔۔
وہ آدمی وہاں سے اٹھ کر گھر کی طرف چل پڑا ۔۔۔ اور دل میں پکا ارادہ کرتا جا رہا تھا کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا ۔۔ اور حیران ہو کر سوچ رہا تھا ۔۔ کہ میری ساری برائیاں کیسے ختم ہوں گی ۔
راستے میں اسے ایک آدمی ملا ۔۔۔ جو ایک بکری لے کر جا رہا تھا ۔۔۔ اس نے سوچا میں اسے دھوکا دے کر اس سے بکری لے لیتا ہوں ۔۔۔ پھر اسے خیال آیا کہ اگر یہ شخص شکایت لے کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس چلا گیا ۔۔۔ اور انہوں نے مجھ سے پوچھا ۔۔۔
تب میں کیا جواب دوں گا ۔۔۔ ؟
سب لوگ بیٹھے ہوں گے ۔۔۔ اور میں جھوٹ نہیں بول سکوں گا ۔۔۔ کیوں کہ میں نے وعدہ کیا ہے ۔
اس لئے اس آدمی نے بکری والے کو دھوکا دینے کا خیال دل سے نکال دیا ۔
آگے گیا ۔۔۔ تو ایک دکان کھلی نظر آئی ۔۔۔۔۔ اس نے دیکھا دکان کا مالک وہاں نہیں ۔۔ اور آس پاس بھی کوئی نہیں ۔۔۔ سوچا کہ یہاں سے کچھ چیزیں چُرا لیتا ہوں ۔۔۔۔ جب چیزیں اٹھانے لگا تو اسے خیال آیا کہ کل اگر مجھ سے سوال کیا گیا کہ چوری کی تھی ۔۔۔۔؟
تو میں کیا جواب دوں گا ۔۔۔ سب لوگوں کے سامنے سچ بولوں گا تو سب کو پتہ چل جائے گا ۔۔ پھر کتنا برا ہو گا ۔۔۔ اور میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا ہے میں جھوٹ نہیں بولوں گا ۔
کھر آکر اس نے کہا ۔۔۔۔ میں شراب پی لیتا ہوں ۔۔۔۔ پھر اسے خیال آیا کہ کل اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سوال کیا کہ تم نے شراب پی ۔۔۔۔؟
تو میں جھوٹ نہیں بول سکوں گا ۔۔۔ مجھے سچ بتانا پڑے گا ۔۔۔ اور سب لوگ مجھے بہت بُرا سمجھیں گے ۔۔۔
اس لئے اس نے شراب بھی نہیں پی ۔۔۔۔
دیکھا بچو ۔۔۔۔ جھوٹ بولنا کتنا بڑا گناہ ہے ۔۔۔ اور سچ بولنے والا ہر برائی سے بچ جاتا ہے ۔
اسی لئے ۔۔۔۔ ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔۔ سچ نیکی اور جنت کا راستہ ہے ۔۔۔ جو سچ بولتا ہے ۔۔۔ سچ اسے جنت میں لے جاتا ہے ۔
اور جھوٹ ۔۔۔۔۔ برائی اور جھنم کا راستہ ہے ۔۔۔ جو جھوٹ بولتا ہے ۔۔۔ وہ جھوٹ کی وجہ سے آگ کے گھڑے میں جا گرتا ہے ۔
اس لئے کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئیے ۔۔۔۔ بھلا ہم اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے ۔۔۔ اور تھوڑی سی خوشی کے لئے ہمیشہ آگ میں رہنا پسند کریں گے ۔۔۔۔؟؟
نانو نانو ۔۔۔۔ مجھے گولڈ میڈل نہیں ملا ۔۔۔۔ اتنے سارے بچوں کو میڈل ملے ۔۔۔ ابو بکر نے فوراً کہا ۔
کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ شہزادے ۔۔۔ کھیل ہے نا ۔۔۔ ایک بچہ جیت جاتا ہے اور ایک بچہ ہار جاتا ہے ۔
پھر اگلی بار مقابلے کے لئے اور اچھی تیاری کرتے ہیں ۔۔۔ جس کی تیاری اور محنت زیادہ ہو ۔۔ وہ جیت جاتا ہے ۔
اور میرے بچو ۔۔۔۔! ہر مقابلہ جیتا نہیں جاتا ۔۔۔ کبھی ہم جیت جاتے ہیں ۔۔۔ اور کبھی ہار جاتے ہیں ۔۔۔ لیکن ہار سے مایوس نہیں ہونا چاہئیے ۔۔۔ پھر محنت کریں گے تو جیت جائیں گے ۔۔۔۔
اگر نہیں جیتے تو پھر کیا ہوا ۔۔۔۔ کھیل ہی تو ہے ۔۔۔۔۔ اس کا مزا اٹھاتے ہیں ۔
جس طرح جیتنے کا مزا ہوتا ہے ۔۔۔ اسی طرح ہار مان لینے کا بھی مزا ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور اچھے اور مضبوط لوگ ہار مان لیتے ہیں ۔۔۔۔ اسے کھیلنے والے کی طاقت کہتے ہیں ۔۔۔۔ کیا بھلا
سپورٹس مین ۔۔۔۔ سپرٹ
ابوبکر بہت طاقتور ہے ۔۔۔۔ واہ ۔۔ واہ ۔۔۔ سبحان الله