ام اویس
محفلین
زخمی چڑیا
نانو جان نانو جان حسن اونچی آواز سے پکارتا دوڑتا ہوا نانو کے پاس آیا
کیا ہوا ؟
وہاں ایک چڑیا گری ہوئی ہے اس کی ٹانگ سے خون بہہ رہا ہے اس نے پریشانی سے کہا
ابوبکر اور نانو لان کے اس حصے کی طرف آئے دیکھا تو آم کے درخت کے نیچے ایک چڑیا زخمی حالت میں پڑی تھی ۔ نانو جان نے آگے بڑھ کر آرام سے پکڑلیا ۔ اور اسے لے کرگھر میں داخل ہوگئیں بچے ان کے پیچھے تھے انہوں نے اپنے کمرے میں آکر ابتدائی طبی امداد والے باکس سے روئی نکالی اسے بھگو کر چڑیا کے زخم کو صاف کرنے لگیں ۔ دونوں بچے فکر مندی سے دیکھ رہے تھے
ابوبکر نے کہا نانو جان چڑیا کو درد ہورہی ہوگی اب یہ کیسے ٹھیک ہوگی
کیا آپ اسے پٹی کریں گی ؟
نانو جان بولیں میں اس کا زخم صاف کرکے چھوڑ دوں گی یہ خود ہی ٹھیک ہوجائے گی ۔ وہ حیران ہوکر بولا خود ہی کیسے ٹھیک ہوجائے گی ؟
کیا جانوروں کا کوئی ہسپتال نہیں ہوتا ؟ کیا جانوروں کے ڈاکٹر بھی نہیں ہوتے ؟
نانو جان نے نرمی سے جواب دیا
پالتو جانوروں کے علاج کے لیے ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں اور ہسپتال بھی بنائے جاتے ہیں جہاں ان جانوروں کا علاج کیا جاتا ہے
حسن جلدی سے بولا بھائی کیا تمہیں یاد نہیں جب شیرو بے ہوش ہوگیا تھا تو بابا نے ڈاکٹر کو بلایا تھا جس نے اسے دوا دی تھی اور انجیکشن بھی لگایا تھا
ہاں ہاں ابوبکر کو یاد آگیا اور وہ اثبات میں سر ہلانے لگا ۔
اتنی دیر میں نانوجان نے چڑیا کو تھوڑا سا پانی پلایا اور اسے لے کر باہر لان میں آگئیں ۔ سردیوں کی نرم دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی نانوجان نے چڑیا کو لان میں بنی چھوٹی سی دیوار پر دھوپ میں رکھ دیا ۔ چڑیا نے پہلے تو اڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوگئی ۔ وہ ٹانگ لمبی کرکے وہیں دھوپ میں لیٹ سی گئی ۔
نانو جان ابوبکر اور حسن کو لے کر لان میں پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئیں اور انہیں کہا اب اس کے پاس کوئی نہ جائے البتہ یہ خیال رکھنا کہ بلی اسے اپنا نوالہ نہ بنا لے ۔
تھوڑی دیر گزری ان کے دیکھتے ہی دیکھتے چڑیا نے پر پھیلائے اور اُڑ کر درخت پر جا بیٹھی وہاں بھی دھوپ تھی ۔
کیا یہ ٹھیک ہوجائے گی ؟ حسن نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے نانو جان سے پوچھا
ان شاء الله یہ بہت جلد ٹھیک ہوجائے گی اور پھر سے اڑنے لگے گی
لیکن نانو جان یہ علاج کے بغیر کیسے ٹھیک ہوگی ؟ اب ابوبکر نے سوال کیا
زخمی پرندے عموما اپنا علاج سورج کی شعاعوں سے کرتے ہیں وہ ایسی جگہ بیٹھ جاتے ہیں جہاں سورج کی روشنی سیدھی ان کے زخم پر پڑے ۔ معمولی زخم تو جلد ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں اور شدید زخموں کو کچھ وقت لگتا ہے
لیکن دوائی کے بغیر کیسے ٹھیک ہوجاتے ہیں حسن ابھی بھی سمجھ نہیں سکا
الله تعالی نے ہر جاندار جسم میں اپنی مرمت خود کرنے کی صلاحیت رکھ دی ہے اگر زخم پر کوئی دوا نہ لگائیں بس اسے صاف ستھرا رکھیں تو وہ خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے ۔ چڑیا بھی چونچ سے اپنا زخم صاف کرتی رہے گی اس کا جسم اپنی مرمت کا کام جاری رکھے گا اور زخم ٹھیک ہوجائے گا ۔
اچھا تو یہ بات ہے اب حسن خوب سمجھ گیا
ابوبکرکا تجسس برقرار تھا اس نے پھر سوال کیا کہ جو جانور بیمار ہوجاتے ہیں وہ اپنا علاج کیسے کرلیتے ہیں ؟
نانو جان نے بتایا جب کوئی جانور بیمار یا زخمی ہوجائے تو وہ اپنا ٹھکانا چھوڑ کر دھوپ اور گرمی والی جگہ پر چلا جاتا ہے جہاں پانی بھی نزدیک ہو ۔ مختلف پودے اور جڑی بوٹیاں کھا کر اپنا علاج کرتا ہے ۔ گوشت خورجانور مثلا شیر اور بھیڑیئے بیمار ہونے کی صورت میں گوشت کھانا چھوڑ دیتے ہیں اور سبزیوں پر گزارہ کرتے ہیں، ریچھ کی پرہیزی غذا بیر اور جڑیں ہوتی ہیں اور ہرن درختوں کی چھال کھاتا ہے۔
جیسے بھیا کو بخار ہوا تو امی جان اسے چائے اور رس کھلاتی تھیں حسن نے اپنا تجزیہ پیش کیا ۔
لیکن یہ کیسے پتہ چلا کہ جانور اس طرح کرتے ہیں ؟ ابوبکر کا منہ حیرت سے کُھل گیا اور وہ بے اختیار بول پڑا
بچو انسان ہر چیز کا بغور مشاہدہ کرتا ہے کیونکہ الله تعالی نے اس میں سوچنے سمجھنے اور کارخانہ قدرت سے سبق حاصل کرنے کی صلاحیت رکھی ہے ۔ انسان نے علم طب کی ابتدائی باتیں جانوروں ہی سے سیکھی ہیں جن جڑی بوٹیوں سے جانور اپنا علاج کرتے تھے انسان بھی ان ہی سے فائدہ اٹھانے لگے ۔ جانور اور پرندے ان پودوں اور جڑی بوٹیوں کا علم رکھتے ہیں جو مختلف بیماریوں میں فائدہ دیتی ہیں۔
یعنی جانور بھی سمجھ دار ہوتے ہیں ۔ حسن نے کہا
جی ہاں بہت سمجھدار ہوتے ہیں ۔ نانو جان بولیں مرغی برسات کے دنوں میں اپنے بچوں کوموسمی بیماریوں سے بچانے کے لیے نرم نرم گھاس تلاش کرکے کھلاتی ہے۔ اسی طرح بندر کو اگر خارش پڑ جائے تو وہ نیم کی کونپلیں توڑ کر کھاتے ہیں ۔
جانوروں کی عادات اور رہن سہن کا مشاہدہ کرنے کے لیے مختلف تحقیقی محکمے بھی بنائے گئے ہیں نانو نے ابوبکر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
یہ محکمے کیا کرتے ہیں ؟ ابوبکر سوال پر سوال کر رہا تھا
بیٹا جی یہ محکمے تحقیق کرتے ہیں کہ جانور کیسے رہتے ہیں کیا کھاتے ہیں بیمار ہوجائیں تو اپنا علاج کیسے کرتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ کیوں چلے جاتے ہیں
ایسے ہی کچھ لوگوں نے تحقیق کرکے بتایا کہ جنگلی جانور کو بخار ہوجائے تو وہ ایسی جگہ ڈیرہ ڈال لیتا ہے جو سایہ دار ہو۔ وہاں کی ہوا صاف اور پانی بھی قریب ہو۔ وہ کھانا چھوڑ دیتاہے ۔ بخار کی شدت کم ہونے یا بخار ٹوٹنے تک صرف پانی پیتا ہے ۔ اسی طرح جس جانور کو جوڑوں یا جسم میں درد کی تکلیف ہوتی ہے وہ ایسی جگہ رہنے لگتا ہے جہاں سورج کی شعائیں سیدھی جسم ہر پڑیں ۔
اسی دوران زیان اور افراح بھی اندر سے باہر آگئے اور پاس بیٹھ کر حیرت و تجسس سے نانو جان کی باتیں سننے لگے
نانو جان نے سلسلہ کلام آگے بڑھاتے ہوئے بچوں کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے بتایا کہ بڑھاپے میں ریچھ اور دوسرے کئی جانور گرم چشمے تلا ش کرتے ہیں اور روز باقاعدگی سے وہاں جاکر غسل کرتے ہیں جن جانوروں کو جوئیں یا پسو پڑجاتے ہیں وہ مٹی میں لوٹنیاں لگاتے ہیں ۔ اس عمل کو ’’غسل خاکی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
افراح باجی آپ بھی مٹی میں لوٹنیاں لگایا کریں ۔ ابوبکر نے جان بوجھ کر افراح کو چڑایا
جی نہیں میرے سر میں جوئیں نہیں میں اپنا سر صاف رکھتی ہوں ۔ میں روز غسل آبی کرتی ہوں ۔ افراح نے دو بدو جواب دیا اور بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔
نانو جان ان کی نوک جھونک پر مسکراتے دوبارہ اصل موضوع پر آگئیں اور کہا بچو تمہیں معلوم ہے جانور موسمی تبدیلیوں کے ساتھ اپنی غذائیں بھی بدل لیتے ہیں
انڈے دینے والی چڑیاں کیلشیم کی کمی پوری کرنے کے لیے ساحل سمندر پر جاکر گھونگھے چن چن کر کھاتی ہیں اور ہرنیاں میلوں دور تک ایسے پانی کی تلاش میں جاتی ہیں جس میں کیلشیم کی مقدار زیادہ ہو۔
میں امی جان کو بتاؤں گا کہ کھانے کی عادت بدلتے رہنا چاہیے ابوبکر نے بڑی ذہانت سے اپنے مطلب کی بات کو سمجھتے ہوئے کہا ۔
نانو جان ہنس پڑیں کیونکہ ابوبکر ہر روز نئی چیز کھانے کی فرمائش کرتا تھا
اور بچو جس طرح ڈاکٹر مجبوراً خراب ہوجانے والے جسم کے حصے کو کاٹ دیتے ہیں تاکہ دوسرے حصے بیماری کے خطرے سے محفوظ رہیں آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جانور بھی اس آخری طریقہ علاج کی سمجھ رکھتے ہیں۔
وہ کیا کرتے ہیں ۔ بات کی نزاکت کو سمجھ کر سب سنجیدہ نظر آنے لگے
کچھ توقف کے بعد نانو جان نے کہا
جب جانورں کو لگتا ہے کہ جسم کا زخمی حصہ ٹھیک نہ ہوسکے گا تو اس کو مختلف طریقوں سے جسم سے کاٹ کر علیحدہ کردیتے ہیں۔
اف الله ! ابوبکر کی آنکھوں میں آنسو آگئے
اسی طرح جب کسی جانور یا پرندے کے جسم کا کوئی حصہ جال میں پھنس جاتا ہے تو وہ اسے دانتوں یا چونچ کی مدد سے کاٹ کر آزاد ہوجاتا ہے کیونکہ یہ بے زبان بھی جانتے ہیں کہ زندگی زیادہ قیمتی ہے۔
سب خاموش ہوگئے
نانو جان نے کہا کیا تم لوگ جانتے ہو کہ جب زمین پر پہلے انسان کی موت ہوئی تو اسے زمین میں دفن کرنے کا طریقہ کس نے سمجھایا تھا ؟
نہیں مجھے نہیں پتہ ابوبکر نے کہا حسن نے بھی نفی میں سر ہلا دیا اور افراح بھی سوالیہ انداز میں نانو جان کی طرف دیکھنے لگی ۔
بچو یہ واقعہ الله تعالی نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے کہ جب آدم علیہ السلام کے ایک بیٹے قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا پھر اسے سمجھ نہ آئی کہ اب اپنے بھائی کی لاش کا کیا کرے ۔ الله تعالی نے ایک کوے کو بھیجا جس نے ایک کوے کی لاش اٹھائی ہوئی تھی اس نے چونچ سے زمین کھودی اورکوے کی لاش کو زمین میں دبا کر اوپر مٹی ڈال دی ۔ اس وقت قابیل کو شرمندگی نے آگھیرا اور اس نے کہا افسوس میں ایک جانور سے بھی گیا گزرا ہوں پھر اس نے بھی ہابیل کو گڑھا کھود کر دفن کردیا ۔
بچے خاموش ہوگئے اور آسمان پر چکر لگاتے کوؤں کو دیکھنے لگے ۔
نانو جان نانو جان حسن اونچی آواز سے پکارتا دوڑتا ہوا نانو کے پاس آیا
کیا ہوا ؟
وہاں ایک چڑیا گری ہوئی ہے اس کی ٹانگ سے خون بہہ رہا ہے اس نے پریشانی سے کہا
ابوبکر اور نانو لان کے اس حصے کی طرف آئے دیکھا تو آم کے درخت کے نیچے ایک چڑیا زخمی حالت میں پڑی تھی ۔ نانو جان نے آگے بڑھ کر آرام سے پکڑلیا ۔ اور اسے لے کرگھر میں داخل ہوگئیں بچے ان کے پیچھے تھے انہوں نے اپنے کمرے میں آکر ابتدائی طبی امداد والے باکس سے روئی نکالی اسے بھگو کر چڑیا کے زخم کو صاف کرنے لگیں ۔ دونوں بچے فکر مندی سے دیکھ رہے تھے
ابوبکر نے کہا نانو جان چڑیا کو درد ہورہی ہوگی اب یہ کیسے ٹھیک ہوگی
کیا آپ اسے پٹی کریں گی ؟
نانو جان بولیں میں اس کا زخم صاف کرکے چھوڑ دوں گی یہ خود ہی ٹھیک ہوجائے گی ۔ وہ حیران ہوکر بولا خود ہی کیسے ٹھیک ہوجائے گی ؟
کیا جانوروں کا کوئی ہسپتال نہیں ہوتا ؟ کیا جانوروں کے ڈاکٹر بھی نہیں ہوتے ؟
نانو جان نے نرمی سے جواب دیا
پالتو جانوروں کے علاج کے لیے ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں اور ہسپتال بھی بنائے جاتے ہیں جہاں ان جانوروں کا علاج کیا جاتا ہے
حسن جلدی سے بولا بھائی کیا تمہیں یاد نہیں جب شیرو بے ہوش ہوگیا تھا تو بابا نے ڈاکٹر کو بلایا تھا جس نے اسے دوا دی تھی اور انجیکشن بھی لگایا تھا
ہاں ہاں ابوبکر کو یاد آگیا اور وہ اثبات میں سر ہلانے لگا ۔
اتنی دیر میں نانوجان نے چڑیا کو تھوڑا سا پانی پلایا اور اسے لے کر باہر لان میں آگئیں ۔ سردیوں کی نرم دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی نانوجان نے چڑیا کو لان میں بنی چھوٹی سی دیوار پر دھوپ میں رکھ دیا ۔ چڑیا نے پہلے تو اڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوگئی ۔ وہ ٹانگ لمبی کرکے وہیں دھوپ میں لیٹ سی گئی ۔
نانو جان ابوبکر اور حسن کو لے کر لان میں پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئیں اور انہیں کہا اب اس کے پاس کوئی نہ جائے البتہ یہ خیال رکھنا کہ بلی اسے اپنا نوالہ نہ بنا لے ۔
تھوڑی دیر گزری ان کے دیکھتے ہی دیکھتے چڑیا نے پر پھیلائے اور اُڑ کر درخت پر جا بیٹھی وہاں بھی دھوپ تھی ۔
کیا یہ ٹھیک ہوجائے گی ؟ حسن نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے نانو جان سے پوچھا
ان شاء الله یہ بہت جلد ٹھیک ہوجائے گی اور پھر سے اڑنے لگے گی
لیکن نانو جان یہ علاج کے بغیر کیسے ٹھیک ہوگی ؟ اب ابوبکر نے سوال کیا
زخمی پرندے عموما اپنا علاج سورج کی شعاعوں سے کرتے ہیں وہ ایسی جگہ بیٹھ جاتے ہیں جہاں سورج کی روشنی سیدھی ان کے زخم پر پڑے ۔ معمولی زخم تو جلد ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں اور شدید زخموں کو کچھ وقت لگتا ہے
لیکن دوائی کے بغیر کیسے ٹھیک ہوجاتے ہیں حسن ابھی بھی سمجھ نہیں سکا
الله تعالی نے ہر جاندار جسم میں اپنی مرمت خود کرنے کی صلاحیت رکھ دی ہے اگر زخم پر کوئی دوا نہ لگائیں بس اسے صاف ستھرا رکھیں تو وہ خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے ۔ چڑیا بھی چونچ سے اپنا زخم صاف کرتی رہے گی اس کا جسم اپنی مرمت کا کام جاری رکھے گا اور زخم ٹھیک ہوجائے گا ۔
اچھا تو یہ بات ہے اب حسن خوب سمجھ گیا
ابوبکرکا تجسس برقرار تھا اس نے پھر سوال کیا کہ جو جانور بیمار ہوجاتے ہیں وہ اپنا علاج کیسے کرلیتے ہیں ؟
نانو جان نے بتایا جب کوئی جانور بیمار یا زخمی ہوجائے تو وہ اپنا ٹھکانا چھوڑ کر دھوپ اور گرمی والی جگہ پر چلا جاتا ہے جہاں پانی بھی نزدیک ہو ۔ مختلف پودے اور جڑی بوٹیاں کھا کر اپنا علاج کرتا ہے ۔ گوشت خورجانور مثلا شیر اور بھیڑیئے بیمار ہونے کی صورت میں گوشت کھانا چھوڑ دیتے ہیں اور سبزیوں پر گزارہ کرتے ہیں، ریچھ کی پرہیزی غذا بیر اور جڑیں ہوتی ہیں اور ہرن درختوں کی چھال کھاتا ہے۔
جیسے بھیا کو بخار ہوا تو امی جان اسے چائے اور رس کھلاتی تھیں حسن نے اپنا تجزیہ پیش کیا ۔
لیکن یہ کیسے پتہ چلا کہ جانور اس طرح کرتے ہیں ؟ ابوبکر کا منہ حیرت سے کُھل گیا اور وہ بے اختیار بول پڑا
بچو انسان ہر چیز کا بغور مشاہدہ کرتا ہے کیونکہ الله تعالی نے اس میں سوچنے سمجھنے اور کارخانہ قدرت سے سبق حاصل کرنے کی صلاحیت رکھی ہے ۔ انسان نے علم طب کی ابتدائی باتیں جانوروں ہی سے سیکھی ہیں جن جڑی بوٹیوں سے جانور اپنا علاج کرتے تھے انسان بھی ان ہی سے فائدہ اٹھانے لگے ۔ جانور اور پرندے ان پودوں اور جڑی بوٹیوں کا علم رکھتے ہیں جو مختلف بیماریوں میں فائدہ دیتی ہیں۔
یعنی جانور بھی سمجھ دار ہوتے ہیں ۔ حسن نے کہا
جی ہاں بہت سمجھدار ہوتے ہیں ۔ نانو جان بولیں مرغی برسات کے دنوں میں اپنے بچوں کوموسمی بیماریوں سے بچانے کے لیے نرم نرم گھاس تلاش کرکے کھلاتی ہے۔ اسی طرح بندر کو اگر خارش پڑ جائے تو وہ نیم کی کونپلیں توڑ کر کھاتے ہیں ۔
جانوروں کی عادات اور رہن سہن کا مشاہدہ کرنے کے لیے مختلف تحقیقی محکمے بھی بنائے گئے ہیں نانو نے ابوبکر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
یہ محکمے کیا کرتے ہیں ؟ ابوبکر سوال پر سوال کر رہا تھا
بیٹا جی یہ محکمے تحقیق کرتے ہیں کہ جانور کیسے رہتے ہیں کیا کھاتے ہیں بیمار ہوجائیں تو اپنا علاج کیسے کرتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ کیوں چلے جاتے ہیں
ایسے ہی کچھ لوگوں نے تحقیق کرکے بتایا کہ جنگلی جانور کو بخار ہوجائے تو وہ ایسی جگہ ڈیرہ ڈال لیتا ہے جو سایہ دار ہو۔ وہاں کی ہوا صاف اور پانی بھی قریب ہو۔ وہ کھانا چھوڑ دیتاہے ۔ بخار کی شدت کم ہونے یا بخار ٹوٹنے تک صرف پانی پیتا ہے ۔ اسی طرح جس جانور کو جوڑوں یا جسم میں درد کی تکلیف ہوتی ہے وہ ایسی جگہ رہنے لگتا ہے جہاں سورج کی شعائیں سیدھی جسم ہر پڑیں ۔
اسی دوران زیان اور افراح بھی اندر سے باہر آگئے اور پاس بیٹھ کر حیرت و تجسس سے نانو جان کی باتیں سننے لگے
نانو جان نے سلسلہ کلام آگے بڑھاتے ہوئے بچوں کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے بتایا کہ بڑھاپے میں ریچھ اور دوسرے کئی جانور گرم چشمے تلا ش کرتے ہیں اور روز باقاعدگی سے وہاں جاکر غسل کرتے ہیں جن جانوروں کو جوئیں یا پسو پڑجاتے ہیں وہ مٹی میں لوٹنیاں لگاتے ہیں ۔ اس عمل کو ’’غسل خاکی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
افراح باجی آپ بھی مٹی میں لوٹنیاں لگایا کریں ۔ ابوبکر نے جان بوجھ کر افراح کو چڑایا
جی نہیں میرے سر میں جوئیں نہیں میں اپنا سر صاف رکھتی ہوں ۔ میں روز غسل آبی کرتی ہوں ۔ افراح نے دو بدو جواب دیا اور بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔
نانو جان ان کی نوک جھونک پر مسکراتے دوبارہ اصل موضوع پر آگئیں اور کہا بچو تمہیں معلوم ہے جانور موسمی تبدیلیوں کے ساتھ اپنی غذائیں بھی بدل لیتے ہیں
انڈے دینے والی چڑیاں کیلشیم کی کمی پوری کرنے کے لیے ساحل سمندر پر جاکر گھونگھے چن چن کر کھاتی ہیں اور ہرنیاں میلوں دور تک ایسے پانی کی تلاش میں جاتی ہیں جس میں کیلشیم کی مقدار زیادہ ہو۔
میں امی جان کو بتاؤں گا کہ کھانے کی عادت بدلتے رہنا چاہیے ابوبکر نے بڑی ذہانت سے اپنے مطلب کی بات کو سمجھتے ہوئے کہا ۔
نانو جان ہنس پڑیں کیونکہ ابوبکر ہر روز نئی چیز کھانے کی فرمائش کرتا تھا
اور بچو جس طرح ڈاکٹر مجبوراً خراب ہوجانے والے جسم کے حصے کو کاٹ دیتے ہیں تاکہ دوسرے حصے بیماری کے خطرے سے محفوظ رہیں آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جانور بھی اس آخری طریقہ علاج کی سمجھ رکھتے ہیں۔
وہ کیا کرتے ہیں ۔ بات کی نزاکت کو سمجھ کر سب سنجیدہ نظر آنے لگے
کچھ توقف کے بعد نانو جان نے کہا
جب جانورں کو لگتا ہے کہ جسم کا زخمی حصہ ٹھیک نہ ہوسکے گا تو اس کو مختلف طریقوں سے جسم سے کاٹ کر علیحدہ کردیتے ہیں۔
اف الله ! ابوبکر کی آنکھوں میں آنسو آگئے
اسی طرح جب کسی جانور یا پرندے کے جسم کا کوئی حصہ جال میں پھنس جاتا ہے تو وہ اسے دانتوں یا چونچ کی مدد سے کاٹ کر آزاد ہوجاتا ہے کیونکہ یہ بے زبان بھی جانتے ہیں کہ زندگی زیادہ قیمتی ہے۔
سب خاموش ہوگئے
نانو جان نے کہا کیا تم لوگ جانتے ہو کہ جب زمین پر پہلے انسان کی موت ہوئی تو اسے زمین میں دفن کرنے کا طریقہ کس نے سمجھایا تھا ؟
نہیں مجھے نہیں پتہ ابوبکر نے کہا حسن نے بھی نفی میں سر ہلا دیا اور افراح بھی سوالیہ انداز میں نانو جان کی طرف دیکھنے لگی ۔
بچو یہ واقعہ الله تعالی نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے کہ جب آدم علیہ السلام کے ایک بیٹے قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا پھر اسے سمجھ نہ آئی کہ اب اپنے بھائی کی لاش کا کیا کرے ۔ الله تعالی نے ایک کوے کو بھیجا جس نے ایک کوے کی لاش اٹھائی ہوئی تھی اس نے چونچ سے زمین کھودی اورکوے کی لاش کو زمین میں دبا کر اوپر مٹی ڈال دی ۔ اس وقت قابیل کو شرمندگی نے آگھیرا اور اس نے کہا افسوس میں ایک جانور سے بھی گیا گزرا ہوں پھر اس نے بھی ہابیل کو گڑھا کھود کر دفن کردیا ۔
بچے خاموش ہوگئے اور آسمان پر چکر لگاتے کوؤں کو دیکھنے لگے ۔