محمد جاوید اختر
محفلین
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وبعد:
سب تعريفات اللہ سبحانہ وتعالى كے ليے ہيں، اور اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام كے بعد:
ھجرى سال كے بارہ مہينوں ميں سے صفر كا مہينہ بھى ہے جو ماہ محرم كے بعد آتا ہے، بعض كہتے ہيں كہ اسے صفر اس ليے كہا جاتا ہے كہ اس ماہ ميں مكہ شہر اہل مكہ سے خالى ہونے كى بنا پر اسے صفر كہا جاتا ہے۔
اور ايك قول يہ بھى ہے كہ ماہ صفر كو صفر اس ليے كہا جاتا ہے كہ: اس ماہ ميں قبائل كے خلاف چڑھائى كى جاتى تھى اور جو بھى انہيں ملتا اسے مال سے خالى كرديتے ( يعنى اس كا سارا سامان چھين ليتے تو وہ بغير كسى سامان كے رہ جاتا ) ديكھيں: لسان العرب لابن منظور جلد نمبر ( 4 ) صفحہ ( 462-463 )
اس ماہ كے متعلق مندرجہ ذيل نقاط ميں بحث كى جائے گى:
1 - جاہلى عرب كے ہاں اس كے متعلق كيا وارد ہے۔
2 - اہل جاہليت كى مخالفت ميں شرع ميں كيا وارد ہوا ہے۔
3 - اس ماہ كے متعلق اسلام سے منسوب كردہ بدعات اور فاسد اعتقادات۔
4 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں اس ماہ كے اندر ہونے والے غزوات اور جنگيں، اور اہم قسم كے واقعات و حادثات۔
5 - ماہ صفر كے بارے ميں وارد شدہ جھوٹى مكذوب احاديث۔
اول:
جاہلى عرب كے ہاں اس كے بارہ ميں وارد ہونے والى اشياء:
عرب كے ہاں اس مہينہ كے متعلق دو عظيم قسم كى منكر اور برائياں پائى جاتى تھيں:
پہلى: اس ماہ كو آگے پيچھے كركے اس ماہ سے كھيلنا۔
دوسرى: اس ماہ مبارك سے نحوست لينا ( يعنى اسے منحوس سمجھتے تھے )۔
1 - يہ تو معلوم شدہ بات ہے كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے ہى سال كو پيدا كيا ہے اور اس كے مہينوں كى تعداد بارہ(12) ہے، جن ميں سے اللہ تعالى نے چار مہينوں كو حُرمت والا قرار ديا ہے، اور ان مہينوں كى شان و عظمت و احترام كى بنا پر ان مہينوں ميں جنگ وجدال اور لڑائى كرنا حرام ہے، يہ چار ماہ مندرجہ ذيل ہيں:
ذوالقعدۃ ، ذوالحجۃ، محرم، اور رجب،
اور اس كى تصديق اللہ تعالى كا مندرجہ ذيل فرمان ہے:
ارشاد بارى تعالى ہے:
{بلا شبہ مہينوں كى تعداد اللہ تعالى كے ہاں كتاب اللہ ميں بارہ(12) ہے، اسى دن سے جب سے آسمان و زمين كو اس نے پيد كيا ہے، ان ميں سے چار حرمت والے ہيں، يہى مضبوظ اور پختہ اور درست دين ہے، تم ان مہينوں ميں اپنے آپ پر ظلم نہ كرو} التوبۃ ( 36 )
اور مشرك بھى اس بات كا علم ركھتے اور اسے جانتے تھے ليكن اس كے باوجود وہ اسے اپنى خواہشات كے مطابق آگے پيچھے كرتے رہتے تھے، اور اسى ميں يہ بھى شامل تھا كہ وہ" محرم كے بجائے صفر كا مہينہ بنا ليتے تھے" !
اور ان كا اعتقاد يہ تھا كہ حج كے مہينوں ميں عمرہ كرنا سب سے بڑا فجور والا كام ہے، اس كے متعلق اہل علم كے چند ايك اقوال ذيل ميں ذكر كيے جاتے ہيں:
ا - ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ: وہ يہ سمجھتے تھے كہ اشہر الحج يعنى حج كے مہينوں ميں عمرہ كرنا زمين ميں بہت بڑا فجور والا كام ہے، اور وہ محرم كے مہينہ كو صفر بنا ليتے اور يہ كہتے:
جب اونٹوں كى پشت صحيح ہو جائے اور اس كے اثرات مٹ جائيں، اور صفر كا مہينہ ختم ہو جائے، تو عمرہ كرنے والے كے ليے عمرہ حلال ہو جائے. صحيح بخارى حديث نمبر ( 1489 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1240 )
ب - ابن العربى كا كہنا ہے:
دوسرا مسئلہ: النسيئ كى كيفيت:
اس ميں تين قول ہيں:
پہلا قول:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جنادہ بن عوف بن اميہ كنانى ہر برس موسم ميں آتا اور يہ منادى كرتا: خبردار ابو ثمامہ كو نہ تو عيب ديا جاتا ہے اور نہ ہى بات مانى جاتى ہے، خبردار سال كے شروع ميں صفر حلال ہے، تو ہم اسے ايك سال حرام قرار ديتے ہيں اور ايك سال حلال، اور وہ ہوازن اور غطفان اور بنو سليم كے ساتھ تھے۔
اور ايك لفظ ميں ہے كہ وہ يہ كہتا:
ہم نے محرم كو پہلے اور صفر كو بعد ميں كرديا ہے، پھر وہ اگلے برس آتا تو يہ كہتا: ہم نے صفر كو حرام قرار ديا اور محرم كو مؤخر كرديا؛ تو يہ تاخير اور نسيئ ہے۔
دوسرا قول:
زيادہ: قتادہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: گمراہ لوگوں ميں سے ايك قوم نے صفر كو اشہر الحرم يعنى حرمت والے مہينوں ميں شامل كرديا، ان لوگوں كا ليڈر موسم ( يعنى موسم حج ) ميں كھڑا ہو كر يہ كہتا: خبردار تمہارے معبودوں نے اس برس محرم كو حرام كر ديا ہے، تو وہ اس برس محرم كو حرمت والا قرار ديتے، پھر وہى شخص اگلے برس يہ اعلان كرتا كہ: تمہارے معبودوں نے صفر كو حرام كيا ہے تو وہ اس برس صفر كو حرمت والا قرار دے ليتے، اور يہ كہتے صفران " دو صفر"
اور ابن وہب اور ابن القاسم نے امام مالك رحمہ اللہ تعالى سے ايسا ہى روايت كيا وہ كہتے ہيں:
اہل جاہليت اسے دو صفر بناتے تھے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے " لا صفر " فرمايا، اور اشہب نے بھى ان سے ايسا ہى روايت كيا ہے۔
تيسرا قول:
تبديل حج: ايك دوسرى سند كے ساتھ مجاہد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: فرمان بارى تعالى: {النسيئ تو كفر ميں زيادتى كے سوا كچھ نہيں}
مجاہد كہتے ہيں: دو برس وہ ذوالحجہ ميں حج كرتے اور پھر دو برس محرم ميں حج كرتے، پھر دو برس صفر ميں حج كرتے، تو اس طرح وہ ہر برس ايك ماہ ميں دو سال حج كرتے تھے، حتى كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كا حج ذوالقعدہ كے مہينہ كے موافق آيا اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ذوالحجہ ميں حج كيا، اور اسى ليے صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اے لوگو! ميرى بات غور سے سنو اس ليے كہ مجھے علم نہيں ہو سكتا ہے ميں اس دن كے بعد اس موقف اور جگہ ميں تم سے دوبارہ ملاقات نہ كر سكوں، اے لوگو!
بلا شبہ تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اس دن تك حرام ہيں جس دن تم اپنے رب سے ملاقات كرو گے، يہ حرمت ايسى ہے جيسى اس حرمت والے مہينہ كے اس حرمت والے دن كى تمہارے اس حرمت والے شہر ميں ہے، اور بلا شبہ تم اپنے رب سے ملو گے تو تمہارا رب تم سے تمہارے اعمال كے بارے ميں سوال كرے گا، بلاشبہ ميں نے تبليغ كردى اور پيغام پہنچا ديا، لہذا جس كسى كے پاس بھى كوئى امانت ہے وہ اسے امانت والے كو لوٹا دے، اور بلا شبہ ہر قسم كا سود ختم كر ديا گيا ہے، اور تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے گا، اللہ تعالى كا فيصلہ ہے كہ سود نہيں، اور بلاشبہ عباس بن عبدالمطلب كا سارا سود ختم كر ديا گيا ہے، اور جاہليت كا ہر خون ختم كر ديا گيا ہے، اور تمہارا سب سے پہلا خون جسے ميں معاف كرتا ہوں وہ ابن ابى ربيعہ بن حارث بن عبدالمطلب كا ہے جو بنو ليث ميں دودھ پيتا تھا تو اسے ھذيل قبيلہ نے قتل كرديا، اور يہ جاہليت كے خونوں ميں سے پہلا خون ہے جسے ميں ختم كرتا ہوں۔
اما بعد: اے لوگو! بلاشبہ شيطان اس سے نااُميد ہو چكا ہے كہ تمہارى اس سرزمين ميں اس كى عبادت كى جائے، ليكن اس كے علاوہ جن كاموں كو تم حقير سمجھتے ہواگر اس ميں اس كى اطاعت كى جائے تو وہ اس پر راضى ہو گا، لہذا تم اپنے دين پر اس سے بچ كر رہو، اور بيشك النسيئ ( مہينوں كو آگے پيچھے كرنا ) كفر ميں زيادہ ہے جس سے كافر لوگ گمراہ ہوتے ہيں، اس قول تك كہ اللہ تعالى نے جو حرام كيا ہے، اور بلاشبہ زمانہ اسى طرح گھوم گيا ہے جس طرح آسمان و زمين كے پيدا كرنے كے وقت تھا، اور بلا شبہ اللہ تعالى كے ہاں مہينوں كى تعداد بارہ(12) ہے، جن ميں سے چار حرمت والے ہيں، تين تو مسلسل اور پے در پے ہيں، اور ايك مضر قبيلہ والا رجب، جو جمادى اور شعبان كے درميان ہے" اس كے بعد سارى حديث ذكر كى۔
ديكھيں: احكام القرآن ( 2 / 503 - 504 )
2 - اہل جاہليت صفر كے مہينہ كو منحوس سمجھتے اور اس سے نحوست پكڑتے تھے اور اسلام سے منسوب بعض لوگوں ميں آج بھى يہ چيز باقى ہے۔
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نہ تو كوئى عدوى ( متعدى بيمارى ) ہے اور نہ ہى طيرۃ ( نحوست ) اور نہ ہى ہامۃ اور نہ صفر ہے، اور جذام والے سے اس طرح بھاگو جس طرح شير سے بھاگتے ہيں" صحيح بخارى حديث نمبر ( 5387 ) صحيح مسلم ( 2220 )
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
صفر كى كئى ايك شرح اور تفسير كى گئى ہيں:
اول:
يہ معروف صفر كا مہينہ ہے، عرب لوگ اس كے ساتھ نحوست پكڑتے تھے۔
دوم:
يہ پيٹ كى بيمارى ہے جو اونٹ كو لگتى ہے، اور ايك اونٹ سے دوسرے اونٹ تك پہنچتى ہے، تو اس كا عدوى پر عطف خاص كا عام پر عطف كے باب سے ہو گا۔
سوم:
صفر: يہ صفر كا مہينہ ہے: اور اس سے مراد وہ تقديم وتاخير ہے جو كفار كيا كرتے تھے، اور محرم كے مہينہ كى حرمت كو صفر تك مؤخر كرديتے تھے، ايك سال تو اسے حلال كرتے اور دوسرے برس اسے حرام قرار ديتے تھے۔
اور ان ميں راجح يہ ہے كہ: اس سے صفر كا مہينہ مراد ہے، كيونكہ دور جاہليت ميں لوگ اسے منحوس خيال كرتے تھے۔
اور وقت اور زمانے كو اللہ تعالى كى تقدير پر كوئى تاثير نہيں، لہذا يہ بھى باقى اوقات اور زمانوں كى طرح ہى ہے جن ميں خير و شر مقدر كيا جاتا ہے۔
اور بعض لوگ مثلا جب صفر كى پچيس تاريخ كو اپنے كسى خاص كام سے فارغ ہوتے ہيں تو اس كى تاريخ لكھتے ہوئے كہتے ہيں:
خير كے مہينہ صفر كى پچيس تاريخ كو يہ كام ختم ہوا، يہ بدعت كا مداوا بدعت كے ساتھ ہے، يہ مہينہ نہ تو خير كا ہے اور نہ ہى شر كا؛ اسى ليے بعض سلف حضرات نے جب كسى كو الو كى آواز نكالنے پر ان شاء اللہ خير ہے كہنے پر انكار كيا لہذا نہ تو خير اور نہ ہى شر كہا جائے گا، بلكہ يہ اُلّو بھى باقی پرندوں كى طرح ہى بولتا ہے۔
يہ وہ چار اشياء ہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جن كى نفى فرمائى ہے، يہ سب اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كے وجوب اور صدق عزائم پر دلالت كرتا ہے كہ ان امور كے سامنے اسے كمزور نہيں ہونا چاہيے۔
اور جب مسلمان شخص اپنا دھيان اور خيال ان اشياء كى طرف كرے گا تو وہ دو حالتوں سے خالى نہيں ہو گا:
پہلى حالت:
يا تو وہ اسے قبول كرتے ہوئے اپنے كام كو سرانجام دے گا يا پھر اس سے باز رہے گا، تو اس وقت اس نے اپنے اعمال كو ايسى چيز سے معلق كرديا جس كى كوئى حقيقت ہى نہيں۔
دوسرى حالت:
وہ اسے قبول نہ كرتے ہوئے اپنا كام سر انجام دے گا اور اس كى كوئى پرواہ بھى نہيں كرے گا، ليكن اس كے نفس ميں كچھ نہ كچھ غم يا پريشانى رہے گى، يہ اگرچہ پہلى حالت سے آسان اور ہلكى ہے ليكن اسے چاہيے كہ وہ اس كى دعوت دينے والے امور كو مطلقا قبول نہ كرے، بلكہ اسے اللہ تعالى پر بھروسہ اور توكل كرنا چاہيے۔
اور ان چار امور كى نفى سے مراد اس كے وجود كى نفى نہيں كيونكہ يہ موجود ہيں، ليكن يہاں تو صرف اس كى تاثير كى نفى ہے، اس ليے كہ موثر تو اللہ تعالى ہے، لہذا جو سبب معلوم ہو وہ سبب صحيح ہے، اور جو سبب صرف واہمہ پر مبنى ہو وہ سبب باطل ہے، اور بنفسہ اس كى تاثير اور اس كى سببيت كى نفى ہوگى۔
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى (2 / 113-115)
دوم:
شرع ميں وارد شدہ اہل جاہليت كى مخالفت:
صحيحين ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث جو اوپر بيان كى جا چكى ہے، اس ميں يہ بيان كيا گيا ہے كہ اہل جاہليت كا صفر كے مہينہ كے متعلق اعتقاد مذموم تھا، اور صفر كا مہينہ اللہ تعالى كے مہينوں ميں سے ايك مہينہ ہے، اس كا كوئى ارادہ نہيں بلكہ يہ مہينہ بھى اللہ كى تسخير سے گزر رہا ہے۔
سوم:
اس ماہ كے متعلق اسلام سے منسوب لوگوں ميں پائے جانے والے فاسد اعتقادات اور بدعات:
1 - مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ہمارے ملك ميں بعض علماء كرام كا خيال ہے كہ صفر كے مہينہ كے آخرى بدھ ميں چاشت كے وقت ايك سلام كے ساتھ چار ركعت نفل كرين ہر ركعت ميں سترہ ( 17 ) بار سورۃ فاتحہ اور سورۃ الكوثر اور پچاس بار سورۃ الاخلاص ( قل ہو اللہ احد ) اور معوذتين ( سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ) ايك ايك بار پڑھيں، ہر ركعت ميں ايسا ہى كريں اور سلام پھيرى جائے، اور جب سلام پھيرى جائے تو تين سو ساٹھ( 360 ) بار{الله غالب على أمره ولكن أكثر الناس لا يعلمون}اور تين بار جوہر كمال پڑھنا مشروع ہے، اور سبحان ربك رب العزة عما يصفون ، وسلام على المرسلين ، والحمد لله رب العالمين پڑھ كر ختم كى جائے، اور فقراء و مساكين پر كچھ روٹى صدقہ كى جائے۔
اور اس آيت كى خاصيت يہ ہے كہ يہ صفر كے مہينہ كے آخري بدھ كو پہنچنے والى تكليف اور پريشانى كو دور كرتى ہے۔
اور ان كا كہنا ہے كہ: ہر برس تين سو بيس تكليفيں اور آزمائشيں اترتى ہيں، اور يہ ساري كى سارى ماہ صفر كے آخرى بدھ ميں ہيں، تو اس طرح پورے سال ميں يہ دن سب سے مشكل ترين دن ہوتا ہے، اس ليے جو بھى اس مذكورہ كيفيت ميں نماز ادا كرے گا اللہ تعالى اپنے فضل و كرم سے اس دن ميں نازل ہونے والى سارى تكليفوں پريشانيوں اور آزمائشوں سے اس كى حفاظت فرمائے گا، تو كيا يہى حل ہے؟
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
الحمد للہ و الصلاۃ والسلام على رسولہ و آلہ و صحبہ، وبعد:
اللہ تعالى كى تعريفات اور اس كى رسول صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر درود و سلام كے بعد:
سوال ميں مذكور نوافل كے متعلق كتاب و سنت ميں كوئى اصل اور دليل ہمارے علم ميں نہيں، اور ہمارے نزديك تو امت كے سلف صالحين ميں سے كسى ايك سے بھى ثابت نہيں كہ اس پر كسى نے عمل كيا ہو، بلكہ يہ بدعت اور منكرات ميں سے ہے۔
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ثابت ہے كہ:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جو ہمارے دين ميں نہيں تو وہ عمل مردود ہے"
اور ايك دوسرى حديث ميں ہے كہ:
" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام ايجاد كيا جو اس ميں نہيں تو وہ مردود ہے"
اور جس كسى نے بھى اس نماز اور اس كے ساتھ جو كچھ ذكر كيا گيا ہے كو نبى صلى اللہ عليہ وسلم يا كسى صحابى كى طرف منسوب كيا تو اس نے بہت عظيم بہتان بازى كى، اور وہ اللہ تعالى كى جانب سے جھوٹے اور كذاب لوگوں كى سزا كا مستحق ٹھرے گا۔
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 2 / 354 )
2 - اور شيخ محمد عبد السلام الشقيرى كا كہنا ہے:
جاہلوں كى عادت بن چكى ہے كہ سلام والى آيات مثلا { سلام على نوح في العالمين}الايۃ لكھ كر برتنوں ميں ركھ كر ماہ صفر كے آخرى بدھ كو پيتے اور اس سے تبرك حاصل كرتے اور ايك دوسرے كو ہديہ اور تحفہ ميں ديتے ہيں، كيونكہ ان كا اعقاد ہے كہ اس سے شر اور برائى جاتى رہتى ہے، يہ اعتقاد باطل اور فاسد اور اس سے نحوست پكڑنا مذموم ، اور بہت ہى قبيح قسم كى بدعت ہے، جو شخص بھى كسى كو يہ عمل كرتے ہوئے ديكھے اس سے روكنا واجب اور ضرورى ہے۔
ديكھيں: السنن و المبتدعات ( 111 - 112 )
چہارم:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حيات مباركہ ميں اس ماہ كے اندر ہونے والے غزوات اور اہم واقعات:
ان كى تعداد تو بہت زيادہ ہے ليكن بعض كو اختيار كرنا ممكن ہے:
1 - ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بنفس نفيس غزوہ ابواء كيا جسے ودان بھى كہا جاتا ہے، يہ غزوہ سب سے پہلا غزوہ ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بنفس نفيس كيا، يہ غزوہ ہجرت كے بارہويں مہينہ كے آخر ميں ہوا، اور اس كا علم سفيد رنگ كا تھا جو حمزہ بن عبد المطلب رضى اللہ تعالى عنہ كے ہاتھ ميں ديا گيا، اور مدينہ كا امير سعد بن عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ كو مقرر كيا گيا، قريش كے قافلہ كے حصول كے ليے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاص كرمہاجرين ميں نكلے اور كچھ نہ ملا۔
اس غزوہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس دور ميں بنو ضمرہ كے سردار مخشى بن عمرو الضمرى سے صلح اور معاہدہ كيا كہ نہ تو وہ خود اور نہ ہى بنو ضمرہ ان كے خلاف لڑائى كرينگے، اور نہ ہى وہ ان كے خلاف كسى دشمن كى مدد كريں گے اور ان كے خلاف دشمن كى تعداد ميں اضافہ كريں گے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے اور ان كے مابين ايك معاہدہ لكھا، اور نبى كريم صلى اللہ وسلم مدينہ سے پندرہ راتيں باہر رہے۔
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 164 - 165 )
2 - اور ان كا يہ بھى كہنا ہے كہ:
اور سن تين ہجرى صفر كے مہينہ ميں عضل اور قارۃ كے كچھ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور انہوں نے اپنے اسلام لانے كا ذكر كيا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سوال كيا كہ دينى تعليم دينے كے ليے ان كے ساتھ كسى شخص كو بھيجا جائے اور وہ انہيں قرآن كريم كى بھى تعليم دے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے ساتھ ابن اسحاق كے قول كے مطابق - چھ شخص روانہ كيے، اور امام بخارى كہتے ہيں كہ يہ دس افراد تھے اور مرثد بن ابو مرثد الغنوى كو ان كا امير بنايا ان ميں خبيب بن عدى رضى اللہ تعالى عنہ بھى تھے يہ ان كے ساتھ گئے اور جب جب الرجيع - يہ حجاز والى جانب ھذيل كا ايك چشمہ تھا - مقام پر پہنچے تو ان صحابہ كرام كے ساتھ غدارى كى اور ھذيل كو ان كے خلاف جنگ كى دعوت دى حتى كہ وہ آئے اور ان ميں سے اكثر كو قتل كر ديا اور خبيب بن عدى اور زيد بن دثنہ رضى اللہ تعالى عنہما كو قيد كر ليا اور انہيں مكہ لے جا كر فروخت كرديا ان دونوں نے بدر كى لڑائى ميں ان كے سرداروں كو قتل كيا تھا۔
ديكھيں: زاد المعاد لابن قيم ( 3 / 244 ).
3 - اور ايك دوسرى جگہ پر رقمطراز ہيں:
اور بالكل اسى ماہ ميں يعنى صفر چار ہجرى ميں بئر معونہ كا واقعہ پيش آيا، اس كا اختصار كچھ اس طرح ہے:
ابو براء عامر بن مالك جو ملاعب الاسنۃ كے نام سے معروف تھا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اسلام كى دعوت دى ليكن اس نے اسلام قبول نہ كيا اور نہ ہى اس سے دور ہوا اور كہنے لگا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر آپ اپنے صحابہ كو اہل نجد كى طرف دعوت دينے كے ليے روانہ فرمائيں تو مجھے اميد ہے كہ وہ ان كى دعوت مان ليں گے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
ميں ان كے بارے ميں اہل نجد سے خوفزدہ ہوں، تو ابو براء كہنے لگا ميں انہيں اپنى پناہ ديتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے ساتھ ابن اسحاق كے قول كے مطابق چاليس اور صحيح بخارى كے مطابق ستر اشخاص روانہ كيے، صحيح بخارى والى بات ہى صحيح ہے، اور بنو ساعدہ كے ايك شخص منذر بن عمرو جو معنق ليموت كے لقب سے معروف تھا كو ان كا امير مقرر كيا، يہ لوگ مسلمانوں فضلاء اور بہتر قسم كے قراء كرام ميں سے تھے، اس كے ساتھ چل ديے جب بئر معونہ ( يہ حرہ بنو سليم اور بنو عامر كے علاقے كے درميان واقع ہے )پر پہنچے اور وہاں پڑاؤ كيا، پھر انہوں نے ام سليم كے بھائى حرام بن ملحان رضى اللہ تعالى عنہ كو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خط دے كر اللہ كے دشمن عامر بن طفيل كے پاس روانہ كيا اس نے خط كو ديكھا تك بھى نہ اور ايك شخص كو حكم ديا جس نے حرام رضى اللہ تعالى عنہ كو پيچھے سے نيزہ دے مارا، جب حرام رضى اللہ تعالى عنہ كو نيزہ لگا اور انہوں نے خون ديكھا تو كہنے لگے: اللہ كى قسم ميں كامياب ہو گيا، پھر اللہ كے دشمن نے بنو عامر كو باقى صحابہ كرام كے ساتھ لڑنے كے ليے پكارا تو انہوں نے ابو براء كى پناہ كى بنا پر اس كى بات نہ مانى، تو اس نے بنو سليم كو لڑائى كے ليے بلايا تو عصيہ اور رعل اور ذكوان نے اس كى بات مانتے ہوئے لڑائى پر تيار ہوئے اور آكر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كو گھير ليا حتى كہ سب كو قتل كرديا صرف كعب بن زيد نجار رضى اللہ تعالى عنہ بچ گئے كيونكہ انہيں رخمى حالت ميں اٹھا ليا گيا اور يہ زندہ رہے حتى كہ جنگ خندق كے دن شہيد ہوئے۔
اور عمرو بن اميہ ضمرى اور منذر بن عقبہ بن عامر مسلمانوں كى ضروريات كے ليے نكلے ہوئے تھے ان دونوں نے لڑائى والى جگہ كے اوپر پرندوں كو گھومتے ہوئے ديكھا تو منذر بن محمد وہاں آئے اور مشركوں سے لڑتے ہوئے اپنے ساتھيوں كے ساتھ ہى قتل كر ديے گئے اور عمرو بن اميہ ضمرى كو قيد كر ليا گيا، اور جب انہوں نے بتايا كہ وہ مضر قبيلہ سے تعلق ركھتے ہيں تو عامر نے اپنى والدہ كے ذمہ غلام كى جگہ انہيں آزاد كر ديا، عمرو بن اميہ واپس پلٹ پڑے جب صدر قناۃ كى قرقرہ نامى جگہ پہنچے اور ايك درخت كے سائے تلے آرام كرنے لگے تو وہاں بنو كلاب كے دوشخص اس كے ساتھ ہى پڑاؤ كے ليے اتر پڑے، جب وہ دونوں سو گئے تو عمرو نے انہيں قتل كر ديا ان كے خيال ميں انہوں نے اپنے ساتھيوں كا بدلہ ليا تھا، جبكہ ان دونوں كے پاس نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف سے عہد وپيمان تھا ليكن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ كو اس كا علم نہ ہو سكا ، جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس پہنچے تو جو كچھ انہوں نے كيا تھا اس كى خبر رسول كريم صلى اللہ وسلم كو دى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تو نے تو ايسے دو شخص قتل كيے ہيں جن كى ميں ضرور ديت ادا كرونگا۔
ديكھيں: زاد المعاد لابن قيم ( 3 / 246 - 248 ).
4 - اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خيبر كى جانب نكلنا محرم كے آخر ميں تھا نہ كہ محرم كے اوائل ميں اور خيبر صفر ميں فتح ہوا۔
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 339-340 ).
5 - اور ان كا يہ بھى كہنا ہے كہ:
قطبہ بن عامر بن حديدۃ رضى اللہ تعالى عنہ كا خثعم كى جانب سريہ كے متلق فصل:
يہ نو ( 9 ) ھجرى صفر كے مہينہ ميں ہوا، ابن سعد كہتے ہيں:
ان كا كہنا ہے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قطبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ كو بيس آدميوں كے ساتھ تبالہ علاقے كى جانب قبيلہ خثعم كى طرف بھيجا اور انہيں حملہ كرنے كا حكم ديا، تو يہ سب دس اونٹوں پر بارى بارى سوارى كرتے ہوئے روانہ ہوئے اور راستے ميں ايك شخص كو پكڑا اور اس سے پوچھنے لگے تو وہ ان پر مبہم سا رہا اور اونچى آواز ميں وہاں كے رہائشيوں كو پكارنے لگا اور انہيں آگاہ كرنے لگا تو انہوں نے اسے قتل كرديا، پھر وہ ركے رہے حتى كہ وہاں كے رہائشى سو گئے تو ان پر حملہ كرديا اور بہت شديد قسم كى لڑائى ہوئى جس ميں دونوں فريقوں كے بہت سے لوگ زخمى ہوئے، اور قطبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ نے كئى ايك قتل كيے اور ان كے جانور اور عورتيں اور بكرياں مدينہ كى جانب ہانك كر لے گئے۔
اور قصہ ميں يہ بھى ہے كہ: وہ لوگ جمع ہو كر ان كا پيچھا كرنے كے ليے نكلے تو اللہ تعالى نے ان پربہت عظيم سيلاب بھيج ديا جو مسلمانوں اور ان كے مابين حائل ہو گيا تو مسلمان بكرياں اور عورتيں ہانك كے لے گئے اور وہ ديكھتے رہ گئے ان ميں مسلمانوں تك پہنچنے كى استطاعت ہى نہ رہى حتى كہ ان كى نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 514 )
6 - اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى عنہ كا كہنا ہے كہ:
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس عذرۃ كا وقد صفر نو ھجرى ميں ميں آيا جس ميں بارہ افراد شامل تھے ان ميں جمرہ بن نعمان بھى تھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سوال كيا بھئى كون لوگ ہو تو ان ميں سے بات كرنے والے شخص نے جواب ديا: جن كو آپ ناپسند نہيں كرتے ہم قصي كے ماں جائے بھائى بنو عذرۃ ہيں، ہم وہى ہيں جنہوں نے قصي كو مضبوط كيا تھا اور خزاعۃ اور بنو بكر كو بطن مكہ سے دور كر ديا تھا، اور ہمارى رشتہ دارياں ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تمہيں خوش آمديد ميں تمہيں خوب جانتا ہوں، تو وہ سب مسلمان ہو گئے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں شام كے فتح ہونے اور ھرقل كا اپنے ملك سے ممتنع كى جانب بھاگ جانے كى خوشخبرى دى اور انہيں نجوميوں اور كاہنوں سے سوال كرنے سے منع فرمايا، اور جو وہ ذبح كرتے تھے ان كے ان ذبائح سے روك ديا، اور انہيں بتايا كہ ان كے ذمہ صرف ( عيد الاضحى كى ) قربانى ہے، تو وہ كچھ دن دار رملہ ميں رہے اور پھر وہاں سے واپس چلے گئے.
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 657 ).
پنجم:
ماہ صفر كے متعلق وارد شدہ موضوع اور جھوٹى احاديت:
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
آنے والى تاريخ كے متعلق احاديث كى فصل:
اس ميں يہ ہے كہ: حديث ميں اتنى اتنى تاريخ ہو، مثلا قولہ: جب يہ سال ہو تو ايسے ايسے ہو گا. اور جب يہ يہ مہينہ ہو گا تو اس اس طرح كے واقعات ہونگے۔
اور جيسا كہ شرير اور كذاب كا قول ہے: جب محرم ميں چاند گرہن ہو گا، تو حكمران كا كام قتل و غارت اور مہنگائى ہوگا، اور جب صفر ميں چاند گرہن ہو تو اس اس طرح ہو گا۔
اور يہ كذاب اسى طرح سارے مہينوں كے متعلق بيان كرتا چلا گيا ہے۔
اس باب ميں جتنى بھى احاديث ہيں وہ سب جھوٹى اور موضوع اور بہتان ہيں۔
ديكھيں: المنار المنيف ( 64 ).
واللہ اعلم
بحوالہ : اسلام سوال جواب ڈاٹ کام
سب تعريفات اللہ سبحانہ وتعالى كے ليے ہيں، اور اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام كے بعد:
ھجرى سال كے بارہ مہينوں ميں سے صفر كا مہينہ بھى ہے جو ماہ محرم كے بعد آتا ہے، بعض كہتے ہيں كہ اسے صفر اس ليے كہا جاتا ہے كہ اس ماہ ميں مكہ شہر اہل مكہ سے خالى ہونے كى بنا پر اسے صفر كہا جاتا ہے۔
اور ايك قول يہ بھى ہے كہ ماہ صفر كو صفر اس ليے كہا جاتا ہے كہ: اس ماہ ميں قبائل كے خلاف چڑھائى كى جاتى تھى اور جو بھى انہيں ملتا اسے مال سے خالى كرديتے ( يعنى اس كا سارا سامان چھين ليتے تو وہ بغير كسى سامان كے رہ جاتا ) ديكھيں: لسان العرب لابن منظور جلد نمبر ( 4 ) صفحہ ( 462-463 )
اس ماہ كے متعلق مندرجہ ذيل نقاط ميں بحث كى جائے گى:
1 - جاہلى عرب كے ہاں اس كے متعلق كيا وارد ہے۔
2 - اہل جاہليت كى مخالفت ميں شرع ميں كيا وارد ہوا ہے۔
3 - اس ماہ كے متعلق اسلام سے منسوب كردہ بدعات اور فاسد اعتقادات۔
4 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں اس ماہ كے اندر ہونے والے غزوات اور جنگيں، اور اہم قسم كے واقعات و حادثات۔
5 - ماہ صفر كے بارے ميں وارد شدہ جھوٹى مكذوب احاديث۔
اول:
جاہلى عرب كے ہاں اس كے بارہ ميں وارد ہونے والى اشياء:
عرب كے ہاں اس مہينہ كے متعلق دو عظيم قسم كى منكر اور برائياں پائى جاتى تھيں:
پہلى: اس ماہ كو آگے پيچھے كركے اس ماہ سے كھيلنا۔
دوسرى: اس ماہ مبارك سے نحوست لينا ( يعنى اسے منحوس سمجھتے تھے )۔
1 - يہ تو معلوم شدہ بات ہے كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے ہى سال كو پيدا كيا ہے اور اس كے مہينوں كى تعداد بارہ(12) ہے، جن ميں سے اللہ تعالى نے چار مہينوں كو حُرمت والا قرار ديا ہے، اور ان مہينوں كى شان و عظمت و احترام كى بنا پر ان مہينوں ميں جنگ وجدال اور لڑائى كرنا حرام ہے، يہ چار ماہ مندرجہ ذيل ہيں:
ذوالقعدۃ ، ذوالحجۃ، محرم، اور رجب،
اور اس كى تصديق اللہ تعالى كا مندرجہ ذيل فرمان ہے:
ارشاد بارى تعالى ہے:
{بلا شبہ مہينوں كى تعداد اللہ تعالى كے ہاں كتاب اللہ ميں بارہ(12) ہے، اسى دن سے جب سے آسمان و زمين كو اس نے پيد كيا ہے، ان ميں سے چار حرمت والے ہيں، يہى مضبوظ اور پختہ اور درست دين ہے، تم ان مہينوں ميں اپنے آپ پر ظلم نہ كرو} التوبۃ ( 36 )
اور مشرك بھى اس بات كا علم ركھتے اور اسے جانتے تھے ليكن اس كے باوجود وہ اسے اپنى خواہشات كے مطابق آگے پيچھے كرتے رہتے تھے، اور اسى ميں يہ بھى شامل تھا كہ وہ" محرم كے بجائے صفر كا مہينہ بنا ليتے تھے" !
اور ان كا اعتقاد يہ تھا كہ حج كے مہينوں ميں عمرہ كرنا سب سے بڑا فجور والا كام ہے، اس كے متعلق اہل علم كے چند ايك اقوال ذيل ميں ذكر كيے جاتے ہيں:
ا - ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ: وہ يہ سمجھتے تھے كہ اشہر الحج يعنى حج كے مہينوں ميں عمرہ كرنا زمين ميں بہت بڑا فجور والا كام ہے، اور وہ محرم كے مہينہ كو صفر بنا ليتے اور يہ كہتے:
جب اونٹوں كى پشت صحيح ہو جائے اور اس كے اثرات مٹ جائيں، اور صفر كا مہينہ ختم ہو جائے، تو عمرہ كرنے والے كے ليے عمرہ حلال ہو جائے. صحيح بخارى حديث نمبر ( 1489 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1240 )
ب - ابن العربى كا كہنا ہے:
دوسرا مسئلہ: النسيئ كى كيفيت:
اس ميں تين قول ہيں:
پہلا قول:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جنادہ بن عوف بن اميہ كنانى ہر برس موسم ميں آتا اور يہ منادى كرتا: خبردار ابو ثمامہ كو نہ تو عيب ديا جاتا ہے اور نہ ہى بات مانى جاتى ہے، خبردار سال كے شروع ميں صفر حلال ہے، تو ہم اسے ايك سال حرام قرار ديتے ہيں اور ايك سال حلال، اور وہ ہوازن اور غطفان اور بنو سليم كے ساتھ تھے۔
اور ايك لفظ ميں ہے كہ وہ يہ كہتا:
ہم نے محرم كو پہلے اور صفر كو بعد ميں كرديا ہے، پھر وہ اگلے برس آتا تو يہ كہتا: ہم نے صفر كو حرام قرار ديا اور محرم كو مؤخر كرديا؛ تو يہ تاخير اور نسيئ ہے۔
دوسرا قول:
زيادہ: قتادہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: گمراہ لوگوں ميں سے ايك قوم نے صفر كو اشہر الحرم يعنى حرمت والے مہينوں ميں شامل كرديا، ان لوگوں كا ليڈر موسم ( يعنى موسم حج ) ميں كھڑا ہو كر يہ كہتا: خبردار تمہارے معبودوں نے اس برس محرم كو حرام كر ديا ہے، تو وہ اس برس محرم كو حرمت والا قرار ديتے، پھر وہى شخص اگلے برس يہ اعلان كرتا كہ: تمہارے معبودوں نے صفر كو حرام كيا ہے تو وہ اس برس صفر كو حرمت والا قرار دے ليتے، اور يہ كہتے صفران " دو صفر"
اور ابن وہب اور ابن القاسم نے امام مالك رحمہ اللہ تعالى سے ايسا ہى روايت كيا وہ كہتے ہيں:
اہل جاہليت اسے دو صفر بناتے تھے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے " لا صفر " فرمايا، اور اشہب نے بھى ان سے ايسا ہى روايت كيا ہے۔
تيسرا قول:
تبديل حج: ايك دوسرى سند كے ساتھ مجاہد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: فرمان بارى تعالى: {النسيئ تو كفر ميں زيادتى كے سوا كچھ نہيں}
مجاہد كہتے ہيں: دو برس وہ ذوالحجہ ميں حج كرتے اور پھر دو برس محرم ميں حج كرتے، پھر دو برس صفر ميں حج كرتے، تو اس طرح وہ ہر برس ايك ماہ ميں دو سال حج كرتے تھے، حتى كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كا حج ذوالقعدہ كے مہينہ كے موافق آيا اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ذوالحجہ ميں حج كيا، اور اسى ليے صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اے لوگو! ميرى بات غور سے سنو اس ليے كہ مجھے علم نہيں ہو سكتا ہے ميں اس دن كے بعد اس موقف اور جگہ ميں تم سے دوبارہ ملاقات نہ كر سكوں، اے لوگو!
بلا شبہ تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اس دن تك حرام ہيں جس دن تم اپنے رب سے ملاقات كرو گے، يہ حرمت ايسى ہے جيسى اس حرمت والے مہينہ كے اس حرمت والے دن كى تمہارے اس حرمت والے شہر ميں ہے، اور بلا شبہ تم اپنے رب سے ملو گے تو تمہارا رب تم سے تمہارے اعمال كے بارے ميں سوال كرے گا، بلاشبہ ميں نے تبليغ كردى اور پيغام پہنچا ديا، لہذا جس كسى كے پاس بھى كوئى امانت ہے وہ اسے امانت والے كو لوٹا دے، اور بلا شبہ ہر قسم كا سود ختم كر ديا گيا ہے، اور تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے گا، اللہ تعالى كا فيصلہ ہے كہ سود نہيں، اور بلاشبہ عباس بن عبدالمطلب كا سارا سود ختم كر ديا گيا ہے، اور جاہليت كا ہر خون ختم كر ديا گيا ہے، اور تمہارا سب سے پہلا خون جسے ميں معاف كرتا ہوں وہ ابن ابى ربيعہ بن حارث بن عبدالمطلب كا ہے جو بنو ليث ميں دودھ پيتا تھا تو اسے ھذيل قبيلہ نے قتل كرديا، اور يہ جاہليت كے خونوں ميں سے پہلا خون ہے جسے ميں ختم كرتا ہوں۔
اما بعد: اے لوگو! بلاشبہ شيطان اس سے نااُميد ہو چكا ہے كہ تمہارى اس سرزمين ميں اس كى عبادت كى جائے، ليكن اس كے علاوہ جن كاموں كو تم حقير سمجھتے ہواگر اس ميں اس كى اطاعت كى جائے تو وہ اس پر راضى ہو گا، لہذا تم اپنے دين پر اس سے بچ كر رہو، اور بيشك النسيئ ( مہينوں كو آگے پيچھے كرنا ) كفر ميں زيادہ ہے جس سے كافر لوگ گمراہ ہوتے ہيں، اس قول تك كہ اللہ تعالى نے جو حرام كيا ہے، اور بلاشبہ زمانہ اسى طرح گھوم گيا ہے جس طرح آسمان و زمين كے پيدا كرنے كے وقت تھا، اور بلا شبہ اللہ تعالى كے ہاں مہينوں كى تعداد بارہ(12) ہے، جن ميں سے چار حرمت والے ہيں، تين تو مسلسل اور پے در پے ہيں، اور ايك مضر قبيلہ والا رجب، جو جمادى اور شعبان كے درميان ہے" اس كے بعد سارى حديث ذكر كى۔
ديكھيں: احكام القرآن ( 2 / 503 - 504 )
2 - اہل جاہليت صفر كے مہينہ كو منحوس سمجھتے اور اس سے نحوست پكڑتے تھے اور اسلام سے منسوب بعض لوگوں ميں آج بھى يہ چيز باقى ہے۔
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نہ تو كوئى عدوى ( متعدى بيمارى ) ہے اور نہ ہى طيرۃ ( نحوست ) اور نہ ہى ہامۃ اور نہ صفر ہے، اور جذام والے سے اس طرح بھاگو جس طرح شير سے بھاگتے ہيں" صحيح بخارى حديث نمبر ( 5387 ) صحيح مسلم ( 2220 )
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
صفر كى كئى ايك شرح اور تفسير كى گئى ہيں:
اول:
يہ معروف صفر كا مہينہ ہے، عرب لوگ اس كے ساتھ نحوست پكڑتے تھے۔
دوم:
يہ پيٹ كى بيمارى ہے جو اونٹ كو لگتى ہے، اور ايك اونٹ سے دوسرے اونٹ تك پہنچتى ہے، تو اس كا عدوى پر عطف خاص كا عام پر عطف كے باب سے ہو گا۔
سوم:
صفر: يہ صفر كا مہينہ ہے: اور اس سے مراد وہ تقديم وتاخير ہے جو كفار كيا كرتے تھے، اور محرم كے مہينہ كى حرمت كو صفر تك مؤخر كرديتے تھے، ايك سال تو اسے حلال كرتے اور دوسرے برس اسے حرام قرار ديتے تھے۔
اور ان ميں راجح يہ ہے كہ: اس سے صفر كا مہينہ مراد ہے، كيونكہ دور جاہليت ميں لوگ اسے منحوس خيال كرتے تھے۔
اور وقت اور زمانے كو اللہ تعالى كى تقدير پر كوئى تاثير نہيں، لہذا يہ بھى باقى اوقات اور زمانوں كى طرح ہى ہے جن ميں خير و شر مقدر كيا جاتا ہے۔
اور بعض لوگ مثلا جب صفر كى پچيس تاريخ كو اپنے كسى خاص كام سے فارغ ہوتے ہيں تو اس كى تاريخ لكھتے ہوئے كہتے ہيں:
خير كے مہينہ صفر كى پچيس تاريخ كو يہ كام ختم ہوا، يہ بدعت كا مداوا بدعت كے ساتھ ہے، يہ مہينہ نہ تو خير كا ہے اور نہ ہى شر كا؛ اسى ليے بعض سلف حضرات نے جب كسى كو الو كى آواز نكالنے پر ان شاء اللہ خير ہے كہنے پر انكار كيا لہذا نہ تو خير اور نہ ہى شر كہا جائے گا، بلكہ يہ اُلّو بھى باقی پرندوں كى طرح ہى بولتا ہے۔
يہ وہ چار اشياء ہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جن كى نفى فرمائى ہے، يہ سب اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كے وجوب اور صدق عزائم پر دلالت كرتا ہے كہ ان امور كے سامنے اسے كمزور نہيں ہونا چاہيے۔
اور جب مسلمان شخص اپنا دھيان اور خيال ان اشياء كى طرف كرے گا تو وہ دو حالتوں سے خالى نہيں ہو گا:
پہلى حالت:
يا تو وہ اسے قبول كرتے ہوئے اپنے كام كو سرانجام دے گا يا پھر اس سے باز رہے گا، تو اس وقت اس نے اپنے اعمال كو ايسى چيز سے معلق كرديا جس كى كوئى حقيقت ہى نہيں۔
دوسرى حالت:
وہ اسے قبول نہ كرتے ہوئے اپنا كام سر انجام دے گا اور اس كى كوئى پرواہ بھى نہيں كرے گا، ليكن اس كے نفس ميں كچھ نہ كچھ غم يا پريشانى رہے گى، يہ اگرچہ پہلى حالت سے آسان اور ہلكى ہے ليكن اسے چاہيے كہ وہ اس كى دعوت دينے والے امور كو مطلقا قبول نہ كرے، بلكہ اسے اللہ تعالى پر بھروسہ اور توكل كرنا چاہيے۔
اور ان چار امور كى نفى سے مراد اس كے وجود كى نفى نہيں كيونكہ يہ موجود ہيں، ليكن يہاں تو صرف اس كى تاثير كى نفى ہے، اس ليے كہ موثر تو اللہ تعالى ہے، لہذا جو سبب معلوم ہو وہ سبب صحيح ہے، اور جو سبب صرف واہمہ پر مبنى ہو وہ سبب باطل ہے، اور بنفسہ اس كى تاثير اور اس كى سببيت كى نفى ہوگى۔
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى (2 / 113-115)
دوم:
شرع ميں وارد شدہ اہل جاہليت كى مخالفت:
صحيحين ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث جو اوپر بيان كى جا چكى ہے، اس ميں يہ بيان كيا گيا ہے كہ اہل جاہليت كا صفر كے مہينہ كے متعلق اعتقاد مذموم تھا، اور صفر كا مہينہ اللہ تعالى كے مہينوں ميں سے ايك مہينہ ہے، اس كا كوئى ارادہ نہيں بلكہ يہ مہينہ بھى اللہ كى تسخير سے گزر رہا ہے۔
سوم:
اس ماہ كے متعلق اسلام سے منسوب لوگوں ميں پائے جانے والے فاسد اعتقادات اور بدعات:
1 - مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ہمارے ملك ميں بعض علماء كرام كا خيال ہے كہ صفر كے مہينہ كے آخرى بدھ ميں چاشت كے وقت ايك سلام كے ساتھ چار ركعت نفل كرين ہر ركعت ميں سترہ ( 17 ) بار سورۃ فاتحہ اور سورۃ الكوثر اور پچاس بار سورۃ الاخلاص ( قل ہو اللہ احد ) اور معوذتين ( سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ) ايك ايك بار پڑھيں، ہر ركعت ميں ايسا ہى كريں اور سلام پھيرى جائے، اور جب سلام پھيرى جائے تو تين سو ساٹھ( 360 ) بار{الله غالب على أمره ولكن أكثر الناس لا يعلمون}اور تين بار جوہر كمال پڑھنا مشروع ہے، اور سبحان ربك رب العزة عما يصفون ، وسلام على المرسلين ، والحمد لله رب العالمين پڑھ كر ختم كى جائے، اور فقراء و مساكين پر كچھ روٹى صدقہ كى جائے۔
اور اس آيت كى خاصيت يہ ہے كہ يہ صفر كے مہينہ كے آخري بدھ كو پہنچنے والى تكليف اور پريشانى كو دور كرتى ہے۔
اور ان كا كہنا ہے كہ: ہر برس تين سو بيس تكليفيں اور آزمائشيں اترتى ہيں، اور يہ ساري كى سارى ماہ صفر كے آخرى بدھ ميں ہيں، تو اس طرح پورے سال ميں يہ دن سب سے مشكل ترين دن ہوتا ہے، اس ليے جو بھى اس مذكورہ كيفيت ميں نماز ادا كرے گا اللہ تعالى اپنے فضل و كرم سے اس دن ميں نازل ہونے والى سارى تكليفوں پريشانيوں اور آزمائشوں سے اس كى حفاظت فرمائے گا، تو كيا يہى حل ہے؟
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
الحمد للہ و الصلاۃ والسلام على رسولہ و آلہ و صحبہ، وبعد:
اللہ تعالى كى تعريفات اور اس كى رسول صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر درود و سلام كے بعد:
سوال ميں مذكور نوافل كے متعلق كتاب و سنت ميں كوئى اصل اور دليل ہمارے علم ميں نہيں، اور ہمارے نزديك تو امت كے سلف صالحين ميں سے كسى ايك سے بھى ثابت نہيں كہ اس پر كسى نے عمل كيا ہو، بلكہ يہ بدعت اور منكرات ميں سے ہے۔
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ثابت ہے كہ:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جو ہمارے دين ميں نہيں تو وہ عمل مردود ہے"
اور ايك دوسرى حديث ميں ہے كہ:
" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام ايجاد كيا جو اس ميں نہيں تو وہ مردود ہے"
اور جس كسى نے بھى اس نماز اور اس كے ساتھ جو كچھ ذكر كيا گيا ہے كو نبى صلى اللہ عليہ وسلم يا كسى صحابى كى طرف منسوب كيا تو اس نے بہت عظيم بہتان بازى كى، اور وہ اللہ تعالى كى جانب سے جھوٹے اور كذاب لوگوں كى سزا كا مستحق ٹھرے گا۔
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 2 / 354 )
2 - اور شيخ محمد عبد السلام الشقيرى كا كہنا ہے:
جاہلوں كى عادت بن چكى ہے كہ سلام والى آيات مثلا { سلام على نوح في العالمين}الايۃ لكھ كر برتنوں ميں ركھ كر ماہ صفر كے آخرى بدھ كو پيتے اور اس سے تبرك حاصل كرتے اور ايك دوسرے كو ہديہ اور تحفہ ميں ديتے ہيں، كيونكہ ان كا اعقاد ہے كہ اس سے شر اور برائى جاتى رہتى ہے، يہ اعتقاد باطل اور فاسد اور اس سے نحوست پكڑنا مذموم ، اور بہت ہى قبيح قسم كى بدعت ہے، جو شخص بھى كسى كو يہ عمل كرتے ہوئے ديكھے اس سے روكنا واجب اور ضرورى ہے۔
ديكھيں: السنن و المبتدعات ( 111 - 112 )
چہارم:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حيات مباركہ ميں اس ماہ كے اندر ہونے والے غزوات اور اہم واقعات:
ان كى تعداد تو بہت زيادہ ہے ليكن بعض كو اختيار كرنا ممكن ہے:
1 - ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بنفس نفيس غزوہ ابواء كيا جسے ودان بھى كہا جاتا ہے، يہ غزوہ سب سے پہلا غزوہ ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بنفس نفيس كيا، يہ غزوہ ہجرت كے بارہويں مہينہ كے آخر ميں ہوا، اور اس كا علم سفيد رنگ كا تھا جو حمزہ بن عبد المطلب رضى اللہ تعالى عنہ كے ہاتھ ميں ديا گيا، اور مدينہ كا امير سعد بن عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ كو مقرر كيا گيا، قريش كے قافلہ كے حصول كے ليے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاص كرمہاجرين ميں نكلے اور كچھ نہ ملا۔
اس غزوہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس دور ميں بنو ضمرہ كے سردار مخشى بن عمرو الضمرى سے صلح اور معاہدہ كيا كہ نہ تو وہ خود اور نہ ہى بنو ضمرہ ان كے خلاف لڑائى كرينگے، اور نہ ہى وہ ان كے خلاف كسى دشمن كى مدد كريں گے اور ان كے خلاف دشمن كى تعداد ميں اضافہ كريں گے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے اور ان كے مابين ايك معاہدہ لكھا، اور نبى كريم صلى اللہ وسلم مدينہ سے پندرہ راتيں باہر رہے۔
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 164 - 165 )
2 - اور ان كا يہ بھى كہنا ہے كہ:
اور سن تين ہجرى صفر كے مہينہ ميں عضل اور قارۃ كے كچھ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور انہوں نے اپنے اسلام لانے كا ذكر كيا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سوال كيا كہ دينى تعليم دينے كے ليے ان كے ساتھ كسى شخص كو بھيجا جائے اور وہ انہيں قرآن كريم كى بھى تعليم دے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے ساتھ ابن اسحاق كے قول كے مطابق - چھ شخص روانہ كيے، اور امام بخارى كہتے ہيں كہ يہ دس افراد تھے اور مرثد بن ابو مرثد الغنوى كو ان كا امير بنايا ان ميں خبيب بن عدى رضى اللہ تعالى عنہ بھى تھے يہ ان كے ساتھ گئے اور جب جب الرجيع - يہ حجاز والى جانب ھذيل كا ايك چشمہ تھا - مقام پر پہنچے تو ان صحابہ كرام كے ساتھ غدارى كى اور ھذيل كو ان كے خلاف جنگ كى دعوت دى حتى كہ وہ آئے اور ان ميں سے اكثر كو قتل كر ديا اور خبيب بن عدى اور زيد بن دثنہ رضى اللہ تعالى عنہما كو قيد كر ليا اور انہيں مكہ لے جا كر فروخت كرديا ان دونوں نے بدر كى لڑائى ميں ان كے سرداروں كو قتل كيا تھا۔
ديكھيں: زاد المعاد لابن قيم ( 3 / 244 ).
3 - اور ايك دوسرى جگہ پر رقمطراز ہيں:
اور بالكل اسى ماہ ميں يعنى صفر چار ہجرى ميں بئر معونہ كا واقعہ پيش آيا، اس كا اختصار كچھ اس طرح ہے:
ابو براء عامر بن مالك جو ملاعب الاسنۃ كے نام سے معروف تھا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اسلام كى دعوت دى ليكن اس نے اسلام قبول نہ كيا اور نہ ہى اس سے دور ہوا اور كہنے لگا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر آپ اپنے صحابہ كو اہل نجد كى طرف دعوت دينے كے ليے روانہ فرمائيں تو مجھے اميد ہے كہ وہ ان كى دعوت مان ليں گے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
ميں ان كے بارے ميں اہل نجد سے خوفزدہ ہوں، تو ابو براء كہنے لگا ميں انہيں اپنى پناہ ديتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے ساتھ ابن اسحاق كے قول كے مطابق چاليس اور صحيح بخارى كے مطابق ستر اشخاص روانہ كيے، صحيح بخارى والى بات ہى صحيح ہے، اور بنو ساعدہ كے ايك شخص منذر بن عمرو جو معنق ليموت كے لقب سے معروف تھا كو ان كا امير مقرر كيا، يہ لوگ مسلمانوں فضلاء اور بہتر قسم كے قراء كرام ميں سے تھے، اس كے ساتھ چل ديے جب بئر معونہ ( يہ حرہ بنو سليم اور بنو عامر كے علاقے كے درميان واقع ہے )پر پہنچے اور وہاں پڑاؤ كيا، پھر انہوں نے ام سليم كے بھائى حرام بن ملحان رضى اللہ تعالى عنہ كو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خط دے كر اللہ كے دشمن عامر بن طفيل كے پاس روانہ كيا اس نے خط كو ديكھا تك بھى نہ اور ايك شخص كو حكم ديا جس نے حرام رضى اللہ تعالى عنہ كو پيچھے سے نيزہ دے مارا، جب حرام رضى اللہ تعالى عنہ كو نيزہ لگا اور انہوں نے خون ديكھا تو كہنے لگے: اللہ كى قسم ميں كامياب ہو گيا، پھر اللہ كے دشمن نے بنو عامر كو باقى صحابہ كرام كے ساتھ لڑنے كے ليے پكارا تو انہوں نے ابو براء كى پناہ كى بنا پر اس كى بات نہ مانى، تو اس نے بنو سليم كو لڑائى كے ليے بلايا تو عصيہ اور رعل اور ذكوان نے اس كى بات مانتے ہوئے لڑائى پر تيار ہوئے اور آكر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كو گھير ليا حتى كہ سب كو قتل كرديا صرف كعب بن زيد نجار رضى اللہ تعالى عنہ بچ گئے كيونكہ انہيں رخمى حالت ميں اٹھا ليا گيا اور يہ زندہ رہے حتى كہ جنگ خندق كے دن شہيد ہوئے۔
اور عمرو بن اميہ ضمرى اور منذر بن عقبہ بن عامر مسلمانوں كى ضروريات كے ليے نكلے ہوئے تھے ان دونوں نے لڑائى والى جگہ كے اوپر پرندوں كو گھومتے ہوئے ديكھا تو منذر بن محمد وہاں آئے اور مشركوں سے لڑتے ہوئے اپنے ساتھيوں كے ساتھ ہى قتل كر ديے گئے اور عمرو بن اميہ ضمرى كو قيد كر ليا گيا، اور جب انہوں نے بتايا كہ وہ مضر قبيلہ سے تعلق ركھتے ہيں تو عامر نے اپنى والدہ كے ذمہ غلام كى جگہ انہيں آزاد كر ديا، عمرو بن اميہ واپس پلٹ پڑے جب صدر قناۃ كى قرقرہ نامى جگہ پہنچے اور ايك درخت كے سائے تلے آرام كرنے لگے تو وہاں بنو كلاب كے دوشخص اس كے ساتھ ہى پڑاؤ كے ليے اتر پڑے، جب وہ دونوں سو گئے تو عمرو نے انہيں قتل كر ديا ان كے خيال ميں انہوں نے اپنے ساتھيوں كا بدلہ ليا تھا، جبكہ ان دونوں كے پاس نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف سے عہد وپيمان تھا ليكن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ كو اس كا علم نہ ہو سكا ، جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس پہنچے تو جو كچھ انہوں نے كيا تھا اس كى خبر رسول كريم صلى اللہ وسلم كو دى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تو نے تو ايسے دو شخص قتل كيے ہيں جن كى ميں ضرور ديت ادا كرونگا۔
ديكھيں: زاد المعاد لابن قيم ( 3 / 246 - 248 ).
4 - اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خيبر كى جانب نكلنا محرم كے آخر ميں تھا نہ كہ محرم كے اوائل ميں اور خيبر صفر ميں فتح ہوا۔
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 339-340 ).
5 - اور ان كا يہ بھى كہنا ہے كہ:
قطبہ بن عامر بن حديدۃ رضى اللہ تعالى عنہ كا خثعم كى جانب سريہ كے متلق فصل:
يہ نو ( 9 ) ھجرى صفر كے مہينہ ميں ہوا، ابن سعد كہتے ہيں:
ان كا كہنا ہے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قطبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ كو بيس آدميوں كے ساتھ تبالہ علاقے كى جانب قبيلہ خثعم كى طرف بھيجا اور انہيں حملہ كرنے كا حكم ديا، تو يہ سب دس اونٹوں پر بارى بارى سوارى كرتے ہوئے روانہ ہوئے اور راستے ميں ايك شخص كو پكڑا اور اس سے پوچھنے لگے تو وہ ان پر مبہم سا رہا اور اونچى آواز ميں وہاں كے رہائشيوں كو پكارنے لگا اور انہيں آگاہ كرنے لگا تو انہوں نے اسے قتل كرديا، پھر وہ ركے رہے حتى كہ وہاں كے رہائشى سو گئے تو ان پر حملہ كرديا اور بہت شديد قسم كى لڑائى ہوئى جس ميں دونوں فريقوں كے بہت سے لوگ زخمى ہوئے، اور قطبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ نے كئى ايك قتل كيے اور ان كے جانور اور عورتيں اور بكرياں مدينہ كى جانب ہانك كر لے گئے۔
اور قصہ ميں يہ بھى ہے كہ: وہ لوگ جمع ہو كر ان كا پيچھا كرنے كے ليے نكلے تو اللہ تعالى نے ان پربہت عظيم سيلاب بھيج ديا جو مسلمانوں اور ان كے مابين حائل ہو گيا تو مسلمان بكرياں اور عورتيں ہانك كے لے گئے اور وہ ديكھتے رہ گئے ان ميں مسلمانوں تك پہنچنے كى استطاعت ہى نہ رہى حتى كہ ان كى نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 514 )
6 - اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى عنہ كا كہنا ہے كہ:
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس عذرۃ كا وقد صفر نو ھجرى ميں ميں آيا جس ميں بارہ افراد شامل تھے ان ميں جمرہ بن نعمان بھى تھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سوال كيا بھئى كون لوگ ہو تو ان ميں سے بات كرنے والے شخص نے جواب ديا: جن كو آپ ناپسند نہيں كرتے ہم قصي كے ماں جائے بھائى بنو عذرۃ ہيں، ہم وہى ہيں جنہوں نے قصي كو مضبوط كيا تھا اور خزاعۃ اور بنو بكر كو بطن مكہ سے دور كر ديا تھا، اور ہمارى رشتہ دارياں ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تمہيں خوش آمديد ميں تمہيں خوب جانتا ہوں، تو وہ سب مسلمان ہو گئے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں شام كے فتح ہونے اور ھرقل كا اپنے ملك سے ممتنع كى جانب بھاگ جانے كى خوشخبرى دى اور انہيں نجوميوں اور كاہنوں سے سوال كرنے سے منع فرمايا، اور جو وہ ذبح كرتے تھے ان كے ان ذبائح سے روك ديا، اور انہيں بتايا كہ ان كے ذمہ صرف ( عيد الاضحى كى ) قربانى ہے، تو وہ كچھ دن دار رملہ ميں رہے اور پھر وہاں سے واپس چلے گئے.
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 657 ).
پنجم:
ماہ صفر كے متعلق وارد شدہ موضوع اور جھوٹى احاديت:
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
آنے والى تاريخ كے متعلق احاديث كى فصل:
اس ميں يہ ہے كہ: حديث ميں اتنى اتنى تاريخ ہو، مثلا قولہ: جب يہ سال ہو تو ايسے ايسے ہو گا. اور جب يہ يہ مہينہ ہو گا تو اس اس طرح كے واقعات ہونگے۔
اور جيسا كہ شرير اور كذاب كا قول ہے: جب محرم ميں چاند گرہن ہو گا، تو حكمران كا كام قتل و غارت اور مہنگائى ہوگا، اور جب صفر ميں چاند گرہن ہو تو اس اس طرح ہو گا۔
اور يہ كذاب اسى طرح سارے مہينوں كے متعلق بيان كرتا چلا گيا ہے۔
اس باب ميں جتنى بھى احاديث ہيں وہ سب جھوٹى اور موضوع اور بہتان ہيں۔
ديكھيں: المنار المنيف ( 64 ).
واللہ اعلم
بحوالہ : اسلام سوال جواب ڈاٹ کام