::: گذشتہ سے پیوستہ ::: آخری حصہ :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
::::::: چوتھا سبق :::::::
رمضان میں روزے کی حالت میں تو حرام چیزوں، کاموں اور باتوں کے ساتھ کھانے پینے کی حلال چیزوں اور کئی دیگر حلال کاموں اور چیزوں سے بھی خود کو روکنا ہوتا ہے ، اور روزہ رکھنے والے ایسا کرتے ہیں ، اور روزے کے علاوہ بھی پورے رمضان میں وہ اس بات کی کافی کوشش کرتے ہیں کہ حرام چیزوں ، کاموں اور باتوں سے گریز ہی کرتے رہیں،
اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ جو چیزیں،کام اور باتیں اللہ نے یا اللہ کی وحی سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حرام قرار دیے ہیں وہ رمضان اور غیر رمضان سب ہی اوقات میں حرام ہیں ، تو جِس طرح ہم رمضان میں نہ صِرف ان حرام چیزوں اور کاموں اور باتوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ایک مقرر وقت تک ایسی حلال چیزوں،کاموں اور باتوں سے بھی بچتے ہیں جو اُس وقت میں حرام ہو جاتی ہیں ، تو یقیناً ہمیں اپنی ساری ہی زندگی اُن تمام حرام چیزوں ، کاموں اور باتوں سے بچنا چاہیے جو مستقل طور پر حرام قرار دے دی گئی ہیں ،
مثلا ً ،نماز ترک کرنا ، زکوۃ ادا نہ کرنا ، صاحبء حیثیت ہوتے ہوئے بھی حج نہ کرنا ، اپنی استطاعت کے مطابق جِہاد میں حصہ نہ لینا ، جھوٹ بولنا ، نامحرم کی طرف جان بوجھ کر نظر کرنا ، حق تلفی کرنا ،ایسی آوازیں اور باتیں سننا جن کو سننا اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہو،
غرضیکہ مسلمان کومرنے تک اپنے ظاہر و باطن کے ہر عمل کو صرف اور صرف حلال اعمال تک محدود رکھنا ہی چاہیے ، اپنے ہاتھ ، کان ، آنکھ ، پاؤں ، ز ُبان ، دِل و دماغ ، اور نفس کو ہر حرام سے روکے رکھنا ہی چاہیے ،کہ یہ صِرف رمضان تک کے لیے یا صِرف روزے کی حالت تک کے لیے ہی محدود نہیں ۔
صیام کا لغوی معنی ٰ کسی چیز سے خود کو روکے رکھنا ہے اور صیام کا شرعی معنی ٰ ایک محدود وقت میں خود کو کھانے پینے اور ایسی حلال چیزوں اور کاموں سے روکے رکھنا ہے جن کو استعمال کرنے سے یا جن پر عمل کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ،
اس طرح اگر دیکھا جائے تو جن چیزوں ، کاموں اور باتوں وغیرہ کو اللہ یا اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کی بنا پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حرام قرار دیا اُن سے مسلمان کا روزہ ساری ہی زندگی جاری رہتا ہے ،
خواہ وہ چیزیں مطلقاً حرام ہوں یا کسی حد تک اُن کا استعمال جائز ہو ،
غور فرمایے :::
اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے ساتھ اپنے بندوں پر ہر و ہ نعمت حلال کر رکھی ہے جِن کے بغیر اُن کا گذارہ نہیں اور جو اُن کی تسلی وتشفی اور سکون کے لیے ضروری ہیں ، وہ نعمتیں انسان کے اپنے جسم کے اعضاء ہوں یا خارج از جسم کوئی اور چیزیں ہوں ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ أرحم الراحمین نے اپنی رحمت اور شفقت کے ساتھ اپنے بندوں کی بھلائی کے لیے اُن چیزوں کے استعمال میں حدود مقرر فرما دیں ، اور اس طرح مقرر فرما دیں جِس طرح وہ راضی ہے، پس اُن حدود کے مطابق اللہ کی حرام کردہ چیزوں ، کاموں باتوں وغیرہ سے خود کو روکے رکھنا اللہ کی رضا کے حصول کا سبب ہے اور نہ روکنا اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے ،
اللہ کی اس رحمت اور شفقت کا سب سے بہترین شکر یہ ہے کہ ہم اللہ کی عطاء کردہ نعمتوں کو اسی طرح استعمال کریں جس میں اللہ راضی ہوتا ہے اور اس طرح استعمال کرنے سے خود کو روکے رکھیں جس طرح استعمال کرنے سے اللہ ناراض ہوتا ہے ،
::::::: اللہ تعالیٰ نے آنکھ کا استعمال جائز قرار دیا لیکن صِرف اُن چیزوں کو دیکھنے کے لیے جنہیں دیکھنا اللہ نے حلال قرار دیا ، پس آنکھ کو ایسی چیزوں کے دیکھنے سے روکنا جنہیں دیکھنا اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو ، آنکھ کا روزہ ہے ، ایسا روزہ جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
::::::: کان کا استعمال ایسی آوازیں سننے کے لیے جائز قرار دیا گیا جنہیں سننا حلال رکھا گیا اور ایسی آوازیں سننے میں اُس کا استعمال ناجائز ہوا جن آوازوں کو سننا حلال قرار نہیں دیا گیا ، پس ایسی حرام آوازوں کے سننے سے کان کو روکے رکھنا کان کا ایسا صیام یعنی روزہ ہے جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
::::::: ز ُبان کا استعمال شرعی اعتبار سے ہر اچھی بات کہنے کےلیے جائز قرار دیا گیا ، اور شرعاً منکر بات کہنے میں استعمال کو ناجائز قرار دیا گیا ، لہذا ایسی منکر باتوں سے ز ُبان کو روکے رکھنا ز ُبان کاایسا روزہ ہوا جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ، (ز ُبان کے استعمال اور اس فوائد اور نُقصانات کے بارے میں دو مضامین پہلے شائع کیے جا چکے ہیں)۔
::::::: ہاتھ کا استعمال ایسے کاموں میں جائز قرار دیا گیا جنہیں کرنا جائز ہے اور ایسے کاموں میں اُس کا استعمال ناجائز قرار پایا جنہیں کرنا ناجائز ہے ، پس ایسے کاموں سے اپنے ہاتھوں کو روکے رکھنا ہاتھوں کا ایسا روزہ ہوا جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
::::::: پاؤں کا استعمال ہر ایسے کام کی طرف جانے کے لیے جائز ہے جو شرعاً خیر والا ہو ، اور ہر ایسے کام کی طرف جانے کے لیے ناجائز ہے جو شرعاً شر والا ہو ، پس اپنے پیروں کو شر کی طرف جانے سے روکے رکھنا پیروں کا ایسا روزہ ہے جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
::::::: جنسی لذت کے لیے شرمگاہ کا استعمال حلال رشتے میں جائز قرار دیا گیا اور اس کے عِلاوہ اس کا استعمال حرام قرار دیا گیا ، اس طرح حلال رشتے کے عِلاوہ شرمگاہ کو استعمال ہونے سے روکے رکھنا شرمگاہ کا روزہ ہوا جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
::::::: دِل میں شرک و کفر پر مبنی عقائد ،شرعاً غیر ثابت شدہ عقائد ، اورشرعی طور پر ناجائز خیالات کے لیے جگہ بنانے کو ناجائز قرار دیا گیا لہذا دِل کو ایسے کسی بھی خیال یا عقیدے کے داخلے سے روکے رکھنا دِل کا روزہ ہوا جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
اللہ کے جو بندے اللہ کی عطاء کردہ اِن نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق استعمال کرتے ہیں اُن کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سے انعام و اِکرام کا وعدہ فرمایا ہے ، اور جو ایسا نہیں کرتے اور اللہ کی عطاء کردہ اِن نعمتوں کو اللہ کی نارضگی والے کاموں میں استعمال کر کے اللہ کو ناراض اور اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اللہ پر اِیمان والے مخلص بندوں کے دُشمن ابلیس شیطان کو راضی کرتے ہیں اُن کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے عذاب کا وعدہ فرمایا ہے ،
ان تمام نعمتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سوال فرمائے گا اور سب کے استعمال کا حساب دینا ہی ہوگا (((((
وَلا تَقفُ مَا لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ إِنَّ السَّمعَ وَالبَصَرَ وَالفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنهُ مَسؤُولاً:::
اور(اے بندے)
تُمہیں جِس چیز کا عِلم نہیں اُس کے پیچھے مت پڑو ،(یاد رکھو)
کہ سماعت اور بینائی اور دِل اِن سب ( ہی أعضاء)
کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی )))))سورت الاِسراء(بنی اِسرائیل)/آیت 36،
اللہ کی عطاء کردہ یہ سب نعمتیں قیامت والے دِن خود گواہی دیں گی کہ اللہ نے جس جس کو یہ نعمتیں دی تِھیں انہوں نے انہیں کس کس طرح استعمال کیا ، اللہ مالک الیوم الدین کا فرمان ہے کہ(((((
ٱليَومَ نَختِمُ عَلَىٰٓ أَفوَٰهِهِم وَتُكَلِّمُنَا أَيدِيهِم وَتَشهَدُ أَرجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكسِبُونَ ::: آج (قیامت والے دِن)ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور جو کچھ یہ کرتے رہے تھے ان کے ہاتھ ہم سےبیان کردیں گے اور ان کے پاؤں (ان کے کیے ہوئے کاموں )گواہی دیں گے)))))سورت یٰس /آیت 65،
اور فرمایا (((((
وَيَومَ يُحشَرُ أَعدَاءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُم يُوزَعُونَ:::
اور اُس (قیامت والے) دِن اللہ کے دُشمنوں کو گروہ گروہ کر کے جہنم کی طرف لے جایا جائے گا o
حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيهِم سَمعُهُم وَأَبصَارُهُم وَجُلُودُهُم بِمَا كَانُوا يَعمَلُونَ:::
یہاں تک کہ جب وہ لوگ جہنم کے پاس پہنچ جائیں گے تو انکے کان اور آنکھیں اور جِلد (یعنی دوسرے أعضاء)
انکے خلاف ان کے( اپنے ہی کیے ہوئے)
کاموں کے بارے میں گواہی دیں گےo
وَقَالُوا لِجُلُودِهِم لِمَ شَهِدتُم عَلَينَا قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيءٍ وَهُوَ خَلَقَكُم أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيهِ تُرجَعُونَ:::
اور وہ اپنی جِلدوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ (یعنی جِلدیں ، أٔعضاء)
کہیں گے کہ جس اللہ نے سب چیزوں کو بولنے کی قدرت عطاء فرمائی اُسی اللہ نے ہمیں بھی قوتء گویائی عطاء فرمائی اور اُسی نے تم کو پہلی باربنایا تھا اور اُسی کی طرف تمہیں اپس کیا جائے گا ))))) سورت فُصلت /آیات 19تا 21،
تو حاصلء کلام یہ ہوا کہ اللہ نے اپنے بندوں پر یہ فرض کیا ہے کہ وہ اپنی ز ُبان ، ہاتھ ، پاؤں ، کان ، آنکھ ، شرمگاہ غرضیکہ تمام تر أعضاء کو ، اپنے ظاہر و باطن کو اپنے جسد و قلب کو حرام میں مبتلا ہونے سے روکے رکھیں ، یہ روکنا لغوی اعتبار سے "صیام ، یعنی ، روزہ " ہے ، اور یہ روزہ کسی خاص وقت کے لیے مخصوص یا محدود نہیں ، بلکہ اس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے پس مسلمان کو اس روزے کی حالت میں ہی جینا ہے اور اسی کی حالت میں مرنا ہے تا کہ اپنے رب کی رضا حاصل کر سکے اور اس کی ناراضگی اور عذاب سے بچ سکے ،
جب کوئی مسلمان خو کو رمضان المبارک میں پاتا ہے تو خود کو وقتی طور پر ، رمضان کے دِنوں میں ، روزے کے أوقات میں اللہ کی حلال کردہ چیزوں سے بھی روکے رکھتا ہے کیونکہ اسے اللہ نے ایسا کرنے کا حُکم دِیا ہوا ہے ، لہذا اللہ کےأجر و ثواب کے حصول کےلیے اور اس کے عذاب سے بچنے کے لیے وہ اپنے ظاہری اور باطنی أعضاء کو اللہ کی نافرمانی سے بچائے رکھتا ہے ،
اس میں یہ سبق ہے کہ یہ جان لیا جائےکہ اللہ نے اُس کی پوری زندگی کے لیے جو کچھ حرام کیا ہوا ہے اُس حرام سے بالکل اِسی طرح دُور رہنا چاہیے جِس طرح کہ وہ رمضان کے دِنوں میں حلال چیزوں سے بھی دُور ہو جاتا ہے ، کہ اللہ کا وہ عذاب جو اللہ نے اُس کی اور اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی کرنے والوں، اُس کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حرام کردہ اقوال و افعال پر عمل کرنے والوں کےلیے تیار کر رکھا ہے، اُس عذاب کے مستحق رمضان میں یہ کام کرنے والے بھی ہوں اور رمضان کے علاوہ کسی اور وقت میں کرنے والے بھی ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی روایت کردہ یہ حدیث قُدسی ابھی ابھی بیان کی گئی ہے کہ (((((
کُلُّ عَملَ ابن آدمَ لُہُ الحَسنَۃُ بِعَشرِ أمثَالِھَا اِلیٰ سبعمائۃَ ضَعف ، یَقُولُ اللّہ ُ عزَّ و جَلَّ ، اِلَّا الصَّیام فَاِنَّہُ ليَّ و أنا أجزِي بِہِ ، تَرَکَ شَھوُتَہُ و طَعامَہُ و شرابہُ مِن أجلي :::
آدم کی اولاد کے (نیکی کے)ہر کام پر اُس کے لیے اُس نیکی جیسی دس سے سات سو تک نیکیاں ہیں ، اللہ عزّ و جلّ کہتا ہے ؛؛؛ روزے کے عِلاوہ ( یعنی نیکیوں میں اضافے کی یہ نسبت روزے کے عِلاوہ ہے )
چونکہ میرے بندے نے میرے لیے اپنی بھوک پیاس اور خواہشات کو چھوڑا ، ( لہذا )
وہ ( یعنی روزہ )
میرے لیے ہے اور میں ہی اُس کا أجر دوں گا ( یعنی جتنا چاہے دوں )
؛؛؛ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت کی خوشی ، اور دوسری جب وہ اپنے رب سے ملے گا اُس وقت کی خوشی ، اور روزہ دار کے مُنہ کی بُو اللہ کے ہاں یقینامِسک کی خوشبو سے بھی اچھی ہے )))))صحیح مُسلم ،حدیث1151 ،
اس حدیث مبارک پر غور فرمایے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس میں اپنے روزے رکھنے والے بندوں کو دو خوشیاں عطاء فرمانے کی خوشخبری دی ہے ، ایک خوشی اُس کو افطار کے وقت ملتی ہے کہ اپنے نفس و جسم کو اس نے جن حلال چیزوں سے روک رکھا ہوتا ہے وہ ان کااستعمال اُس کے لیے پھر جائز ہوجاتا ہے ،
اور دوسری خوشی اُسے اُس وقت ملے گی جب وہ اپنے رب سے ملے گا ، اور یہ خوشی پہلی والی خوشی سے کہیں زیادہ عظیم ہےکہ اُس کا رب اللہ جلّ جلالہُ اُس دِن اسے اپنی شانء رحیمی کے مطابق اُس کے روزے کا أجر عطاء فرمائے گا جو اُس نے اللہ کی رضا کے لیے رکھا ،
پس جِس نے اپنی ز ُبان کو فحش کلامی ، جھوٹ اور ایسی باتوں سے روکے رکھا جِن سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہو ،
اور جِس نے اپنی شرمگاہ کو حرام سے روکا ہو ،
اور جِس نے اپنے ہاتھوں کو حرام میں استعمال سے روکا ہو ،
اور جِس نے اپنے کانوں کو ایسی آوازیں سننے سے روکے رکھا ہو جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سننے سے منع کی ہوں ،
اور جِس نے اپنی آنکھوں کو ایسی چیزیں دیکھنے سے روکے رکھا ہوجنہیں دیکھنے سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دیکھنے سے منع کیا ہو ،
اور اُس نے اپنے یہ أعضاء اللہ کی یہ نعمتیں اور دیگر نعمتیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی میں استعمال کی ہوں اور اُن کی نافرمانی میں استعمال کرنے سے روکے رکھا ہو اوراپنی ساری زندگی اسی روزے میں رہتے ہوئے اپنے رب سے جا ملے تو وہ ان چیزوں پر افطار کرے گا جو اللہ نے اپنے نیک صالح بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں ، اور یہ اُس کے لیے وہ عظیم خوشی ہو گی جِسے ہم الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے ، کیونکہ جو کچھ اللہ نے اپنے پاس اپنے نیک بندوں کے لیے تیار کر رکھا ہے اُس کی کیفیت کے بارے میں جاننا کسی کے بس میں ہی نہیں پس ان کے ملنے کی خوشی کا بیان بھی کسی کے بس میں نہیں ہو سکتا (((((
فَلَا تَعلَمُ نَفسٌ مَا أُخفِيَ لَهُم مِن قُرَّةِ أَعيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعمَلُونَ:::
کوئی جان ایسی نہیں جو یہ جانتی ہو کہ(اللہ نے)
اُن کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چُھپا رکھی ہے ، یہ اُن کے اعمال کا صلہ ہے جو وہ کیا کرتے تھے)))))سورت السجدۃ /آیت 17،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ کے اس فرمان کی تفیسر اللہ سے ہی روایت فرمائی کہ (((((
قال الله تعالى أَعدَدتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ ما لَا عَينٌ رَأَت ولا أُذُنٌ سَمِعَت ولا خَطَرَ على قَلبِ بَشَرٍ فاقرؤوا إن شِئتُم فلا تَعلَمُ نَفسٌ ما أُخفِيَ لهم مِن قُرَّةِ أَعيُنٍ :::
اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے سُنا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے دِل پر اُس شائبہ تک گذرا ، اگر تُم چاہو تو یہ (آیت ) پڑھ لو""" کوئی جان ایسی نہیں جو یہ جانتی ہو کہ(اللہ نے)
اُن کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چُھپا رکھی ہے""" )))))صحیح البُخاری / حدیث3072 /کتاب بدء الخلق /باب8،
اور اگر کوئی شخص پیٹ کا روزہ تو رکھنے والا ہو لیکن اپنے ظاہری اور باطنی أعضاء کے روزے سے بے نیاز رہتا ہو تو وہ اپنے پیٹ کے روزے کے باوجود اللہ کے عذاب اور جہنم کا مُستحق ہو گا ،
ابو یُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((
أَتَدرُونَ ما المُفلِسُ :::
کیا تُم لوگ جانتے ہو کہ مُفلس (کنگال)کون ہے؟)))))
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا """
المُفلِسُ فِينَا من لَا دِرهَمَ له ولا مَتَاعَ :::ہم میں کنگال وہ ہے جس کے پاس نہ کوئی پیسہ ہو اور نہ کوئی سامان """
تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا (((((
إِنَّ المُفلِسَ مِن أُمَّتِي يَأتِي يَوم القِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأتِي قد شَتَمَ هذا وَقَذَفَ هذا وَأَكَلَ مَالَ هذا وَسَفَكَ دَمَ هذا وَضَرَبَ هذا فَيُعطَى هذا مِن حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِن حَسَنَاتِهِ فَإِن فَنِيَت حَسَنَاتُهُ قبل أَن يُقضَى مَا عليه أُخِذَ مِن خَطَايَاهُم فَطُرِحَت عَليه ثُمَّ طُرِحَ في النَّارِ :::
میری اُمت میں سے کنگال وہ ہے جو قیامت والے دِن (اپنے أعمال میں )نماز اور روزہ اور زکوۃ لے کر آئے گا اور(یہ بھی )
لے کر آئے گا کہ اُس نے کسی کو بُرا کہا ہو گا ،کسی کے کردار پر الزام لگایا ہوگا،کسی کا مال کھایا ہوگا ، کسی کو مارا ہو گا ، تو ان میں سے ہر کسی کو اِس شخص کی نیکیوں میں سے نیکیاں دے دی جائیں گی ، اور اگر اِس شخص کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو اُن لوگوں کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی اور اس شخص کو جہنم میں دھکلیل دیا جائے گا )))))صحیح مُسلم/حدیث2581 /کتاب البر و الصلۃ والآداب /باب 15،
پس ہمیں رمضان مبارک سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنی ساری ہی زندگی اُن چیزوں سے روزے میں رہنا ہے جن سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہے ، اس مستقل روزے کے ذریعے ہم نے اپنی آخرت میں عظیم خوشی حاصل کرنے کی تیاری کرنی ہے ،
اسی تیاری کی فِکردِلوں اور روحوں کے مُربی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِن الفاظ میں دی ، جب اُن سے کسی نے قیامت کے قائم ہونے کے بارے میں سوال کیا تو اِرشاد فرمایا ((((((
وَمَاذَاأَعدَدتَ لہَا ؟:::
تُم نے قیامت کے لیے کیا تیار کر رکھا ہے ؟)))))رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہاں یہ بیان فرمایا کہ انسان اپنی دُنیاوی زندگی میں یہ قدرت رکھتا ہے کہ اپنی آخرت کی دائمی زندگی کے لیے تیاری کرلے ،
اللہ کرے کہ ہم اُس کی برکتوں والے مہینے رمضان سے ملنے والے اِن اَسباق کو سمجھ لیں اور ان کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کر کے اللہ سے ملیں اور اُس کی تیار کردہ عظیم خوشیوں کو حاصل کرنے والوں میں سے ہو جائیں ۔
و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکمل مضمون کا برقی نُسخہ """
یہاں """ سے اتارا جاسکتا ہے۔