ماہ ربیع الاول اور مبالغات
وجہ تسمیہ:
یہ ماہ فصل ربیع یعنی موسم بہار کے شروع میں واقع ہوا،اس وجہ سے اس کانام ربیع الاول رکھاگیا۔(غیاث الغات)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ باعث سعادت:
۱۲ربیع الاول کی تاریخ ہمارے معاشرے میں ایک تہوار کی شکل اختیار کرگئ ہے۔جیسے ہی ماہ ربیع الاول آتاہے تو جلسے جلوس کا ایک غیر تناہی سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس کے برابر کوئی سعادت نہیں ہوسکتی۔لیکن یہ سب کرتے ہوئے ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جس ذات اقدس کے سیرت کا بیان ہورہا ہے اور جس کے ولادت کا جشن منایا جارہا ہے،خود ان کی کیا تعلیم ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ۱۲ ربیع الاول:
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا میں تشریف لانا تاریک انسانیت کا اتنا عظیم واقعہ ہے کہ اس سے زیادہ عظیم اور پر مسرت واقعہ اس روئے زمین پر اس سے پہلے پیش نہیں آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی عمر مبارک تقریباً تریسٹھ سال رہی اور چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی اس اعتبار سے نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم تئس سال اس دنیا میں رہے اور ظاہر ہے کہ تئس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ربیع الاول آئی ہوگی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنا یوم پیدائش نہیں منایا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور ۱۲ ربیع الاول:
دنیا سے رخصت ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً سوایا ڈیڑھ لاکھ صحابہ چھوڑ گئے تھے،جو آپ صلی اللہ علیہ کے سچے عاشق تھے،لیکن کسی صحابی نے یوم پیدائش نہیں منایا اور نہ کوئی جلسہ نکالا نہ چراغاں کیا۔اب سوال ہے کہ صحابہ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس لئے کہ اسلام کوئی رسموں کا دین نہیں جیسا کہ دوسرے اہل مذاہب ہیں کہ ان کے یہاں چند رسموں کو ادا کرنے کانام دین ہے بلکہ اسلام تو عمل اور اتباع کا دین ہے۔
یوم پیدائش کا تصور:
یہ تصور ہمارے معاشرے میں عیسائوں سے آیاہے۔حضرت عیسٰی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے كے تقریباً تین سو سال تک ان کی یوم پیدائش کا تصور نہ تھا۔آپ علیہ السلام کے حوارین میں سے کسی نے دین نہیں منایا بلکہ بعد میں کچھ لوگوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا۔حالانکہ اس وقت جولوگ دین عیسوی پر پوری طرح عمل پیرا تھے انہوں نے ان لوگوں کو منع کیا اور کہا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات میں تو یوم پیدائش منانے کا کوئی ذکر نہیں تو جن لوگوں نے یہ طریقہ کیا انہوں نے کہا کہ اس میں کیا حرج ہے؟یہ کوئی بری بات تو نہیں کہ ہم اس دن جمع ہوکر عیسٰی علیہ السلام کا تذکرہ کریں بلکہ اس طرح تو لوگوں میں عمل کا شوق پیدا ہوگا۔ چنانچہ یہ کہہ کر یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔شروع شروع میں تو چرچ میں ایک پادری کھڑے ہوکر سیریت کابیان کرتا اور اجتماع ختم ہوجاتا۔لیکن کچھ عرصہ بعد انہوں نے سوچا کہ اس میں نوجوان اور شوقین لوگ نہیں آتے لہذا اسے دلچسپ بنانے کے لئے اس میں موسیقی شروع کردی گئ اور ناچ گانا بھی شامل ہوگیا۔چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات تو پیچھے رہ گئیں اور یہ ایک جشن کی صورت اختیار کرگیا۔لہٰذا عام مشاہدہ ہے کہ مغربی ممالک میں اس دن کیا طوفان برپاہوتاہے۔
۱۲ ربیع الاول کی صورت حال:
جس طرح عیسائیوں نے اس دن کو جشن کا دن بنالیا ہے۔اسی طرح ہم نے بھی ربیع الاول کو جشن ولادت قراردے دیا۔حالانکہ ولادت کی صحیح تاریخ میں بھی احادیث متعارض ہیں لیکن الحمداللہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود ابھی تک وہاں تک نوبت نہیں پہنچی جس طرح عیسائیوں میں کرسمس کے تہوار میں خرافات پہنچ چکی ہیں،لیکن اب بھی دیکھ لیں کہ اس میں کتنی زیادہ مبالغات اپنی طرف سے گھڑلئے جو مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) ۱۲ ربیع الاول کو عید قرار دے دیا گیا حالانکہ حدیث کا مفہوم ہے کہ مسلمانوں کے لئے صرف دو عیدیں ہیں عیدالفطر،عید الاضحٰی اگر کوئی اور عید ہوتی تو صحابہ ہم سے پہلے مناتے۔
(۲) روضئہ اقدس اور کعبہ شریف کی شبیہ کھڑی کرتے ہیں اور ان کا بہت احترام کرتے ہیں نعوذباللہ بعض لوگ تو طواف بھی کرتے ہیں اور پھر بعد میں خود ہی اسے توڑ دیتے ہیں۔یہ سب جہالت ہے اللہ ان کاموں سے ہرگز خوش نہیں ہوتے اتنا فضول پیسہ اس میں لگاتے ہیں اس سے بہتر تو ان پیسوں کو آہستہ آہستہ جمع کریں اور اصلی طواف یعنی حج کی فرضیت کو پورا کریں۔
(۳) سڑکوں پر راستوں میں جگہ جگہ ڈنڈے لگاکر اس میں کئ گز کپڑوں کے جھنڈے لگاتے ہیں۔حالانکہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تو یہ ہے کہ "ایمان کا ادنٰی درجہ یہ ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دیا جائے" اور ہم راستوں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں!کیا کسی صحابی نے جو سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے کبھی ایسا کیا؟ ہرگز نہیں یہ اتنا گزوں کپڑا غریبوں کے کام آتا تو کتنی دعائیں ملتیں۔اس طرف ہم سوچتے ہی نہیں۔
(4) لاؤڈ اسپیکروں میں مسلسل قصیدے وغیرہ پڑھے جاتے ہیں،جن سے محلے والوں اور آس پاس والوں کو تکلیف بھی ہوتی ہے،کیوں کہ اکثر نعت اور قصیدوں میں موسیقی بھی شامل ہوتی ہے،نعوذباللہ۔۔۔۔ میرے نبی کا حکم تو یہ ہے کہ "مسلمان تو وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں"۔کیا ہمارا اس پر عمل ہے؟ بہرحال ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقوں پر چلنا ہے کیوں کہ ایک جگہ فرمایا کہ" جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلافات دیکھے گا اس لئے میرے طریقہ اور میرے ہدایت یافتہ صحابہ کے طریقے کو لازم پکڑو۔
اور اسے دانتوں سے مضبوطی سے پکڑلو"۔
اصل عشق صرف ربیع الاول کے ساتھ مخصوص نہیں:
آپ علیہ السلام کی تریسٹھ سالہ زندگی کا ہرن ہردن،لمحہ اور گھڑی یاد رکھنے کادن ہے۔بہرحال آپ صلی اللہ علیہ السلام کی یوم پیدائش مقدس ومبارک ہے اور اس کے ذی شان ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن چوں کہ آپ کا اس دن منانے کے متعلق کوئی حکم نہیں اور نہ صحابہ کا عمل ہے اسلئے اپنی طرف سے ہمارا یہ ہنگامہ کرنا صرف بدعت میں داخل ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اس عمل سے پرہیز کریں،جس میں فضول خرچی بھی ہوتی ہے اور اسراف کرنے والے کو اللہ پاک نے شیطان کا بھائی قراردیا ہے۔مزید یہ کہ جو چراغاں کیا جاتاہے وہ بجلی بھی حکومت کی ہے اور عوام کا اس میں حق ہے لہٰذا یہ بجلیاں گویا کہ چوری کی گئیں خلاصئہ کلام یہ ہوا کہ اصل عشق صرف ربیع الاول کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اپنی پوری زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے نقش قدم پر ڈھالیں اور ہرہرسنت پر عمل کریں۔دنیا کا کوئی ایسا کام نہیں جس کو اچھی نیت میں تبدیل کرکے ثواب و دین کا حصہ بنالیاجائے کہ اگر کسی بچہ کو پیار کررہے ہیں تو اس سے پہلے سوچ لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بچوں سے محبت و شفقت کرتے تھے میں ان کی اتباع کررہی ہوں تو یہی کام دین بن جائے گا اسی طرح ہاتھ میں گھڑی باندھتے وقت یہ نیت کرلیں کہ نماز کے اوقات کا دھیان رہے تو اس میں اجر مل گیا۔بہر حال آپ قارئین سے عرض یہ کہ دو کتاب "علیکم بسنتی" اور "گل زار سنت" خرید لیں اور ان میں سنتوں کو پڑھ کر عمل کریں تو ہرہرلمحہ ربیع الاول محسوس ہوگا۔سچے عاشق کی پہچان یہی ہے کہ اس کی پوری زندگی فرائض و سنتوں سے پر ہو۔مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کا شعر ہے کہ ۔۔۔۔
نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے
وجہ تسمیہ:
یہ ماہ فصل ربیع یعنی موسم بہار کے شروع میں واقع ہوا،اس وجہ سے اس کانام ربیع الاول رکھاگیا۔(غیاث الغات)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ باعث سعادت:
۱۲ربیع الاول کی تاریخ ہمارے معاشرے میں ایک تہوار کی شکل اختیار کرگئ ہے۔جیسے ہی ماہ ربیع الاول آتاہے تو جلسے جلوس کا ایک غیر تناہی سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس کے برابر کوئی سعادت نہیں ہوسکتی۔لیکن یہ سب کرتے ہوئے ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جس ذات اقدس کے سیرت کا بیان ہورہا ہے اور جس کے ولادت کا جشن منایا جارہا ہے،خود ان کی کیا تعلیم ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ۱۲ ربیع الاول:
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا میں تشریف لانا تاریک انسانیت کا اتنا عظیم واقعہ ہے کہ اس سے زیادہ عظیم اور پر مسرت واقعہ اس روئے زمین پر اس سے پہلے پیش نہیں آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی عمر مبارک تقریباً تریسٹھ سال رہی اور چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی اس اعتبار سے نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم تئس سال اس دنیا میں رہے اور ظاہر ہے کہ تئس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ربیع الاول آئی ہوگی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنا یوم پیدائش نہیں منایا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور ۱۲ ربیع الاول:
دنیا سے رخصت ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً سوایا ڈیڑھ لاکھ صحابہ چھوڑ گئے تھے،جو آپ صلی اللہ علیہ کے سچے عاشق تھے،لیکن کسی صحابی نے یوم پیدائش نہیں منایا اور نہ کوئی جلسہ نکالا نہ چراغاں کیا۔اب سوال ہے کہ صحابہ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس لئے کہ اسلام کوئی رسموں کا دین نہیں جیسا کہ دوسرے اہل مذاہب ہیں کہ ان کے یہاں چند رسموں کو ادا کرنے کانام دین ہے بلکہ اسلام تو عمل اور اتباع کا دین ہے۔
یوم پیدائش کا تصور:
یہ تصور ہمارے معاشرے میں عیسائوں سے آیاہے۔حضرت عیسٰی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے كے تقریباً تین سو سال تک ان کی یوم پیدائش کا تصور نہ تھا۔آپ علیہ السلام کے حوارین میں سے کسی نے دین نہیں منایا بلکہ بعد میں کچھ لوگوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا۔حالانکہ اس وقت جولوگ دین عیسوی پر پوری طرح عمل پیرا تھے انہوں نے ان لوگوں کو منع کیا اور کہا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات میں تو یوم پیدائش منانے کا کوئی ذکر نہیں تو جن لوگوں نے یہ طریقہ کیا انہوں نے کہا کہ اس میں کیا حرج ہے؟یہ کوئی بری بات تو نہیں کہ ہم اس دن جمع ہوکر عیسٰی علیہ السلام کا تذکرہ کریں بلکہ اس طرح تو لوگوں میں عمل کا شوق پیدا ہوگا۔ چنانچہ یہ کہہ کر یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔شروع شروع میں تو چرچ میں ایک پادری کھڑے ہوکر سیریت کابیان کرتا اور اجتماع ختم ہوجاتا۔لیکن کچھ عرصہ بعد انہوں نے سوچا کہ اس میں نوجوان اور شوقین لوگ نہیں آتے لہذا اسے دلچسپ بنانے کے لئے اس میں موسیقی شروع کردی گئ اور ناچ گانا بھی شامل ہوگیا۔چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات تو پیچھے رہ گئیں اور یہ ایک جشن کی صورت اختیار کرگیا۔لہٰذا عام مشاہدہ ہے کہ مغربی ممالک میں اس دن کیا طوفان برپاہوتاہے۔
۱۲ ربیع الاول کی صورت حال:
جس طرح عیسائیوں نے اس دن کو جشن کا دن بنالیا ہے۔اسی طرح ہم نے بھی ربیع الاول کو جشن ولادت قراردے دیا۔حالانکہ ولادت کی صحیح تاریخ میں بھی احادیث متعارض ہیں لیکن الحمداللہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود ابھی تک وہاں تک نوبت نہیں پہنچی جس طرح عیسائیوں میں کرسمس کے تہوار میں خرافات پہنچ چکی ہیں،لیکن اب بھی دیکھ لیں کہ اس میں کتنی زیادہ مبالغات اپنی طرف سے گھڑلئے جو مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) ۱۲ ربیع الاول کو عید قرار دے دیا گیا حالانکہ حدیث کا مفہوم ہے کہ مسلمانوں کے لئے صرف دو عیدیں ہیں عیدالفطر،عید الاضحٰی اگر کوئی اور عید ہوتی تو صحابہ ہم سے پہلے مناتے۔
(۲) روضئہ اقدس اور کعبہ شریف کی شبیہ کھڑی کرتے ہیں اور ان کا بہت احترام کرتے ہیں نعوذباللہ بعض لوگ تو طواف بھی کرتے ہیں اور پھر بعد میں خود ہی اسے توڑ دیتے ہیں۔یہ سب جہالت ہے اللہ ان کاموں سے ہرگز خوش نہیں ہوتے اتنا فضول پیسہ اس میں لگاتے ہیں اس سے بہتر تو ان پیسوں کو آہستہ آہستہ جمع کریں اور اصلی طواف یعنی حج کی فرضیت کو پورا کریں۔
(۳) سڑکوں پر راستوں میں جگہ جگہ ڈنڈے لگاکر اس میں کئ گز کپڑوں کے جھنڈے لگاتے ہیں۔حالانکہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تو یہ ہے کہ "ایمان کا ادنٰی درجہ یہ ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دیا جائے" اور ہم راستوں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں!کیا کسی صحابی نے جو سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے کبھی ایسا کیا؟ ہرگز نہیں یہ اتنا گزوں کپڑا غریبوں کے کام آتا تو کتنی دعائیں ملتیں۔اس طرف ہم سوچتے ہی نہیں۔
(4) لاؤڈ اسپیکروں میں مسلسل قصیدے وغیرہ پڑھے جاتے ہیں،جن سے محلے والوں اور آس پاس والوں کو تکلیف بھی ہوتی ہے،کیوں کہ اکثر نعت اور قصیدوں میں موسیقی بھی شامل ہوتی ہے،نعوذباللہ۔۔۔۔ میرے نبی کا حکم تو یہ ہے کہ "مسلمان تو وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں"۔کیا ہمارا اس پر عمل ہے؟ بہرحال ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقوں پر چلنا ہے کیوں کہ ایک جگہ فرمایا کہ" جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلافات دیکھے گا اس لئے میرے طریقہ اور میرے ہدایت یافتہ صحابہ کے طریقے کو لازم پکڑو۔
اور اسے دانتوں سے مضبوطی سے پکڑلو"۔
اصل عشق صرف ربیع الاول کے ساتھ مخصوص نہیں:
آپ علیہ السلام کی تریسٹھ سالہ زندگی کا ہرن ہردن،لمحہ اور گھڑی یاد رکھنے کادن ہے۔بہرحال آپ صلی اللہ علیہ السلام کی یوم پیدائش مقدس ومبارک ہے اور اس کے ذی شان ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن چوں کہ آپ کا اس دن منانے کے متعلق کوئی حکم نہیں اور نہ صحابہ کا عمل ہے اسلئے اپنی طرف سے ہمارا یہ ہنگامہ کرنا صرف بدعت میں داخل ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اس عمل سے پرہیز کریں،جس میں فضول خرچی بھی ہوتی ہے اور اسراف کرنے والے کو اللہ پاک نے شیطان کا بھائی قراردیا ہے۔مزید یہ کہ جو چراغاں کیا جاتاہے وہ بجلی بھی حکومت کی ہے اور عوام کا اس میں حق ہے لہٰذا یہ بجلیاں گویا کہ چوری کی گئیں خلاصئہ کلام یہ ہوا کہ اصل عشق صرف ربیع الاول کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اپنی پوری زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے نقش قدم پر ڈھالیں اور ہرہرسنت پر عمل کریں۔دنیا کا کوئی ایسا کام نہیں جس کو اچھی نیت میں تبدیل کرکے ثواب و دین کا حصہ بنالیاجائے کہ اگر کسی بچہ کو پیار کررہے ہیں تو اس سے پہلے سوچ لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بچوں سے محبت و شفقت کرتے تھے میں ان کی اتباع کررہی ہوں تو یہی کام دین بن جائے گا اسی طرح ہاتھ میں گھڑی باندھتے وقت یہ نیت کرلیں کہ نماز کے اوقات کا دھیان رہے تو اس میں اجر مل گیا۔بہر حال آپ قارئین سے عرض یہ کہ دو کتاب "علیکم بسنتی" اور "گل زار سنت" خرید لیں اور ان میں سنتوں کو پڑھ کر عمل کریں تو ہرہرلمحہ ربیع الاول محسوس ہوگا۔سچے عاشق کی پہچان یہی ہے کہ اس کی پوری زندگی فرائض و سنتوں سے پر ہو۔مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کا شعر ہے کہ ۔۔۔۔
نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے