عادل ـ سہیل
محفلین
::: ماہِ رمضان اور ہم ::: 4 ::: اِفطار ، کیوں ، کب ، اور دیگر مسائل :::
::::: افطاری کب کی جانی چاہئیے ؟؟؟ :::::
***اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( وَ کُلُوا وَ اشرَبُوا حَتَی یَتَبَیَّنَ لَکُم خَیطُ الابیضُ مِن الخَیطِ الاسودِ مِنَ الفَجرِ ؛ ثُمّ اَتّمُوا الصَّیامَ اِلیٰ اللَیلِ ،،،،) ( اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر میں سے تمہارے لیے سفید دھاگہ کالے دھاگے میں سے واضح ہو جائے ؛ پھر رات تک روزہ مُکمل کرو ،،،،،،) سُورت البقرہ ، آیت ، ١٨٧ ۔
*** عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذَا اَقبَلَ اللَیلُ مِن ھٰھُنَا وَ اَدبَرَ النَّھَارُ مِن ھٰھُنَا وَ غَرَبَت الشَّمسُ فَاَفطَرَ الصَّائِمُ ) (جب رات وہاں ( یعنی سورج نکلنے والی جگہ ) سے آجائے اور دِن وہاں ( یعنی سورج غرُوب ہونے والی جگہ ) سے چلا جائے اور سورج غرُوب ہو جائے تو روزہ دار روزہ کھول لے ) صحیح البُخاری ، حدیث ، ١٩٥٤ ، صحیح مُسلم ، حدیث ، ١١٠٠،
***سہل بن سعد رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لَا یُزالُوا النَّاسُ بِخَیرٍ مَا عَجَّلُوا الفِطرَ) (جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے خیر سے رہیں گے ) صحیح البُخاری ، حدیث ، ١٦ ١٩ ، صحیح مُسلم ، حدیث ، ١٠٩٨ ۔
******جو لوگ افطار میں جلدی کرنے کی بجائے دیر کرتے ہیں اور تمام مُسلمانوں کی مخالفت کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس ارشاد کی روشنی میں اُن لوگوں کے بارے میں کم از کم یہ بات تو یقینی ہو جاتی ہے کہ وہ ہر گِز خیر پر نہیں ہیں ، اور یہاں بھی معاملہ فقہ کے اِختلاف کا نہیں بلکہ عقیدہ کے فساد کا ہے ، لہذا اِس سے بڑھ کر کہنے کی بھی اجازت ہے کیونکہ ، ***** ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لَا یَزالُ الدِّینُ ظَاہِراً مَا عَجَّلُ النَّاسُ الفِطرَ لِانَّ الیَھُودُ وَ النَّصَارَی یُؤَخِّرُونَ ) ( جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے دِین واضح اور غالب رہے گا ،کیونکہ یہودی اور عیسائی افطار میں دیر کرتے ہیں ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٣٥٠ /کتاب الصیام /
باب ٢٠ ، حدیث صحیح ہے ۔
***** اور اس حدیث کی وضاحت کے مُطابق پتہ چل جاتا ہے کہ افطار دیر سے کرنا کِن کی عادت ہے اور اب مُسلمانوں میں وہ کون لوگ ہیں جو اپنے روحانی بڑوں کی عادات کو پورا کر رہے ہیں مگر اُن کا نام لینے کی جُرات نہیں ہے اِس لئیے اپنی مُنافقت چُھپانے کے لئیے اور انجان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیئے کہیں باطنی شریعت کا نام لیتے ہیں ، کہیں کِسی خاص فقہ کا ، کہیں کِسی خاص طریق کا پردہ کیا جاتا ہے ، مگر حقیقت یہی ہے کہ اِفطار میں تاخیر کرنا یہودیوں اور عیسائیوں کی عادت تھی اور
ہے ، جو اِس عادت کو اپنائے ہوئے ہیں وہ اُنکے روحانی پیروکار ہیں خواہ اپنے آپ کو کُچھ بھی سمجھتے یا کہتے رہیں ، خود بھی دھوکے کا شکار ہو رہے ہیں اور لوگوں کے سامنے اپنے لیے طرح طرح کے نام اور القاب بنا بنا کر دھوکہ دے رہے ہیں ۔
یہ معاملہ کِسی ایک شخص کا نہیں بلکہ اَن گنت اشخاص کا ہے اور یہ عِبادت مُسلمانوں میں سے کوئی چند ایک نہیں بلکہ بہت بڑی تعداد کر رہی ہے ، اور یہ ایسی حقیقت ہے جِس کا انکار ممکن نہیں ، گو کہ عام طور انسان کا ازلی دشمن ایسی باتوں سے توجہ ہٹانے کے لیے فرقہ واریت کا نام دے اِس قِسم کی منافقت کو چھپانے کی کوشش کرواتا ہے ، لیکن ہمیں ہر ایسی چیز ،ایسے عقائد اور عِبادات جو قُران اور ثابت شدہ سُنّت کے مُطابق نہیں ، اُن کا واضح طور پر اظہار کرنا ہوتا ہے تا کہ ہمارا جو مسلمان بھائی یا بہن ایسی چیزوں کا شکار ہے تو اللہ تعالیٰ ہماری بات کو اُس کی ہدایت کا ذریعہ بنا دے اور وہ مسلمان اپنی جو صلاحیات ایسی بلا دلیل یا بغیر صحیح دلیل کی باتون پر عمل کرنے اور اُن کو نشر کرنے میں خرچ کر رہا ہے وہ اللہ کے سچے دِین کی خدمت میں خرچ ہوں ، ایسی چیزوں ( کاموں ، باتوں ، عقائد ) کے اظہار کے لیے بسا اوقات ضروری ہو جاتا ہے کہ نام بنام نشاندہی کی جائے ، اور اِس کا مقصد لوگوں کو حق و ناحق کی پہچان کروانا ہوتا ہے ،اور یہ کہ ، اگر اللہ چاہے تو ،سننے پڑھنے والوں کی غلط فہمیاں دُور ہوں اور وہ جان سکیں کہ جِسے وہ دِین سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں ، اور جِسے وہ دِین سمجھ کر اُس کی خدمت کر رہے اور اُس کی نشر و اشاعت و تبلیغ کرتے ہیں وہ دِین ہے بھی کہ نہیں؟
::::: اِفطار کروانے کا اجر ؛؛؛ :::::
*** زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( مَن فَطَّرَ صائِماً کانَ لہُ مَثلُ اَجرِہِ غَیرَ اَنَّہُ لا یَنقُصُ مِن اَجرِ الصائِم شَیئًا ) ( جو روزہ دار کو افطار کرواتا ہے اُسکے لئیے روزہ دار کے اجر کے برابر اجر ہے اور روزہ دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی ) سُنن الترمذی حدیث ٨٠٧ ، سُنن ابن ماجہ حد یث ، ١٧٤٦ ۔
***اگر کِسی کے پاس اِفطار کیا جائے یا کھانا کھایاجائے تو ، سُنّت کے مُطابق ، اُسکے لیے دُعا کے الفاظ یہ ہیں :::
انس رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ جب صلی اللہ علیہ وسلم کِسی کے پاس اِفطار کرتے تو کہتے ( اَفطَرَ عِندَکُم
الصَّائِمُونََ وَ اَکَلَ طَعَامَکُم الاَبرارُ و صَلَّت عَلِیکُم الملائِکَۃُ ) ( روزے دار تمہارے پاس افطار کریں اور تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں ، اور فرشتے تمہارے ہاں اُترتے رہیں ) سُنن ابو داود ، حدیث ، ٣٨٤٨ ، سُنن ابن ماجہ ، حدیث ١٧٤٧ ۔
اِمام ا لالبانی نے '' آداب الزفاف / ص١٧١ '' کے حاشیے میں لکھا کہ '' یہ دُعا روزہ دار کے افطار کے لئیے خاص نہیں ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ ( افطر عندکم الصائمون ) خبر ہے بلکہ یہ کھانا کِھلانے والے کے لئیے دُعا ہے کہ اُس کے پاس روزہ دار افطار کریں تا کہ وہ اُن کا اجر حاصل کر سکے ''
یہ بات تقریباً عربی کے ہر دُعائیہ فقرے میں اسی طرح ہوتی ہے ، کہ لغوی اعتبار سے ظاہری معنیٰ تو ماضی یعنی گذرے ہوئے زمانے کی خبر ہوتا ہے ، لیکن اُس کا مفہوم مستقبل یعنی آنے والے زمانے میں خواہش ہوتا ہے ، اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے اُسے ، دُعا ، بد دُعا یا محض خواہش کہا جاتا ہے ، مثلاً ، عام طور پر مر چکے مسلمانوں کے لیے'''رحمۃ اللہ علیہ'''::: لغوی معنیٰ :::اُس پر اللہ کی رحمت ہوئی ::: اور ''' رحمہُ اللہ ''' ::: لغوی معنیٰ ::: اللہ نے اُس پر رحم کِیا ::: اور ''' مرحوم، یعنی جِس پر رحمت کی گئی ''' یا ''' مغفور ، یعنی جِس کی بخشش کی گئی''' وغیرہ کہا جاتا ہے ، یہ تمام فقرے بظاہر ایسے کاموں کی خبر ہیں جو واقع ہو چکے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ، کیونکہ کِس کی مغفرت ہوئی اور کِس پر رحمت ہوئی یہ اللہ ہی
جانتا ہے ،
اگر اللہ کی طرف سے کِسی کے بارے میں کوئی خبر آئی ہو تو اُس کو صِرف اُسی کے لیے خبر ماننا ہو گا جِس کے لیے ہے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دِی کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے اللہ پر صلاۃ کرتے ہیں ، (صلاۃ کی تشریح ایک دوسرے مضمون ''' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام ''' میں کی جا چکی ہے ) اور صبر کرنے والے اِیمان والوں پر اللہ تعالیٰ کی ''صلاۃ '' ہونے کی اللہ نے خبر دی ، اور صحابہ کے بارے میں خبر دی ہے کہ اللہ اُن سے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں ، لہذا اگر اب کسی مسلمان کو ''' صلی اللہ علیہ ''' یا ''' رضی اللہ عنہُ '''کہا جائے
گا تو ایسا کہنا اُس کے لیے دُعا ہو گی ، نہ کہ ایسا ہو جانے کی خبر ، عرب ہمیشہ سے فعل ماضی کے ایسے فقرے دُعا کے طور پر اِستعمال کرتے چلے آ رہے ہیں ، اور اِسلام میں بھی اِس اِستعمال کو برقرار رکھا گیا ہے ، کیونکہ مشرکین عرب اپنے تمام تر شرک کے باوجود اپنی لغت کو جانتے تھے اور ایسی غلط فہمیوں کا شکار نہیں تھے جِن کا شکار غیر عرب ہو تے ہیں ، لیکن ،،،، ہم ماضی کے فعل میں صادر ہونے والے فقروں کو خبر سمجھ کر اپنے مرنے والوں کے بارے میں بڑے عجیب عقیدے بنا لیتے ہیں ، اور اُنہیں کچھ کا کچھ بنا کر کہیں سے کہیں جا پہنچتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے اور ہماری اِصلاح فرمائے ،
::::: افطار کس چیز سے کرنا چاہئیے ؟؟؟ :::::
*** انس رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے ( کان رسولُ اللَّہُّ صلی اللہ علیہ وسلم یُفطِرُ عَلَی رُطَباتٍ قبل ان یُصّلِّیَ فَاِن لَم تَکُن رُطَباتٍ فَعَلیَ تَمَرَاتٍ فَاِن لَم تَکُن حَسا حَسَوَاتٍ مِن مَاءٍ ) ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے تازہ پکی رسیلی ھجوروں سے افطار کیا کرتے تھے ، اگر یہ کھجوریں مُیسر نہ ہوتِیں تو کِسی بھی کھجور سے ، اور اگر وہ بھی مُیسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٣٥٣ ،کتاب الصوم /باب ٢١ ، سُنن الترمذی ، حدیث ، ٦٩٦ ، سلسلہ الصحیحہ ، حدیث ٢٨٤٠۔
***** اِس کے عِلاوہ کِسی اور چیز سے افطار کرنا اپنی ذاتی پسند یا عادت تو ہو سکتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت نہیں جیسا کہ کُچھ لوگ نمک سے افطار کرنے کے بارے میں اِس غلط فہمی کا شِکار ہیں کہ یہ سُنّت ہے تفصیل پھر کبھی انشاء اللہ۔
اگلے حصے میں ان شاء اللہ افطار کی دُعا کے بارے میں بات ہو گی ، و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
::::: افطاری کب کی جانی چاہئیے ؟؟؟ :::::
***اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( وَ کُلُوا وَ اشرَبُوا حَتَی یَتَبَیَّنَ لَکُم خَیطُ الابیضُ مِن الخَیطِ الاسودِ مِنَ الفَجرِ ؛ ثُمّ اَتّمُوا الصَّیامَ اِلیٰ اللَیلِ ،،،،) ( اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر میں سے تمہارے لیے سفید دھاگہ کالے دھاگے میں سے واضح ہو جائے ؛ پھر رات تک روزہ مُکمل کرو ،،،،،،) سُورت البقرہ ، آیت ، ١٨٧ ۔
*** عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذَا اَقبَلَ اللَیلُ مِن ھٰھُنَا وَ اَدبَرَ النَّھَارُ مِن ھٰھُنَا وَ غَرَبَت الشَّمسُ فَاَفطَرَ الصَّائِمُ ) (جب رات وہاں ( یعنی سورج نکلنے والی جگہ ) سے آجائے اور دِن وہاں ( یعنی سورج غرُوب ہونے والی جگہ ) سے چلا جائے اور سورج غرُوب ہو جائے تو روزہ دار روزہ کھول لے ) صحیح البُخاری ، حدیث ، ١٩٥٤ ، صحیح مُسلم ، حدیث ، ١١٠٠،
***سہل بن سعد رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لَا یُزالُوا النَّاسُ بِخَیرٍ مَا عَجَّلُوا الفِطرَ) (جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے خیر سے رہیں گے ) صحیح البُخاری ، حدیث ، ١٦ ١٩ ، صحیح مُسلم ، حدیث ، ١٠٩٨ ۔
******جو لوگ افطار میں جلدی کرنے کی بجائے دیر کرتے ہیں اور تمام مُسلمانوں کی مخالفت کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس ارشاد کی روشنی میں اُن لوگوں کے بارے میں کم از کم یہ بات تو یقینی ہو جاتی ہے کہ وہ ہر گِز خیر پر نہیں ہیں ، اور یہاں بھی معاملہ فقہ کے اِختلاف کا نہیں بلکہ عقیدہ کے فساد کا ہے ، لہذا اِس سے بڑھ کر کہنے کی بھی اجازت ہے کیونکہ ، ***** ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لَا یَزالُ الدِّینُ ظَاہِراً مَا عَجَّلُ النَّاسُ الفِطرَ لِانَّ الیَھُودُ وَ النَّصَارَی یُؤَخِّرُونَ ) ( جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے دِین واضح اور غالب رہے گا ،کیونکہ یہودی اور عیسائی افطار میں دیر کرتے ہیں ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٣٥٠ /کتاب الصیام /
باب ٢٠ ، حدیث صحیح ہے ۔
***** اور اس حدیث کی وضاحت کے مُطابق پتہ چل جاتا ہے کہ افطار دیر سے کرنا کِن کی عادت ہے اور اب مُسلمانوں میں وہ کون لوگ ہیں جو اپنے روحانی بڑوں کی عادات کو پورا کر رہے ہیں مگر اُن کا نام لینے کی جُرات نہیں ہے اِس لئیے اپنی مُنافقت چُھپانے کے لئیے اور انجان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیئے کہیں باطنی شریعت کا نام لیتے ہیں ، کہیں کِسی خاص فقہ کا ، کہیں کِسی خاص طریق کا پردہ کیا جاتا ہے ، مگر حقیقت یہی ہے کہ اِفطار میں تاخیر کرنا یہودیوں اور عیسائیوں کی عادت تھی اور
ہے ، جو اِس عادت کو اپنائے ہوئے ہیں وہ اُنکے روحانی پیروکار ہیں خواہ اپنے آپ کو کُچھ بھی سمجھتے یا کہتے رہیں ، خود بھی دھوکے کا شکار ہو رہے ہیں اور لوگوں کے سامنے اپنے لیے طرح طرح کے نام اور القاب بنا بنا کر دھوکہ دے رہے ہیں ۔
یہ معاملہ کِسی ایک شخص کا نہیں بلکہ اَن گنت اشخاص کا ہے اور یہ عِبادت مُسلمانوں میں سے کوئی چند ایک نہیں بلکہ بہت بڑی تعداد کر رہی ہے ، اور یہ ایسی حقیقت ہے جِس کا انکار ممکن نہیں ، گو کہ عام طور انسان کا ازلی دشمن ایسی باتوں سے توجہ ہٹانے کے لیے فرقہ واریت کا نام دے اِس قِسم کی منافقت کو چھپانے کی کوشش کرواتا ہے ، لیکن ہمیں ہر ایسی چیز ،ایسے عقائد اور عِبادات جو قُران اور ثابت شدہ سُنّت کے مُطابق نہیں ، اُن کا واضح طور پر اظہار کرنا ہوتا ہے تا کہ ہمارا جو مسلمان بھائی یا بہن ایسی چیزوں کا شکار ہے تو اللہ تعالیٰ ہماری بات کو اُس کی ہدایت کا ذریعہ بنا دے اور وہ مسلمان اپنی جو صلاحیات ایسی بلا دلیل یا بغیر صحیح دلیل کی باتون پر عمل کرنے اور اُن کو نشر کرنے میں خرچ کر رہا ہے وہ اللہ کے سچے دِین کی خدمت میں خرچ ہوں ، ایسی چیزوں ( کاموں ، باتوں ، عقائد ) کے اظہار کے لیے بسا اوقات ضروری ہو جاتا ہے کہ نام بنام نشاندہی کی جائے ، اور اِس کا مقصد لوگوں کو حق و ناحق کی پہچان کروانا ہوتا ہے ،اور یہ کہ ، اگر اللہ چاہے تو ،سننے پڑھنے والوں کی غلط فہمیاں دُور ہوں اور وہ جان سکیں کہ جِسے وہ دِین سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں ، اور جِسے وہ دِین سمجھ کر اُس کی خدمت کر رہے اور اُس کی نشر و اشاعت و تبلیغ کرتے ہیں وہ دِین ہے بھی کہ نہیں؟
::::: اِفطار کروانے کا اجر ؛؛؛ :::::
*** زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( مَن فَطَّرَ صائِماً کانَ لہُ مَثلُ اَجرِہِ غَیرَ اَنَّہُ لا یَنقُصُ مِن اَجرِ الصائِم شَیئًا ) ( جو روزہ دار کو افطار کرواتا ہے اُسکے لئیے روزہ دار کے اجر کے برابر اجر ہے اور روزہ دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی ) سُنن الترمذی حدیث ٨٠٧ ، سُنن ابن ماجہ حد یث ، ١٧٤٦ ۔
***اگر کِسی کے پاس اِفطار کیا جائے یا کھانا کھایاجائے تو ، سُنّت کے مُطابق ، اُسکے لیے دُعا کے الفاظ یہ ہیں :::
انس رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ جب صلی اللہ علیہ وسلم کِسی کے پاس اِفطار کرتے تو کہتے ( اَفطَرَ عِندَکُم
الصَّائِمُونََ وَ اَکَلَ طَعَامَکُم الاَبرارُ و صَلَّت عَلِیکُم الملائِکَۃُ ) ( روزے دار تمہارے پاس افطار کریں اور تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں ، اور فرشتے تمہارے ہاں اُترتے رہیں ) سُنن ابو داود ، حدیث ، ٣٨٤٨ ، سُنن ابن ماجہ ، حدیث ١٧٤٧ ۔
اِمام ا لالبانی نے '' آداب الزفاف / ص١٧١ '' کے حاشیے میں لکھا کہ '' یہ دُعا روزہ دار کے افطار کے لئیے خاص نہیں ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ ( افطر عندکم الصائمون ) خبر ہے بلکہ یہ کھانا کِھلانے والے کے لئیے دُعا ہے کہ اُس کے پاس روزہ دار افطار کریں تا کہ وہ اُن کا اجر حاصل کر سکے ''
یہ بات تقریباً عربی کے ہر دُعائیہ فقرے میں اسی طرح ہوتی ہے ، کہ لغوی اعتبار سے ظاہری معنیٰ تو ماضی یعنی گذرے ہوئے زمانے کی خبر ہوتا ہے ، لیکن اُس کا مفہوم مستقبل یعنی آنے والے زمانے میں خواہش ہوتا ہے ، اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے اُسے ، دُعا ، بد دُعا یا محض خواہش کہا جاتا ہے ، مثلاً ، عام طور پر مر چکے مسلمانوں کے لیے'''رحمۃ اللہ علیہ'''::: لغوی معنیٰ :::اُس پر اللہ کی رحمت ہوئی ::: اور ''' رحمہُ اللہ ''' ::: لغوی معنیٰ ::: اللہ نے اُس پر رحم کِیا ::: اور ''' مرحوم، یعنی جِس پر رحمت کی گئی ''' یا ''' مغفور ، یعنی جِس کی بخشش کی گئی''' وغیرہ کہا جاتا ہے ، یہ تمام فقرے بظاہر ایسے کاموں کی خبر ہیں جو واقع ہو چکے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ، کیونکہ کِس کی مغفرت ہوئی اور کِس پر رحمت ہوئی یہ اللہ ہی
جانتا ہے ،
اگر اللہ کی طرف سے کِسی کے بارے میں کوئی خبر آئی ہو تو اُس کو صِرف اُسی کے لیے خبر ماننا ہو گا جِس کے لیے ہے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دِی کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے اللہ پر صلاۃ کرتے ہیں ، (صلاۃ کی تشریح ایک دوسرے مضمون ''' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام ''' میں کی جا چکی ہے ) اور صبر کرنے والے اِیمان والوں پر اللہ تعالیٰ کی ''صلاۃ '' ہونے کی اللہ نے خبر دی ، اور صحابہ کے بارے میں خبر دی ہے کہ اللہ اُن سے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں ، لہذا اگر اب کسی مسلمان کو ''' صلی اللہ علیہ ''' یا ''' رضی اللہ عنہُ '''کہا جائے
گا تو ایسا کہنا اُس کے لیے دُعا ہو گی ، نہ کہ ایسا ہو جانے کی خبر ، عرب ہمیشہ سے فعل ماضی کے ایسے فقرے دُعا کے طور پر اِستعمال کرتے چلے آ رہے ہیں ، اور اِسلام میں بھی اِس اِستعمال کو برقرار رکھا گیا ہے ، کیونکہ مشرکین عرب اپنے تمام تر شرک کے باوجود اپنی لغت کو جانتے تھے اور ایسی غلط فہمیوں کا شکار نہیں تھے جِن کا شکار غیر عرب ہو تے ہیں ، لیکن ،،،، ہم ماضی کے فعل میں صادر ہونے والے فقروں کو خبر سمجھ کر اپنے مرنے والوں کے بارے میں بڑے عجیب عقیدے بنا لیتے ہیں ، اور اُنہیں کچھ کا کچھ بنا کر کہیں سے کہیں جا پہنچتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے اور ہماری اِصلاح فرمائے ،
::::: افطار کس چیز سے کرنا چاہئیے ؟؟؟ :::::
*** انس رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے ( کان رسولُ اللَّہُّ صلی اللہ علیہ وسلم یُفطِرُ عَلَی رُطَباتٍ قبل ان یُصّلِّیَ فَاِن لَم تَکُن رُطَباتٍ فَعَلیَ تَمَرَاتٍ فَاِن لَم تَکُن حَسا حَسَوَاتٍ مِن مَاءٍ ) ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے تازہ پکی رسیلی ھجوروں سے افطار کیا کرتے تھے ، اگر یہ کھجوریں مُیسر نہ ہوتِیں تو کِسی بھی کھجور سے ، اور اگر وہ بھی مُیسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٣٥٣ ،کتاب الصوم /باب ٢١ ، سُنن الترمذی ، حدیث ، ٦٩٦ ، سلسلہ الصحیحہ ، حدیث ٢٨٤٠۔
***** اِس کے عِلاوہ کِسی اور چیز سے افطار کرنا اپنی ذاتی پسند یا عادت تو ہو سکتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت نہیں جیسا کہ کُچھ لوگ نمک سے افطار کرنے کے بارے میں اِس غلط فہمی کا شِکار ہیں کہ یہ سُنّت ہے تفصیل پھر کبھی انشاء اللہ۔
اگلے حصے میں ان شاء اللہ افطار کی دُعا کے بارے میں بات ہو گی ، و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،