:: ماہ صفر اور ہم ::: ماہ صفر منحوس !!!؟؟؟ :

::::: ماہِ صفر اور ہم :::::::ماہِ صفر منحوس ہے ؟؟؟
ماہِ صفر ، اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے مہینوں میں سے ایک مہینہ ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اِس مہینے کی نہ کوئی فضلیت بیان نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات جِس کی وجہ سے اِس مہینے میں کِسی بھی حلال اور جائز کام کو کرنے سے رُکا جائے ، ، جو مہینے فضلیت اور حُرمت والے ہیں اُن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((((( اِنَّ الزَّمَانَ قَد استدَارَ کَھیئتِہِ یَومَ خَلَق َ اللَّہ ُ السَّمَوَاتِ وَ الارضَ السَّنَۃُ اثنا عَشَرَ شَھراً مِنھَا اربعَۃَ حُرُمٌ ، ثَلاثٌ مُتَوالیاتٌ ، ذو القعدہ ذوالحجۃِ و المُحرَّم و رجبُ مُضر الَّذِی بین جُمادی و شَعبان ::: سا ل اپنی اُسی حالت میں پلٹ گیا ہے جِس میں اُس دِن تھا جب اللہ نے زمنیں اور آسمان بنائے تھے ، سال بار ہ مہینے کا ہے جِن میں سے چار حُرمت والے ہیں ، تین ایک ساتھ ہیں ، ذی القعدہ ، ذی الحج ، اور مُحرم اور مُضر والا رجب جو جمادی اور شعبا ن کے درمیان ہے )))))صحیح البُخاری /حدیث ٧٩١٣ ، ٢٦٦٤ ،
دو جہانوں کے سردار ہمارے محبوب مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سال کی بارہ مہہینوں میں سے چار کے بارے میں یہ بتایا کہ وہ چار مہینے حُرمت والے ہیں یعنی اُن چار مہینوں میں لڑائی اور قتال نہیں کرنا چاہئیے ، اِس کے عِلاوہ کِسی بھی اور ماہ کی کوئی اور خصوصیت بیان نہیں ہوئی نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے !!!!
حیرانگی کی بات ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی خبر نہ ہونے کے باوجود کچھ مہینوں کو با برکت مانا جاتا ہے اور من گھڑت رسموں اور عِبادت کے لیئے خاص کیا جاتا ہے اور کُچھ کے بارے میں یہ خیال کِیا جاتا کہ اُن میں کوئی خوشی والا کام ، کاروبار کا آغاز ، رشتہ ، شادی بیاہ ، یا سفر وغیرہ نہیں کرنا چاہیئے ، حیرانگی اِس بات کی نہیں کہ ایسے خیالات کہاں سے آئے ، یہ تو معلوم ہے جِس کا ذِکر اِنشاء اللہ ابھی کروں گا ، حیرانگی اِس بات کی ہے کہ جو باتیں اور عقیدے کِسی ثبوت اور سچی دلیل کے بغیر کانوں ، دِلوں اور دِماغوں میں ڈالے جاتے ہیں اُنہیں تو فوراً قُبُول کر لِیا جاتا ہے لیکن جو بات اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بتائی جاتی ہے اور پوری تحقیق کے ساتھ سچے اور ثابت شُدہ حوالہ جات کے ساتھ بتائی جاتی ہے اُسے مانتے ہوئے طرح طرح کے حیلے بہانے ، منطق و فلسفہ ، دِل و عقل کی کسوٹیاں اِستعمال کر کر کے راہ فرار تلاش کرنے کی بھر پُور کوشش کی جاتی ہے اور کچھ اِس طرح کہا لکھا جاتا ہے کہ ::: اجی یہ بات دِل کو بھاتی نہیں ::: کچھ ایسا ہے کہ عقل میں آتی نہیں !!!!
افسوس اُمتِ مُسلّمہ روایات میں کھو گئی ::::: مُسلّم تھی جو بات خُرافات میں کھو گئی
اِن ہی خُرافات میں سے ماہ ِ صفر کو منحوس جاننا ہے ،پہلے تو یہ سُن لیجیئے کہ اللہ تعالیٰ نے کِسی چیز کو منحوس نہیں بنایا ، ہاں یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور حِکمت ہے کہ وہ کِس چیزمیں کِس کے لیئے بر کت دے اور کِس کے لیئے نہ دے ، آئیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان آپ کو سُناؤں ، جو ہمارے اِس موضوع کے لیئے فیصلہ کُن ہے ، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نحوست کا ذِکر کِیا گیا تو فرمایا ((((( اِن کانَ الشؤم فَفِی الثَّلاثۃِ ، المَراء ۃِ و الفُرسِ الدارِ ::: اگر نحوست( کِسی چیز میں) ہوتی تو اِن تین میں ہوتی،عورت ، گھر اور گھوڑا ))))) صحیح البُخاری / کتاب النکاح / باب ١٨ ، صحیح مُسلم / حدیث ٢٢٢٥ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ( اگر نحوست کِسی چیز میں ہوتی ) صاف بیان فرماتا ہے کہ کوئی چیز منحوس نہیں ہوتی اور یہ بات بھی ہر کوئی سمجھتا ہے کہ جب ''' کوئی چیز ''' کہا جائے گا تو اُس میں مادی غیر مادی ہر چیز شامل ہو گی یعنی وقت اور اُس کے پیمانے بھی شامل ہوں گے، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان مُبارک سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ نحوست کِسی چیز کا ذاتی جُز نہیں ہوتی ، اللہ تعالیٰ جِس چیز کو جِس کے لیئے چاہے برکت والا بنائے اور جِس کے لیئے چاہے بے برکتی والا بنائے ، یہ سب اللہ کی حکمت اور مشیئت سے ہوتا ہے نہ کہ کِسی بھی چیز کی اپنی صفت سے ، دیکھ لیجیئے کوئی دو شخص جو ایک ہی مرض کا شِکار ہوں ایک ہی دوا اِستعمال کرتے ہیں ایک کو شِفاء ہو جاتی ہے اور دوسرے کو اُسی دوا سے کوئی آرام نہیں آتا بلکہ بسا اوقات مرض بڑھ جاتا ہے ، کئی لوگ ایک ہی جگہ میں ایک ہی جیسا کارابار کرتے ہیں کِسی کوئی فائدہ ہوتا ہے کِسی کو نُقصان اور کوئی درمیانی حالت میں رہتا ہے ، کئی لوگ ایک ہی جیسی سواری اِستعمال کرتے ہیںکِسی کا سفر خیر و عافیت سے تمام ہوتا ہے اور کِسی کا نہیں ، اِسی طرح ہر ایک چیز کا معاملہ ہے ، یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سے ذہن نشین کرنے کی ہے کہ برکت اور اضافے میں بہت فرق ہوتا ہے ، کِسی کے لیئے کِسی چیز میں اضافہ ہونا یا کِسی پاس کِسی چیز کا زیادہ ہونا اِس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ اُسے برکت دی گئی ہے ، عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ کافروں ، اور بدکاروں کو مسلمانوں اور نیک لوگوں کی نسبت مال و دولت ، اولاد ، حکومت اور دُنیاوہ طاقت وغیرہ زیادہ ملتی ہے ، تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اُنہیں برکت دی گئی ہے ، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے اُن پر آخرت کا مزید عذاب تیار کرنے کا سامان ہوتا ہے ، کہ ، لو اور خُوب آخرت کا عذاب کماؤ ، یہ ہمارا اِس وقت کا موضوع نہیں ہے لہذا اِس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جا رہی ،
بات صفر کے مہینے کی ہو رہی تھی کہ نہ تو اِس کی کوئی فضلیت قُران و سُنّت میں ملتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات جِس کی وجہ سے اِس مہینے کو بے برکت یا بُرا سمجھا جائے ، جی ہاں ، اِسلام سے پہلے عرب کے کافر اِس مہینے کومنحوس اور باعثِ نُقصان سمجھتے تھے ، اور یہ سمجھتے تھے کہ صفر ایک کیڑا یا سانپ ہے جو پیٹ میں ہوتا ہے اور جِس کے پیٹ میں ہوتا ہے اُس کو قتل کر دیتا ہے اور دوسروں کے پیٹ میں بھی مُنتقل ہو جاتا ہے ، یعنی چُھوت کی بیماری کی طرح اِس کے جراثیم مُنتقل ہوتے ہیں ، اور اِسی لیئے اپنے طور پر ایک سال چھوڑ کر ایک سال میں اِس مہینے کو محرم سے تبدیل کر لیتے اورمحرم کی حُرمت اِس پر لاگو کرتے کہ شایدحُرمت کی وجہ سے صفر کی نحوست کم یا ختم ہو جائے،اور دوسرا سبب یہ ہوتا کہ محرم کی حُرمت صفرپر لاگو کرکے محرم کو دوسرے عام مہینوں کی طرح قرار دے کر اُسمیں وہ تمام کام کرتے جو حُرمت کی بنا پر ممنوع ہوتے ، ( تفصیلات کے لیئے دیکھیئے ، فتح الباری شرح صحیح البُخاری / الاِمام الحافظ ابن حَجر العسقلانی ، عُمدۃ القاری شرح صحیح البُخاری / عِلامہ بدر الدین العینی، شرح اِمام النووی علیٰ صحیح مُسلم ، عَونُ المَعبُود شرح سُنن ابی داؤد /علامہ شمس الحق العظیم آبادی ،الدیباج علیٰ صحیح مُسلم /امام السیوطی ، فیض القدیر شرح جامع الصغیر / عبدالرؤف المناوی )
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ بالا اِن سب اور اِن جیسے دوسرے عقیدوں کو غلط قرار فرمایا ،
ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
((((( لا عِدوِی و لاھامۃَ و لا طیرۃَ و لا صفر ::: نہ ( کوئی ) چُھوت ( کی بیماری )ہے ، نہ ھامہ ہے ، نہ پرندوں ( یا کِسی بھی چیز )سے شگون لینا (کوئی حقیقت رکھتا) ہے ، نہ صفر ( کوئی بیماری یا نحوست والا مہنیہ ہے اور نہ اِس کی کِسی اور مہینہ کے ساتھ تبدیلی )ہے ))))) صحیح البُخاری / کتاب الطب / باب ٤٤ ، صحیح مُسلم / حدیث ٢٢٢٠ (اِلفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہ حدیث دیگر صحابہ سے بھی روایت کی گئی ہے اور تقریباً حدیث کی ہر کتاب میں موجود ہے ، میں نے حوالے کے لیئے صِرف صحیح البُخاری اور صحیح مُسلم پر اِکتفاء کِیا ہے کہ اِن کے حوالے کے بعد کِسی اور حوالے کی ضرورت نہیں رہتی ، اور قوسین () کے درمیان جو اِلفاظ لکھے گئے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں لیکن سب کے سب اِن احادیث کی شرح سے اور جِن کتابوں کا حدیث کے ساتھ حوالہ دِیا گیا ہے اُن میں سے لیئے گئے ہیں اپنی طرف سے نہیں لکھے گئے )
تو عرب صفر کے مہینے کے بار ے میں منحوس ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے ، افسوس کہ اِسی قِسم کے خیالات آج بھی مُسلمانوں میں پائے جاتے ہیں ، اور وہ اپنے کئی کام اِس مہینے میں نہیں کرتے ، آپ نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس مہینے کے بارے میں پائے جانے والے ہر غلط عقیدے کو ایک حرفِ میں بند کر کے مُسترد فرما دِیا ، سال کے دیگر مہینوں کی طرح اِس مہینے کی تاریخ میں بھی ہمیں کئی اچھے کام ملتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کی مشیئت سے اُسکے بندوں نے کیئے ، مثلاً ،
::::: ہجرت کے بعد جہاد کی آیات اللہ تعالیٰ نے اِسی مہینے میں نازل فرمائیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے پہلا غزوہ اِسی مہینے میں کِیا ، جِسے غزوہ '' الابوا '' بھی کہا جاتا ہے اور '' ودّان '' بھی ،
::::: اِیمان والوں کی والدہ مُحترمہ خدییجہ بنت الخولید رضی اللہ عنھا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی مُبارک اِسی مہینے میں ہوئی ،
::::: خیبر کی فتح خیبر اِسی مہینے میں ہوئی ،
یہ سب جاننے کے بعد بھلا کون مُسلمان ایسا ہو گا جو اِس مہینے کو یا کِسی بھی مہینے کو منحوس جانے اور کوئی نیک کام کرنے سے خود کو روکے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور اُس پر عمل کرتے ہوئے ہمارے خاتمے فرمائے ،
ابھی جو حدیث نقل کی گئی اُس میں ''' ھامہ ''' کا ذِکر تھا ، بہت اختصار کے ساتھ اُس کا معنی بیان کرتا چلوں ، یہ بھی عربوں کے غلط جھوٹے عقائد میں سے ایک تھا ، کہ جِسے قتل کیا جاتا ہے اس کی روح اُلّو بن جاتی ہے اور اپنا انتقام لینے کے لیئے رات کو نکلتی ہے ، اور جب تک اُس کا اِنتقام پورا نہیں ہوتا وہ اُلّو بن کر راتوں کو گھومتی رہتی ہے ، اور سانپوں کے بارے میں بھی ایسا ہی عقیدہ پایا جاتا تھا ، اور کُچھ اور معاشروں میں اِسی قِسم کا عقیدہ چمگادڑ وغیرہ کے بارے میں پایا جاتا ہے ، عرب اپنے اِس باطل عقیدے کی وجہ سے اُلّو کی آواز کو بھی منحوس جانتے اور اُس کو دیکھنا بھی بدشگونی مانتے ، سانپوں کے انتقام ، چمگادڑوں اور اُلوؤں کے عجیب و غریب کاموں اور قوتوں اور اثرات کے بارے میں بے بُنیاد جھوٹے قصے آج بھی مروج ہیں اور اُسی طرح کے جھوٹے عقائد بھی لوگوں کے دِلوں و دِماغوں میں گھر بنائے ہوئے ہیں ،
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن تمام عقائد کو باطل قرار دِیا ہے جیسا کہ ابھی بیان کِیا گیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ اِن مختصر معلومات کو پڑھنے والوں کی ہدایت کا سبب بنائے اور میری یہ کوشش قُبُول فرمائے اور میری لیئے آخرت میں آسانی اور مہربانی اور مغفرت کا سبب بنائے ۔طلبگارِ دُعا ، عادِل سُہیل ظفر ۔

__________________
اب نہ ہو گا کہیں کوئی نزول کتاب ::: بند کر دیا رب العالمین نے یہ باب
ہے جو بھی صحیح سنت رسالت مآب ::: بے شک ہے وحیء رب الارباب
 

dxbgraphics

محفلین
شکریہ عادل بھائی۔ یہ بات واقعی سوچنے کی ہے کہ من گھڑت بدعت یا غلط عقیدے کی طرف دعوت دی جائے تو خوشی سے قبول کر لی جاتی ہے۔ لیکن اگر قرآن و سنت کے مطابق کسی کو غلط کام سے منع کیا جائے تو اس میں طرح طرح کے بہانے گھڑے جاتے ہیں۔
 
مجھے تو کبھی ایسا کوئی مسلمان نہیں ملا جو صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ عوام کی ہی بات کررہا ہوں۔
یارو یہ کوئی ایشوز نہیں ہیں۔
 
آج سے پہلے میے مطالعہ میں بھی یہ بات نہیں‌آئی اور نہ ہی کسی مسلمان نے مجھ سے یہ کہا کہ صفر کا مہینہ نحس ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ میں ایسا عام طور پر پڑھ رہا ہوں۔ دور نبوی میں جاہلوں کا ایسا طبقہ کی موجود ممکن ہے جس ایسا سمجھتے ہوں اور نبی اکرم نے ان کو اس طرح جواب دیا ہو۔ لیکن یہ مسلمانوں کا کوئی مسئلہ یقینی طور پر نہیں ہے۔

والسلام
 

شاکر

محفلین
جی میرے خیال میں کوئی غلط فہمی لگی ہے آپ بھائیوں کو۔ خواتین میں‌یہ نظریہ کافی مقبول ہے۔ پچھلے سال صفر کے مہینے میں‌ہمارے محلے کی خواتین میری والدہ کو بلانے آئی تھیں کسی مجلس کیلئے۔ میں نے انہیں کہا کہ جا کر دیکھ آئیں، کہ کیا کرتی ہیں۔ تو واپسی پر انہوں نے بتایا کہ ان خواتین کا کہنا تھا کہ صفر کا مہینہ مَردوں پر بھاری ہوتا ہے، لہٰذا فلاں فلاں کام کر کے ان کی خیریت کی دعائیں مانگنی چاہئیں۔ ہمارے گاؤں میں بھی اس قسم کی خواتین کی مجالس ہوتی ہیں۔
 
شکریہ عادل بھائی۔ یہ بات واقعی سوچنے کی ہے کہ من گھڑت بدعت یا غلط عقیدے کی طرف دعوت دی جائے تو خوشی سے قبول کر لی جاتی ہے۔ لیکن اگر قرآن و سنت کے مطابق کسی کو غلط کام سے منع کیا جائے تو اس میں طرح طرح کے بہانے گھڑے جاتے ہیں۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ، بھائی ، آپ نے درست کہا ، اللہ تبارک و تعالیٰ ہر مسلمان کو ہر قسم کی بہانے بازیوں سے نجات دے اور اللہ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا محب اور مطیع بنا دے ، جزاک اللہ خیراً ، و السلام علیکم۔
 
مجھے تو کبھی ایسا کوئی مسلمان نہیں ملا جو صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ عوام کی ہی بات کررہا ہوں۔
یارو یہ کوئی ایشوز نہیں ہیں۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ، غزنوی بھائی ، یہ تو اللہ کا بڑا کرم ہے آپ پر کہ آپ صفر کے مہینے سے متعلقہ غلط عقائد سے واقف نہیں ، میں ذاتی طور ایسے کئی عرب اور افریقی مسلمانوں کو جانتا ہوں جو اس مہینے کے بارے میں ایسے عقائد رکھتے تھے جن کا ذکر میں نے اپنے اس مضمون میں کیا ، یہ مضمون انہیں بھائیو سے گفتگو کے بعد لکھا گیا تھا ، اور اس میں کچھ اضافہ ایک پاکستانی بھائی کی طرف سے بذریعہ ای میل پوچھے گئے ایک سوال کے جواب کے طور پر کیا گیا تھا کہ ان کا سوال تھا کہ ان کے خاندان میں محرم کے علاوہ صفر کے مہینے میں بھی شادی کرنا منحوس اور باعث نقصان سمجھا جاتا ہے ،
غزنوی بھائی ، کوئی بھی ایسا عقیدہ جو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعیلمات کے خلاف ہو وہ یقناً بہت اہم معاملہ ہوتا ہے ، اور وہ مسلمان جو اس معاملے کی حقیقت جانتا ہو اسے اپنے دوسروں مسلمان بھائی بہنوں تک وہ بات پہنچانی چاہیے کہ کہیں کوئی لا علمی میں اس بد عقیدگی کا شکار نہ ہو جائے ،
(((((( وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَ۔ئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ::: اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی تابع فرمانی کرتے ہیں بہت جلد اللہ ان پر رحم کرے گا بے شک اللہ بہت زبردست اور حکمت والا ہے )))))) سورت التوبة / آیت 71 ،
(((((( لا یؤمن أحکُم حتی یحب لأخیہ " أو قال " لجارہِ ما یحب لنفسہِ ::: تُم سے کوئی اس وقت تک مکمل اِیمان والا نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی " یا فرمایا " اپنے پڑوسی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرتا ہو جو اپنے لیے پسند کرتا ہے )))))) صحیح مُسلم / کتاب الایمان ،
اور ((((( الدِینُ نصیحۃٌ ::: دِین (تو) نصیحت (کرنا) ہے )))))صحیح مُسلم / کتاب لایمان ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ہر بد عقیدگی سے محفوظ رکھے ، و السلام علیکم۔
 

سویدا

محفلین
عوام میں‌بہت سے ایسے لوگ ہیں‌جو صفر کو نحوست کا یا غلط مہینہ سمجھتے ہیں‌ نعوذ باللہ

بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں‌جو محرم اور صفر میں‌شادی نہیں‌کرتے
 
جی میرے خیال میں کوئی غلط فہمی لگی ہے آپ بھائیوں کو۔ خواتین میں‌یہ نظریہ کافی مقبول ہے۔ پچھلے سال صفر کے مہینے میں‌ہمارے محلے کی خواتین میری والدہ کو بلانے آئی تھیں کسی مجلس کیلئے۔ میں نے انہیں کہا کہ جا کر دیکھ آئیں، کہ کیا کرتی ہیں۔ تو واپسی پر انہوں نے بتایا کہ ان خواتین کا کہنا تھا کہ صفر کا مہینہ مَردوں پر بھاری ہوتا ہے، لہٰذا فلاں فلاں کام کر کے ان کی خیریت کی دعائیں مانگنی چاہئیں۔ ہمارے گاؤں میں بھی اس قسم کی خواتین کی مجالس ہوتی ہیں۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیراً ، شاکر بھائی ،
یہ مذکورہ بالا معلومات مہیا کرنے پر بہت شکریہ ، اللہ تبارک و تعالیٰ ہر مسلمان کو صحیح عقیدہ سیکھنے اور اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ، اور ہر اس کام سے بچنے کی ہمت عطاء فرمائے جس کو کرنے کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اجازت میسر نہیں ، و السلام علیکم۔
 
عوام میں‌بہت سے ایسے لوگ ہیں‌جو صفر کو نحوست کا یا غلط مہینہ سمجھتے ہیں‌ نعوذ باللہ

بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں‌جو محرم اور صفر میں‌شادی نہیں‌کرتے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ،
سویدا بھائی ،
اسلام اور کفر میں ، توحید اور شرک میں حد فاصل عقیدہ ہی تو ہے ، جب عقیدہ درست ہو گا تو عمل بھی درست ہوتے جائیں گے ، ہمیں اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی تعلیمات سے یہی سبق ملتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمانت سے بھی یہی سبق ملتا ہے ، بنی نوع انسان کی تاریخ سے بھی یہی سبق ملتا ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہر کلمہ گو کو ہر بد عقیدگی سے بچائے ، و السلام علیکم۔
 

میر انیس

لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ،
سویدا بھائی ،
اسلام اور کفر میں ، توحید اور شرک میں حد فاصل عقیدہ ہی تو ہے ، جب عقیدہ درست ہو گا تو عمل بھی درست ہوتے جائیں گے ، ہمیں اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی تعلیمات سے یہی سبق ملتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمانت سے بھی یہی سبق ملتا ہے ، بنی نوع انسان کی تاریخ سے بھی یہی سبق ملتا ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہر کلمہ گو کو ہر بد عقیدگی سے بچائے ، و السلام علیکم۔

محرم اور صفر میں شادی نہ کرنے کی وجہ ان مہینوں میں آلِ محمد پر ہونے والے مظالم ہیں کہ محرم کی 10 کو امام حسین (ع) کو شہید کیا گیا تھا اور پھر محرم اور صفر میں نبی(ص) کی نواسیوں کو قیدی بنا کر بازاروں میں پھرایا گیا تھا ظاہر ہے پھر کسی مسلمان کو یہ دل کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ان ایام میں شادی کرے ۔ پر نکاح کرنا سنت ہے جو کسی بھی دن کیا جاسکتا ہے ۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ اگر لڑکے کی شادی ہو اور اگر اسکے کسی قریبی عزیز کا انتقال ہوجائے تو تاریخیں آگے بڑھادی جاتی ہیں کیونکہ مسرت اور غم کے لمحات ایک ساتھ آئیں تو بڑا عجیب لگتا ہے اور جب ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم شادی بعد میں بھی کرسکتے ہیں تو خاص کر وہ دن ہی کیوں چنا جائے ہاں اگر کسی لڑکی کی شادی میں یہ مسئلہ ہوتا ہے تو شادی سادگی سے کردی جاتی ہے یہ بھی بات ہے تو عجیب کہ اپنی لڑکی کے لیئے تو کہا جاتا ہے کہ چاہے کچھ ہو لڑکی کی رخصتی نہیں روکنی چاہیئے پر دوسرے کی لڑکی خیال نہیں کیا جاتا ۔ میرے خیلا سے یہ بد عقیدگی نہیں ہے کیونکہ عقیدہ تو سب کا یہی ہے کہ شادی کسی بھی دن کی جاسکتی ہے پر اگر کوئی کسی بھی وجہ سے یا احترام کی خاطر اگر صفر یا محرم میں شادی نہیں کرتا تو اس سے زبردستی کیوں ضروری ہے
 

فرخ

محفلین
محرم اور صفر میں شادی نہ کرنے کی وجہ ان مہینوں میں آلِ محمد پر ہونے والے مظالم ہیں کہ محرم کی 10 کو امام حسین (ع) کو شہید کیا گیا تھا اور پھر محرم اور صفر میں نبی(ص) کی نواسیوں کو قیدی بنا کر بازاروں میں پھرایا گیا تھا ظاہر ہے پھر کسی مسلمان کو یہ دل کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ان ایام میں شادی کرے ۔ پر نکاح کرنا سنت ہے جو کسی بھی دن کیا جاسکتا ہے ۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ اگر لڑکے کی شادی ہو اور اگر اسکے کسی قریبی عزیز کا انتقال ہوجائے تو تاریخیں آگے بڑھادی جاتی ہیں کیونکہ مسرت اور غم کے لمحات ایک ساتھ آئیں تو بڑا عجیب لگتا ہے اور جب ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم شادی بعد میں بھی کرسکتے ہیں تو خاص کر وہ دن ہی کیوں چنا جائے ہاں اگر کسی لڑکی کی شادی میں یہ مسئلہ ہوتا ہے تو شادی سادگی سے کردی جاتی ہے یہ بھی بات ہے تو عجیب کہ اپنی لڑکی کے لیئے تو کہا جاتا ہے کہ چاہے کچھ ہو لڑکی کی رخصتی نہیں روکنی چاہیئے پر دوسرے کی لڑکی خیال نہیں کیا جاتا ۔ میرے خیلا سے یہ بد عقیدگی نہیں ہے کیونکہ عقیدہ تو سب کا یہی ہے کہ شادی کسی بھی دن کی جاسکتی ہے پر اگر کوئی کسی بھی وجہ سے یا احترام کی خاطر اگر صفر یا محرم میں شادی نہیں کرتا تو اس سے زبردستی کیوں ضروری ہے

السلام و علیکم انیس بھائی
آپ جو بات کر رہے ہیں وہ دراصل ماہ صفر کے منحوس ہونے سے تعلق نہیں رکھتی، بلکہ احترام و جذبات سے متعلق ہے۔ اگر کوئی ان وجوہات (جو آپ نے بیان کی ہیں) کی وجہ سے شادی نہیں کرتا یا سادگی اپناتا ہے، تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہے، کیونکہ اسکے پیچھے احترام کے جذبات پنہاں‌ہوتے ہیں۔

مگر ہمارے ہاں لوگوں کے نظریات کی جو کھچڑی بن گئی ہے اسکی وجہ سے بہت سے لوگ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں۔ خود مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہو چُکی ہے جس کے مطابق اس مہینے میں اللہ جل شانہ بہت بڑی تعداد میں بلاؤں کو نازل فرماتے ہیں۔ مگر جب اس بات کی تصدیق چاہی تو کوئی جواب نہیں‌ملا
اسی طرح کی اور بھی بے بنیاد باتیں ہیں جو اس مہینے سے منسلک کر دی جاتی ہیں، مثلا اس مہینے میں شیطانی کام کرنے والے، جیسے جادو ، ٹونے کرنے والوں‌ کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔

تو محترم عادل بھائی نے بھی دراصل اسی نحوست اور اس جیسے باطل نظریات کی تصحیح کرنے کے لئے یہ آرٹیکل لکھا ہے۔
 
محرم اور صفر میں شادی نہ کرنے کی وجہ ان مہینوں میں آلِ محمد پر ہونے والے مظالم ہیں کہ محرم کی 10 کو امام حسین (ع) کو شہید کیا گیا تھا اور پھر محرم اور صفر میں نبی(ص) کی نواسیوں کو قیدی بنا کر بازاروں میں پھرایا گیا تھا ظاہر ہے پھر کسی مسلمان کو یہ دل کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ان ایام میں شادی کرے ۔ پر نکاح کرنا سنت ہے جو کسی بھی دن کیا جاسکتا ہے ۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ اگر لڑکے کی شادی ہو اور اگر اسکے کسی قریبی عزیز کا انتقال ہوجائے تو تاریخیں آگے بڑھادی جاتی ہیں کیونکہ مسرت اور غم کے لمحات ایک ساتھ آئیں تو بڑا عجیب لگتا ہے اور جب ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم شادی بعد میں بھی کرسکتے ہیں تو خاص کر وہ دن ہی کیوں چنا جائے ہاں اگر کسی لڑکی کی شادی میں یہ مسئلہ ہوتا ہے تو شادی سادگی سے کردی جاتی ہے یہ بھی بات ہے تو عجیب کہ اپنی لڑکی کے لیئے تو کہا جاتا ہے کہ چاہے کچھ ہو لڑکی کی رخصتی نہیں روکنی چاہیئے پر دوسرے کی لڑکی خیال نہیں کیا جاتا ۔ میرے خیلا سے یہ بد عقیدگی نہیں ہے کیونکہ عقیدہ تو سب کا یہی ہے کہ شادی کسی بھی دن کی جاسکتی ہے پر اگر کوئی کسی بھی وجہ سے یا احترام کی خاطر اگر صفر یا محرم میں شادی نہیں کرتا تو اس سے زبردستی کیوں ضروری ہے
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بھائی میر انیس ، نبی اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے رشتہ داروں پر ہونے والے ظلم کی بنا پر اگر اس مہینے میں جس میں کوئی ظلم ہوا تھا ، اُس مہینے میں کوئی جائز خوشی والا کام جائز طریقے پر کرنے سے رک جانا احترام ہے تو میرے محترم بھائی ، صرف محرم اور صفر ہی کیوں ، باقی مہینوں کو بھی دیکھا جانا چاہیے اور پھر یہ نظر آئے گا کہ مسلمانوں کے لیے کوئی خوشی والا کام کرنے کے کوئی مہینہ نہیں بچے گا ،
محرم میں تو جنت کے نوجوانوں کے سردار حسین رضی اللہ عنہُ کی شہادت ہوئی ،
ماہ صفر اُن کے خاندان اور اہل قافلہ کی عورتوں پر ظلم ہونے کی کہانیاں اگر درست مان لی جائیں تو ماۃ صفر میں کوئی خوشی والا کام کرنا احتراماً درست نہ مان لیا ،
اس کے بعد ربیع الاول ہے ، جس میں حسین رضی اللہ عنہُ کے نانا جان ، جن کی نسبت کی وجہ سے حسین رضی اللہ عنہُ کی شان ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ بلند رتبے والی ہستی ، اللہ کے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم دُنیا سے رخصت ہوئے ، جس سے بڑھ کر کوئی اور غم کسی ایمان والے کے ہو ہی نہیں سکتا ،
ربیع الاول کے مہینے میں ہی حسین رضی اللہ عنہُ کے بڑے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے کے نواسے حسن رضی اللہ عنہُ فوت ہوئے ،
آپ کے ذکر کردہ احترام والے فلسفے کی بنا ہر تو اس مہینے میں تو مسلمانوں کو بہت ہی غم زدہ رہنا چاہیے لیکن اس مہینے میں معاملہ الٹا نظر آتا ہے کہ مسلمانوں میں اکثر عجیب و غریب طور پر خوشیاں مناتے ہیں ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ارضاہ جمادی الاول میں فوت ہوئے ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عمر الفاروق ابن الخطاب رضی اللہ عنہما و ارضاہما کی شہادت ذی الحج میں ہوئی ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے تیسرے بلا فصل خلیفہ ، مظلوم امام اور أمیر المؤمنین عُثمان بن عفان رضی اللہ عنہ و ارضاہ کو بھی ذی الحج میں ہی شہید کیا گیا ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے چوتھے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ و ارضاہ کو رمضان میں شہید کیا گیا ،
::::::: ہماری والدہ محترمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سب سے زیادہ محبوب ہستیوں میں ایک ، عائشہ رضی اللہ عنھا و ارضاھا بھی رمضان میں فوت ہوئیں ،
اسی طرح ہر مہینے میں کسی نہ کسی دلدوز المیے کے واقع ہونے کی خبر مل جائے گی ،
انیس بھائی ، ان مقدس ہستیوں کا احترام یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کریں نہ کہ غیر ثابت شدہ کہانیوں کی بنا پر جائز کاموں پر خود ساختہ پابندیاں عائد کریں ،
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ہر شر سے محفوظ فرما دے ، و السلام علیکم۔
 

میر انیس

لائبریرین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بھائی میر انیس ، نبی اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے رشتہ داروں پر ہونے والے ظلم کی بنا پر اگر اس مہینے میں جس میں کوئی ظلم ہوا تھا ، اُس مہینے میں کوئی جائز خوشی والا کام جائز طریقے پر کرنے سے رک جانا احترام ہے تو میرے محترم بھائی ، صرف محرم اور صفر ہی کیوں ، باقی مہینوں کو بھی دیکھا جانا چاہیے اور پھر یہ نظر آئے گا کہ مسلمانوں کے لیے کوئی خوشی والا کام کرنے کے کوئی مہینہ نہیں بچے گا ،
محرم میں تو جنت کے نوجوانوں کے سردار حسین رضی اللہ عنہُ کی شہادت ہوئی ،
ماہ صفر اُن کے خاندان اور اہل قافلہ کی عورتوں پر ظلم ہونے کی کہانیاں اگر درست مان لی جائیں تو ماۃ صفر میں کوئی خوشی والا کام کرنا احتراماً درست نہ مان لیا ،
اس کے بعد ربیع الاول ہے ، جس میں حسین رضی اللہ عنہُ کے نانا جان ، جن کی نسبت کی وجہ سے حسین رضی اللہ عنہُ کی شان ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ بلند رتبے والی ہستی ، اللہ کے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم دُنیا سے رخصت ہوئے ، جس سے بڑھ کر کوئی اور غم کسی ایمان والے کے ہو ہی نہیں سکتا ،
ربیع الاول کے مہینے میں ہی حسین رضی اللہ عنہُ کے بڑے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے کے نواسے حسن رضی اللہ عنہُ فوت ہوئے ،
آپ کے ذکر کردہ احترام والے فلسفے کی بنا ہر تو اس مہینے میں تو مسلمانوں کو بہت ہی غم زدہ رہنا چاہیے لیکن اس مہینے میں معاملہ الٹا نظر آتا ہے کہ مسلمانوں میں اکثر عجیب و غریب طور پر خوشیاں مناتے ہیں ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ارضاہ جمادی الاول میں فوت ہوئے ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عمر الفاروق ابن الخطاب رضی اللہ عنہما و ارضاہما کی شہادت ذی الحج میں ہوئی ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے تیسرے بلا فصل خلیفہ ، مظلوم امام اور أمیر المؤمنین عُثمان بن عفان رضی اللہ عنہ و ارضاہ کو بھی ذی الحج میں ہی شہید کیا گیا ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے چوتھے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ و ارضاہ کو رمضان میں شہید کیا گیا ،
::::::: ہماری والدہ محترمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سب سے زیادہ محبوب ہستیوں میں ایک ، عائشہ رضی اللہ عنھا و ارضاھا بھی رمضان میں فوت ہوئیں ،
اسی طرح ہر مہینے میں کسی نہ کسی دلدوز المیے کے واقع ہونے کی خبر مل جائے گی ،
انیس بھائی ، ان مقدس ہستیوں کا احترام یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کریں نہ کہ غیر ثابت شدہ کہانیوں کی بنا پر جائز کاموں پر خود ساختہ پابندیاں عائد کریں ،
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ہر شر سے محفوظ فرما دے ، و السلام علیکم۔
میرے بھائی بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر آپ واقعہ کربلا جیسے سانحہ کو اور اس کے بعد جو آلِ رسول(ص) پر ظلم ہو ا کو ہی جھوٹی کہانیاں سمجھتے ہیں تو میں آپ سے مذید بحث نہیں کروں گا کیونکہ بحث اس سے ہوتی ہے جس سے سے انسان کو تھوڑی بہت بھی ایسی امید ہوتی ہے کہ اسکو سمجھایا جاسکتا ہے پر اگر کل آپ اس بات سے ہی انکار کردیں کہ اللہ بھی ہے یا نہیں تو میں آپ کو کوئی دلیل نہیں دونگا۔ یہ بحث آپ علماء اہلِ سنت سے کر لیں جو ہمارے نزدیک آپ سے زیادہ قریب ہیں۔ باقی رہی وہ بات کہ جو آپ نے ربیع الاول کیلئے کہی تو یہاں سنی شیعہ روایات میں تھوڑا سا اختلاف ہے ہمارے نزدیک آنحضرت کی شہادت ہوئی تھی اور وہ 28 صفر کو ہوئی تھی اور امام حسن (ع) کی شہادت کا بھی یہی دن ہے۔ باقی جو آپ نے شہادتیں بیان کیں تو بات وہ ہی آجائے گی کہ جن واقعات کو آپ جھوٹا کہ رہے ہیں ان میں اور باقی شہادتوں میں فرق ہے کیونکہ باقی شہادتیں جو ہوئی وہ صرف ایک فرد کی شہادت تھی گو کہ اسلام کا بہت بڑا نقصان تھا پر شہادت تو ہماری میراث ہے لیکن یوں نبی(ص)کے پورے گھرانے کو ہی تاراج کردینا ہماری میراث نہیں ہے کہ ننھے علی اصغر(ع) کو تک نہیں بخشا گیا نبی(ص)کی بیٹیوں کو سرِ بازار پھرانا ہماری میراث نہیں ہے۔آلِ نبی کی نام نہاد مسلمانوں نے جو توہین کی اور انکو چھپانے کیلئے جو پروپیگنڈہ کیا گیا وہ سب جھوٹ تو ہوسکتا ہے کیونکہ انکا پرپیگنڈہ اور وہ سارے باقی لوگوں کے نام اب گالی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور یہی اس واقع کی سب سے بڑی حقانیت ہے ۔ بہر حال ایک نئی بحث آپ نے چھیڑ دی۔ اور ہر جگہ ایک نئی بحث کرنا مجھ کو بھی زیب نہیں دیتا۔دوسرے ہم محبانِ اہلیبیت جب بھی کوئی خوشی کی تقریب کرتے ہیں تو تاریخ ضرور دیکھتے ہیں اگر اس تاریخ میں کسی بھی آلِ رسول(ص) کی شہادت ہوتی ہے تو نہیں کرتے چاہے وہ رمضان کا مہینہ ہو یا جمادی الآخر کا ذی قعد کا ہو یا ذوالحج کا۔ باقی آپ جو کرتے رہیں وہ آپ کا عقیدہ ہے اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیئے
 

شمشاد

لائبریرین
---- باقی رہی وہ بات کہ جو آپ نے ربیع الاول کیلئے کہی تو یہاں سنی شیعہ روایات میں تھوڑا سا اختلاف ہے ہمارے نزدیک آنحضرت کی شہادت ہوئی تھی اور وہ 28 صفر کو ہوئی تھی اور امام حسن (ع) کی شہادت کا بھی یہی دن ہے۔----

حیرت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کیا گیا اور آج تک اہل تشیع کے علاوہ کسی کو علم ہی نہیں۔

انیس بھائی کیا آپ عبد اللہ حیدر صاحب کے سوال کا جواب دیں گے؟
 
روایات میں ہے کہ خیبر میں ایک یہودی عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی تھی اور بکری کے گوشت میں زہر ملا کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک لقمہ چکھتے ہی ہاتھ روک دیا اور اعلان فرمایا کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔ ایک صحابی اس زہر کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ یہ روایت اہلسنت کی کتب میں موجود ہے۔ مرضِ وفات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ 'میں اُس زہر کا اثر اب بھی اپنے بدن میں محسوس کرتا ہوں' یہ روایت بھی اہلسنت کی کتب میں موجود ہے۔ اس بناء پر کہا گیا ہے کہ آپ شہید ہیں ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم بالصواب
 
Top