نیرنگ خیال
لائبریرین
ماہ صیام کا پہلا عشرہ رواں دواں ہے. رحمتوں اور برکتوں سے سرشار یہ مہینہ عہد رواں کے دھونے دھونے آ پہنچا ہے. الله سبحان و تعالیٰ کی رحمت جوش میں ہے اور اک استدعا پر مخلوق کے گناہ معاف کرنے کا اعلان کر رکھا ہے. لاکھوں لوگ جو اس ماہ مبارک کے احترام میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے اسکی برکات و فیوض سے ہمہ وقت فیضیاب ہونگے. اور مجھ جیسے کوتاہ بیں نیکیوں کے اس میلے میں کچھ کمائی کرنے کی بجائے ہر بات پر مغفرت الہی کے طالب بنکر گناہوں کی دلدل میں ڈوبتے چلے جایئں گے. حیات اور وقت الله سبحان و تعالیٰ کے عطا کردہ خزینوں میں سے ہیں. وقت معلوم سے بےفکر لوگ اس بات کے ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ وقت کے پنچھی کی ہر اڑان کے ساتھ زندگی کا پنچھی اپنے انجام کی طرف گامزن ہے. اسی کج فہمی و کم علمی میں عمل سے دور مغرب کی رنگین زندگی سے مقابلہ کرنے والے وقت معلوم کی گرفت میں آ کر دنیا و آخرت میں رسوائی کے حقدار ٹھرائے جاتے ہیں. جبکہ فکر کی دولت سے مالا مال لوگ وقت کے پنچھی کی سمت کا تعین کرنے کیبعد زندگی کو احکامات الہی میں ڈھال کر نہ صرف دنیا میں رحمتوں اور نعمتوں سے استفادہ حاصل کرتے ہیں بلکے آخرت میں بھی سرخروئی اور کامرانی انہیں کے حصے میں آتی ہے. اور یہی لوگ حقیقت میں اس ماہ صیام کی قدرومنزلت سے آگاہ ہیں اور اس کے فیوض و برکات سے مکمل فیض اٹھاتے ہیں
رمضان عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی جلا دینے کے ہیں. یعنی گناہوں کو جلا کر خاکستر کر دینے والا مہینہ. اگر میں ایام طفلی کیطرف ایک طائرانہ نگاہ ڈالوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ عہد حاضر احترام رمضان سے خالی نظر آتا ہے. اس دور میں گھر میں خواتین عبادات میں مصروف نظر آتی تھیں. گھر کے بزرگ پرنور چہرے لیے مساجد کی زینت بنے نظر آتے تھے. آغاز رمضان سے ہی یہ احساس دل میں جاگزیں ہوتا تھا کہ فیوض و برکات کو لوٹنے کا وقت آنپہنچا ہے. ذھن کے گوشوں میں صرف یہی بات رقصاں رہتی تھی کہ اس رمضان میں تو پچھلے سارے گناہ معاف کروا لینے میں کامیاب ہو جاؤں گا. پتہ نہیں ماحول کا اثر تھا یا والدین کی تربیت کا نتیجہ کہ لگتا تھا ادھر گناہ کیا تو پکڑ ہو جائے گی. اور نیکی کروں گا تو میرے چہرے سے چھلکتی پھرے گی مگرذرا نیرنگی زمانہ ملاحظہ کیجیے الله کا یہ رحمت اور مغفرت سے سرشار مہینہ رواں دواں ہے مگر کمال ہے جو کوئی آنکھ نم نظر آے. کوئی دل ہو جو دہشت سے لرزتا دکھائی دے. کوئی وجود نیکی کے سمندر میں غوطہ زن ہو. میں یہ نہیں کہتا کہ نیک لوگ اس جہاں سے اٹھ گئے ہیں مگر میری آنکھوں پر ہی ایسی پٹی بندھ گئی ہے کہ جو دیکھتا ہوں گدلا نظر آتا ہے. جن لوگوں سے دین کی محفل سجنے کی امید تھی وہ لہو و لعب میں ڈوبے ہیں. لغویات کی محفلیں برسرعام سجی ہیں. جہاں لوگ دوران روزہ قرات قرآن پر جھوما کرتے تھے اب اپنے پسندیدہ ٹی-وی سیزن سے دل بہلانے میں مشغول ہیں. گویا روزہ صرف ایک بھوک اور پیاس کا نام ہے جو دل و زبان اور نظر و ذھن کی عبادت سے خالی ہے. وہ خواتین جو گھر میں نور کا مرکز تھیں. جنکے اعمال و انداز اپنے اندر نیکی کی دنیا سموے ہوتے تھے یکم رمضان سے لے کر آخر تک عید کی تیاری میں مصروف رہتی ہیں. بہت زیادہ کیا تو اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہو گیئں. ان تمام چیزوں سے احساس تھکن اس قدر بڑھ جاتا کہ عبادت کے لیے سر اٹھانے کی ہمت نہیں رہتی. ادھر نوجوان طبقے کا یہ عالم ہے کہ
رمضان عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی جلا دینے کے ہیں. یعنی گناہوں کو جلا کر خاکستر کر دینے والا مہینہ. اگر میں ایام طفلی کیطرف ایک طائرانہ نگاہ ڈالوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ عہد حاضر احترام رمضان سے خالی نظر آتا ہے. اس دور میں گھر میں خواتین عبادات میں مصروف نظر آتی تھیں. گھر کے بزرگ پرنور چہرے لیے مساجد کی زینت بنے نظر آتے تھے. آغاز رمضان سے ہی یہ احساس دل میں جاگزیں ہوتا تھا کہ فیوض و برکات کو لوٹنے کا وقت آنپہنچا ہے. ذھن کے گوشوں میں صرف یہی بات رقصاں رہتی تھی کہ اس رمضان میں تو پچھلے سارے گناہ معاف کروا لینے میں کامیاب ہو جاؤں گا. پتہ نہیں ماحول کا اثر تھا یا والدین کی تربیت کا نتیجہ کہ لگتا تھا ادھر گناہ کیا تو پکڑ ہو جائے گی. اور نیکی کروں گا تو میرے چہرے سے چھلکتی پھرے گی مگرذرا نیرنگی زمانہ ملاحظہ کیجیے الله کا یہ رحمت اور مغفرت سے سرشار مہینہ رواں دواں ہے مگر کمال ہے جو کوئی آنکھ نم نظر آے. کوئی دل ہو جو دہشت سے لرزتا دکھائی دے. کوئی وجود نیکی کے سمندر میں غوطہ زن ہو. میں یہ نہیں کہتا کہ نیک لوگ اس جہاں سے اٹھ گئے ہیں مگر میری آنکھوں پر ہی ایسی پٹی بندھ گئی ہے کہ جو دیکھتا ہوں گدلا نظر آتا ہے. جن لوگوں سے دین کی محفل سجنے کی امید تھی وہ لہو و لعب میں ڈوبے ہیں. لغویات کی محفلیں برسرعام سجی ہیں. جہاں لوگ دوران روزہ قرات قرآن پر جھوما کرتے تھے اب اپنے پسندیدہ ٹی-وی سیزن سے دل بہلانے میں مشغول ہیں. گویا روزہ صرف ایک بھوک اور پیاس کا نام ہے جو دل و زبان اور نظر و ذھن کی عبادت سے خالی ہے. وہ خواتین جو گھر میں نور کا مرکز تھیں. جنکے اعمال و انداز اپنے اندر نیکی کی دنیا سموے ہوتے تھے یکم رمضان سے لے کر آخر تک عید کی تیاری میں مصروف رہتی ہیں. بہت زیادہ کیا تو اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہو گیئں. ان تمام چیزوں سے احساس تھکن اس قدر بڑھ جاتا کہ عبادت کے لیے سر اٹھانے کی ہمت نہیں رہتی. ادھر نوجوان طبقے کا یہ عالم ہے کہ
ہم کوئے مغاں میں تھے، ماہ رمضان آیا
صد شکر کہ مستی میں جانا، نہ کہاں آیا
ان لوگوں کی خوشنصیبی پر رشک آتا ہے جو سنت نبوی پر عمل پیرا ہو کر اس رمضان کی برکات کو دونوں ہاتھوں سے لوٹیں گے اور تمام گناہوں کو جلا کر خاکستر کر دیں گے. اللہ کی نعمتوں سے ہمہ وقت مستفید ہونگے. اور ادھر میرے جیسے دنیا کو دل میں بسائے تاریکی کی دلدل میں دھنسے گستاخی رمضان کے مرتکب ہو کر اپنی اک دو نیکیاں بھی جلا بیٹھیں گے. راس آنے لگی دنیا تو یہ دل نے کہا
جا اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی
وقت معلوم کی دہشت سے لرزتا ہوا دل
ڈوبا جاتا ہے کہ اب مہلت نہیں ملنے والی
ضرورت اس امر کی ہے کہ دین و ایماں اور احترام رمضان کی وہ تڑپ وہ محبت جو کردہ و ناکردہ گناہوں کے سبب ہم گنوا بیٹھے ہیں. اس میراث اس دولت کو تلاشا جائے. دل میں وہ درد از سرے نو بسایا جائے جس سے ہم حق رمضان کما حقہ ادا کر سکیں.