سویدا
محفلین
جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ نیا اسلامی ہجری سال ۱۴۳۱ھ شروع ہونے کو ہے اور اس کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ” افضل الصیام بعد صیام شھر رمضان شھر الله المحرم “ (ترمذی)
ترجمہ: ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل محرم الحرام کے روزے ہیں۔ “
محرم کے مہینے کو قرآن کریم نے عزت واحترام والا مہینہ قرار دیا ہے، خصوصا محرم کی دسویں تاریخ جس کو عام طور پر ”عاشوراء“ کہاجاتا ہے جس کے معنی ہیں ”دسواں دن“یہ دن اللہ تعالی کی رحمت وبرکت کا خصوصی طور پر حامل ہے۔
رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے دس محرم (عاشوراء) کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض تھا ، بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو اس وقت عاشوراء(دس محرم) کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا ، ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ مجھے اللہ جل شانہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے(صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (مشکوة شریف)
نیز دس محرم ہی کے دن اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات دلائی تو حضرت موسی علیہ السلام نے اس دن بطور شکرانے کے روزہ رکھا ،اس لیے یہودی بھی اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے تھے ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں جب یہ بات آئی تو آپ نے فرمایا کہ :ہم موسی علیہ السلام کے طرز عمل کو اپنانے کے لیے تم(یہودیوں) سے زیادہ حق دار ہیں سو آپ نے خود بھی دس محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (صحیحین)
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں ہمیشہ عاشوراء کا روزہ رکھتے ، وفات سے پہلے جوعاشوراء کا دن آیا تو آپ نے روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی ارشادفرمایا کہ دس محرم کو ہم مسلمان بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی ،اس لیے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشوراء کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاوٴں گا یعنی ۹ /محرم یا ۱۱/محرم کا روزہ بھی رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے ۔
یہاںایک قابل غور بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموںکی مشابہت عام زندگی میںتو کجا عبادات میںبھی آپ نے احتراز فرمایا اور صحابہ کو بھی حکم دیا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ۱۰/محرم الحرام کے ساتھ ۹ / محرم یا ۱۱/ محرم کو بھی روزہ رکھنا چاہئے اور یہ دونوں روزے رکھنا مستحب ہے، صرف دس محرم کے دن روزہ رکھنا مکروہ اور خلاف اولی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ” افضل الصیام بعد صیام شھر رمضان شھر الله المحرم “ (ترمذی)
ترجمہ: ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل محرم الحرام کے روزے ہیں۔ “
محرم کے مہینے کو قرآن کریم نے عزت واحترام والا مہینہ قرار دیا ہے، خصوصا محرم کی دسویں تاریخ جس کو عام طور پر ”عاشوراء“ کہاجاتا ہے جس کے معنی ہیں ”دسواں دن“یہ دن اللہ تعالی کی رحمت وبرکت کا خصوصی طور پر حامل ہے۔
رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے دس محرم (عاشوراء) کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض تھا ، بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو اس وقت عاشوراء(دس محرم) کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا ، ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ مجھے اللہ جل شانہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے(صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (مشکوة شریف)
نیز دس محرم ہی کے دن اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات دلائی تو حضرت موسی علیہ السلام نے اس دن بطور شکرانے کے روزہ رکھا ،اس لیے یہودی بھی اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے تھے ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں جب یہ بات آئی تو آپ نے فرمایا کہ :ہم موسی علیہ السلام کے طرز عمل کو اپنانے کے لیے تم(یہودیوں) سے زیادہ حق دار ہیں سو آپ نے خود بھی دس محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (صحیحین)
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں ہمیشہ عاشوراء کا روزہ رکھتے ، وفات سے پہلے جوعاشوراء کا دن آیا تو آپ نے روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی ارشادفرمایا کہ دس محرم کو ہم مسلمان بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی ،اس لیے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشوراء کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاوٴں گا یعنی ۹ /محرم یا ۱۱/محرم کا روزہ بھی رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے ۔
یہاںایک قابل غور بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموںکی مشابہت عام زندگی میںتو کجا عبادات میںبھی آپ نے احتراز فرمایا اور صحابہ کو بھی حکم دیا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ۱۰/محرم الحرام کے ساتھ ۹ / محرم یا ۱۱/ محرم کو بھی روزہ رکھنا چاہئے اور یہ دونوں روزے رکھنا مستحب ہے، صرف دس محرم کے دن روزہ رکھنا مکروہ اور خلاف اولی ہے ۔