فارسی شاعری ما را با غمزہ کشت و قضا را بہانہ ساخت (مرزا قتیل)

مندرجہ ذیل لنک میں لکھا ہے کہ یہ غزل قتیل لاہوری نے نہیں لکھی۔ بلکہ اس زمین میں لکھے گئے تمام اشعار دوسرے شاعروں کے نام سے منسوب ملتے ہیں۔
http://www.ical.ir/index.php?option=com_k2&view=item&id=10738:درنگی-بر-غزلی-منسوب-به-قتیل-لاهوری/-سید-عبدالرضا-موسوی-طبری&Itemid=9&tmpl=component&print=1
زبردست
اس عمدہ حوالہ کے لئے شکریہ
 

یاز

محفلین
اسی غزل کے دو اشعار فرید ایاز اور ابو محمد کی مشہور قوالی "دے دے کنگنا" میں بھی شامل ہیں۔ اسی قوالی کا مختصر ورژن حسن حامد کے ناول پہ مبنی فلم "دی ریلکٹنٹ فنڈامنٹلسٹ" میں بھی شامل ہوا تھا، لیکن اس میں یہ اشعار شامل نہیں تھے۔
مرزا قتیل والے اشعار ویڈیو کے سوا چھ منٹ کے کچھ بعد دیکھے (یا سنے) جا سکتے ہیں۔ کمال کی نغمگی ہے ویسے۔
 

طارق شاہ

محفلین
غافل بہ من رسید و وفا را بہانہ ساخت
افکند سر بہ پیش و حیا را بہانہ ساخت
تا از جفائے او نرہم، خونَ من نریخت
بےرحم روزِ ترسِ جزا را بہانہ ساخت
از بزم تا ز آمدنِ من بروں رود
برخاست گرم و دادنِ جا را بہانہ ساخت
مے خواست عمرہا کہ شود مہربانِ غیر
نامہرباں ستیزہْ ما را بہانہ ساخت

فارسی شناس حضرات سے درخواست ہے کہ اس کا بھی ترجمہ کردیں

انجان بن کے آیا وفا کا بہانے باز
ڈھلکائے سر ہے پیش حیا کا بہانے باز

باز آیا خُوں بہائے بِنا کب جفا شُعار
رحم و ترس بَروزِ جَزا کا بہانے باز

آیا میں بزْم میں، تو وہ باہر کھسک گیا
دینے جگہ اُٹھا تھا بَلا کا بہانے باز

تا عمر اب شراب، کہ ہے مہربانِ غیر
الزام مجھ پہ تھوپے لڑاکا بہانے باز

:):)
 
ڈ

تا عمر اب شراب، کہ ہے مہربانِ غیر
الزام مجھ پہ تھوپے لڑاکا بہانے باز

:):)
یہاں مے شراب والا نہیں ہے، بلکہ ماضیِ استمراری والا ہے۔
مے خواست: اس نے چاہا۔
من نمے خوردم: میں نہیں کھاتا تھا۔
تحریری فارسی میں اسے می لکھا جات ہے، البتہ تاجیکی اور افغان فارسی میں اسے "مے" پڑھا جاتا ہے۔
 

طارق شاہ

محفلین
یہاں مے شراب والا نہیں ہے، بلکہ ماضیِ استمراری والا ہے۔
مے خواست: اس نے چاہا۔
من نمے خوردم: میں نہیں کھاتا تھا۔
تحریری فارسی میں اسے می لکھا جات ہے، البتہ تاجیکی اور افغان فارسی میں اسے "مے" پڑھا جاتا ہے۔
می خواستن ، می خواہم
مے خواستن، می خواستن
مے سے غلط مفہوم اخذ کرلیا میں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انجان بن کے آیا وفا کا بہانے باز
ڈھلکائے سر ہے پیش حیا کا بہانے باز

باز آیا خُوں بہائے بِنا کب جفا شُعار
رحم و ترس بَروزِ جَزا کا بہانے باز

آیا میں بزْم میں، تو وہ باہر کِھسک گیا
دینے جگہ اُٹھا تھا بَلا کا بہانے باز

تا عمر! چاہتا تھا کہ ہو مہربانِ غیر
کرکے بہانہ طبعِ جُدا کا بہانے باز

×××××××××××××××

قافیہ بدل کے کچھ یوں :
تا عمر! چاہتا تھا کہ ہو مہربانِ غیر
(ناچاقیوں کا کرکے بہانہ، بہانے باز)

ِِِِِ
 

محمد وارث

لائبریرین
میری دسترس میں دیوانِ قتیل لاہوری کا برقی نسخہ آ گیا ہے، اور اُس کے اندر جو اِس زمین میں موجود غزل درج ہے، وہ یہاں موجود غزل سے بالکل مختلف ہے۔ :)
قتیل لاہوری کی مکمل غزل یہاں پر پڑھی جا سکتی ہے۔
اس دیوان کی مجھے بھی تلاش تھی، شکریہ خان صاحب۔
 

عدیل ہاشمی

محفلین
ما را بہ غمزہ کشت و قضا را بہانہ ساخت
خود سوئے ما نہ دید و حیا را بہانہ ساخت

ہماری طرف دیکھا نہیں اور حیا کا بہانہ بنا دیا (کہ حیا آتی ہے) اور جب اس ناز و ادا و غمزے سے ہم مر گئے تو کہہ دیا کہ اس کی تو موت آئی ہوئی تھی سو مر گیا

رفتم بہ مسجدی کہ ببینم جمال دوست
دستش بہ رخ کشید و دعا را بہانہ ساخت

میں مسجد میں گیا کہ دوست کا جمال دیکھوں، اور اس نے اپنے ہاتھ اٹھا کر (اپنا چہرہ چھپا لیا) اور بہانہ یہ بنایا کہ دعا مانگ رہا ہوں

دستش بہ دوشِ غیر نہاد از رہِ کرم
مارا چو دید لغزشِ پا را بہانہ ساخت

اُس نے اپنا ہاتھ غیر کے کندھے پر از راہِ کرم (محبت کے ساتھ) رکھا ہوا تھا اور جونہی ہمیں دیکھا، لڑکھڑاھٹ کا بہانہ بنا لیا (کہ ہاتھ تو اسکے کندھے پر اس وجہ سے رکھا کہ لڑکھڑا گیا تھا)۔

زاھد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں
کنجِ گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت

زاھد کو پری رخوں کے دیکھنے کی تاب نہیں ہے (اور اس وجہ سے وہ) گوشہ تنہائی میں ہے اور یادِ خدا کا بہانہ بنایا ہوا ہے!

مرزا قتیل
 

فاخر

محفلین
ما را بہ غمزہ کشت و قضا را بہانہ ساخت
خود سوئے ما نہ دید و حیا را بہانہ ساخت

ہماری طرف دیکھا نہیں اور حیا کا بہانہ بنا دیا (کہ حیا آتی ہے) اور جب اس ناز و ادا و غمزے سے ہم مر گئے تو کہہ دیا کہ اس کی تو موت آئی ہوئی تھی سو مر گیا

رفتم بہ مسجدی کہ ببینم جمال دوست
دستش بہ رخ کشید و دعا را بہانہ ساخت

میں مسجد میں گیا کہ دوست کا جمال دیکھوں، اور اس نے اپنے ہاتھ اٹھا کر (اپنا چہرہ چھپا لیا) اور بہانہ یہ بنایا کہ دعا مانگ رہا ہوں

دستش بہ دوشِ غیر نہاد از رہِ کرم
مارا چو دید لغزشِ پا را بہانہ ساخت

اُس نے اپنا ہاتھ غیر کے کندھے پر از راہِ کرم (محبت کے ساتھ) رکھا ہوا تھا اور جونہی ہمیں دیکھا، لڑکھڑاھٹ کا بہانہ بنا لیا (کہ ہاتھ تو اسکے کندھے پر اس وجہ سے رکھا کہ لڑکھڑا گیا تھا)۔

زاھد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں
کنجِ گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت

زاھد کو پری رخوں کے دیکھنے کی تاب نہیں ہے (اور اس وجہ سے وہ) گوشہ تنہائی میں ہے اور یادِ خدا کا بہانہ بنایا ہوا ہے!

مرزا قتیل


اس غزل كے چند شعر کو فرید ایاز کے بلاک بسٹر گیت ’’کنگنا‘‘ میں سنا تھا آج مزید اشعار پڑھ کر طبیعت مسرورہوگئی۔
ما را بہ غمزه کشت و قضا را بہانہ ساخت -----خود سوی ما ندید و حیا را بہانہ ساخت
دستے بہ دوش غیر نہاد از ره کرم ----------ما را چو دید لغزش پا را بہانہ ساخت
آمد برون خانہ چو آواز ما شنید----------- بخشیدن نوالہ ، گدا را، بہانہ ساخت
رفتم بہ مسجد ازپئے نظاره رخش ----------دستے بہ رخ کشید و دعا را بہانہ ساخت
زاہد نداشت تاب جمالِ پری رخاں ------کنجے گرفت و ترسِ خدا را بہانہ ساخت
ویکی پیڈیا پر اتنا ہی دستیاب ہوسکا ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top