تو کیا لائیں جنگل کا قانون ؟
ٹیگ تو ہم نے پُر مزاح کا کیا ہے
عسکری بھائی، لیکن بات آپ کی سولہ آنے سچ ہے۔ اگر آمریت یا جمہوریت نہیں تو پھر کیا جنگل کا قانون؟ عمدہ سوچ۔
موجودہ دور میں ، دنیا نے مجموعی طور پر آمریت کو مسترد کردیا ہے۔ جو پانچ بادشاہ رہ گئے تھے ( تاش کے چار بادشاہوں سمیت) ان میں سے ایک آجکل ملکہ ہے۔ پانچواں بادشاہ ہو یا ملکہ ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے کہ یہ بیچارہ یا بیچاری خود ایک وظیفہ خوار ہے۔ یہی حال آمروں کا ہے۔ جو چند رہ گئے ہیں وہ بھہ رختِ سفر باندھ رہے ہیں۔
گرشتہ دو تین صدیوں میں مہذب دنیا نے تجربہ کے ذریعے سے جمہوریت کو بہترین طرزِ حکومت جانا ہے، سو پاکستان کے لیے بھی یہی طرزِ حکومت سود مند ثابت ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کی آمریت یا فوجی آمریت اب خواب و خیال ہوگئے۔ مارا کل جمہوریت سے ہی عبارت ہے۔ ہمارا مستقبل جمہوریت کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ پچھلے ساٹھ پینسٹھ سالوں میں تو جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ ہر دو یا تین سال بعد کوئی نہ کوئی آمر ملک فتح کرکے بیٹھ گیا، اور ہم خوش ہوگئے کہ چلو، کرپٹ ساست دانوں سے نجات ملی۔ لیکن ہم نے جمہوریت کو اس طرزِ عمل کے ذریعے کئی سو سال پیچھے پھینک دیا۔ جمہورت کوئی دو تین یا پانچ سا ل میں نہیں آجاتی۔ یہ بتدریج ایک ارتقائی عمل کے ذریعے سے آئے گی۔ کچھ دہائیوں پہلے پورا پاکستان جاگیر داری نظام میں جکڑا ہوا تھا۔ آج کم از کم شہری علاقے اپنی مرضی سے ووٹ دے رہے ہیں۔ لیکن ابھی ہمیں اپنے ووٹ کی طاقت کا اندازہ نہیں۔
ہمیں اللہ سے امید ہے کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں حقیقی جمہوریت آجائے گی، لیکن اس کے لیے ہمیں نہ صرف ابھی انتظار کرنا ہوگا، بلکہ طاہر القادری جیسے تمام جمہوریت دشمنوں کی کوششوں کو رد کرنا ہوگا۔ یہ لولی لنگڑی جمہوریت ہی صحیح راستہ ہے۔ یا د رکھیے اگر کہیں جمہوریت دشمنوں کی کوششیں رنگ لے آئیں اور پاکستان ایک مرتبہ پھر آمریت کی گود میں چلا گیا تو نہ جانے جمہوریت کو پٹری پر واپس آتے ہوئے اور کتنی صدیاں لگ جائیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں نیک لوگوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے سے چن کر ایوانِ حکومت میں لانے کی ہمے استطاعت اور سمجھ عطا فرمائے۔ پاکستان کے خوش آئیندمستقبل کے لیے۔ ایک بہتر پاکستان کے لیے۔