آصف شفیع
محفلین
متاثرین زلزلہ "8 -اکتوبر-2005ء" کیلیے ایک نظم
بھونچال صرف آہ و فغاں تک نہیں رہا
ان بستیوں میں کوءی نشاں تک نہیں رہا
ایسی بپا ہوءی ہے قیامت زمین پر
وادی میں کوءی ایک گراں تک نہیں رہا
پل بھر میں زندگی کے سب آثار مٹ گءے
اٹھتا ہوا گھروں سے دھواں تک نہیں رہا
سب خواب تتلیوں سے اجل ساتھ لے گءی
معصوم خواہشوں کا نشاں تک نہیں رہا
سب راستے جمال کے جاتے تھے جس جگہ
اب کوءی راستہ بھی وہاں تک نہیں رہا
بد قسمتی سے ایسے بھی کچھ خاندان ہیں
دنیا میں جن کا کوءی نشاں تک نہیں رہا
ہر آنکھ اشکبار ہے قدرت کے کھیل پر
یہ کرب صرف میری ہی جاں تک نہیں رہا
آصف شفیع
17-اکتوبر-2005ء
(یہ نظم میرے بلاگ پر بھی پوسٹ ہو چکی ہے وہاں بھی دیکھ سکتے ہیں-شکریہ)
بھونچال صرف آہ و فغاں تک نہیں رہا
ان بستیوں میں کوءی نشاں تک نہیں رہا
ایسی بپا ہوءی ہے قیامت زمین پر
وادی میں کوءی ایک گراں تک نہیں رہا
پل بھر میں زندگی کے سب آثار مٹ گءے
اٹھتا ہوا گھروں سے دھواں تک نہیں رہا
سب خواب تتلیوں سے اجل ساتھ لے گءی
معصوم خواہشوں کا نشاں تک نہیں رہا
سب راستے جمال کے جاتے تھے جس جگہ
اب کوءی راستہ بھی وہاں تک نہیں رہا
بد قسمتی سے ایسے بھی کچھ خاندان ہیں
دنیا میں جن کا کوءی نشاں تک نہیں رہا
ہر آنکھ اشکبار ہے قدرت کے کھیل پر
یہ کرب صرف میری ہی جاں تک نہیں رہا
آصف شفیع
17-اکتوبر-2005ء
(یہ نظم میرے بلاگ پر بھی پوسٹ ہو چکی ہے وہاں بھی دیکھ سکتے ہیں-شکریہ)