محسن نقوی متاعِ شامِ سفر بستیوں میں چھوڑ آئے ( محسن نقوی)

زونی

محفلین
متاعِ شامِ سفر بستیوں میں چھوڑ آئے
بجھے چراغ ہم اپنے گھروں میں چھوڑ آئے

ہم اپنی در بدری کے مشاہدے اکثر
نصیحتوں کی طرح کم سنوں میں چھوڑ آئے

بچھڑ کے تجھ سے چلے ہم تو اب کے یوں بھی ہوا
کہ تیری یاد کہیں راستوں میں چھوڑ آئے

گھرے ہیں لشکر اعدا میں اور سوچتے ہیں
ہم اپنے تیر تو اپنی صفوں میں چھوڑ آئے

ہوا ہی دن میں پرندے اڑائے پھرتی ھے
ہوا ہی پھر سے انہیں گھونسلوں میں چھوڑ آئے

کسے خبر ھے کہ زخمی غزال کس کے لیے
نشاں لہو کے گھنے جنگلوں میں چھوڑ آئے

اڑیں گے کیا وہ پرندے جو اپنے رزق سمیت
سفر کا شوق بھی ٹوٹے پروں میں چھوڑ آئے

ہمارے بعد بھی رونق رہے گی مقتل میں
ہم اہلِ دل کو بڑے حوصلوں میں چھوڑ آئے

سدا سکھی رہیں چہرے وہ ہم جنہیں ‘محسن‘
بجھے گھروں کی کھلی کھڑکیوں میں چھوڑ آئے



(محسن نقوی)
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم زونی جی
بہت خوب
محسن نقوی جی کے اتنے اچھے کلام سے نوازنے کا شکریہ
اللہ کرے ذوق علم و سخن اور زیادہ آمین
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہمارے بعد بھی رونق رہے گی مقتل میں
ہم اہلِ دل کو بڑے حوصلوں میں چھوڑ آئے

سدا سکھی رہیں چہرے وہ ہم جنہیں ‘محسن‘
بجھے گھروں کی کھلی کھڑکیوں میں چھوڑ آئے
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نایاب
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہمارے بعد بھی رونق رہے گی مقتل میں
ہم اہلِ دل کو بڑے حوصلوں میں چھوڑ آئے

واہ واہ کیا خوبصورت غزل ہے زونی - یعنی شاعری کا ذوق بڑھتا جا رہا ہے - اللہ کرے مرحلہء شوق نہ ہو طے - :)
بہت بہت شکریہ!
 

بےباک

محفلین
زبردست

واہ ، بہت ہی زبردست غزل پیش کی ہے
واقعی آپ نے قابل تعریف غزل ہے نقوی صاحب کی

متاعِ شامِ سفر بستیوں میں چھوڑ آئے۔
بجھے چراغ ہم اپنے گھروں میں چھوڑ آئے

واہ واہ
 

شمشاد

لائبریرین
اور شاعروں کا کام ہی کیا ہے، بلکہ یہ تو مرنے کے بعد بھی باتیں کرتے ہیں۔

وہ کیا کہتے ہیں : بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
 
Top