متبادل توانائی کا استعمال کیسے کیا جائے

پاکستان توانائی کے مسائل میں شدیدطرح الجھا ہوا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے ہمارے پاس تقریباً تمام قدرتی وسائل موجود ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہم پریشانیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ خدا نے انسان کو عقل دی ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ نہایت پیچیدہ مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم توانائی کے متبادل کا انتخاب نہیں کررہے؟ ہمارے ملک میں متبادل توانائی پالیسی ترتیب کیوں نہیں دی جا رہی؟
ہاں یہ درست ہے کہ پاکستان پانی، گیس اور تیل کی کمی کا شکار ہے اور ان تمام ذرائع سے بجلی کی ضروریات کو پورا نہیں کیا جا سکتا مگر ہم سورج کی کرنوں، ہوا اور دیگر ذرائع سے توانائی حاصل کر سکتے ہیں۔
ہمارا ملک دنیا کے اس خطے میں واقع ہے جہاں سورج کی کرنیں اوسطً نو سے دس گھنٹے پڑتی ہیں۔ ہم ان سورج کی کرنوں سے توانائی پیدا کر سکتے ہیں۔ سورج کے ذریعے حاصل کی جانے والی توانائی کو شمسی توانائی کہا جاتا ہے۔ شمسی توانائی خدا کا ایک انمول تحفہ ہے، اگرچہ شمسی توانائی پانی کی نسبت زیادہ طاقت ور نہیں مگر پھر بھی اس سے توانائی کا بڑا حصہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اسپین کے علاقے نیورا جہاں توانائی کے روایتی ذرائع نہ ہونے کے باوجود بجلی کی ساٹھ سے ستر فی صد ضرورت کو شمسی توانائی سے پورا کیا جاتا ہے شمسی توانائی کے بہترین استعمال کی بہترین مثال ہے۔
وزارت بجلی وپانی کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی سے انتیس لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، شمسی توانائی کے استعمال پر زور کیوں نہیں دیا جا رہا۔ شمسی توانائی دیگر تمام ذرائع کی نسبت آلودگی سے پاک ہے۔ کوئلے ، گیس اور تھرمل سے حاصل ہونے والی توانائی سے گرین ہاﺅس گیسز کا اخراج ہوتا ہے جبکہ شمسی توانائی ایسی کوئی گیسز کا اخراج نہیں کرتی جو کہ ماحول کی خرابی کا باعث ہوں۔
لوڈشیڈنگ کے باعث زیادہ استعمال ہونے والے یو پی ایس سے دو سے چار گنا اضافی بجلی استعمال ہوتی ہے جس کی ادائیگی ہمیں بجلی کے اضافی بل کی صورت میں کرنی پڑتی ہے۔یوپی ایس کی نسبت شمسی پینل کو لگوانے سے اضافی بل کی ادائیگی سے بچا جا سکتا ہے ۔ شمسی پینل ایک دفعہ کا خرچا ہے اور اس کی مدت کم سے کم بیس سال ہے اس دوران دو سے چار سال بعد صرف انونٹر کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے توانائی کی ضروریات کے پیش نظر شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دیا ہے۔ دہلی کے نزدیک گوالی پہاڑی میں سورج سے بجلی کی توانائی حاصل کرنے کے لیے ایک بجلی گھر بنایا گیا ہے جہاں پیداوار اور تحقیقی کام کیے جا رہے ہیں۔ بھارت کے دیگر حصوں میںفوٹو وولٹالک سنٹرز قائم کیے جا چکے ہیں جو ایک کلوواٹ سے ڈھائی کلوواٹ تک بجلی پیدا کرتے ہیں۔ گھروں، کارخانوں، ہوٹلوں اور اسپتالوں میں پانی گرم کرنے کے لیے ایسے آلات لگے ہیں جوایک سو لیٹر سے لے کر سوا لاکھ لیٹر تک پانی گرم کر سکتے ہیں۔ بھارت شمسی توانائی سے ایک فیصد سے بھی کم بجلی پیدا کرتا ہے۔
توانائی کا ایک اور متبادل ہوا بھی ہے ۔ دنیا کے بیشتر ممالک ہوا سے توانائی حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں امریکہ، جرمنی، فرانس، چائنہ، اٹلی، اسپین، پرتگال اور انڈیا شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہوا سے پچاس ہزار میگا واٹ بجلی با آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں کا موسم ہواسے توانائی پیدا کرنے کے لئے بہترین ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے امکانات روشن ہیں۔
ہو اسے توانائی یعنی ونڈ انرجی سے توانائی کا حصول حکومتی توجہ کا منتظر ہے۔ ہوا کی کم از کم دو سے تین کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کو ونڈ انرجی کے لئے موزوں سمجھا جاتا ہے جو خوش قسمتی سے کراچی، ٹھٹھہ، کوئٹہ ، جیوانی، حیدرآباد، بلوچستان کی ساحلی پٹی، صوبہ سرحد کی چند شمالی وادیوں اور آزاد کشمیر کے علاقوں میں ہوا کے ذریعے تقریباً تین ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
اس وقت جرمنی ہواسے اٹھارہ ہزار میگا واٹ، اسپین آٹھ ہزار میگاواٹ ، امریکہ سات ہزار میگاواٹ جبکہ بھارت تیرہ ہزار سے زائد بجلی پیدا کررہا ہے۔ شمسی توانائی کی طرح ہوا یعنی ونڈ انرجی بھی ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے اور اس سے ماحول آلودہ نہیں ہوتا۔
میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ہوا سے چلنے والے ٹربائنوں کا دنیا کا سب سے بڑا پراجیکٹ برطانیہ میں مکمل ہوا ہے۔ رودبار انگلستان کے ساحلی علاقے کینٹ میں قائم کیے جانے والے تھانٹ ونڈ فارم میں ایک سو انتہائی طاقت ور ٹربائن لگائے گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں سے حاصل ہونے والی بجلی دولاکھ سے زیادہ گھروں کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گی۔ اکثر ساحلی علاقوں میں زیادہ تر تیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں جن کی مدد سے بجلی پیدا کرنے والے ٹربائن باآسانی چلائے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی ساحلی پٹی میں اس طرح کے منصوبوں کے لیے بڑی گنجائش موجود ہے جس سے لاکھوں گھروں کو توانائی فراہم کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ہمیں توانائی کے اس متبادل ذریعے سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے۔
یو ایس ایڈ کے تعاون سے پاکستان میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ملک میں ہوا سے تین لاکھ چھیالیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔اس وقت پاکستان توانائی کے سخت بحران کا شکار ہے اور صنعتیں بند ہونے سے سینکڑوں مزدور روزگار سے محروم ہیں جبکہ ملک بھر میں پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے لوگوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع کو استعمال میں لاکر ہی توانائی کے بحران سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔

تحریر: سید محمد عابد

http://abid-technologytimes.blogspot.com/2011/05/blog-post_21.html

http://www.technologytimes.pk/2011/05/21/متبادل-توانائی-کا-استعمال-کیسے-کیا-جائ/
 

میم نون

محفلین
عابد بھائی السلامُ علیکم،
ماشاء اللہ آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں، اسے جاری رکھیں۔


ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہوا سے پچاس ہزار میگا واٹ بجلی با آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں کا موسم ہواسے توانائی پیدا کرنے کے لئے بہترین ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے امکانات روشن ہیں۔
ہو اسے توانائی یعنی ونڈ انرجی سے توانائی کا حصول حکومتی توجہ کا منتظر ہے۔ ہوا کی کم از کم دو سے تین کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کو ونڈ انرجی کے لئے موزوں سمجھا جاتا ہے جو خوش قسمتی سے کراچی، ٹھٹھہ، کوئٹہ ، جیوانی، حیدرآباد، بلوچستان کی ساحلی پٹی، صوبہ سرحد کی چند شمالی وادیوں اور آزاد کشمیر کے علاقوں میں ہوا کے ذریعے تقریباً تین ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
اس وقت جرمنی ہواسے اٹھارہ ہزار میگا واٹ، اسپین آٹھ ہزار میگاواٹ ، امریکہ سات ہزار میگاواٹ جبکہ بھارت تیرہ ہزار سے زائد بجلی پیدا کررہا ہے۔ شمسی توانائی کی طرح ہوا یعنی ونڈ انرجی بھی ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے اور اس سے ماحول آلودہ نہیں ہوتا۔
میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ہوا سے چلنے والے ٹربائنوں کا دنیا کا سب سے بڑا پراجیکٹ برطانیہ میں مکمل ہوا ہے۔ رودبار انگلستان کے ساحلی علاقے کینٹ میں قائم کیے جانے والے تھانٹ ونڈ فارم میں ایک سو انتہائی طاقت ور ٹربائن لگائے گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں سے حاصل ہونے والی بجلی دولاکھ سے زیادہ گھروں کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گی۔ اکثر ساحلی علاقوں میں زیادہ تر تیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں جن کی مدد سے بجلی پیدا کرنے والے ٹربائن باآسانی چلائے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی ساحلی پٹی میں اس طرح کے منصوبوں کے لیے بڑی گنجائش موجود ہے جس سے لاکھوں گھروں کو توانائی فراہم کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ہمیں توانائی کے اس متبادل ذریعے سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے۔
یو ایس ایڈ کے تعاون سے پاکستان میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ملک میں ہوا سے تین لاکھ چھیالیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔اس وقت پاکستان توانائی کے سخت بحران کا شکار ہے اور صنعتیں بند ہونے سے سینکڑوں مزدور روزگار سے محروم ہیں جبکہ ملک بھر میں پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے لوگوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع کو استعمال میں لاکر ہی توانائی کے بحران سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔

کیا ان اعداد و شمار میں کچھ تضاد نہیں؟

۔۔۔۔

آپ ماشاء اللہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں، میری تنقید کو صرف اور صرف تعمیری سمجھا جائے، آپکی حوصلہ شکنی مقصد نہیں، بلکہ میں اسطرح کی جدوجہد کی ہمیشہ حوصلہ افضائی کرتا ہوں۔ :)
 
عابد بھائی السلامُ علیکم،
ماشاء اللہ آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں، اسے جاری رکھیں۔




کیا ان اعداد و شمار میں کچھ تضاد نہیں؟

۔۔۔۔

آپ ماشاء اللہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں، میری تنقید کو صرف اور صرف تعمیری سمجھا جائے، آپکی حوصلہ شکنی مقصد نہیں، بلکہ میں اسطرح کی جدوجہد کی ہمیشہ حوصلہ افضائی کرتا ہوں۔ :)

ap nay drust kaha magar ye muKhtalif sarvays ki reports hai or yahan mukhtalif areas ki bat ki gai hai.......main ap ki hosla afzai ka shukriya ada karna chahta hn or jo main likhta hn wo pori zimedari k sath likhta hn....ye sari reports print media ki hi hain or .....lakin meray liye ye bohat aham bat hai k ap mere articles par ghor kartay hain agar kuch ghalat likha ho to us ki durustagi k liye rehnumai kartay hain
 

میم نون

محفلین
السلامُ علیکم،
مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے میری بات کا برا نہیں منایا۔
جہاں تک اخباروں کی بات ہے تو بد قسمتی سے اکثر اخبار نویس صرف خبر دینا جانتے ہیں لیکن انکی رپورٹس میں دیئے گئے اعداد و شمار کتنے غلط ہیں اور کتنے درست اس سے انکو کوئی غرض نہیں ہوتی، میرا خود کافی دفعہ ایسے متضاد اعداد و شمار سے واسطہ پڑا ہے، میرے خیال میں پاکستان کی صحافی برادری کو اپنی پروفیشنلزم میں بہتری لانی ہو گی۔

بہت شکریہ، خوش رہیں۔
والسلام،
 

اسد

محفلین
ایک مرتبہ میں نے شمسی توانائی کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی تو پتہ چلا تھا کہ پاکستان میں اپنے گھر میں شمسی توانائی سے بجلی بنانے کے لئے واپڈا سے لائسنس یا اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ کیا آپ کو اس بارے میں کچھ معلومات ہیں؟

اس کے علاوہ: شمسی توانائی سے حاصل شدہ بجلی، پنجاب میں بجلی کے کمرشل ریٹ سے تقریباً دو سے تین گنا مہنگی پڑتی ہے، کیا یہ درست ہے؟

ٹیکنولوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ گھریلو طور پر ان ذرائع سے حاصل شدہ بجلی کی قیمت کم ہو سکتی ہے لیکن اس وقت ایسا نہیں ہے۔ فی الحال صرف انتہائی بڑے پیمانے پر ان ذرائع سے بجلی حاصل کرنا ہی معاشی طور پر سود مند ہے۔

سندھ میں کمرشل پیمانے پر ہوا سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے، چند مہینے پہلے کچھ خبر پڑھی تھی کہ اس ادارے کو معاوضے کی ادائیگی میں کچھ مسائل ہیں۔
 
ایک مرتبہ میں نے شمسی توانائی کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی تو پتہ چلا تھا کہ پاکستان میں اپنے گھر میں شمسی توانائی سے بجلی بنانے کے لئے واپڈا سے لائسنس یا اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ کیا آپ کو اس بارے میں کچھ معلومات ہیں؟

اس کے علاوہ: شمسی توانائی سے حاصل شدہ بجلی، پنجاب میں بجلی کے کمرشل ریٹ سے تقریباً دو سے تین گنا مہنگی پڑتی ہے، کیا یہ درست ہے؟

ٹیکنولوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ گھریلو طور پر ان ذرائع سے حاصل شدہ بجلی کی قیمت کم ہو سکتی ہے لیکن اس وقت ایسا نہیں ہے۔ فی الحال صرف انتہائی بڑے پیمانے پر ان ذرائع سے بجلی حاصل کرنا ہی معاشی طور پر سود مند ہے۔

سندھ میں کمرشل پیمانے پر ہوا سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے، چند مہینے پہلے کچھ خبر پڑھی تھی کہ اس ادارے کو معاوضے کی ادائیگی میں کچھ مسائل ہیں۔

جناب شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے کے لئے کسی قسم کے اجازت نامے کی ضرورت نہیں پڑتی، ہاں اگر اس پینل سے بجلی پڑوسیوں یا اگے دی جائے تو اجازت نامے کی ضرورت پڑتی ہے۔
شمسی توانائی کمرشل ریت سے مہنگی نہیں سستی پڑتی ہے مگر شمسی پینلز کو لگانے کے لئے ایک دفعہ زیادہ خرچا کرنا پڑتا ہے جو کہ بیس سے پچیس سال کے لئے کافی ہوتا ہے۔
 

اظفر

محفلین
جناب شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے کے لئے کسی قسم کے اجازت نامے کی ضرورت نہیں پڑتی، ہاں اگر اس پینل سے بجلی پڑوسیوں یا اگے دی جائے تو اجازت نامے کی ضرورت پڑتی ہے۔
شمسی توانائی کمرشل ریت سے مہنگی نہیں سستی پڑتی ہے مگر شمسی پینلز کو لگانے کے لئے ایک دفعہ زیادہ خرچا کرنا پڑتا ہے جو کہ بیس سے پچیس سال کے لئے کافی ہوتا ہے۔

لوڈشیڈنگ کے باعث زیادہ استعمال ہونے والے یو پی ایس سے دو سے چار گنا اضافی بجلی استعمال ہوتی ہے جس کی ادائیگی ہمیں بجلی کے اضافی بل کی صورت میں کرنی پڑتی ہے۔یوپی ایس کی نسبت شمسی پینل کو لگوانے سے اضافی بل کی ادائیگی سے بچا جا سکتا ہے ۔ شمسی پینل ایک دفعہ کا خرچا ہے اور اس کی مدت کم سے کم بیس سال ہے اس دوران دو سے چار سال بعد صرف انونٹر کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

بیٹری 3، 4 سال سے زیادہ نہیں چلتی ، پینل چل سکتا ہے
اوپر ونڈ مل والے اعدادوشمار کافی غلط ہیں۔ پاکستان میں ونڈ ملز صرف کراچی اور اس کے گردو نواح میں ہیں، پنجاب اور خیبر میں یہ چل ہی نہیں سکتے۔ بلوچستان والے گیس مشکل سے دے رہے ہیں ونڈ مل کہاں لگانے دیں گے:laughing:
 

ماسٹر

محفلین
نئے اعداوشمار کے مطابق جرمنی میں اس وقت 21607 ہوائی چکیوں سے 27607 میگا واٹ بجلی تیار ہو رہی ہے - اس طرح جرمنی کا دنیا میں تیسرا نمبر ہے ،مگر قابل زکر بات یہ ہے کہ دنیا میں پانچواں نمبراس وقت ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان کا ہے-
 

dehelvi

محفلین
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہمارا پیارا ملک توانائی کے جس بحران سے گزر رہا ہے اس سے نمٹنے کے لئے انفرادی، اجتماعی، عوامی اور حکومتی سطح پر متبادل ذرائع کا حصول ارتقاء سے بڑھ کر بقاء کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
 

لوڈشیڈنگ کے باعث زیادہ استعمال ہونے والے یو پی ایس سے دو سے چار گنا اضافی بجلی استعمال ہوتی ہے جس کی ادائیگی ہمیں بجلی کے اضافی بل کی صورت میں کرنی پڑتی ہے۔یوپی ایس کی نسبت شمسی پینل کو لگوانے سے اضافی بل کی ادائیگی سے بچا جا سکتا ہے ۔ شمسی پینل ایک دفعہ کا خرچا ہے اور اس کی مدت کم سے کم بیس سال ہے اس دوران دو سے چار سال بعد صرف انونٹر کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

بیٹری 3، 4 سال سے زیادہ نہیں چلتی ، پینل چل سکتا ہے
اوپر ونڈ مل والے اعدادوشمار کافی غلط ہیں۔ پاکستان میں ونڈ ملز صرف کراچی اور اس کے گردو نواح میں ہیں، پنجاب اور خیبر میں یہ چل ہی نہیں سکتے۔ بلوچستان والے گیس مشکل سے دے رہے ہیں ونڈ مل کہاں لگانے دیں گے:laughing:

janab azfar sahab pehlay to main ap ka shukraya ada karun ga k ap nay mere article ko parhnay k layk samjha dosra main arz kar chuka hn k ye media ki reports hain or shayad ye ghalat thin jis k liye main mazrat chahta hn or dosra ye k wind mill ka istemal sirf karachi main nahi balkay or areas main bhi kiya ja sakta hai or ye mere nai balkay ministry of water and elecreicity ka kehna hai
 

لوڈشیڈنگ کے باعث زیادہ استعمال ہونے والے یو پی ایس سے دو سے چار گنا اضافی بجلی استعمال ہوتی ہے جس کی ادائیگی ہمیں بجلی کے اضافی بل کی صورت میں کرنی پڑتی ہے۔یوپی ایس کی نسبت شمسی پینل کو لگوانے سے اضافی بل کی ادائیگی سے بچا جا سکتا ہے ۔ شمسی پینل ایک دفعہ کا خرچا ہے اور اس کی مدت کم سے کم بیس سال ہے اس دوران دو سے چار سال بعد صرف انونٹر کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

بیٹری 3، 4 سال سے زیادہ نہیں چلتی ، پینل چل سکتا ہے
اوپر ونڈ مل والے اعدادوشمار کافی غلط ہیں۔ پاکستان میں ونڈ ملز صرف کراچی اور اس کے گردو نواح میں ہیں، پنجاب اور خیبر میں یہ چل ہی نہیں سکتے۔ بلوچستان والے گیس مشکل سے دے رہے ہیں ونڈ مل کہاں لگانے دیں گے:laughing:


janab pehlay to main ap ka shukriya ada karna chahun ga k ap ne mere article ko parhnay k layk samjha or is par ghor kiya main pehlay arz kar chuka hn k ye reports pakistan main kiye gay mukhtalif surveys ki reports hain jo k shayad ghalat thin jis k liye main mazrat chahta hn or dosra ye k wind mills karachi main nhi balkay or areas main bhi istimal ki ja sakti hain or ye mera nai balkay ministry of water and electricity ka kehna hai.....
 
سناہے کہ شمسی پینل پر کسٹم ڈیوٹی صدفی صد لگادیا گیا ہے، نیز وضاحت فرمائیں گے کہ شمسی توانائی کس طرح سستی پڑتی ہے۔ ۔ ۔ ؟
ذرا شمسی پینل اور دیگر اخراجات کا ایک جائزہ ہوجائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
 
Top