خورشیداحمدخورشید
محفلین
محفل میں زبان پرکیا گیا مکالمہ
پہلا شخصمیری قومی زبان اردو ہے۔آج گفتگو کرتے ہوئے میں نے غور کیا کہ گفتگو کے الفاظ کیا تھے۔ گفتگو زیادہ تر درج ذیل الفاظ پر مشتمل تھی۔
کمپیوٹر۔ موبائل۔ سیل فون۔ سِم۔ ٹیلی وژن۔ ڈرامہ۔ ہینڈ فری۔ ہیڈفون۔ کار۔ٹیلی فون۔ وٹس ایپ۔ گوگل۔ یوٹیوب۔ویورز۔لائیکس۔فیس بک۔کال۔مس کال۔لیپ ٹاپ۔ٹوئیٹر۔ویب سائیٹ۔ایپس۔پلے سٹور۔آن لائن۔گلوبل۔لوکل وغیرہ۔
پھر میں نے غور کیا کہ ان میں سے کون سا لفظ ہے جو اردو زبان کاہے۔ تو پتہ چلا کوئی نہیں۔ پھر میں نے غور کیا کہ ایسا کیوں ہے تو جواب جو ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ جن لوگوں نے یہ چیزیں بنائیں انہوں نے ظاہر ہے اپنی زبان میں نام رکھے۔ باقی زبانوں والے یا تو یہی نام اپنالیں یا پھر کوئی الٹا سیدھا غیر معروف ترجمہ کرلیں۔ جو شاید بولنے والوں کو ہی پسند نہ آئے۔ جو قومیں ترقی میں پیچھے ہوں گی وہ ہر میدان میں پیچھے ہوں گی حتیٰ کہ ان کی زبان اور ثقافت بھی جامد ہو جائے گی متحرک نہیں رہے گی۔
دوسرا شخص
میں آپ کے تجزیئے سے اختلاف رکھتا ہوں، یہ ترقی نہ کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ انگریز کی غلامی کا چسکہ ہے جو بھولے سے نہیں بھولتا اور طرہ یہ کہ ان کا طرزِ معاشرت نوجوان طبقے کا مرکزِ نگاہ بن کر رہ گیا ہے۔
بھارت پاکستان سمیت بہت سے ملکوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہے لیکن جس قدر وہ ہم سے ترقی میں زیادہ ہیں وہ اپنی ہندی کو اسی قدر انگریزی کے سامنے کم تر سمجھتے ہیں۔
اور دوسری طرف عرب لوگوں کو دیکھیے جنہوں نے ترقی کے میدان میں تو کچھ نہیں کیا (محض تیل کی کمائی یا اب مغرب والوں کے لیے دلکش بیچیز کی وجہ سے کما رہے ہیں) لیکن ان کے اداروں میں چلے جائیے یہاں کا مقامی شخص اپنے مقامی لباس میں ہی دکھائی دے گا۔ اور یہاں پر سرکاری طور پر اپنی زبان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ جب آپ کا مراسلہ پڑھ کر میں باہر نکلا تو ایک سکول بس جا رہی تھی (سکول بس کا آپ اردو لفظ سوچ کر دکھائیں) جس پر اس طرح درج تھا "حافله مدرسیہ" "School Bus" اور یہاں ہر بورڈ پر عربی اور انگریزی دونوں لکھی ہوئی ملے گی اور عربی ہمیشہ اوپر ہی ہو گی۔ایسا نہیں کہ عربی انگریزی نہیں سیکھتے یا پڑھتے، شوق سے پڑھتے ہیں۔ لیکن عام سی عام چیزوں کے نام ان میں عربی میں ہی بولے جاتے ہیں۔
پہلا شخص
آپ کے جذبات قابلِ قدر ہیں ۔ لیکن آپ جسے غلامی کہ رہے ہیں وہ مجبوری ہے جو محنت نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔بس جس نے بنائی اس کا نام بس رکھا اور وہی اس کا اصل نام ہے۔ باقی صرف ترجمے ہیں۔ اور اگرکوئی قوم محنت نہیں کرتی تو وہ اپنی زبان بچانے کے لیے صرف ترجمے پر لگی رہے گی۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت ہر میدان میں نئی نئی چیزیں آرہی ہیں صرف دواؤں کے نام ہی لے لیں جیسا کہ پیراسٹامول تو کتنی دواؤں کے نام کے ترجمےکیے جائیں گے۔ اور اگریہ کربھی لیں تو دوسروں کو اپنی بات کیسے سمجھائیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر میدان میں دو دو زبانیں سیکھنی ہوں گی ایک اپنی زبان اور ایک اصل زبان (اس ملک کی زبان جس نے وہ چیز بنائی ہوگی)۔
تیسرا شخص
دراصل آپ کی توجہ صرف ایجادات پر ہے۔ جو بات دوسرے شخص نے کی ہے وہ اردو زبان کے ساتھ ہمارے عمومی رویّے کی ہے۔
ہم لوگ انگریزی سے اتنے زیادہ مرعوب ہیں کہ آج اگر ہمارے سائنسدان کوئی چیز ایجاد بھی کر لیں تو اُس کا نام اردو میں نہیں بلکہ انگریزی میں ہی رکھا جائے گا۔ بہت سے ایسے سائنسی کام ہیں جو پاکستان میں طلباء کر رہے ہیں اور وہ اپنے تھیوریز اور ایجادات کو انگریزی ناموں سے ہی منسوب کرتے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی دریافت یا ایجاد بین الاقوامی سطح پر پیش کرنی ہوتی ہے۔
لیکن یہ مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے۔ ہم نے تو اردو زبان کے ساتھ بہت ہی برا سلوک روا رکھا ہوا ہے۔ ہمارے دفتروں میں انگریزی رائج ہے۔ ہمارے اشتہارات میں انگریزی چلتی ہے یا رومن اردو لکھائی۔ ہمارے میڈیا پر انگریزی ملی اردو بولی جاتی ہے اور ہم اپنی زبان کو اُس کا حق دینے پر راضی نہیں ہیں۔جو اردو الفاظ کل بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں آج اُن کی جگہ انگریزی الفاظ کے پیوند لگائے جاتے ہیں اور نتیجتاً لوگ اردو بھولتے جا رہے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ فلاں چیز کو اردو میں کیا کہتے ہیں۔ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے جو آپ بتا رہے ہیں۔
پہلا شخص
جذبات میرے بھی وہی ہیں جو آپ دونوں کے یا کسی بھی اردو بولنے والے کے ہوسکتے ہیں۔زبان اور ثقافت بنائی نہیں جاتیں بلکہ جب لوگ مل جل کر رہتے ہیں تویہ وجود میں آتی ہے۔ جب زبان وجود میں آجاتی ہے تو پھر زبان کےماہربن جانے والے اسے خوبصورت بنانے کےلیے اس کی نوک پلک سنوارتے ہیں۔ اردو زبان بھی ایسے ہی وجود میں آئی۔ یہ کوئی آسمان سے اتری زبان نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی زبانیں اور تھیں۔ جب کوئی معاشرہ متحرک(ترقی پسند اور پھر ترقی یافتہ) ہوتا ہے تو اسے اپنی ثقافت اور زبان کی حفاظت نہیں کرنی پڑتی بلکہ دنیا اس کی زبان اور ثقافت کو اپنانا چاہتی ہے۔ کیونکہ دنیا کو ضروریاتِ زندگی اور روزگار کے لیے ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ بات صرف آج کے لیے درست نہیں بلکہ ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے۔آپ اسلام کازمانہِ عروج دیکھیں تو عرب ثقافت اور زبان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اس لیے یا تو پورا معاشرہ ترقی یافتہ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا اس میں زبان اور ثقافت بھی شامل ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ معاشرہ زوال کا شکار ہو اور زبان یا ثقافت کو کسی پٹاری میں محفوظ کرلیا جائے۔
دوسرا شخص
آپ دو مختلف دنیاؤں کو خلط ملط کر رہے ہیں۔ زبان اور شے ہے اور ایجادات اور۔
کسی ترقی یافتہ کا اپنی زبان کو محفوظ رکھ پانا ایسے ہی ضروری نہیں جیسے کہ زبان کو محفوظ رکھنے والوں کا ایجادات پر اپنا تسلط رکھنا۔
ابھی آپ نے عربی کی مثال دی۔ آپ اسے اسلام کے عروج کے زمانہ سے چھوڑیئے بلکہ کچھ پیچھے چلے جایئے، جب عرب کے دو اطراف میں دنیا کی دو زبردست قوتیں (سپر پاورز) موجود تھیں۔ جو اُس وقت ہر حوالے سے دنیا کی ترقی یافتہ قومیں تھیں۔ لیکن عرب زبان دانی میں ان سے کہیں آگے تھے۔ باوجود اس کے کہ عرب میں کوئی مرکزی حکومت ہی موجود نہیں تھی۔ صرف ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ وہ مرعوبیت کا شکار نہیں تھے۔
پہلا شخص
جہاں سے بحث شروع ہوئی وہاں یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ جہاں عام لوگوں کے استعمال کی نئی نئی چیزیں بن رہی ہیں ان کے نام بھی اسی زبان سے آتے ہیں جو ان چیزوں کے استعمال کرنے والوں کی گفتگو کا حصہ بنتے ہیں۔جب ہماری گفتگو کا زیادہ حصہ انہی چیزوں کے حوالے سے ہوگا (ہماری ضروریات کی وجہ سے) تو پھراسی کو ہم اپنی زبان کہیں گے۔ آپ کے پاس اس کا کوئی حل ہے تو بتادیں۔
عرب کے دورِ جہالت کی آپ نے بات کی تو آپ دیکھیں وہ زبان (بلیغ ہی سہی)انہی چیزوں پر مشتمل تھی اورہے جو ان کے معاشرے کا حصہ تھیں۔اور وہیں پرزبان منجمد ہوگئی۔ اب وہی قوم ہے لیکن موجودہ صورت حال میں ان کی بلاغت بھی ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔ میرا خیال ہے آپ شاید میرا نقطہ نظر سمجھنے کی بجائے چیزوں کو خلط ملط کررہے ہیں۔
دوسرا شخص
آپ ذرا تجزیہ کر کے دیکھیں کہ ان ایجادات (جنہیں آپ زبانوں کے فروغ پانے یا زوال پذیر ہونے کا اصل محرک سمجھ رہے ہیں) کی وجہ سے اردو زبان کا کتنا فیصد حصہ متاثر ہوا ۔ اور جو حصہ مرعوبیت کی وجہ سے متاثر ہے یعنی جس کا تعلق کسی قسم کی ایجاد سے نہیں ہے وہ کتنا ہے۔شاید اس طرح سے آپ پر بات واضح ہو سکے۔
اگر آپ یہ تجزیہ کریں گے تو ممکنہ طور پر آپ پر واضح ہو گا کہ ایجادات کی وجہ سے جس قدر انگریزی اردو میں داخل ہوئی ہے وہ شاید ایک فیصد بھی نہیں۔اور جو انگریزی مرعوبیت کی وجہ سے داخل ہوئی وہ حصہ آپ کو لوگوں کے سٹیٹس کے ساتھ ساتھ بدلتا ہوا دکھائی دے گا۔
پہلا شخص
کیا آپ کا مطلب ہے کہ جوانگریزی مَجبُوراً بولنی پڑتی ہے اس کی اجازت ہے لیکن دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیےاردو میں انگریزی گُھسانا یا اپنے آپ کو کمتر سمجھ کر انگریزی بول کر انگریزوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرنا درست نہیں؟اگر ایسا ہے تو آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ زبان، رنگ یا نسل کی وجہ سےاحساسِ کمتری یا احساسِ برتری میں مبتلا ہونا ایک بیماری ہے ۔ ہمارا مذہب بھی اس کی اجازت نہیں دیتا، اور نہ ہی کسی مہذب معاشرے میں اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔
دوسرا شخص
آپ جگہ جگہ پر اپنی ہی بات کو رد کرتے چلے آئے ہیں، شروع میں ایجادات کے ناموں سے آپ نے بات شروع کی، جب آپ کو کہا گیا کہ عرب میں ان کے تراجم مستعمل ہیں۔ تب آپ نے محض تراجم کرنے اور ایجادات سے غافل ہونے پر نقد کی، جب آپ سے عرض کیا گیاکہ ایجادات کی وجہ سے شامل ہونے والے الفاظ کا تناسب بہت ہی کم ہے تب آپ نے مجبوراً شامل ہونے والے الفاظوں پر اعتراض کیا۔ جب کہ شروع سے یہی میرا استدلال تھا۔ ذرا نیچے دیئے گئے اقتباس کو دوبارہ پڑھیے۔ کیا آپ نے یہی خلاصہ نہیں نکالا۔
پہلا شخص
کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معذرت۔ میں نے نتیجہ نہیں نکالا بلکہ یہ کہا ہے کہ اگر آپ یہ کہ رہےہیں تو میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ یعنی آپ کی بات ہی درست ہے۔
دوسرا شخص
کیا ہو گیا بھائی، ہم نے ایک دوسرے سے ایک مہذب قسم کا اختلاف کیا۔ اس میں گستاخی کہاں سے در آئی۔ میں نے اپنی گفتگو کے شروع میں کہا تھا کہ
یہ ترقی نہ کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ انگریز کی غلامی کا چسکہ ہے جو بھولے سے نہیں بھولتا اور طرہ یہ کہ ان کا طرزِ معاشرت نوجوان طبقے کا مرکزِ نگاہ بن کر رہ گیا ہے۔
بتائیں کہ کیا آپ اسے میری طرف سے قابلِ قبول سمجھتے ہیں؟
پہلا شخص
بھائی صاحب ! غلامی کے حق میں بھی بھلا کوئی دلیل ہوسکتی ہے؟ اس بات پر تو اختلاف تھا ہی نہیں۔
شاید ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کی بجائے ہم اپنی بات کہنے کی کوشش کررہے تھے