متقارب مثمن سالم میں ایک کوشش

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بحر:
متقارب مثمن سالم​
تقطیع:
فعولن؛ فعولن؛ فعولن؛ فعولن
عجب بے ؛ قراری ؛ سِ آکو ؛ مِ آجھے​
ک صورت ؛ و پاری؛ سِ آکو ؛ مِ آجھے​
کسی سے ؛ لگائی ؛ کبی دل ؛ تُ بات ہُ​
ک خاہش ؛ کواری؛ سِ آکو ؛ مِ آجھے​
کسی کا ؛ م مے بی ؛ ہِ دل لگ ؛ نہی ر ہَ​
عجب غم ؛ گساری؛ سِ آکو ؛ مِ آجھے​
اشعار:
عجب بے قراری سی آنکھوں میں آ ج ہے​
کہ صورت وہ پیاری سی آنکھوں میں آ ج ہے​
کسی سے لگائیں کبھی دل، تو بات ہو​
کہ خواہش کنواری سی آنکھوں میں آ ج ہے​
کسی کام میں بھی یہ دل لگ نہیں رہا​
عجب غم گساری سی آنکھوں میں آج ہے​
ایک بات اور کہ ہے کی تقطیع ہَ ہو سکتی ہے یا یہ ہے ہی ہو گی۔​
 

فاتح

لائبریرین
فعولن ۔ فعولن ۔ فعولن ۔ فعولن
عجب بے ۔ قراری ۔ سِ آکھو ۔ مِ آ جھے
یوں تو "ہے" کی ے کو گرا کر تقطیع میں بطور ہَ لایا جا سکتا ہے لیکن ان اشعار میں ہے کی ہ کو ج کے ساتھ ملا کر جھ بنا کر تقطیع کی جائے گی۔ یاد رہے کہ بھ، پھ، جھ، کھ وغیرہ اردو میں حرفِ واحد شمار کیے جاتے ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
فعولن ۔ فعولن ۔ فعولن ۔ فعولن
عجب بے ۔ قراری ۔ سِ آکھو ۔ مِ آ جھے
یوں تو "ہے" کی ے کو گرا کر تقطیع میں بطور ہَ لایا جا سکتا ہے لیکن ان اشعار میں ہے کی ہ کو ج کے ساتھ ملا کر جھ بنا کر تقطیع کی جائے گی۔ یاد رہے کہ بھ، پھ، جھ، کھ وغیرہ اردو میں حرفِ واحد شمار کیے جاتے ہیں۔

فاتح بھائی میں نے تدوین کر دی ہے، اب دیکھیں کیا ٹھیک ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
جھ بنا کر تقطیع تو درست ہو رہی ہے، ۔لیکن شعر نہیں بن رہا۔ دوسرے الفاظ میں یہاں جیم گرا دیا جا رہا ہے جس کی اجازت نہیں۔ انہیں اشعار کو آسانی سے درست تقطیع میں کیا جا سکتا ہے معمولی سی تبدیلی کے ساتھ
عجب بے قراری سی آنکھوں میں اب ہے
کہ صورت وہ پیاری سی آنکھوں میں آ ج ہے
کسی سے لگائیں کبھی دل، تو ہو بات
کہ خواہش کنواری سی آنکھوں میں آ ج ہے
کسی کام میں دل نہیں لگ رہا ہے
عجب غم گساری سی آنکھوں میں اب ہے
آخری فعولن کو فعالات کیا جا سکتا ہے، جیسے یہ مصرع
کسی سے لگائیں کبھی دل، تو ہو بات
آجھے ، عولن، میں ج کا اسقاط ہو رہا ہے، جو جائز نہیں۔ ’اب ہے‘ درست تقطیع اور وزن ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
یہ مصرع وزن میں ہے لیکن اس کی تقطیع یوں ہو گی:
کسی سے ۔ لگائے ۔ کبھی دل ۔ تُ باتھو

جب کہ یہ مصرع وزن سے خارج ہے:
کسی کام میں بھی یہ دل لگ نہیں رہا
اس رہا کا وزن "را" ہو رہا ہے جو درست نہیں۔ اسے یوں کیا جا سکتا ہے:
کسی کام میں بھی نہیں لگ رہا دل
کسی کا ۔ م مے بھی ۔ نہی لگ ۔ رہا دل
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یعنی آج کو اب سے تبدیل کر کے درست تقطیع ہو رہی ہے۔
ان اشعار کی تقطیع کے دوران چند باتیں ذہن میں آئی تھیں،
رہا کی تقطیع ہم رہَ کر سکتے ہیں کیا؟
پیاری کی تقطیع کیا ہو گی؟
اور لیا، دیا، گیا کی تقطیع کیا ہو گی؟
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یعنی آج کو اب سے تبدیل کر کے درست تقطیع ہو رہی ہے۔
ان اشعار کی تقطیع کے دوران چند باتیں ذہن میں آئی تھیں،
رہا کی تقطیع ہم رہَ کر سکتے ہیں کیا؟
پیاری کی تقطیع کیا ہو گی؟
اور لیا، دیا، گیا کی تقطیع کیا ہو گی؟
 

فاتح

لائبریرین
یعنی آج کو اب سے تبدیل کر کے درست تقطیع ہو رہی ہے۔
ان اشعار کی تقطیع کے دوران چند باتیں ذہن میں آئی تھیں،
رہا کی تقطیع ہم رہَ کر سکتے ہیں کیا؟
پیاری کی تقطیع کیا ہو گی؟
اور لیا، دیا، گیا کی تقطیع کیا ہو گی؟
میری رائے میں "آج ہے" بھی اسی قدر درست ہے جتنا "اب ہے" کیونکہ اردو ادب میں بے شمار اساتذہ نے ہ کو پچھلے حرف کے ساتھ متصل کیا ہے۔
رہا کی تقطیع رہ کرنے کے متعلق میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ یہ غلط ہے۔۔۔ شاید آپ نے دیکھا نہیں۔
لیا، دیا، گیا، وغیرہ کا وزن فعو ہے
 

الف عین

لائبریرین
میری رائے میں "آج ہے" بھی اسی قدر درست ہے جتنا "اب ہے" کیونکہ اردو ادب میں بے شمار اساتذہ نے ہ کو پچھلے حرف کے ساتھ متصل کیا ہے۔
رہا کی تقطیع رہ کرنے کے متعلق میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ یہ غلط ہے۔۔۔ شاید آپ نے دیکھا نہیں۔
لیا، دیا، گیا، وغیرہ کا وزن فعو ہے
لیکن میں جھ بھ پھ تھ ٹھ وغیرہ کو مختلف حرف مانتا ہوں۔ ممکن ہے کہ استثنائی امثال مل جائیں اساتذہ کے یہاں۔ لیکن مجموعی طور سے تو میں اسے غلط مانتا ہوں۔
 

فاتح

لائبریرین
لیکن میں جھ بھ پھ تھ ٹھ وغیرہ کو مختلف حرف مانتا ہوں۔ ممکن ہے کہ استثنائی امثال مل جائیں اساتذہ کے یہاں۔ لیکن مجموعی طور سے تو میں اسے غلط مانتا ہوں۔
اعجاز صاحب! بات آپ کے یا میرے ماننے اور نہ ماننے کی نہیں۔۔۔ میرؔ و غالبؔ سے لے کر موجودہ دور کے شعرا تک کے ہاں یہ مثالیں مل جائیں گی۔ اس کے باوجود اسے آپ "استثنا" کہنا چاہیں تو کیا کہا جا سکتا ہے۔
بھ، پھ، جھ، کھ وغیرہ کو میں بھی مختلف حروف ہی مانتا ہوں۔
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی اور استاد محترم اب میں کس چیز کو صحیح مانوں، اب ہے یا آج ہے کو۔
ہم تو غالب سمیت دیگر اساتذہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے اشعار میں ہ کا اتصال کیے جاتے ہیں۔ مثال ملاحظہ ہو:
شاید ہو رفتگاں کی گردِ ملال
ابر سا کارواں سے اٹھتا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
یہاں بیک وقت دو مختلف ایشوز پر بات ہو رہی ہے۔

پہلے کو تسبیغ کہتے ہیں، لب لباب یہ ہے کہ کسی بھی مصرعے کے آخر میں ایک حرفِ ساکن کا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور معروف رکن بنانے کیلیے رکن کے آخری حرف سے پہلے ایک الف یا واؤ لگا لیا جاتا ہے جیسے فعولن فعولن فعولن فعولن کی آخر میں ایک حرف ساکن کا اضافہ مثلاً ع کریں تو یہ فعولن ع بن جائے گا جس میں نون اور آخری عین دونوں ساکن ہیں، ظاہر ہے فعولن ع کوئی رکن نہیں تو ع کو الف سے بدل کر نون سے پہلے لے گئے تو فعولن ع سے فعولان بن گیا اس میں بھی آخری دو حرف یعنی الف اور نون ساکن ہیں اس کو تسبیغ کہتے ہیں۔

اور اسی سے فعولن سے فعلان، فعلن سے فعلان، فَعِلن سے فَعِلان، فَعِل سے فعول، فع سے فاع، مفاعلن سے مفاعلان، فاعلن سے فاعلان، مفاعیلن سے مفاعیلان بنتے ہیں۔

دوسرے کو الف کا وصال یا الف کا ساقط کرنا کہتے ہیں، لب لباب یہ کہ اگر پچھلے لفظ کا آخری حرف، حرفِ صحیح ہو یعنی حرف علت الف، واؤ یا ی نہ ہو اور ساکن ہو اور اگلے لفظ کا پہلا حرف الف ہو تو اس الف کو ساقط یا ختم کر کے پچھلے حرف کو الف ساقط کرنے کے بعد جو حرف بچتا ہے اس کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے مثلاً دو لفظ ہیں اب اس، اس میں الف کو ساقط کرنے کی تینوں شرائط موجود ہیں، اب کا آخری حرف حرف علت نہیں ہے اور ساکن ہے اور اس کا پہلا حرف الف ہے سو اس الف کا وصال یا سقوط کرا کے اب اس کو ابس پڑھا جائے گا۔ مثلاً

دہَن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے ک

کلام آتے کو کلاماتے پڑھیں گے، یاد رے کہ آ میں دو الف ہوتے ہیں، سو ایک الف کا وصال ہوا اور دوسرا باقی رہ گیا۔

عجب بے قراری سی آنکھوں میں آ ج ہے
کہ صورت وہ پیاری سی آنکھوں میں آ ج ہے

اب اس کی روشنی میں دیکھیں تو آج ہے درست نہیں اسکی تقطیع یوں ہوگی

عجب بے ÷ فعولن
قراری - فعولن
س آکو - فعولن
م آ ج ہے - فعول فع جو کہ غلط ہے۔ ہے کی ی گرا کہ ہ رہنے دیں تو م آج ہ فعول ع ہوگا یہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ یہ تسبیغ نہیں ہے، اور وصال کا تو یہاں سوال ہی نہیں۔

اس کو اگر اب ہے کریں تو درست ہے یا ایسا کرنے سے بھی صحیح ہے

عجب بے قراری سی آنکھوں میں ہے آج

اس صورت میں

میں ہے آج کا وزن م ہے آج فعولان بنے گا یعنی اس میں تسبیغ ہوئی۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ فرق پڑتا ہے جب کم از کم بحث کرنے والا کم از کم ایک فرد جاہل ہو!!میں تو ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ مجھے عروض وغیرہ نہیں آتی، بس عملی طور پر کچھ شد بد ہے۔ بہت شکریہ وارث اعظم!!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
غلطیاں اسی طرح کی نکلنی ہیں، لہٰذا یہ بھی دیکھ لیں، نیا دھاگی بنانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

بحر:
متقارب مثمن سالم​
تقطیع:
فعولن؛ فعولن؛ فعولن؛ فعولن
سرے شا ؛ م جو تم ؛ کُ میرا ؛ خ یا ل ہَ​
کسی حا ؛ ل مے تو ؛ شمس کو؛ زوال ہَ​
جُ تو نے ؛ ردا بے ؛ بسی کی ؛ ہَ اوڑی​
ہِ میرا ؛ نہی اس ؛ وقت کا ؛ ج لال ہَ​
نمی سی ؛ ہَ وا مے ؛ عجب رن ؛ گ سا ہے​
فضا مے ؛ تری خش ؛ بُ کا سب ؛ ک ما ل ہَ​
اشعار:
سرِ شام جو تم کو میرا خیال ہے​
کسی حال میں تو شمس کو زوال ہے​
جو تو نے ردا بے بسی کی ہے اوڑھی​
یہ میرا نہیں، اس وقت کا جلال ہے​
نمی سی ہوا میں، عجب رنگ سا ہے​
فضا میں ، تری خوشبو کا سب کمال ہے​
اور ایک شعر یہ بھی​
بحر:
متقارب معثر محزوف​
تقطیع:
فعولن؛ فعولن؛ فعولن؛ فعولن ؛ فع
بڑی دے ؛ ر سے مے ؛ کڑا ہو ؛ تری را ؛ ہ مے​
تُ نے دے ؛ کنے کی ؛ بِ زحمت ؛ گوارا ؛ ن کی​
اشعار:
بڑی دیر سے میں کھڑا ہوں تری راہ میں​
تُو نے دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی​
 

الف عین

لائبریرین
ان اشعار میں لام کے ساتھ وہی رویہ رکھا گیا ہے جو ’آج ہے‘ میں جیم کے ساتھ تھا۔
جو تو نے ردا بے بسی کی ہے اوڑھی
اور
نمی سی ہوا میں، عجب رنگ سا ہے
دونوں بالکل درست ہیں
یہ میرا نہیں، اس وقت کا جلال ہے
میں ’جلال ہے‘ کے مسئلے کے علاوہ ’وقت‘ کا تلفظ غلط ہے۔ قاف اور تا دونوں ساکن ہونے چاہئے۔ یہاں قاف مفتوح آ رہا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، ایک شعر اور بھی ہے نا۔۔۔۔ عزیزم مبتدیوں کی شعوری کوشش یہ نہیں ہونی چاہئے کہ کسی مخصوص بحر میں ’سخن آزمائی‘ کریں۔ معروف بحروں میں ہی کوشش کیا کریں، اس قسم کی بحروں میں خاص کوشش کی ضرورت ہے، فطری طور پر اشعار کی آمد ایسی بحور میں نہیں ہو سکتی۔
بہر حال تقطیع درست ہے۔ دوسرے مصرع میں ’تُو‘ جو محض ’تُ‘ تقطیع ہو رہا ہے، ’تو‘ کی صورت میں تو جائز ہے۔یعنی ان معانی میں۔ لیکن ’ت وٗ ‘ کی صورت میں صحیح نہیں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اوہو، ایک شعر اور بھی ہے نا۔۔۔ ۔ عزیزم مبتدیوں کی شعوری کوشش یہ نہیں ہونی چاہئے کہ کسی مخصوص بحر میں ’سخن آزمائی‘ کریں۔ معروف بحروں میں ہی کوشش کیا کریں، اس قسم کی بحروں میں خاص کوشش کی ضرورت ہے، فطری طور پر اشعار کی آمد ایسی بحور میں نہیں ہو سکتی۔
بہر حال تقطیع درست ہے۔ دوسرے مصرع میں ’تُو‘ جو محض ’تُ‘ تقطیع ہو رہا ہے، ’تو‘ کی صورت میں تو جائز ہے۔یعنی ان معانی میں۔ لیکن ’ت وٗ ‘ کی صورت میں صحیح نہیں

شکر ہے تقطیع تو درست ہے۔
آئندہ سے وارث بھائی کے بلاگز پہ موجود بحور میں ہی کوشش کروں گا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ان اشعار میں لام کے ساتھ وہی رویہ رکھا گیا ہے جو ’آج ہے‘ میں جیم کے ساتھ تھا۔
جو تو نے ردا بے بسی کی ہے اوڑھی
اور
نمی سی ہوا میں، عجب رنگ سا ہے
دونوں بالکل درست ہیں
یہ میرا نہیں، اس وقت کا جلال ہے
میں ’جلال ہے‘ کے مسئلے کے علاوہ ’وقت‘ کا تلفظ غلط ہے۔ قاف اور تا دونوں ساکن ہونے چاہئے۔ یہاں قاف مفتوح آ رہا ہے۔


پہلا تیسرا اور آخری مصرعے بھی درست ہیں کیا؟
 
Top