بحر کا مسئلہ تو ان سارے مصرعوں میں ہے
سرِ شام جو تم کو میرا خیال ہےکسی حال میں تو شمس کو زوال ہےیہ میرا نہیں، اس وقت کا جلال ہےفضا میں ، تری خوشبو کا سب کمال ہے
جی گرایا جا سکتا ہے لیکن اس کو مدغم یا "مرج" نہیں کیا جسا سکتا، اگر گرا بھی دیں تو یہ لُن نہیں بنے گا بلکہ
خ یا ل ہ - ف عو لُ نُ یا 1 2 1 1 بن جائے گا اور اس بحر میں یہ ممکن نہیں ہے یعنی وزن پھر بھی غلط رہے گا۔
میری رائے میں "آج ہے" بھی اسی قدر درست ہے جتنا "اب ہے" کیونکہ اردو ادب میں بے شمار اساتذہ نے ہ کو پچھلے حرف کے ساتھ متصل کیا ہے۔
رہا کی تقطیع رہ کرنے کے متعلق میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ یہ غلط ہے۔۔۔ شاید آپ نے دیکھا نہیں۔
لیا، دیا، گیا، وغیرہ کا وزن فعو ہے
لیکن میں جھ بھ پھ تھ ٹھ وغیرہ کو مختلف حرف مانتا ہوں۔ ممکن ہے کہ استثنائی امثال مل جائیں اساتذہ کے یہاں۔ لیکن مجموعی طور سے تو میں اسے غلط مانتا ہوں۔
اعجاز صاحب! بات آپ کے یا میرے ماننے اور نہ ماننے کی نہیں۔۔۔ میرؔ و غالبؔ سے لے کر موجودہ دور کے شعرا تک کے ہاں یہ مثالیں مل جائیں گی۔ اس کے باوجود اسے آپ "استثنا" کہنا چاہیں تو کیا کہا جا سکتا ہے۔
بھ، پھ، جھ، کھ وغیرہ کو میں بھی مختلف حروف ہی مانتا ہوں۔
فاتح بھائی اور استاد محترم اب میں کس چیز کو صحیح مانوں، اب ہے یا آج ہے کو۔
میں تو اس سلسلے میں اپنی بات پر قائم ہوں۔
محمد وارث کا کیا خیال ہے؟
ہم تو غالب سمیت دیگر اساتذہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے اشعار میں ہ کا اتصال کیے جاتے ہیں۔ مثال ملاحظہ ہو:
شاید ہو رفتگاں کی گردِ ملال
ابر سا کارواں سے اٹھتا ہے
خاکسار
اب اس کی روشنی میں دیکھیں تو آج ہے درست نہیں اسکی تقطیع یوں ہوگی
عجب بے ÷ فعولن
قراری - فعولن
س آکو - فعولن
م آ ج ہے - فعول فع جو کہ غلط ہے۔ ہے کی ی گرا کہ ہ رہنے دیں تو م آج ہ فعول ع ہوگا یہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ یہ تسبیغ نہیں ہے، اور وصال کا تو یہاں سوال ہی نہیں۔
اگر ہ کا گذشتہ حرف سے اتصال درست نہیں تو میرؔ کے درج ذیل شعر کی درست تقطیع کیونکر ممکن ہے؟یہ فرق پڑتا ہے جب کم از کم بحث کرنے والا کم از کم ایک فرد جاہل ہو!!میں تو ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ مجھے عروض وغیرہ نہیں آتی، بس عملی طور پر کچھ شد بد ہے۔ بہت شکریہ وارث اعظم!!
اگر ہ کا گذشتہ حرف سے اتصال درست نہیں تو میرؔ کے درج ذیل شعر کی درست تقطیع کیونکر ممکن ہے؟
نہ ہونا ہی بھلا تھا سامنے اس چشم گریاں کےنظر اے ابرِ تر آپ ہی نہ آوے گا برس بہتر
جی بعینہ یہی بات ہم نے کہی تھی اور اسی نکتے پر تمام گفتگو تھی اور ہماری جانب سے بلال کے مصرع میں "آج ہے" کو "آ جھے" پڑھتے ہوئے اسے تقطیع میں شامل کرنے اور درست قرار دینے پر بات شروع ہوئی تھی۔فاتح بھائی اس شعر میں اور اس طریقہء تقطیع میں میں تو نہیں سمجھتا کہ کچھ غلط ہے۔ کہ یہاں تو حقیقت میں کسی لفظ کا حذف کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اور ”آپ ہی“ کو ”آپھی“ بنانا (صوتی صورت میں) کچھ معیوب بھی معلوم نہیں ہوتا کم از کم مجھے تو۔
شمس کا تلفظ بھی غلط ہے۔ صحیح م ساکن کے ساتھ ہے جبکہ یہاں م مفتوح آ رہا ہے۔سرِ شام جو تم کو میرا خیال ہے
کسی حال میں تو شمس کو زوال ہے
شمس کا تلفظ بھی غلط ہے۔ صحیح م ساکن کے ساتھ ہے جبکہ یہاں م مفتوح آ رہا ہے۔
محمد بلال اعظم صاحب ایک بات آپ کو کہنی ہے وہ یہ کہ اصلاح کے لیے پوسٹ کرتے وقت پہلے اشعار لکھا کریں بعد میں تقطیع ۔ (اگر اصلاح ِ سخن میں پوسٹ کرنے کے اصولوں میں اس کے برعکس ہے تو مجھے اس کا علم نہیں۔ )