اشرف علی بستوی
محفلین
متنازع مصنف وی ایس نائپال کی وہ منحوس خواہش
اشرف علی بستوی۔ نئی دہلی
http://ashrafbastavi.blogspot.in/2013/12/blog-post_13.html
http://ashrafbastavi.blogspot.in/2013/12/blog-post_13.html
اشرف علی بستوی۔ نئی دہلی
http://ashrafbastavi.blogspot.in/2013/12/blog-post_13.html
http://ashrafbastavi.blogspot.in/2013/12/blog-post_13.html
آج سے کوئی اکیس برس قبل بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر متنازع مصنف وی ایس نائپال نے کہا تھا کہ ”بابری مسجد پر دھاوا بولنے والوں کا جذبہ دیکھ کر یہ یقین ہوچلا ہے کہ ہندوستان اپنی روح کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ بڑی تحریک کی شکل اختیار کرلے گی اور اس دن ممکنہ طور پر قومی تعطیل ہوگی“۔ یہ اور اس طرح کی پیش قیاسی اس وقت کے ایک خاص حلقے کے تجزیہ کاروں ، مصنفوں اور کالم نگاروں کی تحریروں میں صاف طور پر ظاہر ہونے لگی تھی۔ لیکن اس کے برعکس حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے والوں نے بیس برس مکمل ہونے پر اپنے تجزیوں میں کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اجودھیا میں بابری مسجد کو منہدم کرنے کےاکیس برس بعد بھی ہندو انتہاپسند ہندوستان کی سیاست میں غلبہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔1992میں جب ہندو شدت پسند ہاتھوں میں زعفرانی پرچم لئے بابری مسجد کے گنبد پر کھڑے تھے ، تو اس وقت وہ بے انتہا خوش دکھائی دے رہے تھے اور اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ ہندوستان کی سیاست اب پوری طرح تبدیل ہوچکی ہے۔ ممتاز دانشوروں کی غالب اکثریت کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ اب سخت گیر سیاسی ہندو ازم مستقبل کی نمائندگی کرے گا۔ یہ ڈر اور خوف صاف طور پر تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کی تحریروں میں ظاہر ہونے لگا تھا۔ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب ہندوستان میں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا جائے گا اور ملک میں سخت ہندو ازم کا دور دورہ ہوگا۔ بلاشبہ یہ ڈراور خوف کی کیفیت پیدا ہونے کی وجوہ تھیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک بھر میں ہونے والے فسادات میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے جس میں مسلمانوں کو بڑا جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
اس پورے معاملے کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وی ایس نائپال اور اس قبیل کے تجزیہ کاروں اور ملک کی جمہوریت کو بچانے کی فکر کرنے والوں میں ایک بات تو مشترک تھی کہ ایک ایسی سیاسی تحریک وجود میں آءے گی جو اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لئے کوشاں رہے گی۔ یقینا بابری مسجدکی شہادت کے بعد ملک میں دو سیاسی تحریکیں ابھر کر سامنے آئیں ان میں ایک کی شناخت ہندو ازم کے طور پر ہوئی اورد وسری تحریک پسماندہ ذاتوں کو ریزرویشن دینے کی تھی، جسے سابق وزیراعظم وی پی سنگھ کی بھرپورسرپرستی حاصل تھی۔ بابری مسجد کی شہادت کے عین وقت پسماندہ ذاتوں کو ریزرویشن دینے کی تحریک زور پکڑنے کی وجہ سے ہندوستان کی سیاست کو زعفرانی رنگ سے رنگ دینے کا خواب دیکھنے والے وی ایس نائپال اور ان کے ساتھیوں کاخواب چکنا چور ہوگیا اوراس طرح ہندوازم کا ووٹ بینک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ چونکہ ان کے یہاں غالب اکثریت پسماندہ برادریوں کی پائی جاتی ہے اس لئے زعفرانی سیاست جو طلاطم خیز طوفان کی طرح اٹھی تھی اب کمزورپڑنے لگی۔ اس طرح سخت گیر ہندو ازم کمزور پڑتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب لال کرشن آڈوانی، جسونت سنگھ جیسے سینئر لیڈر محمدعلی جناح کی تعریف کرتے نظر آئے۔
بی جے پی کے پی ایم امیدوار گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی جن کی مسلم دشمنی پوری دنیا پر واضح ہے ،اس وقت ملک کےمسلم رائے دہند گان کواپنے گمراہ کن خطابات سے اپنی جانب متوجہ کرنے کی لا حاصل کوشش کرتے دیکھے جارہے ہیں۔ جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی نے یہ نعرہ دیا تھا کہ ہمارے بیلٹ باکس میں مسلمان ووٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے قابل تشویش امر یہ ہے کہ اس درمیان ایک مسلم دانشور کا ایک بیان میڈیا میں خوب بحث کا موضوع بنا جس میں نریندر مودی کو مشروطمعافی دینے کی بات کہی گئی تھی بہرحال گزشتہ اکیس برس میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے تجزیے سے یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ ہندو ازم کی سیاست کرنے والے گروپوں کی گرفت کمزور پڑی ہے لیکن بابری مسجد کی شہادت کے اکیس برس بعد بھی ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کو انصاف کا انتظار ہے۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اجودھیا میں بابری مسجد کو منہدم کرنے کےاکیس برس بعد بھی ہندو انتہاپسند ہندوستان کی سیاست میں غلبہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔1992میں جب ہندو شدت پسند ہاتھوں میں زعفرانی پرچم لئے بابری مسجد کے گنبد پر کھڑے تھے ، تو اس وقت وہ بے انتہا خوش دکھائی دے رہے تھے اور اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ ہندوستان کی سیاست اب پوری طرح تبدیل ہوچکی ہے۔ ممتاز دانشوروں کی غالب اکثریت کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ اب سخت گیر سیاسی ہندو ازم مستقبل کی نمائندگی کرے گا۔ یہ ڈر اور خوف صاف طور پر تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کی تحریروں میں ظاہر ہونے لگا تھا۔ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب ہندوستان میں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا جائے گا اور ملک میں سخت ہندو ازم کا دور دورہ ہوگا۔ بلاشبہ یہ ڈراور خوف کی کیفیت پیدا ہونے کی وجوہ تھیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک بھر میں ہونے والے فسادات میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے جس میں مسلمانوں کو بڑا جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
اس پورے معاملے کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وی ایس نائپال اور اس قبیل کے تجزیہ کاروں اور ملک کی جمہوریت کو بچانے کی فکر کرنے والوں میں ایک بات تو مشترک تھی کہ ایک ایسی سیاسی تحریک وجود میں آءے گی جو اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لئے کوشاں رہے گی۔ یقینا بابری مسجدکی شہادت کے بعد ملک میں دو سیاسی تحریکیں ابھر کر سامنے آئیں ان میں ایک کی شناخت ہندو ازم کے طور پر ہوئی اورد وسری تحریک پسماندہ ذاتوں کو ریزرویشن دینے کی تھی، جسے سابق وزیراعظم وی پی سنگھ کی بھرپورسرپرستی حاصل تھی۔ بابری مسجد کی شہادت کے عین وقت پسماندہ ذاتوں کو ریزرویشن دینے کی تحریک زور پکڑنے کی وجہ سے ہندوستان کی سیاست کو زعفرانی رنگ سے رنگ دینے کا خواب دیکھنے والے وی ایس نائپال اور ان کے ساتھیوں کاخواب چکنا چور ہوگیا اوراس طرح ہندوازم کا ووٹ بینک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ چونکہ ان کے یہاں غالب اکثریت پسماندہ برادریوں کی پائی جاتی ہے اس لئے زعفرانی سیاست جو طلاطم خیز طوفان کی طرح اٹھی تھی اب کمزورپڑنے لگی۔ اس طرح سخت گیر ہندو ازم کمزور پڑتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب لال کرشن آڈوانی، جسونت سنگھ جیسے سینئر لیڈر محمدعلی جناح کی تعریف کرتے نظر آئے۔
بی جے پی کے پی ایم امیدوار گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی جن کی مسلم دشمنی پوری دنیا پر واضح ہے ،اس وقت ملک کےمسلم رائے دہند گان کواپنے گمراہ کن خطابات سے اپنی جانب متوجہ کرنے کی لا حاصل کوشش کرتے دیکھے جارہے ہیں۔ جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی نے یہ نعرہ دیا تھا کہ ہمارے بیلٹ باکس میں مسلمان ووٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے قابل تشویش امر یہ ہے کہ اس درمیان ایک مسلم دانشور کا ایک بیان میڈیا میں خوب بحث کا موضوع بنا جس میں نریندر مودی کو مشروطمعافی دینے کی بات کہی گئی تھی بہرحال گزشتہ اکیس برس میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے تجزیے سے یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ ہندو ازم کی سیاست کرنے والے گروپوں کی گرفت کمزور پڑی ہے لیکن بابری مسجد کی شہادت کے اکیس برس بعد بھی ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کو انصاف کا انتظار ہے۔