متھے لگا تو اب کے مع پنگا تمام شد

السلام و علیکم ! نوید ظفر کیا نی کی کچھ نمکین غزلیں میرے ہاتھ لگی ہیں ۔۔ محفل پہ ڈھونڈنے سے نہیں ملیں تو سوچا یہاں شیئر کر دوں ۔

متھے لگا تو اب کے مع پنگا تمام شد
ہم بھی گئے تو ساتھ ہی انڈیا تمام شد

اِس بار بھی پکارتے پھرتے ہیں حکمراں
پھر کوئی حادثہ اور پنامہ تمام شد

مہمان کی ہے توند یا گودام ہے کوئی
ٹبر کو دیر کیا ہوئی کھانا تمام شد

کیا ہو گیا ہے عقد کے ہوتے ہی آپ کو
یوں چرمرا گئے ہیں کہ گویا تمام شد

کیدو چچا کےغیض سے لگتا تو ہے مجھے
رانجھے میاں کا گوڈا و گٹا تمام شد

پھر سے وہی روٹین، وہی دال بھات ہے
عیدِ بقر گزر گئی، بکرا تمام شد

منظر کے انتخاب نے چھت سے گرا دیا
سیلفی کے اشتیاق میں بندہ تمام شد

تجھ سے غریب خانہء لیڈر کی کیا کہوں
دو چار ہی کنال میں بنگلا تمام شد

مٹیار کا جو ویر ہے، اِک داند ہے ظفر
ہتھے چڑھا تو جانئے پھجا تمام شد​
 
تری تیاریوں کا شوق مجھ کو مار جاتا ہے
ترے نخرے نہیں مُکتے، مرا اتوار جاتا ہے

وہ اِتنے شوق سے تو نان بھی لینے نہیں جاتا
کہ جتنے شوق سے لالا پئے نسوار جاتا ہے

ٹریننگ لی ہوئی ہے تونے آخر کس ”sniper“ سے
تری نظروں کا ناوک تو جگر کے پار جاتا ہے

محبت کس طرح پنپے، کروں میں کس طرح پیچھا
میں دو ٹانگوں پہ ہوتا ہوں، وہ لے کے کار جاتا ہے

یوں بڑھکیں مارتا ہے اپنے قد سے بھی بڑی لیکن
”کسوٹی جب بھی لگتی ہے تو انساں ہار جاتا ہے“

اسے ہے خوش گمانی کہ شجر پر نوٹ لگتے ہیں
بڑے ہی شوق سے کوئی سمندر پار جاتا ہے

مزے سے بیٹھ کر گھر میں جگالی کر رہا ہے وہ
کوئی اُس کو بھی بتلائے ترا بیمار جاتا ہے

زمانہ جو ہمیں فٹبال سمجھے، ٹھوکریں مارے
اُسی کو داڑھ میں دابے بُتِ عیّار جاتا ہے

اُسے مردے بھی سُن لیں تو اٹینشن ہو کے رہ جائیں
ظفر کوئی الاپے رات کو ملہار جاتا ہے
 
لئے بچوں کا کوئی لشکرِ جرار جاتا ہے
گلی سے بارہا اِک قافلہ سالار جاتا ہے

جو میرا پیر ہے وہ پیر ہے سارے ہی پیروں کا
یہ ایسا پیر ہے جس کے لئے اتوار جاتا ہے

کسی سے دم کرالینا کہ سوئے محفلِ شعری
بغل میں میں لے کے کوئی دفترِ اشعار جاتا ہے

تری منشا ہے سو مجبور ہے بھاری بدن عاشق
نہیں ہے تاب اُٹھنے کی مگر ناچار جاتا ہے

یوں اُس کو رازداری فوبیا تو ہے مگر اب کے
کسی اپنی ضرورت سے پسِ دیوار جاتا ہے

تمھارے تو رگ و پے میں بسی ہے سنسنی خیزی
تمھارے گھر میں شائد شام کا اخبار جاتا ہے

ترے مانجھی کو فرقت کے چمونے لڑ رہے ہوں گے
کبھی وہ آر آتا ہے کبھی وہ پار جاتا ہے

مجھے محسوس ہوتا ہے لگی ہے گوند کرسی میں
سہولت سے جو آتا ہے بصد دشوار جاتا ہے

ظفر تشریف کا تھیلا تھا بھاری اس قدر توبہ
بنام پینٹ وہ پہنے ہوئے شلوار جاتا ہے​
 
بالوں پہ پھر خصاب لگانا پڑا ہمیں
تیرے لئے یُوں سینگ کٹانا پڑا ہمیں

زیبا گئی تو سلمیٰ سے نظریں مری ملیں
“سورج بجھا تو چاند جلانا پڑا ہمیں”

ہم ایسی چوریوں کو سمجھتے ہیں نیک کام
دل تھا تمھارا بس کہ چرانا پڑا ہمیں

سُن کر کسی کے حسن پہ اشعار ایک دن
بیساختہ سا طعنہ زنانہ پڑا ہمیں

ہوتی نہیں ہے رام یہ مخلوق مفت میں
سو افسروں کو مسکہ لگانا پڑا ہمیں

رکھنا پڑا تمھارے بھی ویروں سے رابطہ
لوہے کے اِن چنوں کو چبانا پڑا ہمیں

تعریف کرنی پڑ گئی زوجہ کی آخرش
اپنے گلے کا ڈھول بجانا پڑا مجھے

سسرالی سانپوں سے تجھے لے آئے چھین کر
لیکن بہت یہ مہنگا خزانہ پڑا ہمیں

وہ کوئی اپنی پھو پھو کی بیٹی نہیں ظفر
کیوں ہیلری کا نعرہ لگانا پڑا ہمیں​
 
دو دنوں کا فیس بُک کی ٹاک سے بچھڑا ہوا
خود کو میں لگتا ہوں ہر ادراک سے بچھڑا ہوا

”دُر فِٹے منہ“ کہہ دیا اُس نے بھرے بازار میں
دے دیا پیغام برقی ڈاک سے بچھڑا ہوا

آج کی خاتون جامے میں سماتی ہی نہیں
آج کل فیشن ہے کچھ پوشاک سے بچھڑا ہوا

دل میں رہتا ہے سدا کنسرٹ تیری یاد کا
ٹھیک ہے میرا ذرا سا ٹھاک سے بچھڑا ہوا

ہو گیا ہے عشق تو لترول سے سیدھا مگر
حُسن تب سے ہےنگہِ بیباک سے بچھڑا ہوا

پارٹی در پارٹی لڑھکے ہے لوٹے کی طرح
کوئی لیڈر طرہء یچاک سے بچھڑا ہوا

اُس گلی میں مل گیا تھااک رقیبِ روسیاہ
سو یہ منہ ہے دُر فٹے منہ ناک سے بچھڑا ہوا

اپنے سپنوں میں تو ہے مصروف لمبی دوڑ میں
سو نے والا مارننگ کی واک سے بچھڑا ہوا

اپنے جامے میں سمانے کی نہیں ہے اہلیت
“کوزہء دنیا ہے اپنے چاک سے بچھڑا ہوا”

ایسے گانے پر بجز ”لاحول“ کیا کہتا کوئی
جس کا ہر سُر تھا صریحاً ”راک“ سے بچھڑا ہوا

میری دعوت پر نکالی اگلی پچھلی سب کسر
مدتوں سے یار تھا خوراک سے بچھڑا ہوا​
 
اور کیا خادمِ جمہور کئے جاتے ہیں
پرورش توند کی بھرپور کئے جاتے ہیں

کام کرتے نہیں دنیا کو مگر لگتا ہے
“کام دنیا کے بدستور کئے جاتے ہیں”

کسی چرسی نے لگایا تھا جو سرمستی میں
کیوں اُسے نعرہء منصور کئے جاتے ہیں

کوچہ ء یار میں جاتے ہیں بھری بارش میں
وہ جو کرتے رہے لنگور ، کئے جاتے ہیں

نازِ محبوب نہ آیا کبھی ڈھونا ہم کو
کس طرح عشق کے مزدور کئے جاتے ہیں

جس کو دستور کے ہجے بھی نہ آتے ہوں گے
اُن کے فرمان کو دستور کئے جاتے ہیں

ظاہراً قائلِ آزادیء اظہار بھی ہیں
سائبر بل بھی وہ منظور کئے جاتے ہیں

روز کرتے ہیں شئر سیلفیء خچر ناداں
خود کو اپنے تئیں مشہور کئے جاتے ہیں

فائدہ شک کا ہے میک اپ کی وجہ سے اُن کو
بھوتنی کو وہ اگر حور کئے جاتے ہیں

تلخیء غم کو حسینوں کے حوالے کر کے
آپ کی یاد کو امچور کئے جاتے ہیں

جن کو دل میں نے دیا اپنا بلا کنڈیشن
وہی ٹھینگا مرا مقدور کئے جاتے ہیں

اُن کی گردن میں ہے سریا تو ہے اِس کی بھی وجہ
ہم سے عاجز اُنہیں مغرور کئے جاتے ہیں

از سرِ نو ہمیں تفہیم کی حاجت ہے ظفر
صنفِ ایکسپوز کو مستور کئے جاتے ہیں
 
پیار سے دُم بھی ہلاتے ہو غضب کرتے ہو
سینگ بھی ساتھ دکھاتے ہو غضب کرتے ہو

جس کے چہرے پہ ہے میک اپ کی کرشمہ سازی
تم اُسے چاند بتاتے ہو غضب کرتے ہو

روئی کانوں میں تو ٹھونسی تھی دکھا کر تم کو
پھر بھی تم شعر سناتے ہو غضب کرتے ہو

نیوز چینل میں سیاست پہ ہے ڈیبیٹ کوئی
یا بٹیروں کو لڑاتے ہو غضب کرتے ہو

خوابِ جمہوریت اور اپنے وطن میں واللہ
بے ہدف تیر چلاتے ہو غضب کرتے ہو

بات جو کہنے یا سننے کی نہیں ہے ہرگز
بات بے بات سناتے ہو غضب کرتے ہو

حُسن تو ایک طویلے کی بلا ہوتی ہے
آپ سر اپنے منڈھاتے ہو غضب کرتے ہو

چھینک بھی جیسے ہو گھمبیر سی دہشت گردی
میرے بچوں کو ڈراتے ہو غضب کرتے ہو

ہم تو کنسرٹ پہ آئے تھے تمھارے اور تم
ہنہنائے چلے جاتے ہو غضب کرتے ہو

آزمائش ہے سراسر میرے جبڑوں کی ظفر
تم تو جو کچھ بھی پکاتے ہو، غضب کرتے ہو
 
کمپوڈروں سے کارِ طبیبانہ چاہیئے
لیکن علاج اُن سے مسیحانہ چاہیئے

آنکھوں پہ کب تلک میں لگاﺅں گا کرفیو
اے دل تجھے بھی ہوش میں آ جانا چاہئیے

ہم پانچ مرلوں کے لئے کب سے ہیں رہن میں
اور اپنے مجنوں بھائی کو ویرانہ چاہیئے

ایسی ہی نسبتیں تو سدا کامیاب ہیں
اندھی دلہن کے واسطے اِک کانا چاہیئے

امیدوار تھا تو میں منت گزار تھا
پر اب پروٹوکول وزیرانہ چاہیئے

سچوں سے بڑھ کے کیوں نہیں پُر اعتماد ہم
کیوں جھوٹ بولتے ہوئے ہکلانا چاہیئے

ویسے سخنوروں کے لئے لازمی نہیں
سب کو غمِ فراق میں ڈکرانا چاہیئے

اہلِ ہوس کے ہاتھ میں آیا ہوا ہے وہ
انصاف کو کچھ آپ بھی شرمانا چاہیئے

ناہید کا میاں ہے کسی ناز پر فدا
اور ناز کے خصم کو بھی فرزانہ چاہیئے

سب ہیں بیاض تھام کے گرمِ سخن ظفر
بزمِ سخن میں کچھ ہمیں ظفرانا چاہیئے
 

اب ہم پہ اُس کے عشق کا الزام ہی تو ہے
پودِ رقیبِ روسیاہ کی مام ہی تو ہے

جیون نگل گیا ہے مرا از الف تا یے
کہنے کو تیری زلف کا اک لام ہی تو ہے

میں تجھ سے پیار کرتا نہیں ہوں، فلرٹ ہوں
اس کا مرے رقیب کو الہام ہی تو ہے

خلوت میں دُر فِٹے منہ ہمیں شوق سے کہو
لیکن یہ اہتمام سرِ عام ہی تو ہے

بہرِ وصال کوئی بلائے تو چل پڑو
عاشق کی ایک جست پہ کالام ہی تو ہے

زاہد اسے حرام سمجتا رہا ہے کیوں
یہ جو بریڈ کے ساتھ ہے یہ جام ہی تو ہے

عاشق کو چچا سام کی صورت نہ گھورئے
سروس میں ایک بندہء بے دام ہی تو ہے

ہر کوئی تاڑؤں کے قبیلے کا ہے کہاں
تیری گلی میں مجھ کو بھی اک کام ہی تو ہے

شاعر تمام کھسکے ہوئے ہیں ذرا ذرا
تیرا ظفر بھی یکے از اقسام ہی تو ہے​
 
Top