سید اسد محمود
محفلین
مت گھبرائیں الطاف بھائی
لنک
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین آج کل بہت جذباتی اور پریشانی میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی پُرسوز آواز میں تقریریں اور خدشات اور جذبات سے بھرے لوگوں کو رلا دینے والے اور اپنے کارکنوں کو جذباتی کرنے اور حوصلہ دینے والے خطابات تقریباً روز ہی لندن سے براہ راست نشر ہو رہے ہیں۔ اتوار کی صبح صبح ان کا خطاب رقت انگیز تھا اور انہوں نے کچھ چونکا دینے والی باتیں بھی کیں جیسے کہ ان کے اپنے لیڈر ان کی بات نہیں سن رہے اور یہ کہ اسمبلی کے ممبران نے الطاف بھائی کو پیسے بنانے کی مشین بنا لیا ہے۔ یہ ایک انتہائی معنی خیز اور فکر انگیز بات ہے کیونکہ اس سے کئی مطلب نکالے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے پارٹی کے لوگ اور رابطہ کمیٹی کے ممبران ان کی بات نہیں سن رہے۔ یہ بھی کافی پریشان کن بیان ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متحدہ میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہے اور الطاف بھائی اب یہ باتیں پوری قوم کے سامنے کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ ”آج مجھے اپنی حیثیت کا اندازہ ہوگیا ہے“ ایک بڑی پریشانی کا اشارہ دیتا ہے۔ ایسی کون سی بات ہوگئی جس کے نتیجے میں الطاف بھائی کو یہ سب باتیں اتنے جذباتی انداز میں کہنی پڑیں اور پھر انہوں نے اپنے شہید کارکنوں کی موت پر سب سے معافی مانگی اور اچانک ان کا خطاب صبح 5بجے کے قریب ختم ہوگیا۔ ان کو TV چینل کے اینکرز سے بھی بہت شکایات ہیں کہ وہ ان کے مطابق ٹکے ٹکے کے لوگوں کو بٹھا کر متحدہ پر تنقید کراتے ہیں اور متحدہ کے کارکن ان کو جواب نہیں دیتے۔ یہ بیان بھی ذرا غور طلب ہے کیونکہ کارکن ٹی وی اینکرز کو جواب کس طریقے سے دے سکتے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی غصے اور طیش میں آ کر کسی ٹی وی والے کو بقول الطاف بھائی ”ٹھوک“ دے مگر یہ بھی غلط ہوگا اور الطاف بھائی کے بیانات کے بعد مزید مشکلات میں اضافہ کرسکتا ہے۔ ان سب بیانات اور خطابات اور ایک طرح سے الزامات کی الطاف بھائی کو ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔ کیا متحدہ کسی ایسے دور میں تو داخل نہیں ہوگئی جس میں الطاف بھائی کو نظر آ رہا ہو کہ کراچی پر ان کا اور انکے وفادار جیالوں کا کنٹرول یا تو چیلنج کیا جا رہا ہے یا کم ہو رہا ہے۔
کئی سالوں بعد یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ اتوار کو این اے 250 کے انتخاب میں متحدہ نے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ کیا الطاف بھائی کو عمران خان کی تحریک انصاف سے کراچی میں خطرہ محسوس ہونے لگا ہے کیونکہ اس میں تو کوئی شک نہیں رہا کہ تحریک انصاف کراچی میں متحدہ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنیوالی جماعت تو بن ہی گئی ہے، چاہے اس پارٹی کو اسمبلی میں سیٹیں نہ ملی ہوں مگر ہر مقابلے میں ہزاروں ووٹ جو کہ خاص متحدہ کے سمجھے جاتے تھے عمران خان اچک گئے ہیں اور عارف علوی صاحب ایک بااثر اور دلیر لیڈر کے طور پر کراچی میں ابھر رہے ہیں۔ NA-250 میں تحریک انصاف کی جیت سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ اب متحدہ کے مقابلے میں ایک باقاعدہ سیاسی پارٹی مقابلے پر آگئی ہے اور اس کے پورے پاکستان میں لاکھوں بلکہ کروڑوں ووٹر ہیں اور قومی اسمبلی میں متحدہ سے زیادہ بڑی سیاسی قوت ہے۔ NA-250 ایک تحریک انصاف کا Base Camp بن جائے گا اور یہاں سے پھر یہ وائرس شہر کراچی کے دوسرے اور غریب حلقوں میں جب پھیلے گا تو متحدہ کی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔ آج بھی تحریک کے دھرنے کراچی کے کئی علاقوں میں جاری ہیں اور تحریک انصاف کی لیڈر زہرہ شاہد کے قتل کے بعد بڑے سوال اٹھ گئے ہیں۔ خود فوج یا الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ کہ اب فوجی پولنگ اسٹیشن کے اندر بھی تعینات کئے جائیں گے متحدہ کیلئے ایک دھچکہ ہے۔
ادھر نواز شریف اور جنرل کیانی نے بھی کراچی کے حالات پر سیر حاصل بات چیت کی ہے اور لندن میں الطاف بھائی کی کچھ تقریروں کے بعد شور تو بہت مچا ہے مگر ابھی شاید کوئی قانونی کارروائی نہ ہو۔ پھر بھی ایک طرح سے الطاف بھائی کو یہ پیغام تو مل گیا کہ اب یہاں سے زیادہ گرما گرم باتیں کرنا مشکل ہوگا۔ ہمارے ہی اخبار میں یہ خبر بھی چھپ چکی ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے الزام میں گرفتار شدہ ایک شخص پاکستان میں ہے اور اس کے چھ پاسپورٹ اور مزید تفصیلات بھی مل گئی ہیں۔ یہ سب وہ عوامل ہیں جو الطاف بھائی کو ضرور پریشان کررہے ہوں گے اور یہ پریشانی ان کی تقریروں اور بیانات میں نظر آ رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ 1985ء کے بعد سے آج تک متحدہ کا جو عوامی امیج یعنی تصویر یا تاثر ہے وہ ایک سیاسی پارٹی سے زیادہ ایک ایسے گروپ کا ہے جو سیاست کم اور اپنے مہاجر عوام کی حفاظت اچھے طریقے سے کرتا ہے یعنی کہ مہاجروں کو بچانا اور ایک مسلسل خوف کی کیفیت سے نکالنا، خوف ہی متحدہ کی ابتدا میں سب سے بڑا عنصر تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب متحدہ کے لوگ راتوں کو کھمبے بجا بجا کر ایک دوسرے کو جاگتے رہنے اور خود کو الرٹ رکھنے کی کوشش کرتے تھے 1986-1985ء میں ایم کیو ایم پٹھانوں کے حملوں اور ایک دوسرے کے گھروں اور املاک کو آگ لگانے کے خلاف ایک گروپ کی شکل میں سامنے آئی اور کیونکہ مہاجروں کو کوئی اور بچانے یا حفاظت دینے والی جماعت موجود نہیں تھی تو عوام نے اس گروپ کو دل کھول کر پیسے اور حمایت دی اور پھر الطاف بھائی نے یہ بیان بھی دیا کہ کراچی کے لوگ VCR بیچ کر کلاشنکوف خریدیں اور پھر کراچی میں بوریوں میں لاشیں برآمد ہونا شروع ہوگئیں، کئی متحدہ کے کارکن بھی مارے گئے اور ان کے مخالف بھی مگر متحدہ ایک طاقت کے طور پر سامنے آئی جو سیاست میں کم اور سڑکوں اور گلیوں میں زیادہ موثر تھی۔ پھر متحدہ نے بلدیاتی اور اسمبلیوں کے الیکشن لڑنا شروع کئے اور وہی حفاظتی دستے جو پہلے سے دفاع کے لئے تیار کئے گئے تھے الیکشن میں کام آئے اورلاکھوں کی تعداد میں ووٹ پڑے۔ مگر بد قسمتی یہ ہے کہ متحدہ کی شکل اور امیج ایک روایتی اور عام پاکستانی سیاسی پارٹی کا نہیں بن سکا۔ الطاف بھائی نے مہاجر سے متحدہ کا نام بدل کر کوشش ضرور کی لیکن جب بھی کوئی مشکل آئی متحدہ اپنے پرانے طور طریقوں پر فوراً اتر آئی یعنی ایک حفاظتی Mode میں اور خوف کی سیاست کی پرچار۔
اب ایسا کبھی کیوں نہیں ہوا کہ عام پارٹیوں کی طرح اگر کوئی لیڈر متحدہ کو چھوڑ کر کسی اور پارٹی میں شامل ہونا چاہے تو وہ نہیں ہوسکتا یا ابھی تک نہیں ہوا،کیوں؟ دوسری پارٹیوں میں کسی کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ وہ اگر پارٹی چھوڑیں گے تو کوئی ان کو بوری میں بند کردے گا مگر متحدہ کے جو بھی لوگ چھوڑ کر گئے یا تو انہوں نے اپنی پارٹی بنائی اور وہ بھی مسلح گروپ کی شکل میں یا پھر وہ مارے گئے۔ یہ طور طریقے سیاسی پارٹیوں میں نہیں ہوتے اور اسی لئے بڑی کوشش اور ہمت کے بعد جب دو افراد متحدہ میں شامل ہوئے تو ان کی شکل بدلتی نظر آئی یعنی ایک سینیٹر فروغ نسیم اور دوسرے نبیل گبول۔ گبول کے آنے سے پہلی دفعہ کوئی منتخب لیڈر بڑی پارٹی کو چھوڑ کر متحدہ میں آیا اب گبول وہاں کیسا محسوس کررہے ہیں یہ تو وہی بتائیں گے، فروغ نسیم بھی اگر خوش ہیں تو معلوم ہوجائے گا مگر عمران خان اور تحریک انصاف کی آمد کے بعد اب متحدہ کو ایک مکمل سیاسی پارٹی میں تبدیل ہونا ہوگا۔ الطاف بھائی کو اپنی پارٹی کا امیج بدلنا ہوگا، یہ بیانات دے کر کہ میرے کارکن کسی اینکر کو ٹھوک دیں گے تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا ، کافی نہیں ہوں گے۔ ان کی یہ شکایت کہ لوگ اب ان کی بات نہیں سن رہے، ایک آتے ہوئے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ الطاف بھائی نے کئی دفعہ کوشش کی کہ گورنر عشرت العباد کو ہٹا دیا جائے مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے اور کئی باہر کی قوتیں درمیان میں آگئیں عشرت العباد ابھی بھی گورنر ہیں اور اب الطاف بھائی کہہ رہے ہیں کہ لوگ انکی بات نہیں سن رہے تو پھر کس کی سن رہے ہیں۔ کیا اب متحدہ ایک ایسی پارٹی بن کر سامنے آئیگی جس پر کسی کو شامل ہونے یا چھوڑنے سے کوئی خوف نہ ہو اور اپنی مرضی سے لوگ آئیں اور جائیں۔
لنک
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین آج کل بہت جذباتی اور پریشانی میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی پُرسوز آواز میں تقریریں اور خدشات اور جذبات سے بھرے لوگوں کو رلا دینے والے اور اپنے کارکنوں کو جذباتی کرنے اور حوصلہ دینے والے خطابات تقریباً روز ہی لندن سے براہ راست نشر ہو رہے ہیں۔ اتوار کی صبح صبح ان کا خطاب رقت انگیز تھا اور انہوں نے کچھ چونکا دینے والی باتیں بھی کیں جیسے کہ ان کے اپنے لیڈر ان کی بات نہیں سن رہے اور یہ کہ اسمبلی کے ممبران نے الطاف بھائی کو پیسے بنانے کی مشین بنا لیا ہے۔ یہ ایک انتہائی معنی خیز اور فکر انگیز بات ہے کیونکہ اس سے کئی مطلب نکالے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے پارٹی کے لوگ اور رابطہ کمیٹی کے ممبران ان کی بات نہیں سن رہے۔ یہ بھی کافی پریشان کن بیان ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متحدہ میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہے اور الطاف بھائی اب یہ باتیں پوری قوم کے سامنے کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ ”آج مجھے اپنی حیثیت کا اندازہ ہوگیا ہے“ ایک بڑی پریشانی کا اشارہ دیتا ہے۔ ایسی کون سی بات ہوگئی جس کے نتیجے میں الطاف بھائی کو یہ سب باتیں اتنے جذباتی انداز میں کہنی پڑیں اور پھر انہوں نے اپنے شہید کارکنوں کی موت پر سب سے معافی مانگی اور اچانک ان کا خطاب صبح 5بجے کے قریب ختم ہوگیا۔ ان کو TV چینل کے اینکرز سے بھی بہت شکایات ہیں کہ وہ ان کے مطابق ٹکے ٹکے کے لوگوں کو بٹھا کر متحدہ پر تنقید کراتے ہیں اور متحدہ کے کارکن ان کو جواب نہیں دیتے۔ یہ بیان بھی ذرا غور طلب ہے کیونکہ کارکن ٹی وی اینکرز کو جواب کس طریقے سے دے سکتے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی غصے اور طیش میں آ کر کسی ٹی وی والے کو بقول الطاف بھائی ”ٹھوک“ دے مگر یہ بھی غلط ہوگا اور الطاف بھائی کے بیانات کے بعد مزید مشکلات میں اضافہ کرسکتا ہے۔ ان سب بیانات اور خطابات اور ایک طرح سے الزامات کی الطاف بھائی کو ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔ کیا متحدہ کسی ایسے دور میں تو داخل نہیں ہوگئی جس میں الطاف بھائی کو نظر آ رہا ہو کہ کراچی پر ان کا اور انکے وفادار جیالوں کا کنٹرول یا تو چیلنج کیا جا رہا ہے یا کم ہو رہا ہے۔
کئی سالوں بعد یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ اتوار کو این اے 250 کے انتخاب میں متحدہ نے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ کیا الطاف بھائی کو عمران خان کی تحریک انصاف سے کراچی میں خطرہ محسوس ہونے لگا ہے کیونکہ اس میں تو کوئی شک نہیں رہا کہ تحریک انصاف کراچی میں متحدہ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنیوالی جماعت تو بن ہی گئی ہے، چاہے اس پارٹی کو اسمبلی میں سیٹیں نہ ملی ہوں مگر ہر مقابلے میں ہزاروں ووٹ جو کہ خاص متحدہ کے سمجھے جاتے تھے عمران خان اچک گئے ہیں اور عارف علوی صاحب ایک بااثر اور دلیر لیڈر کے طور پر کراچی میں ابھر رہے ہیں۔ NA-250 میں تحریک انصاف کی جیت سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ اب متحدہ کے مقابلے میں ایک باقاعدہ سیاسی پارٹی مقابلے پر آگئی ہے اور اس کے پورے پاکستان میں لاکھوں بلکہ کروڑوں ووٹر ہیں اور قومی اسمبلی میں متحدہ سے زیادہ بڑی سیاسی قوت ہے۔ NA-250 ایک تحریک انصاف کا Base Camp بن جائے گا اور یہاں سے پھر یہ وائرس شہر کراچی کے دوسرے اور غریب حلقوں میں جب پھیلے گا تو متحدہ کی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔ آج بھی تحریک کے دھرنے کراچی کے کئی علاقوں میں جاری ہیں اور تحریک انصاف کی لیڈر زہرہ شاہد کے قتل کے بعد بڑے سوال اٹھ گئے ہیں۔ خود فوج یا الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ کہ اب فوجی پولنگ اسٹیشن کے اندر بھی تعینات کئے جائیں گے متحدہ کیلئے ایک دھچکہ ہے۔
ادھر نواز شریف اور جنرل کیانی نے بھی کراچی کے حالات پر سیر حاصل بات چیت کی ہے اور لندن میں الطاف بھائی کی کچھ تقریروں کے بعد شور تو بہت مچا ہے مگر ابھی شاید کوئی قانونی کارروائی نہ ہو۔ پھر بھی ایک طرح سے الطاف بھائی کو یہ پیغام تو مل گیا کہ اب یہاں سے زیادہ گرما گرم باتیں کرنا مشکل ہوگا۔ ہمارے ہی اخبار میں یہ خبر بھی چھپ چکی ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے الزام میں گرفتار شدہ ایک شخص پاکستان میں ہے اور اس کے چھ پاسپورٹ اور مزید تفصیلات بھی مل گئی ہیں۔ یہ سب وہ عوامل ہیں جو الطاف بھائی کو ضرور پریشان کررہے ہوں گے اور یہ پریشانی ان کی تقریروں اور بیانات میں نظر آ رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ 1985ء کے بعد سے آج تک متحدہ کا جو عوامی امیج یعنی تصویر یا تاثر ہے وہ ایک سیاسی پارٹی سے زیادہ ایک ایسے گروپ کا ہے جو سیاست کم اور اپنے مہاجر عوام کی حفاظت اچھے طریقے سے کرتا ہے یعنی کہ مہاجروں کو بچانا اور ایک مسلسل خوف کی کیفیت سے نکالنا، خوف ہی متحدہ کی ابتدا میں سب سے بڑا عنصر تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب متحدہ کے لوگ راتوں کو کھمبے بجا بجا کر ایک دوسرے کو جاگتے رہنے اور خود کو الرٹ رکھنے کی کوشش کرتے تھے 1986-1985ء میں ایم کیو ایم پٹھانوں کے حملوں اور ایک دوسرے کے گھروں اور املاک کو آگ لگانے کے خلاف ایک گروپ کی شکل میں سامنے آئی اور کیونکہ مہاجروں کو کوئی اور بچانے یا حفاظت دینے والی جماعت موجود نہیں تھی تو عوام نے اس گروپ کو دل کھول کر پیسے اور حمایت دی اور پھر الطاف بھائی نے یہ بیان بھی دیا کہ کراچی کے لوگ VCR بیچ کر کلاشنکوف خریدیں اور پھر کراچی میں بوریوں میں لاشیں برآمد ہونا شروع ہوگئیں، کئی متحدہ کے کارکن بھی مارے گئے اور ان کے مخالف بھی مگر متحدہ ایک طاقت کے طور پر سامنے آئی جو سیاست میں کم اور سڑکوں اور گلیوں میں زیادہ موثر تھی۔ پھر متحدہ نے بلدیاتی اور اسمبلیوں کے الیکشن لڑنا شروع کئے اور وہی حفاظتی دستے جو پہلے سے دفاع کے لئے تیار کئے گئے تھے الیکشن میں کام آئے اورلاکھوں کی تعداد میں ووٹ پڑے۔ مگر بد قسمتی یہ ہے کہ متحدہ کی شکل اور امیج ایک روایتی اور عام پاکستانی سیاسی پارٹی کا نہیں بن سکا۔ الطاف بھائی نے مہاجر سے متحدہ کا نام بدل کر کوشش ضرور کی لیکن جب بھی کوئی مشکل آئی متحدہ اپنے پرانے طور طریقوں پر فوراً اتر آئی یعنی ایک حفاظتی Mode میں اور خوف کی سیاست کی پرچار۔
اب ایسا کبھی کیوں نہیں ہوا کہ عام پارٹیوں کی طرح اگر کوئی لیڈر متحدہ کو چھوڑ کر کسی اور پارٹی میں شامل ہونا چاہے تو وہ نہیں ہوسکتا یا ابھی تک نہیں ہوا،کیوں؟ دوسری پارٹیوں میں کسی کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ وہ اگر پارٹی چھوڑیں گے تو کوئی ان کو بوری میں بند کردے گا مگر متحدہ کے جو بھی لوگ چھوڑ کر گئے یا تو انہوں نے اپنی پارٹی بنائی اور وہ بھی مسلح گروپ کی شکل میں یا پھر وہ مارے گئے۔ یہ طور طریقے سیاسی پارٹیوں میں نہیں ہوتے اور اسی لئے بڑی کوشش اور ہمت کے بعد جب دو افراد متحدہ میں شامل ہوئے تو ان کی شکل بدلتی نظر آئی یعنی ایک سینیٹر فروغ نسیم اور دوسرے نبیل گبول۔ گبول کے آنے سے پہلی دفعہ کوئی منتخب لیڈر بڑی پارٹی کو چھوڑ کر متحدہ میں آیا اب گبول وہاں کیسا محسوس کررہے ہیں یہ تو وہی بتائیں گے، فروغ نسیم بھی اگر خوش ہیں تو معلوم ہوجائے گا مگر عمران خان اور تحریک انصاف کی آمد کے بعد اب متحدہ کو ایک مکمل سیاسی پارٹی میں تبدیل ہونا ہوگا۔ الطاف بھائی کو اپنی پارٹی کا امیج بدلنا ہوگا، یہ بیانات دے کر کہ میرے کارکن کسی اینکر کو ٹھوک دیں گے تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا ، کافی نہیں ہوں گے۔ ان کی یہ شکایت کہ لوگ اب ان کی بات نہیں سن رہے، ایک آتے ہوئے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ الطاف بھائی نے کئی دفعہ کوشش کی کہ گورنر عشرت العباد کو ہٹا دیا جائے مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے اور کئی باہر کی قوتیں درمیان میں آگئیں عشرت العباد ابھی بھی گورنر ہیں اور اب الطاف بھائی کہہ رہے ہیں کہ لوگ انکی بات نہیں سن رہے تو پھر کس کی سن رہے ہیں۔ کیا اب متحدہ ایک ایسی پارٹی بن کر سامنے آئیگی جس پر کسی کو شامل ہونے یا چھوڑنے سے کوئی خوف نہ ہو اور اپنی مرضی سے لوگ آئیں اور جائیں۔