مثالی بہو' کے نام سے دلچسپ کورس

سیما علی

لائبریرین

مثالی بہو' کے نام سے دلچسپ کورس

ایمن محموداپ ڈیٹ 29 دسمبر 2018

ڈان


5bad380787437.jpg



بڑھتی ہوئی جدت اور ٹیکنالوجی کے تیزی سے پروان چڑھتے ماحول میں دنیا بھر کے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں نت نئے موضوعات متعارف کرائے جا رہے ہیں لیکن بھارت کی ایک جامعہ میں ’مثالی بہو ‘ کے نام سے متعارف کروائے گئے کورس نے حیران کردیا۔

اس حوالے سے بھوپال کی برکت اللہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈی سی گپتا نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کورس متعارف کرانے کا مقصد بہوؤں کو خاندانی روایات اور اقدار کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے تاکہ شادی کے بعد انہیں خود کو ڈھالنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔

وائس چانسلر نے 'آدرش بہو' یا 'مثالی بہو' نامی کورس متعارف کراتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کی بھی معاشرے کی طرف کچھ ذمے داریاں ہیں لہٰذا ہم خود کو صرف کتابی حد تک کیسے محدود رکھ سکتے ہیں، شادیوں کو قائم رکھنے کے لیے قدم اٹھانا ہماری ذمے داری ہے۔

گپتا نے مزید کہا کہ شادیاں اسی وقت قائم رہ سکتی ہیں جب نئی دلہنیں اپنے شوہر کے اہلخانہ کے ساتھ ایڈجسٹ کریں، ہم مستقبل کی بہوؤں کو سکھائیں گے کہ خاندان کا احترام لازم ہے اور انہیں تنازعات اور اختلافات سے بچاؤ کے لیے مشورے دیں گے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ویسے تو درسگاہ بھی ماں کی گود جیسی ہی ہوتی ہے۔ مگرالمیہ یہ ہے کہ جو رول گھر میں ایک ماں کا تھا وہ ذمہ داری بھی معاشرے نے یونیورسٹیوں کے کاندھوں پر ڈال دی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ویسے تو درسگاہ بھی ماں کی گود جیسی ہی ہوتی ہے۔ مگرالمیہ یہ ہے کہ جو رول گھر میں ایک ماں کا تھا وہ ذمہ داری بھی معاشرے نے یونیورسٹیوں کے کاندھوں پر ڈال دی ہے۔
بالکل صحیح فرمایا آپ نے ، پھر بھی کسی نے تو محسوس کیا،آہستہ آہستہ درسگاہوں کو ہی سونپ کر خود کو بری الذمہ ہو جایئں گے۔جو انتہائی افسوسناک ہے-معاشرتی عدم برداشت بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔گھروں میں آپس میں حصے داریاں اسقدر ہو گیں ہیں ۔کہ بچے شروع سے بٹے رہتے ہیں اور شراکت کرنا نہیں سیکھتے اور یہ آگے زندگی میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔۔۔۔۔
 

ثمین زارا

محفلین
مثالی بہو' کے نام سے دلچسپ کورس

ایمن محموداپ ڈیٹ 29 دسمبر 2018

ڈان

5bad380787437.jpg



بڑھتی ہوئی جدت اور ٹیکنالوجی کے تیزی سے پروان چڑھتے ماحول میں دنیا بھر کے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں نت نئے موضوعات متعارف کرائے جا رہے ہیں لیکن بھارت کی ایک جامعہ میں ’مثالی بہو ‘ کے نام سے متعارف کروائے گئے کورس نے حیران کردیا۔

اس حوالے سے بھوپال کی برکت اللہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈی سی گپتا نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کورس متعارف کرانے کا مقصد بہوؤں کو خاندانی روایات اور اقدار کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے تاکہ شادی کے بعد انہیں خود کو ڈھالنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔

وائس چانسلر نے 'آدرش بہو' یا 'مثالی بہو' نامی کورس متعارف کراتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کی بھی معاشرے کی طرف کچھ ذمے داریاں ہیں لہٰذا ہم خود کو صرف کتابی حد تک کیسے محدود رکھ سکتے ہیں، شادیوں کو قائم رکھنے کے لیے قدم اٹھانا ہماری ذمے داری ہے۔

گپتا نے مزید کہا کہ شادیاں اسی وقت قائم رہ سکتی ہیں جب نئی دلہنیں اپنے شوہر کے اہلخانہ کے ساتھ ایڈجسٹ کریں، ہم مستقبل کی بہوؤں کو سکھائیں گے کہ خاندان کا احترام لازم ہے اور انہیں تنازعات اور اختلافات سے بچاؤ کے لیے مشورے دیں گے۔
اور مثالی شوہر اور مثالی سسرال بھی ملے گا ان بہوؤں کو یا وہی بگڑا ہوا ( زیادہ تر انڈیا اور پاکستان میں )جو بہو کو انسان کم اور مٹی کا مادھو زیادہ سمجھتے ہیں ۔ ۔ ؟؟
بہوؤں کو کسی نے ایڈجسٹ نہ ہونے دیا پھر یونیورسٹی والے کیا کریں گے؟؟

سائیکل کا ایک ٹائر بالکل ٹھیک اور ایک فلیٹ ہو تو وہ چل سکتی ہے یا نہیں؟؟ کوئ حل؟؟

اور یہ تربیت صرف "ماں" کی زمہ داری ہے یا "باپ" کا بھی کوئ کردار ہے یا ہونا ضروری ہے ؟؟؟

کیا ساسو ماں کو بھی تعلیم بالغاں کا کورس کرایا جائے گا کہ وہ ان "مثالی بہوؤں" کی زندگیاں اجیرن نہ کریں وغیرہ وغیرہ
کوئ جواب سیما جی؟؟
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک عورت واویلا کر رہی تھی کہ میری بہو ڈائن نکلی، میرا بیٹا مجھ سے چھین لیا اور وہ رن مرید ساری کمائی اپنی بیوی کو دے دیتا ہے بے ایمان کہیں کا۔ اور ایک میرا بھولا بھالا داماد ہے انتہائی فرمانبرداد اور شریف بچہ، ہر مہینے پہلی تاریخ کو ساری تنخواہ میری بیٹی کے ہاتھ پر رکھتا ہے، اللہ سب کو ایسا داماد دے۔ :)
 

سیما علی

لائبریرین
اور مثالی شوہر اور مثالی سسرال بھی ملے گا ان بہوؤں کو یا وہی بگڑا ہوا ( زیادہ تر انڈیا اور پاکستان میں )جو بہو کو انسان کم اور مٹی کا مادھو زیادہ سمجھتے ہیں ۔ ۔ ؟؟
بہوؤں کو کسی نے ایڈجسٹ نہ ہونے دیا پھر یونیورسٹی والے کیا کریں گے؟؟

سائیکل کا ایک ٹائر بالکل ٹھیک اور ایک فلیٹ ہو تو وہ چل سکتی ہے یا نہیں؟؟ کوئ حل؟؟

اور یہ تربیت صرف "ماں" کی زمہ داری ہے یا "باپ" کا بھی کوئ کردار ہے یا ہونا ضروری ہے ؟؟؟

کیا ساسو ماں کو بھی تعلیم بالغاں کا کورس کرایا جائے گا کہ وہ ان "مثالی بہوؤں" کی زندگیاں اجیرن نہ کریں وغیرہ وغیرہ
کوئ جواب سیما جی؟؟
ثمین زارا !!!!
ٹھیک کہا آپ نے یہ دو طرفہ تعلقات ہیں ۔ ٹائر دونوں برابر ہونا چاہیے۔
اصل مسلۂ شروع ہی ہوتا ہے اس بات سے کہ ہماری زندگی کے رنگ ڈھنگ کھلا تضاد ہیں ۔جیسا کہ وارث صاحب نے لطیفہ سنایا ہے پر ہے یہ حقیقت کہ ہمارے خیالات اپنی بیٹیو ں کے بارے میں مختلف ہیں اور بہوؤں بارے میں اور اگر بیٹا خیال کرتا ہے تو برا اور بہو ظالم ،اور اگر داماد ، بیٹی کا خیال کرے تو واہ واہ ۔ داماد کی تعارف کے پل باندھے جاتے ہیں ۔سب سے پہلے اس تضاد کو ختم کرنا پڑے گا ۔
لیکن میں نے ایسے گھرانے بھی دیکھے ہیں جہاں بہوؤں کی بہت قدر ہوتی ہے ۔ مگر افسوسناک صورت حال ہے کہ یہ تعداد آٹے میں نمک کہ برابر ہے۔:crying3::crying3::crying3::crying3::crying3:
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ثمین زارا !!!!
ٹھیک کہا آپ نے یہ دو طرفہ تعلقات ہیں ۔پئیے دونوں برابر ہونا چاہیے۔
اصل مسلۂ شروع ہی ہوتا ہے اس بات سے کہ ہماری زندگی کے رنگ ڈھنگ کھلا تضاد ہیں ۔جیسا کہ وارث صاحب نے لطیفہ سنایا ہے پر ہے یہ حقیقت کہ ہمارے خیالات اپنی بیٹیو ں کے بارے میں مختلف ہیں اور بہوؤں بارے میں اور اگر بیٹا خیال کرتا ہے تو برا اور بہو ظالم ،اور اگر داماد ، بیٹی کا خیال کرے تو واہ واہ ۔ داماد کی تعارف کے پل باندھے جاتے ہیں ۔سب سے پہلے اس تضاد کو ختم کرنا پڑے گا ۔
لیکن میں نے ایسے گھرانے بھی دیکھے ہیں جہاں بہوؤں کی بہت قدر ہوتی ہے ۔ مگر افسوسناک صورت حال ہے کہ یہ تعداد آٹے میں نمک کہ برابر ہے۔:crying3::crying3::crying3::crying3::crying3:
آپ کی بات سو فیصد درست ہے، یہ معاشرہ تضادات سے بھرا اور گھرا ہوا ہے۔ اگر ایک طرف بیٹا نافرمان اور داماد فرمانبردار ہے تو دوسری طرف ایسا بھی ہے کہ بہو بیچاری کا کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا، پہننا پہننانا، آنا جانا یہاں تک کہ سانس لینا بھی سسرال کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے اور دوسری طرف وہی گھرانہ اپنے داماد اور اس کے خاندان کی بد خوئیوں کا ہر جگہ اشتہار لگا رہا ہوتا ہے کہ ہماری بیٹی کو قید میں رکھا ہوا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
آپ کی بات سو فیصد درست ہے، یہ معاشرہ تضادات سے بھرا اور گھرا ہوا ہے۔ اگر ایک طرف بیٹا نافرمان اور داماد فرمانبردار ہے تو دوسری طرف ایسا بھی ہے کہ بہو بیچاری کا کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا، پہننا پہننانا، آنا جانا یہاں تک کہ سانس لینا بھی سسرال کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے اور دوسری طرف وہی گھرانہ اپنے داماد اور اس کے خاندان کی بد خوئیوں کا ہر جگہ اشتہار لگا رہا ہوتا ہے کہ ہماری بیٹی کو قید میں رکھا ہوا ہے۔
وارث صاحب !!!!!
کھلاُ تضاد۔۔۔۔میں ایک ایسے خاندان کو جانتی ہوں جو دن رات اپنی بیٹیوں کی سسرالوں کی شان مین قصیدے پڑھتے ہیں کہ بڑے ظالم لوگ ہیں البتہ داماد بہت تابعدار ہیں،اسکی وجہ انکی بیٹی کی اچھائی ہے۔اور بہوؤں کہ لیے وہی بات اوڑھنا بچھو نا آنا جانا ،یہاں تک کہ سانس لینا سسرال کی مرضی پھر اگر انیس بیس ہو تو بہوئیں نافرمان ،بس اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے ان لوگوں کے حق میں ہم صرف دعا کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب !!!!!
کھلاُ تضاد۔۔۔۔میں ایک ایسے خاندان کو جانتی ہوں جو دن رات اپنی بیٹیوں کی سسرالوں کی شان مین قصیدے پڑھتے ہیں کہ بڑے ظالم لوگ ہیں البتہ داماد بہت تابعدار ہیں،اسکی وجہ انکی بیٹی کی اچھائی ہے۔اور بہوؤں کہ لیے وہی بات اوڑھنا بچھو نا آنا جانا ،یہاں تک کہ سانس لینا سسرال کی مرضی پھر اگر انیس بیس ہو تو بہوئیں نافرمان ،بس اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے ان لوگوں کے حق میں ہم صرف دعا کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
تعلیم، اچھی تربیت اور شعور اس کا حل ہے، اللہ کرم کرے۔ :)
 

ثمین زارا

محفلین
ثمین زارا !!!!
ٹھیک کہا آپ نے یہ دو طرفہ تعلقات ہیں ۔ ٹائر دونوں برابر ہونا چاہیے۔
اصل مسلۂ شروع ہی ہوتا ہے اس بات سے کہ ہماری زندگی کے رنگ ڈھنگ کھلا تضاد ہیں ۔جیسا کہ وارث صاحب نے لطیفہ سنایا ہے پر ہے یہ حقیقت کہ ہمارے خیالات اپنی بیٹیو ں کے بارے میں مختلف ہیں اور بہوؤں بارے میں اور اگر بیٹا خیال کرتا ہے تو برا اور بہو ظالم ،اور اگر داماد ، بیٹی کا خیال کرے تو واہ واہ ۔ داماد کی تعارف کے پل باندھے جاتے ہیں ۔سب سے پہلے اس تضاد کو ختم کرنا پڑے گا ۔
لیکن میں نے ایسے گھرانے بھی دیکھے ہیں جہاں بہوؤں کی بہت قدر ہوتی ہے ۔ مگر افسوسناک صورت حال ہے کہ یہ تعداد آٹے میں نمک کہ برابر ہے۔:crying3::crying3::crying3::crying3::crying3:
کتنی اچھی سوچ ہے آپ کی متوازن ۔ ۔ صحیح کہا آٹے میں نمک کے برابر ۔ ۔ شکر ہے آپ کی سوچ پڑھے لکھوں والی ہے ۔ ۔ :)
 
Top