توصیف امین
محفلین
مثنوی پس چہ باد کرد ای اقوام شرق (پس کیا کیا جائے اے اقوام شرق ) علامہ صاحب کے فارسی کلام میں حجم کے لحاظ سے سب سے چھوٹی کتاب ہے۔ اس میں علامہ صاحب نے اقوام مشرق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کے حالات میں جو امت مسلمہ کو مسائل ہیں انکا حل کیا ہو سکتا ہے۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو ۷۰ سال گزرنے کے باوجود وہ مسائل ویسے ہی ہیں بلکہ یہ کہنا کہ انکی سنگینی میں اضافہ ہو چکا ہے بھی بیجا نہ ہو گا۔ ایسے میں اس کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ میری کوشش ہو گی کہ اس تھریڈ میں اس مثنوی کو ترجمے کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ علامہ صاحب نے مشرقیوں کو کس طریق پر چلنے کا کہا ہے اور اس سے کیا نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ۔
اس سلسلے کا آغاز اس کتاب کا ابتدائیہ سے کرتے ہیں جس میں علامہ صاحب نے کتاب پڑھنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے عقل و عشق کا موازنہ کیا ہے ۔ اور یہ واضح کیا ہے کہ عقل ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات ایسے مسائل کو جنم دیتی ہے جنکا حل صرف عشق کے ہاں ممکن ہے
پس چہ بائد کرد ای اقوامِ شرق
بخوانندۂ کتاب
سپاہ تازہ برانگیزم از ولایت عشق
کہ در حرم خطری از بغاوت خرد است
زمانہ ہیچ نداند حقیقت او را
جنون قباست کہ موزون بقامت خرد است
بہ آن مقام رسیدم چو در برش کردم
طواف بام و در من سعادت خرد است
گمان مبر کہ خرد را حساب و میزان نیست
نگاہ بندۂ مؤمن قیامت خرد است
---------------
ترجمہ
کتاب پڑھنے والوں سے
میں مملکت عشق سے تازہ سپاہ لے کر اٹھا ہوں
کیونکہ حرم کو عقل کی سرکشی سے خطرہ لاحق ہوگیا ہے
زمانہ اسکی حقیقت کو بالکل نہیں جانتا
جنون کا لباس ہی عقل کی قامت پر موزوں آتا ہے
میں اپنی فکر کو ہم آہنگ کر لینے سے اس مقام تک پر پہنچ گیا ہوں
کہ عقل مرے بام و در کے طواف کرنے کو سعادت سمجھتی ہے
یہ گماں نہ کر کہ عقل کےلئے حساب و میزان نہیں
مومن کی اک نگاہ ہی عقل کی قیامت ہے
-----------------------
اگر غور سے دیکھا جائے تو ۷۰ سال گزرنے کے باوجود وہ مسائل ویسے ہی ہیں بلکہ یہ کہنا کہ انکی سنگینی میں اضافہ ہو چکا ہے بھی بیجا نہ ہو گا۔ ایسے میں اس کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ میری کوشش ہو گی کہ اس تھریڈ میں اس مثنوی کو ترجمے کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ علامہ صاحب نے مشرقیوں کو کس طریق پر چلنے کا کہا ہے اور اس سے کیا نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ۔
اس سلسلے کا آغاز اس کتاب کا ابتدائیہ سے کرتے ہیں جس میں علامہ صاحب نے کتاب پڑھنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے عقل و عشق کا موازنہ کیا ہے ۔ اور یہ واضح کیا ہے کہ عقل ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات ایسے مسائل کو جنم دیتی ہے جنکا حل صرف عشق کے ہاں ممکن ہے
پس چہ بائد کرد ای اقوامِ شرق
بخوانندۂ کتاب
سپاہ تازہ برانگیزم از ولایت عشق
کہ در حرم خطری از بغاوت خرد است
زمانہ ہیچ نداند حقیقت او را
جنون قباست کہ موزون بقامت خرد است
بہ آن مقام رسیدم چو در برش کردم
طواف بام و در من سعادت خرد است
گمان مبر کہ خرد را حساب و میزان نیست
نگاہ بندۂ مؤمن قیامت خرد است
---------------
ترجمہ
کتاب پڑھنے والوں سے
میں مملکت عشق سے تازہ سپاہ لے کر اٹھا ہوں
کیونکہ حرم کو عقل کی سرکشی سے خطرہ لاحق ہوگیا ہے
زمانہ اسکی حقیقت کو بالکل نہیں جانتا
جنون کا لباس ہی عقل کی قامت پر موزوں آتا ہے
میں اپنی فکر کو ہم آہنگ کر لینے سے اس مقام تک پر پہنچ گیا ہوں
کہ عقل مرے بام و در کے طواف کرنے کو سعادت سمجھتی ہے
یہ گماں نہ کر کہ عقل کےلئے حساب و میزان نہیں
مومن کی اک نگاہ ہی عقل کی قیامت ہے
-----------------------