مثنوی گلشن راز از شیخ محمود شبستری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بمعہ ترجمہ و تشریح

السلام علیکم!
قریبا آٹھ مہینے پہلے ہمارے ایک دوست غلام سرور شباب ساکن حویلی لکھا اوکاڑہ نے اپنے رسالے یا کتاب میں چھاپنے کے لیئے ہم کو گلشن راز کا ترجمہ اور تشریح کرنے کو کہا تو بندہ نے حامی بھر لی لیکن یہ ایک بہت مشکل کام ثابت ہوا کیوں کہ ترجمہ تو آسان تھا لیکن تشریح ازحد مشکل اوردقیق ۔۔۔۔۔پس مقدمہ تک کام نمٹا کر اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا۔
چونکہ یہ کتاب metaphysics پر مبنی ہے اور بدقسمتی سے اردو محفل میں اس کا کوئی مناسب زمرہ نہیں ہے لہٰذا اس کو متفرقات میں پیش کیا جاتا ہے۔پڑھیے اور سر دھنیئے اور اگر سمجھ شریف میں بات آجائے تو روحانی بابا کو دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
پیش کردہ مواد میں ہر آپ کو مختلف الوان نظر آئیں گے ہر رنگ کا ایک خاص اشارہ ہے جو کہ درج ذیل ہے:
اشعار کا سرخ رنگ ہے اور تشریح میں رنگ احمری شعر کی طرف دال ہے۔
الفاظ کے مطالب کا نیلا رنگ ہے۔
کلام اللہ کا گلابی رنگ ہے۔
حدیث شریف صلی اللہ علیہ وسلم کا سلیٹی رنگ ہے۔
 
حضرت محمود شبستری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ المقلب بہ سعد الدین بن عبدالکریم المعروف بہ امین الدین کی ولادت باسعادت ۶۸۷ہجری بمطابق 1288؁ء بمطابق شبستر نامی گاؤں میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے شبستری کہلائے ۔شبستر تبریز شہر سے آٹھ فرسخ کے فاصلہ پر واقع ہے جو کہ مؤجودہ ملک آذربائی جان مشرقی حصہ ہے۔
شیخ محمود شبستری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مشہور زمانہ کلام جو کہ مثنوی گلشن راز کے نام سے مشہور ہے جو شوال المکرم۷۱۷ہجری بمطابق 1311؁ء میں نظم کیا گیا اس علم و عرفان بھری عظیم مثنوی کی تخلیق کا سہرا رخ الدین امیر حسین ہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سَر جاتا ہے جو کہ بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلفیہ تھے آپ نے ایک معنویت بھرا خط جس میں 17 سوالات مندرج تھے بصورت اشعار تبریز کے ارباب معنی کی طرف بھیجا۔قاصد نے یہ خط بھری محفل میں بلند آواز میں پڑھا اورجس کا جواب اشعار کی صورت طلب کیا گیا تھا ۔جب قاصد سوالات پڑھ چکا تو محفل میں سناٹا چھا گیا پس محفل میں مؤجودمحمود شبستری کے ہادی و مرشد د شیخ یعقوب تبریزی نے شیخ محمودشبستری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو حکم دیاکہ ان کا جواب دو تاکہ اہل علم نفع حاصل کریں۔
علم و عرفان بھری یہ مثنوی 997اشعار سے مزین ہے ۔گلشن راز کی عظمت اور بلند معانی سے متاثر ہو شیخ اقبال لاہوری نے زبور عجم میں گلشن راز جدید کے نام سے اپنے خیالات اور افکارکو تحریر کیا۔
شیخ محمود شبستری رحمۃ اللہ علیہ نے سخن اور منثور دونوں صورتوں میں اپنے افکار و خیالات سپرد قلم فرمائے ہیں ان منظوم اور نثری کتب کے نام مندرجہ ذیل ہیں
مثنوی گلشن راز = منظوم
مثنوی سعادت نامہ = منظوم
مثنوی کنز الحقائق = منظوم
کتاب حق الیقین فی معرفۃ رب العالمین = منثور
کتاب مرات المحققین = منثور
سعادت نامہ: یہ عرفانی مثنوی آٹھ ابواب اور تقریبا تین ہزار اشعار سے مزین ہے ہرباب چند فصول پر مشتمل ہے۔سعادت نامہ کا پہلا شعر تبرکا ً پیش خدمت ہے۔ ؎
حمد و فضل خدائے عزوجل
ھست بر بندہ واجب از اول
آن کریمی کہ داد روز نخست
اعتقاد صحیح و راے درست
کنز الحائق: پہلا شعر تبرکا ً پیش خدمت ہے۔ ؎
بنام آن کے اول کرد و آخر
بنام آن کہ باطن کرد و ظاہر
درمیان میں فرماتے ہیں ؎
برو جان پدر بشنو ز محمود
کزینش جز حقیقت نیست مقصود
حق الیقین: کتاب کا آغاز اسطرح ہوتا ہے ؎
اے پیدا تر از ھر پیدائی
و ے آشکارا تر از ہر ہویدائی
پیدائی تو با پنھانی سازگار
و پنھانی تو چون پیدائی آشکار
نہ پیدائی تو از پنھانی درمیان
ونہ پنھانی تو از پیدائی برکران
شیخ محمود شبستری نے اس کتاب میں رب العالمین کی معرفت کو حق الیقین کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور ہر پانچویں یا چھٹی سطر میں نص سے مَس ہے۔چنانچہ وہ اس کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں۔
’ اے جان عزیز این کتاب مسمی است بہ حق الیقین فی معرفۃ رب العالمین کہ حضرت عزت از خزانۂِ غیب بہ این ضعیف مسکین کرامت فرمود ہ، مشتمل است برھشت باب بازاء ابواب بھشت و ہر بابے از آن مشتمل بر حقائق و دقائق ولطائف و ترتیب باب ھا این است۔باب اول در ظہور ذاتی حق مبارک و تعالیٰ و تقدس و بیان مقام معرفت ،باب دوم در ظہور صفاتی او تعالی و بیان مقام علم او، باب سوم در مظاہر و مراتب آن و بیان مبدائ،باب چہارم دروجوب وحدت واجب تعالی،باب پنجم درممکن الوجود و کثرت،باب ششم درتعین حرکت وتجدد تعینات ،باب ھفتم در حکمت تکلیف و جبر و قدر و سلوک‘‘
ترجمہ: ’’ اے عزیز ازجان میری یہ کتاب حق الیقین جو کہ رب العالمین کی معرفت سے متعلق ہے ۔اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے خزانۂِ غیب سے مجھ ضعیف و مسکین کو اس اعزازسے معزز کیا۔یہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب لطیف حقائق سے مرتب ہے ۔ابواب کی ترتیب کچھ اسطرح سے ہے:
باب اول: در ظہور ذاتی حق مبارک و تعالیٰ و تقدس و بیان مقام معرفت(اللہ تبارک تعالیٰ کی تقدیس ،مقام معرفت اور ذات کی مظہریت کا بیان)
باب دوم: اللہ تبارک تعالیٰ کے علم اورصفات کی مظہریت کا بیان
باب سوم: ذات باری تعالیٰ کے مظاہر و مراتب اور مبداء کا بیان
باب چہارم: وجوب وحدت واجب تعالیٰ کا بیان
باب پنجم: ممکن الوجود اور کثرت کا بیان
باب ششم: تعین حرکت اور تجدد تعینان کا بیان
باب ہفتم: جبر و قدر و قضاء کا بیان
مرآت المحققین: یہ رسالہ سات ابواب پر مشتمل ہے۔
باب اول: دربیان نفس طبیعی و نباتی و حیوانی و انسانی و قوتھائے ایشان و خادمان ایشان۔
باب دوم: درصورت مؤجودات
باب سوم: دربیان واجب و ممکن و ممتنع
باب چہارم: حکمت در آفرینش چیست
باب پنجم: دربیان مبداء و معاد
باب ششم: در برابر کردن آفاق و انفس یعنی برابر کردن آدمی با عالم
باب ہفتم: درتطبیق آفاق وانفس
شیخ محمود شبستری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا وصال 1320ء ء میں ہوا اور آپ کا مزار شریف بمقام شبستر مرجع خلائق ہے۔
 
مقدمہ
بنامِ آن کے جان را فکرت آموخت
چراغِ دل بہ نورِ جان بر افروخت
جمہ:اس کے نام جس نے جان کو فکر کرنا سکھائی اور چراغ دل کو اس سے روشنائی دی۔
تشریح: تمام اربابِ عمل اور ادیان کا حاصل اور مقصد اللہ تبارک تعالیٰ کی معرفت ہے اور اس کا حصول علماء کو دلیل اور خواص کو کشف کے ساتھ منسوب ہے اورہر دو حضرات کے ہاں معرفتِ فکر کے نام سے مؤسوم ہے (یعنی ظاہر سے باطن کی طرف جانا) جیسا کہ حدیث شریف ﷺ کے الفاظ ہیں کہ من عرفہ نفسہ فقد عرف ربہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا(جان سے مراد روح انسانی ہے اور معلم سے مراد اللہ تبارک تعالیٰ ہے)۔یعنی یہ معرفت ظاہر سے باطن میں بدن انسانی اور روحِ انسانی کا ایک سرّعظیم ہے یہی معرفت جو کہ فکر صحیح کا نتیجہ ہے جو کہ معانی کا ادراک کرنے والا اور علوم کو کھولنے والا ہے اسی لیئے اس طرف بنام آن کہ اشارہ کیا اور اسماء الحسنیٰ کے ساتھ صراحت نہ فرمائی کیونکہ انسان کی انسانیت قلب کے ساتھ ہی منسلک و ملحق ہے چونکہ دل علمی تفصیل اور روح کے کمالات کا محل اور ظہورات اسماء اور ذاتی شیونات کے تقلب کا مظہر ہے اسی لیئے فرمایا کہ دل کے چراغ کو جان کے نور سے روشن فرمایا ہے کیونکہ دل روح اور بدن انسانی کے درمیان واسطہ ہے اور ہر برزخ کے کمالات دل میں ظاہر ہیں کیونکہ سارا فیض اور روحانی کمالات اسی روح کے ذریعے دل میں ظہور پاتے ہیں تو چراغِ دل بنور جان اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ دل روح سے فیض حاصل کرتا ہے اور دل کو چراغ کے ساتھ اس لیئے تشبیہہ دی گئی ہے کہ اندھیرے میں اشیاء کو دیکھنا اور ان کی ماہیت کو سمجھنا چراغ کے نور سے ہی ممکن ہے بعینہٖ کثرت کی ظلمت میں وحدت حقیقی کے جمال کو دیکھنا مصفادل کے ساتھ ہی ممکن ہے اور نور کو جان کے ساتھ اس لیئے منسوب کیا کہ تجرد کی صفائی کے ساتھ روشن اور تعلق کی کدورت سے خالی ہے بے شک نشائِ انسان کامل اول الفکر اور آخر العمل ہے تو پہلے اسے اس نعمت کے ساتھ منعم کیا جو انسان کو ہی خاص ہے پھر اس نعمت کو یاد کیا جو عالم اور آدم کو شامل ہے تاکہ آدم کی خصوصیت اور اس کا عالم پر تقدم ذاتی معلوم ہوجائے کرمنا یا بنی آدم کی آیت اس پر دال ہے ؎
فضلش ہر دو عالم گشت روشن
زفیضش خاکِ آدم گشت گلشن
ترجمہ: اسکے فضل سے دو عالم روشن ہوئے اور اسی کے فیض سے خاکِ آدم گلشن ہوئی۔
تشریح: تجلی کا ظہور دو اقسام پر منقسم ہے یعنی تجلی خاص اور تجلی عام۔تجلیٔ عام کو تجلیٔ رحمانی اور رحمتِ اِمْتِنَانی( احسان کرنا)بھی کہتے ہیں کیونکہ افاضۂِ (بہاؤ)وجود کے کمالات جو تمام مؤجودات کے لیئے بغیر کسی عمل سا بقہ کے ہے اسی کے تابع ہے ( حضوراکرم ﷺ نے فرمایا ۔ ’ ’ اللہ تبارک تعالیٰ نے ایک کتاب لکھ کر عرش پر رکھی جس میں لکھا ہے میری رحمت میرے عذاب پر سبقت لے گئی ہے‘ ‘)پس فضل تجلی رحمانی سے متعلق ہے جس سے عالم غیب اور عالم شہادت کو انوار وجود سے روشن فرمایا ۔
تجلیِٔ خاص کو تجلیِٔ رحیمی اس لیئے کہتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالیٰ معنوی کمالات کا فیضان مومنوں ،صدیقین اور صاحبِ دل لوگوں پر فرماتا ہے اس کی تعبیر فیض کے لفظ سے کی کیونکہ کافر مؤمن سے اور گناہگار پرہیز گار سے اور ناقص کامل سے تجلیِٔ رحیمی کے تجلیٰ میں ممتاز ہوئے پس یہ فیضِ خاص ہے جس سے انسانی طینیت(مٹی) کو گلشن بنایا اورمعارف و تعینات کے ہزاروں پھول اس گلشن میں اگائے جب ذاتی و اسمائی
کمال کا ظہور اُس قدیر اور کامل ارادے والے کی قدرت کے ساتھ واقع ہے تو فرمایا۔
توانائے کہ در یک طرفۃ العین
زکاف و نون پدید آورد کونین
ترجمہ: اتنی قدرت والا ہے کہ پلک جھپکنے میں کُن کہہ کر کونین کو پیدا فرمایا۔بَدِیْعُ السَّمَوٰاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُونُ۔(البقرۃ:117)(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔
تشریح: یعنی ایسا صاحب قدرت کہ ایک طرفہ نظرجمالی کے ساتھ جو ذاتی قدرت سے متعلق ہے چشم زدن میں کاف اور نون یعنی کن کہہ کر جو صورت ارادہ کلیہ کی ہے
 
اس سے جمیع موجوداتِ غیب اور شہادت کے اعیان ثابتہ جن کو صورِ علمیہ حق اور تجلی ثانی اور تجلی واحدیت و الٰہیت بھی کہتے ہیں جس میں اعیان ثابتہ تفصیل کے ساتھ واضح ہوئے اور یہ مرتبہ اسماء اور صفات کا بہ نسبت مرتبۂِ احدیت ذات کے تنزل پر ہے۔یعنی جب ذاتِ احدیت نے تعین اول کا اقتضا کیا جو وجوب اور امکان میں برزخِ جامع ہے تو احدیت بہ اعتبار ان شیونِ اسمائی کے مرتبۂِ احدیت اور الٰہیت میں نازل ہوئی ( اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنی ذات اور اپنی صفات اور تمام مؤجودات کو بعض کو بعض سے امتیاز کئے بغیر اِجمالی (تفصیل کی ضد)طور پر جان لینا ہے ۔اور تصوفانہ اصطلاح میں دوسرے مرتبہ کو جمع الجمع ،علم مجمل ،علم ذاتی کہتے ہیں ۔اسی مرتبہ میں ذات نے اپنے آپ کو اناسے تعبیر فرمایا ہے )تعینِ اول کو عقلِ کل ،قلم،روح اعظم ، امُّ الکتاب اور حقیقتِ محمدی ﷺ کہتے ہیںاور تمام اشیاء غیب اور شہادت کے اعیان اس تعین کی صورت میں اول سبیل، اِجمال کے ساتھ حق تعالیٰ کے علم میں ثابت ہوئے اور تجلیِٔ نفس رحمانی جو صورتِ ممکنات میں حقیقت کے ظہور کرنے سے عبارت ہے اور افاضۂِ وجود کا جمیع مؤجودات پر اسی تجلی سے ہے پس اول مرتبہ جو اس فیض کے اہل ہوا وہ تعینِ اول یعنی حقیقتِ محمدی ﷺ ہے اسی لیئے فرماتے ہیں ۔
چوں قافِ قدرت اش دم بر قلم زد
ہزاراں نقش بَر لوحِ عدم زد
ترجمہ: جب اس کے قافِ قدرت نے قلم پر دم مار تو ہزاروں نقش عدم سے مؤجود کی تختی(لوح محفوظ) پر منقش ہوئے۔
تشریح: یعنی جب ارداۂِ الٰہی اور قدرت لامتناہی نے نفسِ رحمانی کے ساتھ تعین اول کو جس کی عبارت قلم ہے مؤجود کیا تو قلم نے اعیانِ غیر متناہیۂِ(حدِ شمار سے باہر )خواہ روحانی خواہ جسمانی کو اس کی وسعت عظیم کے باؤجود عدم کی تختی پر جس کو بہ نسبتِ وجود خارجی کے اعیانِ ثابتہ اور عدم اضافی کہتے ہیں قلم بند کیا ۔قافِ قدرت اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ اول مقدور جس کے ساتھ قدرت متعلق ہوئی وہ تعین اول یعنی قلم ہے جب قلم کو اشارۂِ رشح ہوا تُو اس نے نورِ رحمانی کے ساتھ اعیان کا اظہار علم میں کیا اور صورت علمیہ کی تحقیق وجودِ خارجی کے ساتھ نفس رحمانی کی اقتضاکیساتھ ہی ہوسکتی ہے اسی لیئے آگے فرماتے ہیں۔
ز آں دم گشت پیدا ہر دو عالم
وزآں دم شد ہویدا جانِ آدم
ترجمہ: اسی دم سے دو عالم پیدا ہوئے اوراسی دم سے آدم ظاہر ہوئے۔
تشریح: نفس رحمانی احکام صورت معانی یعنی اعیان ثابتہ کے مطابق افاضہ، وجود اضافی کا کرتا ہے جس سے اعیانِ ثابتہ علم سے عین میں تجلیِٔ شہودی پاتے ہیں یعنی غیب سے جو احکامات شہادت میں ظاہر ہوتے ہیں اور حق تعالیٰ کے اس ظہور کو جو صورتِ مظاہر میں واقع ہے نفس رحمانی اس واسطے کہتے ہیں کہ یہ نفس انسانی کے مشابہہ ہے جیسا کہ نفس انسانی حقیقت میں صرف ایک ہے لیکن جب مخارج حروف میں واقع ہوتا ہے تو اس سے حروف پیدا ہوتے ہیں اور صورتِ حروف کے لباس سے متلبس ہوتا ہے۔جیسا کہ عدد ایک صرف ایک واحد ہے لیکن جہاں تک گنتی موجود ہے عدد ایک ان سب میں جاری و ساری ہے۔اسی طرح ذاتِ احدیت جو کثرت سے تنزیہہ میں مؤجود ہے اور جب ذاتِ احدیت مظاہرِ امکانیہ کے مراتب میں تجلی کرتی ہے تو حسب مراتب اسماء اور صفات کے لباس کثرت میں متلبس ہوتی ہے چونکہ آدم کو جامعیت مراتب کی جہت سے جملہ عالمین پر خصوصیت حاصل ہے تواس کا ذکر جان کے ساتھ مخصوص ہوااور آدم کی حقیقت جو واجب اور امکانی کمالات کے لیئے جامع ہے وہ بھی اس تجلیِٔ رحمانی کے ساتھ ظاہر ہوئی۔چونکہ ذات اور جمیع اسماء وصفات کے لیئے آدم آئینہ کی مثال ہے نتیجتًا ہر آئینہ عقل اور تمیز جو معرفت کاملہ کے لیئے لازم ہیں آدم کی ذات میں ظاہر ہوئے اس لیئے فرماتے ہیں ؎
در آدم شد پدید ایں عقل و تمیز
کہ تادانست زآں اصلِ ہمہ چیز
ترجمہ: آدم میں عقل اور تمیز کا ادراک ہونا تمام اشیاء کی دانائی کا سبب بنا
تشریح: بلاشک وشبہ آدم کی یجاد سے پیدا کرنے والے کی معرفت مطلوب ہے اور یہ معرفت دو طرائق پر مشتمل ہے ایک طریقہ استدلال کا ہے جو کہ علماء سے متعلق ہے دوسرا کشف کا جو کہ عارفین سے مخصوص ہے اور یہ معرفتِ کشفی شہودی اس وقت تک درجہ شہود میں شہادت نہیں پاتی جب تک کہ صفائی قالبی (یعنی فرض نمازوں کے علاوہ نوافل اورحسنات کی کی کثرت )صفائی نفسی ،صفائی روحی اور صفائی قلب کہ قلب مثل آئینہ صیقل ہوجائے اور قلب کا صیقل ہونا مجاہدہ اور ریاضت پر مؤقوف ہے
 
پس عبد کا ذکر اللہ کے ذکر کا مسبب ہوا تاکہ حق الیقین کے ساتھ معلوم ہوجائے کہ ایجاد آدم کی غرض و غایت ہی معرفت شہودی ہے نہ کہ استدلال کا طریقہ ۔اسماء اور صفات کے اظہاراور ان میں مراتب کلیہ کا ظہور اور مظاہر جزویہ کی ایجاد میں اللہ تبارک تعالیٰ کی یہ حکمت بالغہ کارفرما ہے کہ انسان ان کا عرفان حاصل کرے اورہر ایک اسم کے جس جس مرتبہ کے وہ اسماء پالنہار اور مدبر ہیں کمال تمامی کے ساتھ ظہور پائیں۔(جیسا کہ ناچیز پر یہ کشف ہوا کہ سرخ کھمبی اسم اول،فیروزہ اسم قیوم اور یاقوت سرخ اسم فتاح اور سلاجیت اسم ظاہر کی روشنیوں یا مراتب کے تحت ہے) یعنی تمام کمالات جو جمع مجمل کے مرتبہ میں ہیں تفریق کے ساتھ ظاہر ہوں (وحدت کثرت میں)اور یہ بھی طے ہے کہ جس کو کسی علم اور صفت سے نصیبہ نہ ہو تو وہ اس بات کا کیسے ادراک کرسکتا ہے کہ دوسرا اس صفت سے متصف ہے جیسا کہ قرآن میں مذکور ہے اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَ حْیَیْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا۔ (الانعام۔۱۲۲)( انسان چلتا پھرتا مردہ ہے جسے اللہ اپنے نور سے زندہ کردیتا ہے اور یہ اسی نور سے لوگوں میں چلتا پھرتا ہے دوسرے لوگ جن میں یہ صلاحیت نہیںاس کے برابر ہوسکتے ہیں؟۔)جیسا کہ حضوراکرم ﷺ کا فرمان عالیشان کہ مؤمن کی فراست سے ڈرکیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے جیسے کہ خلیفۂِ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ کہ ایک شخص آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں کو شرم نہیں کہ ہماری محفل میں ایسے آتے ہیں کہ آنکھوں میں زنا کے اثرات ہوتے ہیں ۔اسی طرح ایک ولی اللہ کا واقعہ جس کو مصنف عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ ایک ولی اللہ خانہ کعبہ شریف میں بیٹھے تھے تو ایک شخص نے ان کو کہا کہ آپ ادھر فضول بیٹھے ہوئے ہیں آپ ادھر درس میں کیوں نہیں شامل ہوجاتے تو ولی اللہ نے کہا کہ اگر آپ کو اس حقیقت کا ادراک ہوتا تو آپ مجھے یہ تلقین نہ کرتے تو جب اس شخص نے استفسار کیا تو ولی اللہ نے کہا کہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ تم خضر ہو لیکن آپ کو یہ نہیں معلوم کہ ہم کون ہیں۔(اَوْلِیَائِی تَحْتَ قَبَائِیْ لَا یَعْرِ فُھُمْ غَیْرِیْ۔میرے دوست میری قبا کے نیچے ہیں کوئی غیر ان کو نہیں پہچان سکتا ۔ حدیث قدسی )۔
مؤجودات جو کہ مظاہرِ حق ہیںاور ہر ایک موجود کسی نہ کسی اسم کا مظہر ہے جیسا کہ فرشتوں نے کہا وَنَحْنُ نُسَبِّعُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ(بقرۃ۔۳۰) ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں ،حمد کرتے ہیں اور تقدیس کرتے ہیں اور ابلیس کا قول فَبِعِزَتِکَ لَاُغْویَنھُم اجمعین۔مجھے تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کروں گا ۔یعنی تمام صفات اور اسماء کا مظہر انسان کے سوا اور کوئی نہیں ہے اسی لیئے عبادت اور معرفت لازم ہے اسی لیئے فرمایا کہ در آدم شد پدید ایں عقل و تمیز کیونکہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے تمام اسماء و صفات کا مظہر ہے اسی لیئے عقل و دانش جو کہ مرتبۂِ جامعیت کے لیئے لازمی ہیں انسان میں ظاہر ہوئیںاور انسان اپنے رب کا جمیع اسماء کے ساتھ عارف ہواجیسا کہ تمام اسماء اسم کلی یعنی اللہ کے تحت آتے ہیں اسی طرح تمام جزویات کلیات کے تحت میں آتے ہیں حاصل کلام یہ ہوا کہ اہل تفرقات کے مقامات سے اہل جمع کا مقام بہتر ہے ۔
انسان تمام عوالم میں منتخب شدہ ہے اور کلیات و جزیات کے حقائق اس کے وجود کی صورت میں مجتمع رہتے ہیں اور نصف عروجی کی سیر یعنی سیر الی اللہ کا مبداء ہے اسی لیئے فرمایا
چوں خود را دید یک شخص معین
تفکر کردتا خود چیستم من
ترجمہ: جب خود کو ایک شخصِ معین دیکھا توفکر لاحق ہوئی کہ میری اصل کیا ہے۔
تشریح : ایک ہی حقیقت کی وجہ سے اعیانِ مؤجودہ کے ہر عین کے لیئے دو اعتبار ہیں جس معنی کو مظاہر ممکنات کی صورت میں حقِ تعالیٰ کے ظہور سے عبارت کرتے ہیں اس کو تجلیِّ شہودی کے نام سے مؤسوم کرتے ہیں جیسے وَمَا عِنْدَ اللہِ بَاقٍ (جواللہ کے پاس ہے وہ باقی رہتا ہے)اور جس اعتبار کی رو سے اشیاء کو خلق اور ممکن کہتے ہیں اور تمام نقائص کو مؤجودات ممکنہ کے ساتھ تعین اور تشخص کی حیثیت سے عنوان
کرتے ہیں جیسے وَمَا عِنْدَکُم یَنْفَدُ (جوتمہارے پاس ہے ختم ہوجائے گا)۔
تعینِ اشیاء کا جو امرِ اعتباری ہے، اُس ذاتِ جمیل کا ستّرِجمال ہے جس کے جمال کا مظاہرہ مؤجودات کے آئینوں میں دکھلایا ہے ۔جب حق تعالیٰ کی ذات کثیر الصفات کا واحد اورحق ہونا معرفت ٹھری یعنی کثرت میں تنزیہہ کو تلاش کرنا تو حکمت الٰہی کا تقاضہ بھی یہ ہے کہ عارف حقیقی بھی اپنی اکیلی ذات میں کثیر الصفات اور افعال قویٰ ہو یہاں تک کہ حکم جامعیت کے ساتھ ایجاد ممکنات کی نہایتِ غایت یعنی معرفتِ کاملہ اس کو اپنے وجود سے حاصل ہو۔(من عرفہ نفسہ فقد عرف ربہ)اور عرفاء کی عبارات میں بین الوحدتین کا وحدت حقیقی اللہ تعالیٰ اور وحدت مجازی انسان سے عبارت ہے پس سب سے پہلے ادراک کرنے والی چیز اپنے تشخص کا تعین ہے جو دائرہ وجودکے نصف نزولی کے تنزلات کا نہایت اور اور سیر عروجی ورجوعی کا مرتبہ انسانیت کی ابتداء ہے پھر جب بلا حرکت معنوی یعنی تفکر کی کثرت سے وحدت کی طرف یہ سیر میسر نہیں تو فرمایا چوں خود را دید یک شخص معین یعنی ایسے تعین سے کہ تمام حقائق اور کمالات کونیہ و الٰہیہ کو مظہر اور ظاہر کے حکم اتحاد کے ساتھ اس تعین میں مندرج دیکھا توتفکر کردتا خود چیستم من تفکر کیا کہ میں کیاہوں یعنی اپنے تعین کا امکان کے ساتھ منسوب ہونا بواسطہ مشابہت کے جامعیت کی حیثیت سے واجب کی معرفت کے لیئے مقدمہ اور وسیلہ قراد دیا جیسا کہ کہا لا ان الا شیاء انما تتبین باضداھایعنی تمام اشیاء اپنی اضداد کے مظاہر ہیںپس تفکر اور سیر اور سلوک کے لفظ سے مراد مؤحدوں کی سیر کشفی عیانی مراد ہے نہ کہ استدلالی ۔کیونکہ استدلال بہ نسبت کشف کے جہل ہے اور کثرات امکانیہ کے مراتب میں احدیت کے تنزل کو جو بواسطہ اظہارِ احکام اسماء اور صفات کے ہے اور یہ سیر وصل انسان کا نقطہ اول احدیت میں ہے۔ مقید کا مطلق کی طرف اور جزوی کا کلی کی طرف۔ اس کو سیر شعوری انقباضی بھی کہتے ہیں اور حقیقت میں سیر معرفتِ کشفی اور شہودی کا مستلزم ہے اسی لیئے فرماتے ہیں۔
زجزوی سوئے کلی یک سفر کرد
و ز آن جا باز بر عالم گزر کرد
ترجمہ: جب جزو سے کل میں فانی ہوا یعنی فنا فی اللہ ہوا تو دوبارہ جہان کو واپس آیا یعنی فنا فی اللہ کے
بعد بقا باللہ ہوا۔
تشریح: جزوی سے مراد تعینِ آدم ہے جس کی تعریف تعینات اور کثرت کا خلاصہ ہے ۔کلی سے مراد واحد مطلق اور انسان کامل ہے جو کہ آدم ہے اور اس کا سفر سیر شعوری رجوعی کے ساتھ احدیت کے مقام میں واصل ہوا اس طرح کہ سیر الی اللہ انجام پذیر ہوا اور مقام اطلاقی میں فنا اور اتصال کے بعد ناقصوں کی تکمیل کے لیئے حکمت الٰہی کے تقاضے کے مطابق مقام اطلاق سے عالم کی طرف جو کہ مرتبہ تقید ہے پھر گزر کیا ا یعنی فنا فی اللہ کے بعد بقا باللہ کے ساتھ رجوع کیا اور سیرکے دوران عارف باللہ پر یہ امر روشن ہوا کہ ایک ہی حقیقت ہے جس نے کثرت اشیاء کی صورت میں تجلی اور ظہور کیا ہے اور تعینات کے ہراک تعین میں صفت خاص کے ساتھ ظاہر ہے اور کثرتِ اشیاء کی نمائش کثرت صفات کے تقاضوں کی متقاضی ہے مگر صفات کی کثرت سے احد کی ذات میں تکثر لازم نہیں آتا اسی واسطے فرمایا۔
جہاں را دید امر اعتباری
چوں واحد گشتہ دراعداد ساری
ترجمہ:جہان کو ایک اعتباری امر دیکھا جیسا کہ واحد تمام گنتی میں ساری(گھلا ملا) ہے۔
تشریح: جب سیر فنا فی اللہ میں عارف نے کثرات عالم کو وجود مطلق کے ساتھ قائم دیکھا تو اس پر یہ عرفان ہوا کہ وجودِ واحد کے سوا کوئی وجود حقیقی نہیں ہے اور کثرات کی نمائش اور کلیات اور اطلاق اور قید یہ سب اس ایک حقیقت کے اعتبارات ہیں اور غیریتِ اشیاء کی اصل بھی ایک اعتبار کے سوا کچھ نہیں ہے اور وحدت کا سریان کثرات میں جیسے واحد عددی کا سریان اعداد میں تکرار واحد کے سوا اور کچھ نہیں ہے جیسے مؤجودات امکانیہ کے مراتب جس کو عالَم کہتے ہیں یہ بھی اسمائے الٰہیہ کے ظہور کی شرائط ہیں کیونکہ جب تک مجرم کے جرم کا ظہور ہی نہ ہو تو غفور ،رؤف، رحیم،جبار اور منتقم ،قہار کے احکام کا اظہار نہیں ہوسکتا ہے
جب آدم نے کثرات مؤجودات کو حق کے ساتھ مربوط پایا اور اس کے شہود میں حق تعالیٰ کے سوا کچھ نہ رہا تو فرمایا ؎
 
جہانِ خلق و امر از یک نفس شد
کہ ہم آن دم کہ آمد باز پس شد

ترجمہ:مخلوقات اور عالم ارواح کی پیدائش ایک پھونک سے ہوئی اور جو دم آیا وہ واپس ہوگیا۔(لَہُ الْخَلْقُ وَالأَمْرَُ۔الاعراف:54) دیکھوامر اورخلق اُسی کا ہے ۔
تشریح: خلق وہ عالم ہے جو کہ مادہ اور مدت کی شرط کے ساتھ تخلیق کی گئی ہو اور امر وہ عالم ہے جو اپنے مؤجد کے ساتھ مادہ اور مدت کے بغیر مؤجود ہوپس یہ دونوں عالم ایک نفس رحمانی یعنی ایک تجلی حق سے کثرات کے آئینوں میں جلوہ گر ہوئے اسی لیئے کہا کہ جہانِ خلق و امر از یک نفس شد دم(پھونک)یعنی نفس رحمانی کا وجود عالم پر فیضان کرکے یعنی سیر نزولی کرکے تنزلات کے مراتب تک پہنچا وہ آخری مرتبۂِ انسانی ہے پھر اسی دم یعنی نفس رحمانی کا مرتبہ انسانی سے سیر رجوعی کے ساتھ اپنی اصل کو پہنچا یعنی قید اور کثرت کو چھوڑ کر تنزیہہ (مصفاہوکر)کرکے مرتبۂِ اول کو پہنچ کر مطلق ہوا اسی لیئے کہاکہ ہم آن دم کہ آمد باز پس شد
ا اس نکتہ کو مولانا روم نے کیا خوب بیان کیا ہے ؎
صورت از بے صورتی آمد بروں باز شد انا الیہ راجعوں
ترجمہ : اُس بے صورت یعنی جس کی چونی و چگونی نہ ہو کی تجلی ہوئی اور پھرمنعکس ہوکر اپنے اصل کو لوٹ گئی۔(بے حد رمزاں دسدا میرا ڈھولن ماہی)
ولے ایں جا ئے گاہ آمد شدن نیستٍ
شدن چوں بنگری خبر آمدن نیست

ترجمہ: اس جگہ پر آنا جانا نہیں ہے لیکن اس آنے جانے کی کوئی خبر نہیں ہے۔
تشریح: وجود واحدِ مطلق کے سوا کوئی وجود حقیقی نہیں ہے اور وجود ِ اشیاء سے مراد حق تعالیٰ کی تجلی ہے جو صورتِ اشیاء کے ساتھ ظاہر ہے جیسا کہ مراتب کی کثرت اعتباری امور سے ہے آمد و شد بھی اس حقیقت کے لیئے ایک امر ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ مؤجودات کے مراتب کی نسبت سے اور کچھ اشیاء کی کچھ پر فوقیت عارف کے فہم کے ادراک کے لیئے ملحوظ ہوتی ہے ورنہ وہ ذات تو ویسے ہی ہے ھوالآن کما کان( وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ پہلے تھا) ورنہ اگر یہ آمد شد حقیقی ہوتاتو ضروری تھاتو تعینات کے ضمن میں سیر نزولی جس مرتبہ سے دوسرے مرتبہ میں تنزل کرتا تومرتبہ اول بالکل منعدم ہوجاتا اور سیر عروجی میں بھی مرتبۂ انسانی سے مقام اطلاق تک سب مؤجودات منعدم ہوجاتے ۔حالانکہ اشیاء اپنی ہستی کے لیئے وہی
نمود جو رکھتی ہیں اُسی پر ہیں۔بقول اقبال ؎
ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اسکی وہی حسین ہے حقیقت زوال ہے جس کی
کیونکہ آنا اور جانا (آمد اور شد)تجلیات رحمانی کی رنگا رنگی سے عبارت و مزین ہے ۔حقیقت ِ سخن یہ ہے کہ جب جلال کا ظہور ذاتی اور تعیناتی دونوں کمالِ احد کی ذات کولازم ہیں ۔فیض رحمانی کی رنگارنگی کی سرعت اس طریقے پر ہے کہ آمد و شد کا ادراک کما حقہ نہیں ہوسکتا ہے بلکہ آنا اس کا عین جانا اور جانا اس کا عین آنا ہے اور یہ آنا جانا درحقیقت اعتباری ہے نہ کہ حقیقی۔جب دیکھا کہ شہود میں ایک ہی مشہود ہے تو فرمایا۔
باصل خویش راجع گشت اشیاء
ہمہ یک چیز شد پنہاں و پیدا

ترجمہ:جب اشیاء نے اپنی اصل کی طرف رجوع کیاتمام اشیاء چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ اپنی حقیقت کو پاگئیں۔
تشریح:چونکہ وحدت کثرت میں پوشیدہ ہے اور سب کا اصل حق ہے ۔کائنات عالم ایک مادے (Material )سے بنائی گئی ہے اور اس مادے کا نام حق ہے جو کہ اللہ تبارک تعالیٰ کی ایک صفت ہے ۔غور سے دیکھیں اللہ تبارک تعالیٰ قرآن مجید میں کیا فرمارہے ہیں (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقْ۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا حق کے ساتھ۔ پارہ۔13سورہ ابراہیم)۔آسمانوں اور زمین کو اور جو اس کے درمیان(مخلوق) ہے پیدا کیا حق کے ساتھ۔پارہ۔۱۴۔سورۃ حجر۔ ۸۵) (خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقْ۔آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا حق کے ساتھ۔پارہ۔۲۳۔سورۃزمر۔۵)(وَخَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ۔ اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا حق کے ساتھ۔پارہ۔۲۵۔سورۃجاثیہ۔۲۲)(وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَآ اِلَّا بِالْحَقْ۔ ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو اس کے درمیان(مخلوق) ہے پیدا کیا حق کے ساتھ۔پارہ۲۶۔سورۃالاحقاف۔۳) (خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقْ۔ آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا حق کے ساتھ ۔ پارہ۔۲۸۔سورۃتغابن۔۳)۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
پنہاں و پیدا یعنی باطن اور ظاہر سے مراد عالم غیب اور عالم شہادت یا عالم خلق اور امریا جسمانیت یا روحانیت ایک ہی حقیقت کے پرتو ہیں یعنی نمود غیریت کی تجلی احدیت میں جو دوئی وہمی کے دور ہونے کا ٍکا مؤجب ہے محو ہو کر خالص وحدت ظاہر ہوئی اوروحدت کا ظہور نقش کثرت کے ساتھ اور کثرت کی بازگشت وحدت کے ساتھ نفس رحمانی کے ہی آثار سے ہے تو فرمایا ؎
ؔآئن سٹائن کا قول ہے کہ توانائی کبھی ضائع نہیں ہوتی بلکہ ایک حالت سے دوسری حالت میں نمایاں ہوتی رہتی ہے۔
تعالی اللُّہ قدیمی کہ او بیک دم
کند آغاز و انجامِ دو عالم
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی قدیم ذات ایسی ہے کہ ایک دم میں عالم کا آغاز اور انجام کرتی ہے۔
تشریح: وہ قدیم ذات ایک دم، نفس رحمانی کی جہت سے (کند آغاز)ممکنات عالم کو عدم کے پردہ سے وجود میں لاتا ہے اوراسی دم میں ( انجام)یعنی نور وحدت کے ساتھ کثرت کا خاتمہ دونوں عالم سے فرماتا ہے ۔یعنی انسان اس عمل کے تسلسل کو اپنے نفس میں بھی ملاحظہ کرسکتا ہے جیسے کہ انسان کہ خلیات (کند آغاز)بنتے اور ( انجام)اختتام پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔جب یہ حقیقت آشکارہ ہوئی کہ کثرت وحدت کے اعتبارات ہیں تو فرمایا :
جہان خلق و امر این جا یکے شد
یکے بسیار و بسیار اندکے شد
ترجمہ: یہاں پر جہانِ خلق اور امر عالم شہادت اور عالم غیب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ایک بہت اور بہت ایک ہی ہیں۔
تشریح: ؑٓعالم شہادت و عالم غیب کے کثرات وحدت وجود مطلق کے مقام میں ایک ہیں اور کثرت وحدت میں ظاہر ہورہی ہے یعنی اس وہمِ باطنی کو مٹانے کے لیئے جو کہ اعیان خارجہ (وہ مظاہر جو خارج میں ظاہر ہوتے ہیں جن سے عالم شہادت مرتب ہوتا ہے) سے اشیاء کی تعداد کی صورت میں نظر آتا ہے ۔جب یہ حال دیکھا تو فرمایا ؎
ہمہ از وہم تست ایں صورت غیر
کہ نقطہ دائرہ است از سرعت سیر
ترجمہ: تمہارا یہ وہم ہے کہ صورت کو غیر سمجھ رہے ہو۔جیسا کہ روشن چنگاری دائرہ کی شکل میں متشکل ہے۔
تشریح: کسی چھوٹی سے لکڑی مثل شاخ کے ایک طرف آگ لگادیں اور اس کو تیزی سے گھمائیں تو دیکھنے والے کو وہ ایک روشن دائرہ محسوس ہوگا لیکن درحقیقت وہ روشن قوس نہیں ہوگی۔اسی طرح یہ خیال ایک وہم باطل ہے کہ صورتوں کو غیر دیکھ رہے ہیں ۔اس طرح نقطہ وحدت بھی (نقطہ دائرہ)تیز تیز گھومنے کے سبب تجدد تجلیات(کل یوم ھو فی الشان بمعہ ۹۹ اسماء)کی سرعت سے کثرت یعنی مؤجوداتِ ممکنہ کے دائرے کی صورت ملتبس ہورہا ہے ۔
جزویات کُل میں ہی مؤجود ہیں اور جو اجزاء(کثرت) نظر آرہے ہیں یہ وجود حق کے ہی ظہورات و آثار ہیں ۔تو فرمایا:
یکے خط است ز اول تا بآخر
برو خلق جہاں گشتہ مسافر
ترجمہ: ایک خط اول سے آخر تک ہے اس پر مخلوق اور جہاں مسافر ہیں
تشریح: اول مؤجودات یعنی عقل کُل سے آخر تنزلات مرتبہ انسانی تک اور مرتبہ انسانی سے مرتبۂِ الٰہیہ تک جس کے ساتھ نقطہ آخری دائرہ کا اتصال ہوتا ہے ایک دھندلا سا گول دائرہ ہے جو نقطہ وحدت کے تجدد تعینات سے دکھائی دیتا ہے اور اس دائرہ کی گولائی پر مخلوقِ عالم مسافر ہے کہ باطن سے ظہور میں آتی اور ظاہر سے بطون میں جاتی ہے۔(یعنی جس طرح دن نکلتا ہے اور رات غائب ہوجاتی ہے اور جب رات چھا جاتی ہے تو دن کو نگل جاتی ہے۔رات کے اندھیرے میں ایک گلوب کوزور سے گھمائیں اور پھر ٹارچ سے اس پر روشنی ڈالیں تو اس پر وہی حصہ آئے گا جس پر روشنی پڑھ رہی ہے )اس دائرہ میں مبداء و معاد(پیدائش اور فنا اور دوبارہ اٹھایا جانا)تقدم و تاخرجسم اور روح،عقل اور نفس حسب کمی و بیشی مناسب کے نقطۂِ وحدت کے دیکھے جا سکتے ہیں ۔لیکن اس کو بغیر رہبر کامل کے دیکھنا ممکن نہیں تو فرمایا:
دراین راہ انبیاء چوں ساربانند
دلیل و رہنمائے کاردانند
ترجمہ: انبیاء اس راہ میں ساربانوں کی مثل ہیں جو کہ اس راستے کو دلیل کی مہار سے موڑتے اور آگے بڑھتے ہیں یعنی رہنمائی کرتے ہیں۔
تشریح: اس راستے میں انبیاء چونکہ ابتداء و منتہا یعنی مبداء اور معاد دونوں سے واقف ہیں اس لیئے وہ اس قافلے کے سالار ہیں جن کو ساربان سے تشبیہہ دی گئی ہے ۔جیسا کہ انجیل میں عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے بنی اسرائیل کی بھولی بھیڑوں کو واپس اپنے ریوڑ میں ہانکنے کے لیئے بھیجا گیا ہے۔
اسی طرح پیغمبر بھی اپنی قوم کی اصلاح و نفس کی تہذیب کے لیئے بھیجا جاتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔اَفْلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ ۔غاشیہ:۱۷۔۲۰(کیایہ لوگ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ اس کی پیدائش کس طرح کی گئی ہے )اللہ تبارک تعالیٰ نے سب سے پہلے اونٹ کا ذکر اس لیے کیا کہ اونٹ ہماری کَاسِر طبیعتوں سے زیادہ قریب ہے تاکہ طالب اس سے اخلاق حسنہ حاصل کرے کیونکہ اونٹ اپنے مالک کی اطاعت کرتا ہے بوجھ اٹھاتا ہے اور مالک اس کو جو رزق دیتا ہے اس پر شکر کرتا ہے ۔اسی لیئے حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں مومنین نرم مزاج اور نرم دل ہیں جیسے سدھا ہو اونٹ جب اس کو چلائیں تو چلنے لگتا ہے اور جب کسی پتھر کے پاس اترنے کے لیے بٹھائیں تو بیٹھ جاتا ہے ۔اصطلاح صوفیہ میں راہ سلوک مکمل کرنے کے بعد سالک کو بُدُّنہ(شتر بچہ) کہا جاتا ہے اور شتربان(نبی) جس نے مخالفت ہوا کی تلوار اور موت اختیاری کے ساتھ نفس کے شتر کو ذبح کیا ہو وہی ساربانی(نبوت) کے عہدہ کو سزاوار ہے۔
واز ایشان سیدِ ما گشت سالار
ہمو اول ہمو آخردراین کار
ترجمہ: ان میں ہمارے سردار یعنی محمد ﷺ سالار قافلہ ہوئے جو کہ اول و آخر اس کام میں ہیں ۔
تشریح: انبیاء میں حضور اکرم ﷺ تمام انبیاء کے سردار ہوئے ہیں جیسا کہ معراج کے واقعہ والی شب آپ ﷺ نے انبیاء کی امامت کی ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان مثلی ومثل الانبیائ￿ من قبلی کمثل رجل بنٰی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون : ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ ؟ قال : فانا اللبنۃوانا خاتم النبیین ’’ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کرام کی مثال ایسی ہے ، جیسے کسی نے حسین و جمیل گھر بنایا ، لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ، لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے ہیں ، اور اس کی عمدگی پر اظہار حیرت کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ اینٹ کی جگہ پُر کیوں نہ کر دی گئی ؟ تو وہ اینٹ میں ہوں ، اور میں خاتم النبیین ہوں۔ ‘‘ ( صحیح بخاری : 3535 ، صحیح مسلم : 22/228 ) جیسا کہ مشکواۃ شریف کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ (کنت نبیا و آدم بین الماء و الطین)میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے مابین تھے۔
احد در میم احمد گشت ظاہر
درایں دور اول آمد عین آخر
ترجمہ: احد جب احمد کی میم میں ظاہر ہوا اوریہ دور اول عین آخر ہے
تشریح: تعینات کی طرف اشارہ ہے۔چونکہ مقام احدیت میں اسماء و صفات نہیں ہے اسی لیئے کہا کہ احد درمیم احمد گشت ظاہر۔اور میم احمد سے حقیقت ِ محمدی ﷺ کی طرف لطیف اشارہ ہے جو کہ تعینِ اول ہے۔یعنی احد کا حقیقی مظہر احمد کی ہی حقیقت ہے ۔
در ایں دور اول آمد عین آخر دور یعنی میم کی گولائی یا دائرہ کی طرف اشارہ ہے جو کہ حقیقت محمدی ﷺ کا مظہر ہے کیونکہ تمام مراتب کونیہ اسی حقیقت کے اجزاء ہیں۔یہ حال دیکھا تو فرمایا:
 
ز احمد تا احد یک میم فرق است
جہانے اندر آں یک میم غرق است
ترجمہ: احمد اور احد میں ایک میم کا فرق ہے تمام جہاں اس میم میں گم ہے۔تشریح : شیخ اقبال لاہوری کا کلام نقل کرتے چلیں​
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
تشریح: چالیس کا عدد اللہ تبارک تعالیٰ کا محبوب عدد ہے علم روحانیت میں دنیاچالیس زون میں منقسم ہے اسی لیئے دنیا میں ہرقت چالیس قطب مؤجود رہتے ہیںبہرکیف کلیت کی وجہ سے مؤجودات کے بھی چالیس مراتب ہیں ۔​
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْ اِلَی اللّٰہِ عَلٰیْ بَصِیْرَۃ ۔(الیوسف:۱۰۸)حضوراکرم ﷺ کو کہا جارہا ہے کہ اے پیارے ﷺ توحید حقیقی کا طریقہ بیان کیجیے جوکہ صراط مستقیم سے عبارت ہے ۔چونکہ حضور اکرم ﷺ اسم جامع اللہ کے مظہر ہیںاسی لیئے مخلوق کو بصیرت کے ساتھ خدا شناس بناتے ہیں۔حضوراکرمﷺ ابتدااورانتہا کی حقیقت پردرجۂِ حق الیقین کے ساتھ ممتاز ہیں اور ان ﷺ پر یہ امرروشن ہے کہ عالم میں ہر نفس کس اسم کے تحت و مربوب و مظہر ہے ۔​
ایک اسم سے اعلیٰ اسم کی طرف بلانا ہی دعوت بر بصیرت ہے یعنی اعلیٰ مقامات کی طرف لے جانا۔​
حضورِاکرم ﷺ کا ارشاد ہے انا احمد بلا میم ۔ احد اور احمد میں ایک میم کا فرق ہے پورا جہان اس میم میں غرق ہے ۔ اللہ تبار ک تعالیٰ نے حرفِ میم کو پیداکیا تو ایک نور روشن پیدا فرمایا اور ۹۰ فرشتے ، فرشتگانِ روح میں سے اسحرف کے خادم کیے ہیں(واضح ہو کہ حرف میم کے اعداد مفصولی ۹۰ ہیں )یہی وجہ ہے ہمارے آقا ﷺ کے نامِ مبارک کے شروع میں میم رکھنے کی، اور دومرتبہ رکھنے کی کیونکہ یہ نام بولنے سے ہونٹ ایک دوسرے کو چوم لیتے ہیں اورچوتھے آسمان میں شمس بھی میم سے مدد لیتا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہےحَتٰی اِ ذَا بَلَغَ اَشَدُ اَرْبَعِیْنِ سَنَۃ(احقاف۔۱۵) جب وہ اپنے کمال ۴۰ برس میں ہوتی ہے اسی طرح میم کی عددی قیمت بھی ۴۰ہے۔واضح ہو کہ میم سب سے آخری مرتبہ ہے کیونکہ صورفَفِرَ ع (گھبراہٹ)اورصَعِقَ(آسمانی بجلی کی کڑک)بعث (دوبارہ زندہ کیا جانا)کے لیئے ہےوَ نَفَخَ فِی الصُّورِ فَفِرَ عَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرض(الزمر۔۶۸) اورجب صور پھونکا جائے گا تو گھبراجائیں گے جو زمین و آسمان میں ہیں دوسری پھونکصَعِقَہکی ہوگیفَصَعِقَ مَنْ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرضیعنی کڑک میں آجائیں گے جوآسمان اور زمین میں ہیں اور تیسری پھونک بعثاور قیام کی ہوگی یعنی سب لوگ زندہ ہوجائیں گے جس کے متعلق فرمایاثُمَّ نُفِخَ فِیہِ اُخْرَ یٰ فَاِذَا قَیَامُ ٗ یَنْظُرُونَیعنی جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب کھڑے ہوئے دیکھتے ہونگے ۔نفخیعنی پھونکنا بغیر ہونٹ ملائے ممکن نہیں اسی طرح میم بھی ہونٹوں کے ملانےسے ہی نکلتا ہے بغیر ملائے نہیں نکل سکتا ہے جو شخص میم کے اسرار کو سمجھگیا اس پر آواز جرس(گھنٹا جسے درا بھی کہتے ہیں یا گھونگرو)کا راز کھلا ۔ میم کو گھونگرو سے اس لیئے تشبیہ دی گئی ہے کہ گھونگرو بھیگول ہوتا ہے اور میم بھی گول ہوتا ہے گھونگرو کے تیز بجنے سے ہول آتا ہےاور اسی طرح یہ بات میم سے بھی تعلق رکھتی ہے کیونکہ حضور ﷺ کا فرمان جوآپ ﷺ نے اسرافیل کے جسم اور بزرگی کی نسبت فرمایا کہ انہوں نے عرش کے پائےاپنے کندھے پر رکھے ہوئے ہیں او ر لوح کی طرف آنکھیں لگائے ہوئے ہیں اورصور(کہ جس کی لمبائی ۵۰۰ برس کی راہ ہے )کو انہوں نے منہ سے لگایا ہوا ہے اور دونوں پیر ان کے ساتوں زمینوں سے بھینیچے نکلے ہوئے ہیں اور عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب حکم ہو کہ میں صورپھونکوں ،اسی لیئے میم آخری مرتبہ ہے (کیونکہ باقی کچھ بھی پیچھے نہیں بچتاہے)​
بعض عارفین کو عالمِ عرش کا مکاشفہ اس طرح سے ہوا جس طرح حضرت حارثہ رضی اللہ عنہٗ کو ہوا تھا جب رسول اکرمﷺ نے دریافت کیا اے حارثہ تم نے کس حال میں صبح کی انھوں نے عرض کی یارسول اللہﷺ میں صبح کو جب اٹھا تو میں نے اپنے آپ کو مؤمن دیکھا آپ ﷺ نے فرمایا اپنے ایمان کی کیفیت بیان کرو ،عرض کی یا رسول اللہ ﷺ جب میں اٹھا تو میں نے اپنے نفس کو دنیا کے سامنے اس طرح دیکھا کہ سونا و پتھر ، زندہ و مردہ، مالدار و غریب سب برابر تھے اور عرش الٰہی میری آنکھوں کے سامنے تھا اور لوگ حساب کے لیئے جارہے تھے اور دوزخ و جنت بھی میرے سامنے تھے ۔ حضورﷺ نے فرمایا اے حارثہ تم نے پہچان لیا اس کو اپنے اوپر لازم کر لو
جو شخص میم کے اسرار کو سمجھ گیا اس پر آواز جرس کا راز کھلا(موتو قبل انتموتو) یعنی بانگِ جرس، صلصلۃ الجرس ، صوتِ سرمدی،آوازِ انہد کا راز کھلا۔یہ کیا ہے؟
اس طرح ہوتا ہے کہ ظاہری عالم سے بندے پر ایک ربودگی سی چھاجاتی ہے تاکہ وہ حقیقت قادریہ سے متحقق ہو یہ انکشافِ صفتِ قادریت عالمِ بالا سے تعلق رکھتا ہے جو ہر وقت اور ہر جگہ جاری و ساری رہتا ہے اور باطنی سماعت کے ذریعے سننے میں آتا ہے ۔روایت ہے کہ حکیم افلاطون نے حضرت موسیٰ علیہِ السلام سے کہا کہ اے بیوہ کے بیٹے کیا تم جو کہتے ہو کہ میرا پروردگار مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے حالانکہ وہ جہت سے مننزہ ہے ۔موسیٰ علیہِ السلام نے فرمایا ،ہاں میں ہوں یہ دعویٰ کرنے والا اور میں تمام جہات(اطراف) سے آواز سنتا ہوں جو انقطاع(قطع ہونے ) اور حرکتِ حروف سے مننزہ اور پاک ہے یہ سن کر افلاطون نے حضرت موسیٰ علیہْ السلام کی رسالت کا اقرار کیا اور ان پر ایمان لے آیا ۔اسی طرح جب ہمارے آقا ﷺ سے نزولِ وحی کی کیفیت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو کبھی دیگ کے جوش کی مانند ہوتی ہیں ،کبھی شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ کی طرح اور کسی وقت فرشتہ آدمی کی شکل میں متصور ہوکر مجھ سے بات کرتا ہے اور بعض اوقات گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حافظ شیرازیؔ یوں فرماتے ہیں؎
کسِ ندانست کہ منزل دلدار کجا است
ایں قدر ہست کہ بانگِ جرسے می آید

(کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ دوست کا مقام کہاں ہے بس یہی ہے کہ گھنٹی کی آواز سنتے ہیں)​
ابتدا میں گھنٹہ کی سی جھنکار کی مانند اس کو ایک آواز آنے لگتی ہے پھر بعض حقائق کے آپس میں ٹکرانے سے گھونگرو کی آواز سنتا ہے اسکے بعد کا مقام ایسا مقام ہے کہ قلب اس مقام میں جانے کی اپنے میں ہمت نہیں پاتا بسبب ہیبت کے ۔ پھر جب داخل ہو جاتا ہے تو پھر قیامت آجاتی ہے اور وہی کچھ ہوتا ہے جو منظر قیامت کا کورس کی کتابوں میں پڑھ چکے ہو ۔یہ قیامتِ صغریٰ ہے جو قیامتِ کبریٰ کی مثل ہے تاکہ مؤمن اپنے رب کی روشن دلیل اور کھلی دلیل پر ہوجائے۔
 
یکے از بحر وحدت گفت اناالحق
یکے از قرب و بُعد و سیر زورق
ترجمہ: کسی نے وحدت کے سمندر میں کود کر اناالحق کہا کسی نے قرب اور دوری اور سیر کشتی سے کہا۔
تشریح: منصور حلاج نے وحدت کے سمندرکی شناوری کے بعد اناالحق کا نعرہ مستانہ بلند کیا ۔بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا سبحانی ما اعظم شانی(میں پاک ذات ہوں اور میری شان بلند) اور ما فی جبتی الا اللہ (میرے جبے میں اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے اور اس بات کو بلھے شاہ رحمۃ اللہ
علیہ نے پنجابی میں اس طرح ادا کیا ہے)
(عارف سرمستِ الست شاہ نیاز بریلوی کو جب کثرت میں وحدت کا جلوہ نظر آیا تو پکار اٹھے)
قطرے کا دریا میں شامل ہوجانا یا مقصد حقیقی میں وصول یا صفات الٰہی کے ساتھ متصف ہونے کو قرب کہتے ہیں ۔میاں محمد بخش کھڑی شریف والے سیف الملوک میں فرماتے ہیں کہ ؎
قطرہ ونج پوے دریا وے،فیر او کون کہاوے
جس اپنا آپ وٹاوے آپ اوہو بن جاوے
اور اسی حقیقت کو فرید الدین عطار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس طرح قلم بند کیا ہے
گمانِ کج مبر ،بشنو ،زِعطارؔ
ہرآن کو، در خداگم شدہ خدائیست
( اس بات پر غلط گمان نہ کر بلکہ عطار ؔ سے سُن کہ جو کوئی خدا میں گم ہوجاتا ہے تو وہ خدا ہوجاتا ہے)۔
بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں کہ
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
رانجھا میں وچ، میں رانجھے وچ،غیر نہ آکھو کوئی
صفات بشریت و لذت نفسانی کی قید کے تقید کو جو مبداء حقیقی سے دوری اور حقیقتِ حال سے بے خبری کا
سبب ہے بُعد کہتے ہیں ۔
سیر زورق(کشتی) سے مراد وجود انسانی کے تعین کی کشتی کا امواج کثرت کی منازل سے عبور کرکے وحدت کے مقام و بندرگاہ میں پہنچنا ہے اور انسان کے تعین کی تخصیص کشتی کے ساتھ اس لیئے منطبق کی کہ توحید عیانی کے دریا کی سیر وجود انسانی کے سوا کسی دوسرے مرتبہ کو میسر نہیں ورنہ حقیقت میں تعینات صوری و معنوی کا ہر ایک تعین وحدت کے دریا میں کشتی کی ہی مانند ہے۔
مولانا روم فرماتے ہیں
آب اندر کشتی ہلاکِ کشتی است
آب زیرِ کشتی پشتی است
یکے را علم و ظاہر بود حاصل
نشانے داد از خشکی بہ ساحل
ترجمہ: ایک کہ جس کو علم ظاہر ی حاصل تھا وہ خشکی اور کنارے سے نشان دینے لگا۔
تشریح: علمائے ظاہر کہ جن کو ظاہری علوم حاصل ہوتے ہیں ان علوم کے غلبہ کی وجہ سے خشکیِٔ حال کے مقتضاء پر شریعت کے کنارے کی طرف نشان دیتے ہیں کہ سلامتی کا حصول خشکی پر ہے کیونکہ قسام ِ ازل نے ان کا مادہ ہی ایسا پیدا فرمایا ہے۔
یکے گوہر برآورد ہدف شد
یکے بگزاشت آں نزد صدف شد
ترجمہ: کسی نے موتی نکالا وہ تیر بلا کا نشانہ بنا کسی نے موتی کو چھوڑا وہ صدف کے نزدیک ہوا۔
تشریح: کچھ دریائے حقیقت کے شناورں نے اسرار کے موتیوں کو نکالا اور بغیر پردہ کے عوام الناس کے سامنے پیش کردیا وہ غواص مخلوق کے طعن و ملامت کے تیروں کا نشانہ بنے اور منصور جیسے غوطہ خور کو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے جیسے کہ بزبانِ حال کہہ رہے ہوں۔
چوں قلم بَر دستِ غدارے فتاد
لاجرم منصور بردارے فتاد
جب قلم کسی غدار(بمعنی ظاہر بین )کے ہاتھ میں آجائے تو منصور جیسے حق گو ،حق گوئی کی پاداش میں سولی چڑھ جاتے ہیں)
سے بھی ہاتھ دھونا پڑے جیسے کہ بزبانِ حال کہہ رہے ہوں۔
چوں قلم بَر دستِ غدارے فتاد
لاجرم منصور بردارے فتاد
جب قلم کسی غدار(بمعنی ظاہر بین )کے ہاتھ میں آجائے تو منصور جیسے حق گو ،حق گوئی کی پاداش میں سولی چڑھ جاتے ہیں)
یکے در جز و کل گفت ایں سخن باز
یکے کرد از قدیم و محدث آغاز
ترجمہ: کسی نے جزو و کل کو بیان کیا اور کسی نے قدیم اور جدید سے آغاز کیا۔
تشریح: اولیاء کرام جو کہ واقف حال ہیں حقیقت حال پر اطلاع پانے کے بعد اطلاق و تقیدات و ظہورات و شیونات الٰہی کے مراتب کو ہر ایک نے علیحدہ عبارت و و استعارہ سے بیان کیا۔
یکے از زلف وخال وخط بیاں کرد
شراب و شمع و شاہد بیاں کرد
ترجمہ: کسی نے زلف و تِل اورخطوط اور کسی نے شراب و شمع اور مشاہدہ کابیان کیا۔
تشریح: کثرت، وحدت کے چہرہ کو مستور کرتی ہے اس وجہ سے کثرت کو زلف اور خط کے ساتھ تشبیہہ
دی گئی ہے اور وحدت کے نقطہ کو خال (تِل)سے تشبیہہ دی تاکہ عامۃ الناس سے مخفی رہے۔
عشق و ذوق و سکر کو شراب کے ساتھ اور انوار الٰہی کے پرتو کو جو سالک کے قلب میں کئی ا طور کے ساتھ ظہور
کرتا ہے شمع کے نام سے اور جمال ذات مطلق کی تجلی کو ظہور کے لباس میں شاہد کے ساتھ ظاہر کیا ۔
یکے از ہستی خود گفت و پندار
یکے مستغرق بت گشت و زنار
ترجمہ: کسی نے اپنی ہستی اور پندار کو بیان کیا اور اس کا اقرار کیا کوئی بُت اور زُنار میں کھو گیا۔
تشریح: جن سالکین نے طریقت کی راہ کو طے کیا اور مقام حقیقت میں پہنچ کر تعین سے جانا کہ منزل مراد میں وصول بلا وسیلہ نفی اثبات کے میسر نہیں اس واسطے سالک کو پہلا سبق نفی اثبا ت یعنی لا الٰہ الا اللہ تلقین کیا جاتا ہے تاکہ کلمہ لا کے ساتھ اپنی اور اپنے سوا ہر ایک کی نفی کرکے الااللہ کے ساتھ وحدت حقیقی کا اقرار کرے۔جب سالک راہ کو ہستی اور پندار خودی کی مانند کوئی مانع نہیں اسی وجہ سے اکثر اؤلیاء پہلے حجاب مستی اور پندار خودی سے سالکوں کے ساتھ تحذیر (کنارہ کشی)فرماتے رہے اور بعض اؤلیاء نے باجود استغراق کے محض توحید میں جِس کو بُت کے نام سے اشارہ کیا خدمت و طاعت کا جنیو کمر میں میں باندھا جب تجلی الٰہی بواسطہ اختلاف استعداد اور قابلیت مادہ کے مختلف اثرات کا حامل ہے تو اس اختلاف کی وجہ سے ہر سالک الگ راہ کو چلا اور اپنی اپنی منزل سے نشان دیا۔
سخنہا چوں بہ وِفق منزل افتاد
در افہامِ خلائق مشکل افتاد
ترجمہ: جب سخن منزل کے موافق ہوئے تو فہم خلائق مشکل میں پڑگئے۔
تشریح: چونکہ ہر ولی اللہ نے اپنی اپنی مناسبت سے اپنے مقام کا پتہ دیاجیسا کہ گلشن میں ہر ایک بلبل اپنا اپنا نغمہ سناتی ہے کوئی زمزمہ گلو ہوتی ہے تو کوئی آتش دہن تو مراتب کا تفاوت اشکال کی صورت سامنے آیا اور بوجہ ناواقفیت اولیاء اللہ کے مقام کو سمجھنا مخلوق کے افہام پر مشکل پڑا ۔
کسے را کاندر ایں معنی است حیراں
ضرورت باشدش دانستنِ آں
ترجمہ: جس کو ان معنوں میں حیرانی ہو اس کو ان کا جاننا ضروری ہے۔
تشریح: اگرچہ علوم و معارف سراسر کشفی و اسراری اور مخفی ہیں اور معارف کی اصطلاحات کی واقفیت ان کے حالات کی اطلاع کا باعث نہیں ہوسکتی ہے ایک عربی ضرب المثل ہے لیس الخبر کالمعائنہ (جیسا کہ مکہ و مدینہ شریف میںزائرین کے حالات واقعات اُن کی زبانی سننا الگ بات ہے اور خود مشاہدہ اور کیفیات کو محسوس کرنا چیزے دیگری)۔لیکن بعض نفوسِ قابلہ پر ان عبارات و اشارات کی سمجھ (کشف)ان حالات کی تحصیل کا باعث بھی ہو سکتا ہے تاکہ کمالات سے بہرہ مند ہو کر اپنے ایجاد کا مقصود حاصل کرے ۔پس عارف کامل جو کلی منازل اور مقامات کا عین الیقین کے ساتھ شاہد ہوا کہ کس کس ولی نے کس کس مقام سے اپنی منزل کی خبر دی تو جس طالب قابل کو حیرت واقع ہو ۔تو عارف کامل مناسب نہیں جانتا کہ اس کو حیرت ہی میں چھوڑے اور شبہات کو رفع نہ کرے ۔اس لیئے جناب محمود شبستری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سبب نظم کتاب میں جو ان معانی کا بیان ہے فرماتے ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب ترجمہ و تشریح ۔۔۔۔
بہت شکریہ محترم روحانی بابا جی
بہت مفصل کھولا " راز مثنوی "
 
Top