ز احمد تا احد یک میم فرق است
جہانے اندر آں یک میم غرق است
ترجمہ: احمد اور احد میں ایک میم کا فرق ہے تمام جہاں اس میم میں گم ہے۔تشریح : شیخ اقبال لاہوری کا کلام نقل کرتے چلیں
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
تشریح: چالیس کا عدد اللہ تبارک تعالیٰ کا محبوب عدد ہے علم روحانیت میں دنیاچالیس زون میں منقسم ہے اسی لیئے دنیا میں ہرقت چالیس قطب مؤجود رہتے ہیںبہرکیف کلیت کی وجہ سے مؤجودات کے بھی چالیس مراتب ہیں ۔
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْ اِلَی اللّٰہِ عَلٰیْ بَصِیْرَۃ ۔(الیوسف:۱۰۸)حضوراکرم ﷺ کو کہا جارہا ہے کہ اے پیارے ﷺ توحید حقیقی کا طریقہ بیان کیجیے جوکہ صراط مستقیم سے عبارت ہے ۔چونکہ حضور اکرم ﷺ اسم جامع اللہ کے مظہر ہیںاسی لیئے مخلوق کو بصیرت کے ساتھ خدا شناس بناتے ہیں۔حضوراکرمﷺ ابتدااورانتہا کی حقیقت پردرجۂِ حق الیقین کے ساتھ ممتاز ہیں اور ان ﷺ پر یہ امرروشن ہے کہ عالم میں ہر نفس کس اسم کے تحت و مربوب و مظہر ہے ۔
ایک اسم سے اعلیٰ اسم کی طرف بلانا ہی دعوت بر بصیرت ہے یعنی اعلیٰ مقامات کی طرف لے جانا۔
حضورِاکرم ﷺ کا ارشاد ہے انا احمد بلا میم ۔ احد اور احمد میں ایک میم کا فرق ہے پورا جہان اس میم میں غرق ہے ۔ اللہ تبار ک تعالیٰ نے حرفِ میم کو پیداکیا تو ایک نور روشن پیدا فرمایا اور ۹۰ فرشتے ، فرشتگانِ روح میں سے اسحرف کے خادم کیے ہیں(واضح ہو کہ حرف میم کے اعداد مفصولی ۹۰ ہیں )یہی وجہ ہے ہمارے آقا ﷺ کے نامِ مبارک کے شروع میں میم رکھنے کی، اور دومرتبہ رکھنے کی کیونکہ یہ نام بولنے سے ہونٹ ایک دوسرے کو چوم لیتے ہیں اورچوتھے آسمان میں شمس بھی میم سے مدد لیتا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہےحَتٰی اِ ذَا بَلَغَ اَشَدُ اَرْبَعِیْنِ سَنَۃ(احقاف۔۱۵) جب وہ اپنے کمال ۴۰ برس میں ہوتی ہے اسی طرح میم کی عددی قیمت بھی ۴۰ہے۔واضح ہو کہ میم سب سے آخری مرتبہ ہے کیونکہ صورفَفِرَ ع (گھبراہٹ)اورصَعِقَ(آسمانی بجلی کی کڑک)بعث (دوبارہ زندہ کیا جانا)کے لیئے ہےوَ نَفَخَ فِی الصُّورِ فَفِرَ عَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرض(الزمر۔۶۸) اورجب صور پھونکا جائے گا تو گھبراجائیں گے جو زمین و آسمان میں ہیں دوسری پھونکصَعِقَہکی ہوگیفَصَعِقَ مَنْ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرضیعنی کڑک میں آجائیں گے جوآسمان اور زمین میں ہیں اور تیسری پھونک بعثاور قیام کی ہوگی یعنی سب لوگ زندہ ہوجائیں گے جس کے متعلق فرمایاثُمَّ نُفِخَ فِیہِ اُخْرَ یٰ فَاِذَا قَیَامُ ٗ یَنْظُرُونَیعنی جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب کھڑے ہوئے دیکھتے ہونگے ۔نفخیعنی پھونکنا بغیر ہونٹ ملائے ممکن نہیں اسی طرح میم بھی ہونٹوں کے ملانےسے ہی نکلتا ہے بغیر ملائے نہیں نکل سکتا ہے جو شخص میم کے اسرار کو سمجھگیا اس پر آواز جرس(گھنٹا جسے درا بھی کہتے ہیں یا گھونگرو)کا راز کھلا ۔ میم کو گھونگرو سے اس لیئے تشبیہ دی گئی ہے کہ گھونگرو بھیگول ہوتا ہے اور میم بھی گول ہوتا ہے گھونگرو کے تیز بجنے سے ہول آتا ہےاور اسی طرح یہ بات میم سے بھی تعلق رکھتی ہے کیونکہ حضور ﷺ کا فرمان جوآپ ﷺ نے اسرافیل کے جسم اور بزرگی کی نسبت فرمایا کہ انہوں نے عرش کے پائےاپنے کندھے پر رکھے ہوئے ہیں او ر لوح کی طرف آنکھیں لگائے ہوئے ہیں اورصور(کہ جس کی لمبائی ۵۰۰ برس کی راہ ہے )کو انہوں نے منہ سے لگایا ہوا ہے اور دونوں پیر ان کے ساتوں زمینوں سے بھینیچے نکلے ہوئے ہیں اور عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب حکم ہو کہ میں صورپھونکوں ،اسی لیئے میم آخری مرتبہ ہے (کیونکہ باقی کچھ بھی پیچھے نہیں بچتاہے)
بعض عارفین کو عالمِ عرش کا مکاشفہ اس طرح سے ہوا جس طرح حضرت حارثہ رضی اللہ عنہٗ کو ہوا تھا جب رسول اکرمﷺ نے دریافت کیا اے حارثہ تم نے کس حال میں صبح کی انھوں نے عرض کی یارسول اللہﷺ میں صبح کو جب اٹھا تو میں نے اپنے آپ کو مؤمن دیکھا آپ ﷺ نے فرمایا اپنے ایمان کی کیفیت بیان کرو ،عرض کی یا رسول اللہ ﷺ جب میں اٹھا تو میں نے اپنے نفس کو دنیا کے سامنے اس طرح دیکھا کہ سونا و پتھر ، زندہ و مردہ، مالدار و غریب سب برابر تھے اور عرش الٰہی میری آنکھوں کے سامنے تھا اور لوگ حساب کے لیئے جارہے تھے اور دوزخ و جنت بھی میرے سامنے تھے ۔ حضورﷺ نے فرمایا اے حارثہ تم نے پہچان لیا اس کو اپنے اوپر لازم کر لو
جو شخص میم کے اسرار کو سمجھ گیا اس پر آواز جرس کا راز کھلا(موتو قبل انتموتو) یعنی بانگِ جرس، صلصلۃ الجرس ، صوتِ سرمدی،آوازِ انہد کا راز کھلا۔یہ کیا ہے؟
اس طرح ہوتا ہے کہ ظاہری عالم سے بندے پر ایک ربودگی سی چھاجاتی ہے تاکہ وہ حقیقت قادریہ سے متحقق ہو یہ انکشافِ صفتِ قادریت عالمِ بالا سے تعلق رکھتا ہے جو ہر وقت اور ہر جگہ جاری و ساری رہتا ہے اور باطنی سماعت کے ذریعے سننے میں آتا ہے ۔روایت ہے کہ حکیم افلاطون نے حضرت موسیٰ علیہِ السلام سے کہا کہ اے بیوہ کے بیٹے کیا تم جو کہتے ہو کہ میرا پروردگار مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے حالانکہ وہ جہت سے مننزہ ہے ۔موسیٰ علیہِ السلام نے فرمایا ،ہاں میں ہوں یہ دعویٰ کرنے والا اور میں تمام جہات
(اطراف) سے آواز سنتا ہوں جو انقطاع
(قطع ہونے ) اور حرکتِ حروف سے مننزہ اور پاک ہے یہ سن کر افلاطون نے حضرت موسیٰ علیہْ السلام کی رسالت کا اقرار کیا اور ان پر ایمان لے آیا ۔اسی طرح جب ہمارے آقا ﷺ سے نزولِ وحی کی کیفیت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو کبھی دیگ کے جوش کی مانند ہوتی ہیں ،کبھی شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ کی طرح اور کسی وقت فرشتہ آدمی کی شکل میں متصور ہوکر مجھ سے بات کرتا ہے اور بعض اوقات گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حافظ شیرازیؔ یوں فرماتے ہیں؎
کسِ ندانست کہ منزل دلدار کجا است
ایں قدر ہست کہ بانگِ جرسے می آید
(کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ دوست کا مقام کہاں ہے بس یہی ہے کہ گھنٹی کی آواز سنتے ہیں)
ا
بتدا میں گھنٹہ کی سی جھنکار کی مانند اس کو ایک آواز آنے لگتی ہے پھر بعض حقائق کے آپس میں ٹکرانے سے گھونگرو کی آواز سنتا ہے اسکے بعد کا مقام ایسا مقام ہے کہ قلب اس مقام میں جانے کی اپنے میں ہمت نہیں پاتا بسبب ہیبت کے ۔ پھر جب داخل ہو جاتا ہے تو پھر قیامت آجاتی ہے اور وہی کچھ ہوتا ہے جو منظر قیامت کا کورس کی کتابوں میں پڑھ چکے ہو ۔یہ قیامتِ صغریٰ ہے جو قیامتِ کبریٰ کی مثل ہے تاکہ مؤمن اپنے رب کی روشن دلیل اور کھلی دلیل پر ہوجائے۔