عاطف بٹ
محفلین
1933ء کی بات ہے۔ گرمی کے موسم میں چاند کی چودھویں شام تھی۔ ہوسٹل کے احاطے میں مجاز اور علی اطہر کے ساتھ میں چہل قدمی کررہا تھا کہ پھاٹک پر یکہ آ کر رکا اور اس میں سے ساغر نظامی برآمد ہوئے۔ میں نے مجاز اور اطہر کا تعارف کرایا تو کہنے لگے کہ میں نے آپ لوگوں کی ضیافت کا انتظام کیا ہے۔ کباب، پراٹھا، مرغ، غرض کہ بہت سامان ہے۔ چلیے قلعے کی طرف جشن منائیں۔ اس اذن پر ہم سب نے لبیک کہا اور یکہ پر سوار قلعے کی طرف چل پڑے۔ جہاں گوشہء خلوت ملا، وہیں آسن جمادیا۔ ساغر کے توشہ دان میں بھانت بھانت کا کھاجا تو تھا ہی، ایک طرف برف کی سِل میں بیئر کی بوتلیں بھی لگی ہوئی تھیں۔
اس سے قبل میں چند بار بیئر پی چکا تھا، گو اس کا مزا نہ پہلے پسند آیا، نہ بعد میں ع
یہ رات خوف و ہراس میں کٹی کیونکہ اگر اہالیانِ ہوسٹل کو بھنک بھی ملتی تو ہم سب نکال دیئے جاتے۔ خدا خدا کر کے دوسرے دن مجاز صحیح و سلامت گھر پہنچے۔ اس کے بعد مجاز نے شراب کو اور شراب نے مجاز کو جس طرح بدنام کیا، وہ سب کو معلوم ہے۔ پہلے جام کے ساتھ ان کے ہاتھوں میں لرزش اور پاؤں میں جو لغزش آئی وہ آخر وقت تک باقی رہی۔
(ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کے مضمون ’مجاز کی شخصیت و شاعری‘ سے اقتباس)
اس سے قبل میں چند بار بیئر پی چکا تھا، گو اس کا مزا نہ پہلے پسند آیا، نہ بعد میں ع
مزا بھی تلخ ہے اور بو بھی خوش گوار نہیں
لیکن مجاز اس کے رمز سے قطعاً ناواقف تھے۔ اب جو چاندنی چھٹکی اور ساغر کے ساتھ وہ بھی لہک لہک کر شعر گانے لگے تو بیئر کا دور شروع ہوا۔ بیئر میں نشہ برائے نام ہوتا ہے۔ یوں وقت اور مزاج کی بات ہے۔ چنانچہ جب آدھی رات کو چلنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میاں مجاز پر مستی کا غلبہ ہوچکا تھا۔ سہارا دے کر ہم نے انہیں یکہ پر لادا اور ہماری تاکید کے باوجود وہ ببانگِ دہل اپنا کلام الاپتے رہے۔ اتنے میں آفتاب ہوسٹل آگیا اور ساغر صاحب چلتے بنے۔ صلاح ٹھہری کہ مجاز رات کو علی اطہر کے کمرے میں سوجائیں کیونکہ وہ اس قابل نہیں رہے تھے کہ اس وقت اپنے گھر والوں کو منہ دکھلائیں۔یہ رات خوف و ہراس میں کٹی کیونکہ اگر اہالیانِ ہوسٹل کو بھنک بھی ملتی تو ہم سب نکال دیئے جاتے۔ خدا خدا کر کے دوسرے دن مجاز صحیح و سلامت گھر پہنچے۔ اس کے بعد مجاز نے شراب کو اور شراب نے مجاز کو جس طرح بدنام کیا، وہ سب کو معلوم ہے۔ پہلے جام کے ساتھ ان کے ہاتھوں میں لرزش اور پاؤں میں جو لغزش آئی وہ آخر وقت تک باقی رہی۔
(ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کے مضمون ’مجاز کی شخصیت و شاعری‘ سے اقتباس)