ہمارے انقلابی بھائی مجاہد بریلوی نے کیا لکھ دیا کہ ٹیلیفون لائنوں کا تانتا بندھ گیا کہ اب کی بار جانے نہ پائے۔ خیر اس عزیز کو کیا کہنا، مگر دو چار تاریخی مغالطے ہیں جنہیں رفع کرنا ضروری ہے۔ ہمارے بائیں بازو کے ڈنڈی مار تاریخ کو ضیاء الحق سے شروع کرتے ہیں اور ایسی گرد اڑاتے ہیں کہ بھٹو شاہی کے کرتوت اس دھول میں چھپ جاتے ہیں۔ میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ اپنی نگاہوں کے سامنے تاریخ کو مسخ ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ ضیاء الحق تو ایک فوجی تھا، مگر بھٹو ایک سویلین ڈکٹیٹر تھا۔ یہ سویلین ڈکٹیٹر شپ، فوجی ڈکٹیٹر شپ سے بھی خطرناک ہوتی ہے۔ اسے فاشزم یا فسطائیت کہتے ہیں۔ وہی جو ہٹلر کا طرۂ امتیاز تھا اور بھٹو کے تو اجزائے ترکیبی بھی ہو بہو وہی تھے۔ نیشنل سوشلزم، یہ ہٹلر کا فلسفہ تھا۔ کیا خیال ہے، بھٹو کے بارے میں اس نے ہماری نیشنلزم کو کیسے جگایا۔ سو سال تک لڑیں گے، ایٹم بم بنائیں گے چاہے گھاس کھانا پڑے۔ کیسے ولولہ انگیز انداز میں سلامتی کونسل میں پولینڈ کی قرار داد پھاڑ کر قومی ہیرو بنا اور کس طرح روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگا کر اس نے عوام کے دکھ درد کی تجارت کی۔ ہٹلر اور سویلین کے فلسفے کی ہوبہو تصویر ۔اگر کوئی ایک شخص ملک کی تباہی کا ذمہ دار قرار پا سکتا ہے تو وہ دنیا کی تاریخ کا یہ منفردسویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار بھٹو تھا جس نے سویلین کو بھی وردیاں پہنا دیں۔ عہدوں کے لحاظ سے الگ الگ بینڈ بھی سجا ڈالے۔ اس کے ذہن کی ساخت پر تو ہمارے ہاں کوئی کام ہی نہیں ہوا۔
ہمارے ملک میں سوخرابیاں تھیں، مگر معیشت ہماری درست جا رہی تھی۔ دنیا کے لئے رول ماڈل تھی۔ سوشلزم کے نام پر اس نے صنعتوں کوقومیانے کا عمل اس طرح شروع کیا کہ قومی اثاثے نوکر شاہی کے حوالے کر دیئے۔ افسوس کے بیچارے کو سوشلزم کا بھی مطلب نہ آتا تھا۔ آتا تھا تو بدنیت تھا۔ بدنیت تو ایسا تھا کہ انتقام کی آگ میں خود تو جلتا تھا، ملک کو بھی جلا ڈالا۔ کسی اصول کے تحت مثال کے طور پر چاول صاف کرنے کی فیکٹریاں قومیائی نہیں جانا چاہئے تھیں۔ اس نے یہ بھی کر دیا ، کیونکہ اس کے سیاسی مخالفین میں سے بعض ان کے مالک تھے مثلاًظہور الٰہی۔ ایسا منتقم مزاج کہ تاریخ نے نہ دیکھا ہوگا۔
صنعتیں نوکر شاہی کے حوالے کرنے کے بعد اس نے اس نوکر شاہی پر بھی قبضہ کرنے کی ٹھانی۔ ایسا قانون بنایا کہ سارا ڈھانچہ تلپٹ کر دیا۔ براہ راست بھرتی کا اصول منظور کرایا، لیٹرل انٹری۔ سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری، جائنٹ اور ڈپٹی سیکرٹری ایک ہی ہلے میں براہ راست بھرتی کر ڈالے۔ اپنے چہیتوں کے سپرد بڑی بڑی صنعتیں کر دیں۔صنعتیں بھی تباہ ہوئیں، انتظامیہ بھی ملیا میٹ ہوئی اور اس کی بادشاہی قائم ہوئی۔ رہ گئے انسانی حقوق، شہری آزادیاں اور جمہوری قدریں تو جیسا ان کا جنازہ اس نے نکالا، اس کی تو نظیر نہیں ملتی۔
میرے پیارے انقلابی، یاد کرو، ان دنوں کو۔ پہلی ہی پریس کانفرنس میں اس نے ایک صحافی کو برطرف کیا تھا، زیڈ اے سلیری کو۔ الطاف حسن قریشی، مجیب نظامی، حسین نقی اس کے اگلے شکار تھے۔ میں نے وہ جنگ اللہ کے فضل سے، پہلی صف میں کھڑے ہو کر لڑی ہے۔ کہاں تھے اس وقت وہ نام نہاد آزاد�ئصحافت کے علمبردار ، منہ نہ کھلواؤ ۔ ٹریڈ یونین والوں کو چھوڑو، جوش، فیض، فراز سب سرکاری ملازم تھے۔ اگر ان میں سے کوئی ملک سے بھاگا تھاتو ضیاء کے ڈر سے نہیں اس کرپشن کی وجہ سے جو انہوں نے بھٹو کے دور میں کی ہوگی۔ چلئے اپنی نااہلی کی وجہ سے ان سے ہوگئی تھی۔ یہ سبط حسن اس وقت کہاں تھے۔ روشن جی، بھیم جی کے نوکر ،کیوں ماضی کے چراغ جلوا رہے ہو۔ ایک ایک کہانی ازبر ہے۔ جزو یات تک یاد ہیں۔
خیر اسے چھوڑئیے، میں بھٹو کے انسانی حقوق کے کارنامے یاد کر رہا تھا۔ یاد ہے، ایک دلائی کیمپ تھا۔ یوں سمجھو اس زمانے میں پاکستان کا گوانتاناموبے ۔ جی ہاں، آزاد کشمیر میں قائم کیا گیا تھا۔ اپنے ہی لوگ اغوا کرکے وہاں پہنچائے جاتے تھے۔ افتخار نازی، چوہدری ارشاد، اپنے اخبار مساوات کے پبلشرز میاں اسلم، طالب علم رہنما ذوالفقار زلفی۔ عدالت کی پوری کارروائی موجود ہے۔ ابھی برادرم سعود ساحر سے بات ہو رہی تھی۔ وہ کیسے ان گمشدہ افراد کی تلاش میں وہاں تک پہنچے۔ سارا قصہ چھپا، عدالت حرکت میں آئی۔ آپ کو تو اپنا انقلابی بھائی مختار رانا بھول گیا ہوگا۔ بھٹو کے ظلم و ستم کا پہلا نشانہ، ایم این اے تھا، فیصل آباد سے پیپلزپارٹی کا، بالآخر جلا وطنی پر مجبور ہوا۔ ہاں ہاں جے اے رحیم یاد ہے، پارٹی کاسیکرٹری جنرل بزرگ قائد جس نے گویا ساری پارٹی اپنے ہاتھ سے بنائی۔ ایک کھانے میں تاخیر کی شکایت کر بیٹھا۔ رات کو دیوار پھلاند کر سرکاری غنڈہ نے دھنائی کر ڈالی۔ ایک نیم فوجی تنظیم بنا رکھی تھی نا اس نے جس کے پاس فوج جیسا اسلحہ تھا اور یہ وزارت دفاع کے ماتحت نہ تھی۔ اس کی ایک کارروائی مجھے یاد ہے، کراچی میں پی آئی اے کی یونین نے نعتیہ مشاعرہ کرایا۔ وزیر داخلہ خان قیوم خاں، جی ہاں ڈبل بیرل خاں کو مہمان خصوصی بنایا۔ این ایس ایف کیا نام تھا غنڈوں کی اس تنظیم کا۔ انہوں نے باقاعدہ گولیاں چلا کر دھاوا بول دیا۔ اپنے ہی وزیر داخلہ کے خلاف تھے ۔سوہنے منڈے حفیظ پیرزادہ نے حکم دیا تھا۔یونینوں کی لڑائی تھی۔ کراچی کے ادیبوں سے پوچھ لیجئے، کیسے میں انہیں ایک طرف گائیڈ کرتا گولیوں کی اس بوچھاڑ سے نکالنے میں کامیاب ہوا۔
یہاں مجھے لیاقت باغ کا سانحہ یاد آرہا ہے۔ برادرم سعود ساحر اور میں وہاں سے بھی گولیوں کی بوچھاڑ میں سے نکلنے میں خدا کے فضل سے کامیاب ہوئے۔ چالیس لاشیں اٹھی تھیں۔ ولی خاں لاشیں لے کر تو سرحد چلے گئے اور اجمل خٹک نے افغانستان کی راہ لی۔ شام کو ڈیفنس آف پاکستان کے تحت حکمنامہ آگیا کہ اس کی خبر بھی چھاپی نہیں جا سکتی۔ تاجپورہ بھی یاد آرہا ہے جہاں ضمنی انتخاب ہو رہے تھے۔ جلسہ گاہ میں سانپ چھوڑ دیئے گئے۔ بھٹو نے کیا کیا نہیں کیا۔ شاہی قلعے کے عقوبت خانے آباد اس نے کئے، اگرچہ عرصے سے قائم تھے۔ ملک سلمان یاد آئے، سیالکوٹ سے پیپلزپارٹی ہی کے ایم این اے تھے۔ ان کی بیوی پر لحاف چوری کا مقدمہ بنا۔ بیٹیوں تک کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ میاں طفیل کا معاملہ آپ بھول گئے۔ لاہور کے ایک نامور وکیل جو ایک بڑے سیاستدان تھے، انہیں دھمکی دی گئی، تمہاری بیٹیاں فلاں فلاں وقت کالج جاتی ہیں۔ کیا کیا باتیں یاد آ رہی ہیں۔ اور چھوڑو، اپنے معراج محمد خاں سے پوچھ لیجئے بھٹو نے انہیں اپنا جانشین قرار دیا تھا۔ ولی خاں کے ساتھ ان پر بھی غداری کا مقدمہ بنایا گیا۔ ایسے عذاب سے گزرے کہ عمر بھر صحت بحال نہ ہو سکی۔ یہ تو اپنے منہاج برنا کے بھائی ہیں۔ زخم مت کریدو، بہت کچھ یاد آرہا ہے۔ ہم نے بڑی جدوجہد کی ہے، اس ظالم کے خلاف۔
ہاں یاد آیا، کس نے کہابھٹو کو مغربی پاکستان میں اکثریت تھی۔ اس نام کی کوئی چیز اس وقت موجود ہی نہ تھی۔ ون یونٹ ٹوٹ چکا تھا۔ بھٹو کو صرف پنجاب میں اکثریت ملی تھی۔ سندھ میں بھی جام صادق علی کے بارہ لوگ شامل ہوئے تو یہ اکثریت میں آیا۔ سندھ اسمبلی کے ساٹھ میں سے28نشستیں پیپلزپارٹی کے پاس تھیں۔ ان میں بکاؤ مال بھی بہت تھا۔ ہاں، وہ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے گا کا واقعہ یاد ہے۔ اس سے پہلے لانڈی میں مزدوروں پر بلڈوزر چڑھا دیئے گئے تھے۔ میرے پیارے بھولے بادشاہ، سب کچھ بھولے جا رہے ہو۔
یہ دکھ بھری کہانی بہت طویل ہے، اب چھڑ گئی ہے تو کسی وقت جم کر رکھوں گا۔ ان انقلابیوں کی کہانیاں ہیں جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹ مچار رکھی تھی اور ظلم کے ساتھی تھے۔ ہاں چلتے چلتے، عرض کرتا چلوں کہ ہمارے سلیم احمد کبھی ضیاء الحق کے مشیر نہ تھے۔ وہ ریڈیو پاکستان کے ایک ’’ادنیٰ‘‘ ملازم تھے۔ اور اسی مجبوری میں انہیں وزارت اطلاعات نے طلب کر لیا تھا، پی این اے کے زمانے میں۔ وہ بھی اس لئے کہ یہ خیال پایا جاتا تھا کہ وہ الیکٹرانک میڈیا پر تخلیقی انداز میں رہنمائی کرنے کے بادشاہ ہیں۔ وہاں بھی وہ چند دن رہ پائے اور واپس آگئے۔ انہوں نے کبھی ضیاء الحق کی تقریر نہیں لکھی۔ ان ادبی کانفرنسوں کا حال بھی لکھوں گا جن میں ضیاء الحق نے یہ تقریر کی تھی۔ اس کے بھی اصل الفاظ پڑھتے جاؤ۔ میں صدیق سالک کو چھیڑتا تھا کہ میں ضیاء الحق کے ادبی نظر یے پر مضمون لکھنے والا ہوں۔ وہ جواب میں پاکستانی اور جانے کن کن ادیبوں کے حوالے دے کر میرامنہ بند کرنے کی کوشش کرتے۔ مگر بھائی یہ بھی خیال رہے کہ اس بہتی گنگا میں کون کون ہاتھ دھوتا رہا ہے۔ ان سے تو اتنا ہی کہنا ہے کہ:
اتنی نہ بڑھا پاکیئ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
اس وقت موڈ ہے تو ذرا تعلّی کے انداز میں دوسرا شعر بھی سہی۔
تردامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
فی الحال اتنا ہی۔۔۔ تاریخ مسخ ہوتی دیکھی نہیں جاتی۔
(بشکریہ روزنامہ نئی بات 18 اگست 2013))