مجاہد بریلوی اور سجاد میر کے کالمز (بحوالہ بھٹو اور ضیاء الحق)

یوسف-2

محفلین
p10_07.jpg


p10_06.jpg
 

یوسف-2

محفلین
پیارے انقلابیو، مت کھلواؤ از سجاد میر
ہمارے انقلابی بھائی مجاہد بریلوی نے کیا لکھ دیا کہ ٹیلیفون لائنوں کا تانتا بندھ گیا کہ اب کی بار جانے نہ پائے۔ خیر اس عزیز کو کیا کہنا، مگر دو چار تاریخی مغالطے ہیں جنہیں رفع کرنا ضروری ہے۔ ہمارے بائیں بازو کے ڈنڈی مار تاریخ کو ضیاء الحق سے شروع کرتے ہیں اور ایسی گرد اڑاتے ہیں کہ بھٹو شاہی کے کرتوت اس دھول میں چھپ جاتے ہیں۔ میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ اپنی نگاہوں کے سامنے تاریخ کو مسخ ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ ضیاء الحق تو ایک فوجی تھا، مگر بھٹو ایک سویلین ڈکٹیٹر تھا۔ یہ سویلین ڈکٹیٹر شپ، فوجی ڈکٹیٹر شپ سے بھی خطرناک ہوتی ہے۔ اسے فاشزم یا فسطائیت کہتے ہیں۔ وہی جو ہٹلر کا طرۂ امتیاز تھا اور بھٹو کے تو اجزائے ترکیبی بھی ہو بہو وہی تھے۔ نیشنل سوشلزم، یہ ہٹلر کا فلسفہ تھا۔ کیا خیال ہے، بھٹو کے بارے میں اس نے ہماری نیشنلزم کو کیسے جگایا۔ سو سال تک لڑیں گے، ایٹم بم بنائیں گے چاہے گھاس کھانا پڑے۔ کیسے ولولہ انگیز انداز میں سلامتی کونسل میں پولینڈ کی قرار داد پھاڑ کر قومی ہیرو بنا اور کس طرح روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگا کر اس نے عوام کے دکھ درد کی تجارت کی۔ ہٹلر اور سویلین کے فلسفے کی ہوبہو تصویر ۔اگر کوئی ایک شخص ملک کی تباہی کا ذمہ دار قرار پا سکتا ہے تو وہ دنیا کی تاریخ کا یہ منفردسویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار بھٹو تھا جس نے سویلین کو بھی وردیاں پہنا دیں۔ عہدوں کے لحاظ سے الگ الگ بینڈ بھی سجا ڈالے۔ اس کے ذہن کی ساخت پر تو ہمارے ہاں کوئی کام ہی نہیں ہوا۔

ہمارے ملک میں سوخرابیاں تھیں، مگر معیشت ہماری درست جا رہی تھی۔ دنیا کے لئے رول ماڈل تھی۔ سوشلزم کے نام پر اس نے صنعتوں کوقومیانے کا عمل اس طرح شروع کیا کہ قومی اثاثے نوکر شاہی کے حوالے کر دیئے۔ افسوس کے بیچارے کو سوشلزم کا بھی مطلب نہ آتا تھا۔ آتا تھا تو بدنیت تھا۔ بدنیت تو ایسا تھا کہ انتقام کی آگ میں خود تو جلتا تھا، ملک کو بھی جلا ڈالا۔ کسی اصول کے تحت مثال کے طور پر چاول صاف کرنے کی فیکٹریاں قومیائی نہیں جانا چاہئے تھیں۔ اس نے یہ بھی کر دیا ، کیونکہ اس کے سیاسی مخالفین میں سے بعض ان کے مالک تھے مثلاًظہور الٰہی۔ ایسا منتقم مزاج کہ تاریخ نے نہ دیکھا ہوگا۔

صنعتیں نوکر شاہی کے حوالے کرنے کے بعد اس نے اس نوکر شاہی پر بھی قبضہ کرنے کی ٹھانی۔ ایسا قانون بنایا کہ سارا ڈھانچہ تلپٹ کر دیا۔ براہ راست بھرتی کا اصول منظور کرایا، لیٹرل انٹری۔ سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری، جائنٹ اور ڈپٹی سیکرٹری ایک ہی ہلے میں براہ راست بھرتی کر ڈالے۔ اپنے چہیتوں کے سپرد بڑی بڑی صنعتیں کر دیں۔صنعتیں بھی تباہ ہوئیں، انتظامیہ بھی ملیا میٹ ہوئی اور اس کی بادشاہی قائم ہوئی۔ رہ گئے انسانی حقوق، شہری آزادیاں اور جمہوری قدریں تو جیسا ان کا جنازہ اس نے نکالا، اس کی تو نظیر نہیں ملتی۔

میرے پیارے انقلابی، یاد کرو، ان دنوں کو۔ پہلی ہی پریس کانفرنس میں اس نے ایک صحافی کو برطرف کیا تھا، زیڈ اے سلیری کو۔ الطاف حسن قریشی، مجیب نظامی، حسین نقی اس کے اگلے شکار تھے۔ میں نے وہ جنگ اللہ کے فضل سے، پہلی صف میں کھڑے ہو کر لڑی ہے۔ کہاں تھے اس وقت وہ نام نہاد آزاد�ئصحافت کے علمبردار ، منہ نہ کھلواؤ ۔ ٹریڈ یونین والوں کو چھوڑو، جوش، فیض، فراز سب سرکاری ملازم تھے۔ اگر ان میں سے کوئی ملک سے بھاگا تھاتو ضیاء کے ڈر سے نہیں اس کرپشن کی وجہ سے جو انہوں نے بھٹو کے دور میں کی ہوگی۔ چلئے اپنی نااہلی کی وجہ سے ان سے ہوگئی تھی۔ یہ سبط حسن اس وقت کہاں تھے۔ روشن جی، بھیم جی کے نوکر ،کیوں ماضی کے چراغ جلوا رہے ہو۔ ایک ایک کہانی ازبر ہے۔ جزو یات تک یاد ہیں۔

خیر اسے چھوڑئیے، میں بھٹو کے انسانی حقوق کے کارنامے یاد کر رہا تھا۔ یاد ہے، ایک دلائی کیمپ تھا۔ یوں سمجھو اس زمانے میں پاکستان کا گوانتاناموبے ۔ جی ہاں، آزاد کشمیر میں قائم کیا گیا تھا۔ اپنے ہی لوگ اغوا کرکے وہاں پہنچائے جاتے تھے۔ افتخار نازی، چوہدری ارشاد، اپنے اخبار مساوات کے پبلشرز میاں اسلم، طالب علم رہنما ذوالفقار زلفی۔ عدالت کی پوری کارروائی موجود ہے۔ ابھی برادرم سعود ساحر سے بات ہو رہی تھی۔ وہ کیسے ان گمشدہ افراد کی تلاش میں وہاں تک پہنچے۔ سارا قصہ چھپا، عدالت حرکت میں آئی۔ آپ کو تو اپنا انقلابی بھائی مختار رانا بھول گیا ہوگا۔ بھٹو کے ظلم و ستم کا پہلا نشانہ، ایم این اے تھا، فیصل آباد سے پیپلزپارٹی کا، بالآخر جلا وطنی پر مجبور ہوا۔ ہاں ہاں جے اے رحیم یاد ہے، پارٹی کاسیکرٹری جنرل بزرگ قائد جس نے گویا ساری پارٹی اپنے ہاتھ سے بنائی۔ ایک کھانے میں تاخیر کی شکایت کر بیٹھا۔ رات کو دیوار پھلاند کر سرکاری غنڈہ نے دھنائی کر ڈالی۔ ایک نیم فوجی تنظیم بنا رکھی تھی نا اس نے جس کے پاس فوج جیسا اسلحہ تھا اور یہ وزارت دفاع کے ماتحت نہ تھی۔ اس کی ایک کارروائی مجھے یاد ہے، کراچی میں پی آئی اے کی یونین نے نعتیہ مشاعرہ کرایا۔ وزیر داخلہ خان قیوم خاں، جی ہاں ڈبل بیرل خاں کو مہمان خصوصی بنایا۔ این ایس ایف کیا نام تھا غنڈوں کی اس تنظیم کا۔ انہوں نے باقاعدہ گولیاں چلا کر دھاوا بول دیا۔ اپنے ہی وزیر داخلہ کے خلاف تھے ۔سوہنے منڈے حفیظ پیرزادہ نے حکم دیا تھا۔یونینوں کی لڑائی تھی۔ کراچی کے ادیبوں سے پوچھ لیجئے، کیسے میں انہیں ایک طرف گائیڈ کرتا گولیوں کی اس بوچھاڑ سے نکالنے میں کامیاب ہوا۔

یہاں مجھے لیاقت باغ کا سانحہ یاد آرہا ہے۔ برادرم سعود ساحر اور میں وہاں سے بھی گولیوں کی بوچھاڑ میں سے نکلنے میں خدا کے فضل سے کامیاب ہوئے۔ چالیس لاشیں اٹھی تھیں۔ ولی خاں لاشیں لے کر تو سرحد چلے گئے اور اجمل خٹک نے افغانستان کی راہ لی۔ شام کو ڈیفنس آف پاکستان کے تحت حکمنامہ آگیا کہ اس کی خبر بھی چھاپی نہیں جا سکتی۔ تاجپورہ بھی یاد آرہا ہے جہاں ضمنی انتخاب ہو رہے تھے۔ جلسہ گاہ میں سانپ چھوڑ دیئے گئے۔ بھٹو نے کیا کیا نہیں کیا۔ شاہی قلعے کے عقوبت خانے آباد اس نے کئے، اگرچہ عرصے سے قائم تھے۔ ملک سلمان یاد آئے، سیالکوٹ سے پیپلزپارٹی ہی کے ایم این اے تھے۔ ان کی بیوی پر لحاف چوری کا مقدمہ بنا۔ بیٹیوں تک کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ میاں طفیل کا معاملہ آپ بھول گئے۔ لاہور کے ایک نامور وکیل جو ایک بڑے سیاستدان تھے، انہیں دھمکی دی گئی، تمہاری بیٹیاں فلاں فلاں وقت کالج جاتی ہیں۔ کیا کیا باتیں یاد آ رہی ہیں۔ اور چھوڑو، اپنے معراج محمد خاں سے پوچھ لیجئے بھٹو نے انہیں اپنا جانشین قرار دیا تھا۔ ولی خاں کے ساتھ ان پر بھی غداری کا مقدمہ بنایا گیا۔ ایسے عذاب سے گزرے کہ عمر بھر صحت بحال نہ ہو سکی۔ یہ تو اپنے منہاج برنا کے بھائی ہیں۔ زخم مت کریدو، بہت کچھ یاد آرہا ہے۔ ہم نے بڑی جدوجہد کی ہے، اس ظالم کے خلاف۔

ہاں یاد آیا، کس نے کہابھٹو کو مغربی پاکستان میں اکثریت تھی۔ اس نام کی کوئی چیز اس وقت موجود ہی نہ تھی۔ ون یونٹ ٹوٹ چکا تھا۔ بھٹو کو صرف پنجاب میں اکثریت ملی تھی۔ سندھ میں بھی جام صادق علی کے بارہ لوگ شامل ہوئے تو یہ اکثریت میں آیا۔ سندھ اسمبلی کے ساٹھ میں سے28نشستیں پیپلزپارٹی کے پاس تھیں۔ ان میں بکاؤ مال بھی بہت تھا۔ ہاں، وہ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے گا کا واقعہ یاد ہے۔ اس سے پہلے لانڈی میں مزدوروں پر بلڈوزر چڑھا دیئے گئے تھے۔ میرے پیارے بھولے بادشاہ، سب کچھ بھولے جا رہے ہو۔
یہ دکھ بھری کہانی بہت طویل ہے، اب چھڑ گئی ہے تو کسی وقت جم کر رکھوں گا۔ ان انقلابیوں کی کہانیاں ہیں جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹ مچار رکھی تھی اور ظلم کے ساتھی تھے۔ ہاں چلتے چلتے، عرض کرتا چلوں کہ ہمارے سلیم احمد کبھی ضیاء الحق کے مشیر نہ تھے۔ وہ ریڈیو پاکستان کے ایک ’’ادنیٰ‘‘ ملازم تھے۔ اور اسی مجبوری میں انہیں وزارت اطلاعات نے طلب کر لیا تھا، پی این اے کے زمانے میں۔ وہ بھی اس لئے کہ یہ خیال پایا جاتا تھا کہ وہ الیکٹرانک میڈیا پر تخلیقی انداز میں رہنمائی کرنے کے بادشاہ ہیں۔ وہاں بھی وہ چند دن رہ پائے اور واپس آگئے۔ انہوں نے کبھی ضیاء الحق کی تقریر نہیں لکھی۔ ان ادبی کانفرنسوں کا حال بھی لکھوں گا جن میں ضیاء الحق نے یہ تقریر کی تھی۔ اس کے بھی اصل الفاظ پڑھتے جاؤ۔ میں صدیق سالک کو چھیڑتا تھا کہ میں ضیاء الحق کے ادبی نظر یے پر مضمون لکھنے والا ہوں۔ وہ جواب میں پاکستانی اور جانے کن کن ادیبوں کے حوالے دے کر میرامنہ بند کرنے کی کوشش کرتے۔ مگر بھائی یہ بھی خیال رہے کہ اس بہتی گنگا میں کون کون ہاتھ دھوتا رہا ہے۔ ان سے تو اتنا ہی کہنا ہے کہ:

اتنی نہ بڑھا پاکیئ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ​
اس وقت موڈ ہے تو ذرا تعلّی کے انداز میں دوسرا شعر بھی سہی۔
تردامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں​
فی الحال اتنا ہی۔۔۔ تاریخ مسخ ہوتی دیکھی نہیں جاتی۔
(بشکریہ روزنامہ نئی بات 18 اگست 2013))
 

یوسف-2

محفلین
بھٹو تھا جس کا نام
ارادہ تو نہیں تھا کہ بھٹو نامے کے مزید ابواب رقم کرتا، مگر دوست یار پرانے زخم تازہ ہونے سے ایسے اچھلے ہیں کہ ہر کوئی نئی بات یاد دلا رہا ہے۔ ہمارے ایک پبلشر دوست نے تو اس موضوع پر کتاب لکھنے کا مطالبہ کر دیا ہے کہ یہ کوئی ذاتی دکھوں کی کتھا نہیں اس قوم کی تباہی کی داستان ہے۔ یہ استحقاق تو دراصل برادرم مجیب شامی صاحب ( خبردارجواب اسے کتابت کی غلطی سے مجیب نظامی لکھا گیا) کا ہے، مگر کوئی تو آئے جو اس راکھ کو کرید کر تاریخ کے چند تاریک باب روشن کرے۔

اب طعنہ اس بات کا دیا جا رہا ہے کہ ہمارے اشفاق صاحب بھی ایوب خاں کی مداحی میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ مطلب یہ کہ اسلام کا نام لیتے تھے اور آمریت کا ساتھ دیتے تھے۔ ان کو چھوڑئیے، اللہ بخشے بھٹو صاحب کب پیچھے رہے تھے۔ فیلڈ مارشل کو دیڈی کہتے تھے۔ انہیں ایشیا کا ڈیگال قرار دیا تھا۔ ان کی مداحی میں مادر ملت کے انتخابات میں قوم کی ماں کے خلاف ایسی زبان استعمال کی تھی کہ خود مادر ملت نے پوچھا تھا یہ کون ہے جس کو اخلاق کا بھی پاس خیال نہیں۔ مشورہ دیا تھا کہ ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر پارٹی صدر اور ایس پی سیکرٹری جنرل بنا دیا جائے۔ اب تو وہ خط منظر عام پر آگیا ہے جس میں ایوب خاں کو بتایا گیا تھا کہ وہ قائداعظم سے بڑے لیڈر ہیں۔ ایوب خاں کی آغوش شفقت میں آنے سے پہلے سکندر مرزا کے جوگن گاتے تھے، وہ بھی اب پوشیدہ نہیں۔ ناہیدمرزا تک کو تو یہ تک کہا کہ آپ کے سر پر تاج بہت خوبصورت لگے گا۔ یہ چہرہ بنا ہی اس خاطر ہے۔ اقتدار میں آنے کی خاطر اس نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ اور بہت سی کہانیاں ہیں۔

رہ گئے ادیب تو یہ ایک پوری کہانی ہے۔ آج ہی انتظار حسین نے یاد دلایا ہے کہ صرف دو ادیب بچے تھے۔ ایک مولانا صلاح الدین اور دوسرے حسن عسکری۔ بھول گئے ہوں گے کہ یہ مولانا صلاح الدین کون تھے۔ بھئی یہ جسارت اور تکبیر والے ہمارے صلاح الدین نہیں کہ آپ کہیں کہ اپنوںکی حمایت میں مضمون باندھ رہا ہوں۔ یہ ادبی دنیا کے مدیر مولانا صلاح الدین احمد تھے۔ بڑا بڑا ادیب ان کا قلم لگنے سے معتبر بنا تھا۔ ایک درویش جو اپنی ذات میں ایک ادارہ تھا۔ اس زمانے میں فنون، نقوش جتنا زخیم پرچہ ایک روپے میں دیتے تھے۔ سال کے چار پرچوں کی قیمت تین روپے تھی۔ حصہ نظم پہلے میراجی کے سپرد تھا، پھر وزیر آغا کو یہ اعزاز ملا۔ بھئی ان کی عظمت کا بیان ناممکن ہے۔ یہ خیال رہے کہ جب صدر ایوب انجمن اسلام کے سالانہ جلسے میں آتے، تو اہل لاہور کی طرف سے مولانا خطبہ استقبالیہ دیتے۔ ایک بار اسی اجتماع میں مولانا نے کہہ دیا کہ ملک میں شراب کیسے بند ہو سکتی ہے جب ہماری فوجی چھاﺅنیوں میں اس کی اجازت ہے۔ پھر جب62ءکے آئین سے اسلامی کا لفظ نکالا گیا اور پاکستان صرف جمہوریہ پاکستان رہ گیا، تو مولانا نے للکارا۔ ایوب خاں کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تو نوائے وقت نے ادیب کی فتح کے نام سے اداریہ لکھا ہے۔ بھائی یہ ہماری تاریخ ہے۔ صلاح الدین صاحب کے پاس جب رائٹرز گلڈ کی تجویز پہنچی تو کہنے لگے کہ شاعری جزو ایست از پیغمبری۔ ادیب تو کار پیمبری انجام دیتا ہے اور پیغمبر گلڈ نہیں بنایا کرتے۔ سبحان اللہ کیا فقرہ تھا۔ اوراپنے عسکری صاحب وہ تو شروع ہی سے ادیبوں کی انجمن سازی کے مخالف رہے ہیں۔ چاہے عالمی سطح پر ہو چاہے مقامی سطح پر۔ یہ ادب کی لمبی بحث ہے۔ وگرنہ مولوی عبدالحق سے لے کر شاہد احمد دہلوی، ابن انشاءاور ہاں ہمارے جمیل الدین عالی سبھی نے گلڈ کو پروان چڑھانے میں اپنا اپنا حصہ بتایا۔ اس زمانے کے ادیب کے لئے یہ بالکل ایک نیا تجربہ تھا۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کہانی سے آپ اپنی مرضی کے کردار چن لیں۔ مگر ان بھٹو صاحب کو کیا ہوا تھا کہ پاکستان کی اس اولین آمریت کو پالنے پوسنے میں اپنی پوری جوانی لگا دی ۔ یہ پہلا قومی سیاستدان تھا جو مارشل کے گملے میں پروان چڑھا۔ اس رسم بد کی ابتدا یہیں سے ہوئی تھی۔سکندر مرزا نے بھی اس کا انتخاب کوئی میرٹ پر نہ کیا تھا، کچھ ایسی ہی خوبیوں کی بنا پر کیا تھا۔

اس کے بعد اس کے اپنے ”کارنامے“ کم نہیں۔ میں کل بتانا بھول گیا کہ اس کے زمانے میں دو چار تاریخی قتل بھی ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نذیر احمد کا قتل جو ڈیرہ غازی خاں سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر آئے تھے۔ انہوں نے صرف وہی بات تو کی تھی جو ہمارے حبیب جالب نے شاعری میں کی کہ لاڑکانے چلو، وگرنہ تھانے چلو۔ اس زمانے میں یحییٰ خاں کی عیاشیوں کا تذکرہ قوم کی توجہ دوسری جانب کرانے کے لئے ایک بڑا تیربہدفنسخہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ٹو کا اور دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ اس بدبخت یحییٰ کی تین برس کی عیاشیاں لاڑکانے کی ایک رات کی عیاشیوں کے مقابلے میں ہیج ہیں۔ ڈاکٹر نذیر، خواجہ رفیق، عبدالصمد اچکزئی (موجودہ اچکزئی کے والد) بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر مولانا شمس الدین، ہاں ، یاد ہے کہ بلوچستان اسمبلی کو توڑ کر وہاں ملٹری ایکشن کس نے کیا تھا۔ یہی تو وہ اصل ایکشن ہے جس کے اثرات آج تک نہیں گئے۔ ایک جمہوری حکومت کا فوجی ایکشن۔ ہم اس کے اثرات بھگت رہے ہیں۔ یہ ولی خاں اور نیپ کی پوری قیادت پر غداری کا مقدمہ بنا کر جیلوں میں کس نے ڈالا۔ پوری اپوزیشن کو ڈنڈا ڈولی کر کے پارلیمنٹ سے باہر کس نے پھنکوایا۔ عجیب ہی شخص تھا۔ آج میں ذرا خود کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ جاتے جاتے بھی اس نے کم نہ کی تھی۔ پاکستان کے شہروں کی گلیاں اور سڑکیں خون سے نہلائی گئی تھیں، لاہور کی مسلم مسجد کے منارے اس سانحے کے گواہ ہیں جب پولیس کے بوٹوں نے مسجد کے تقدس کو روند ڈالا تھا۔ لوگ گولیوں کی بوچھاڑ میں لپکتے تھے اورکے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچاتے تھے۔ اس نے کراچی، لاہور، راولپنڈی تین شہروں میں مارشل لاءلگانے کی کوشش کی، لوگوں نے نعرہ لگایا آدھا نہیں، پورا مارشل لائ۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ لوگ کس قدر تنگ تھے۔ وہ حبس تھا کہ لو کی دعا مانگتے تھے لوگ۔ ضیاءالحق اسی کی حرکتوں سے ہم پر مسلط ہوا ۔ذرا یاد کرکے بتائیے، اس زمانے میں یہ آزادی¿ اظہار کے انقلابی چیمپئن کہاں تھے۔ یاد نہ آئے تو کسی روز یہ بھی بتا دیں گے۔

اس کے کارناموں میں ایک کارنامہ یہ ہے کہ اس کی اصلاحات نے تعلیم کا ستیاناس کر دیا۔ اس نے سکول ، کالج بھی قومی ملکیت میں لے لئے۔ ان کالجوں میں بڑی خرابیاں ہوں گی، مگر یہ وہ رفاہی اور فلاحی ادارے تھے جنہوں نے اسلامیان ہند کو تعلیم کی روشنی سے بہرہ مند کیا۔ یہ بہت سستے داموں تعلیم فراہم کرتے تھے۔ بعد میں جب نجی اداروں کی اجازت دی گئی، بھٹو کے بعد تو پھر ایسے فلاحی اور رفاہی ادارے نہ بن سکے۔ ان کی جگہ کمرشل اداروں نے لے لی۔ آج ہم ان اداروں کو بھی دعائیں دیتے ہیں کہ یہ نہ ہوں تو قوم ان پڑھ رہ جائے، مگر اب تعلیم بہت مہنگی ہو چکی ہے۔ سارا پیرا ڈائمParadigmہی بدل چکا تھا۔ یہ بھٹو کا کمال تھا۔

ایک اور کارنامہ یاد آیا۔ بھٹو کی پارٹی میں ایک سینئر نائب صدر تھے شیخ رشید ،یہ والے نہیں، وہ جو بابائے سوشلزم کہلاتے تھے۔ وہ بیچارے بیمار رہتے تھے، انہیں وزیر صحت بنا دیا گیا۔ انہوں نے دواﺅں کی جنرک سکیم نافذ کی۔ مطلب یہ ہے کہ آپ اسپرین لینا چاہتے ہیں تو اس کے سو نام ہیں، ڈسپرین، اسپرو۔ اس سکیم کے مطابق یہ دوا ان برانڈ ناموں کے بجائے اصل ناموں سے ملے گی۔ اور اس کی سوشلسٹ ملکوں کی طرح قیمت مقرر ہوگی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ غیر معیاری، سستے خام مال سے یہ دوائیں بننے اور بکنے لگیں۔ بخار چڑھ جاتاتو اترتا ہی نہ تھا۔ دوا جو جعلی تھی۔وہ دن اس ملک کے مریضوں کے لئے بڑے سخت تھے۔ خود شیخ رشید تو اپنے دمے کی دوا باہر سے منگوا لیتے تھے، مگر بےچارے عوام کے لئے کوئی راستہ نہ تھا۔ یہ سکیم اتنی احمقانہ تھی کہ بھٹو ہی کے مختصر دور میں واپس لینا پڑی۔
کیا کیا گنواﺅں، کیا کیا لکھوں۔ اس ملک میں کوئی ایسی برائی نہ ہوگی جس کی ابتداءاس ذات شریف نے نہ کی ہو۔ بہو، بیٹیوں کی جیسی بے حرمتی اس زمانے کا رواج تھا، شاید ہی اس کی مثال ہو۔ ایس پی صاحب کو براہ راست فون کرکے حکم دیا کہ فلاں کی بیٹیاں اغوا کرکے فلاں جگہ لے جائی جائےں اور…. اور ….ایس پی کو غیرت آگئی۔ سیشن جج کو عدالت سے ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کر لیا گیا۔ سانگھڑ سے چھ حروں کی لاشیں ملنے کا واقعہ اب کوئی معمہ نہیں رہا۔

حضور، ہماری آنکھوں نے وہ دوردیکھااور بھگتا ہے۔ خدا کے لئے ہمارے زخم تازہ نہ کیجئے۔

(سجاد میر کا کالم ۔ روزنامہ نئی بات 20 اگست 2013)
 
Top