سید زبیر
محفلین
مجذوب : نہ سمجھا عمر بھر کوئی کہ میں بھی تیرا بسمل تھا
نہ سمجھا عمر بھر کوئی کہ میں بھی تیرا بسمل تھا
لبوں پر تھی ہنسی ، زخموں سے گو چھلنی میرا دل تھا
جھُکا سر غیر کے آگے ،نہ دل دنیا پہ مائل تھا
سَروں میں سَر میرا سَر تھا ،دلوں میں دل میرا دل تھا
یہ سب مانا کہ وہ سفاک تھا ظالم تھا قاتل تھا
دیا جس کو دیا ہاں ، پھر کسی کو کیا ؟میرا دل تھا
طریقِ عشق میں جو جس قدر گم کردہ منزل تھا
وہ بس اتنا ہی اے دل!خضرِرہ بننے کے قابل تھا
ہزاروں زخم کھا کر بھی نہ تڑپا ہائے مجبوری!
بس اِک تصویر ِ بیتابی ،سراپا تیرا بسمل تھا
بہر صورت تھی اِک تکلیف بیماریِ الفت میں
مجھے آسان تھا مرنا مگر پرہیز مشکل تھا
غنیمت ہے کہ مجھے قعرِدریا نے جگہ دیدی
وبالِ دوش موجِ آب تھا ،میں بارِ ساحل تھا
خدا مجذوب کو رکھے سلامت اُس نے چونکا یا
جسے منزل سمجھ رکھا تھا وہ اِک خوابِ منزل تھا
خواجہ عزیز الحسن مجذوب
نہ سمجھا عمر بھر کوئی کہ میں بھی تیرا بسمل تھا
لبوں پر تھی ہنسی ، زخموں سے گو چھلنی میرا دل تھا
جھُکا سر غیر کے آگے ،نہ دل دنیا پہ مائل تھا
سَروں میں سَر میرا سَر تھا ،دلوں میں دل میرا دل تھا
یہ سب مانا کہ وہ سفاک تھا ظالم تھا قاتل تھا
دیا جس کو دیا ہاں ، پھر کسی کو کیا ؟میرا دل تھا
طریقِ عشق میں جو جس قدر گم کردہ منزل تھا
وہ بس اتنا ہی اے دل!خضرِرہ بننے کے قابل تھا
ہزاروں زخم کھا کر بھی نہ تڑپا ہائے مجبوری!
بس اِک تصویر ِ بیتابی ،سراپا تیرا بسمل تھا
بہر صورت تھی اِک تکلیف بیماریِ الفت میں
مجھے آسان تھا مرنا مگر پرہیز مشکل تھا
غنیمت ہے کہ مجھے قعرِدریا نے جگہ دیدی
وبالِ دوش موجِ آب تھا ،میں بارِ ساحل تھا
خدا مجذوب کو رکھے سلامت اُس نے چونکا یا
جسے منزل سمجھ رکھا تھا وہ اِک خوابِ منزل تھا
خواجہ عزیز الحسن مجذوب
آخری تدوین: