مجھے اک نظم کہنی تھی
مجھے اک نظم کہنی تھی
مجھے مدت کے پژمردہ تفکر کو لہو دینا تھا
صدیوں پر محیط اک عالمِ سکرات میں
مرتے ہوئے جذبوں کو
پھر سے زندگی کی ہاؤ ہو سے آشنا کرنا تھا
ہونٹوں پر لرزتے گنگ لفظوں کو
زباں دینی تھی
اشکوں کے اجالے سے
طلسمِ تیرگی کو توڑنا تھا
روشنی کو عام کرنا تھا
رگِ احساس کو پھر سے جِلا دینی تھی
آنکھوں میں بصارت کا بصیرت کا
کہربا خیز اِک سرمہ لگانا تھا
رگوں میں منجمد ہوتے لہو کو تاپ دینی تھی
سرِ مُو سے رگِ جاں تک
حیاتِ نو کی دھڑکن کو جگانا تھا
مشامِ جاں کو خوشبوئے حیاتِ جاوداں سے
آشنائی بھی دلانی تھی
ضمیرِ آدمیت کو
گرفتِ پنجہءِ عفریتِ سیمیں سے
رہائی بھی دلانی تھی
مجھے اک نظم کہنی تھی
مجھے
دیوار و در سے ماورا
عرشِ بریں کے سائے میں
اک گھر بنانا تھا
تب و تابِ تمنا کا اجالا اُس میں بھرنا تھا
مجھے داغِ تمنا بھی میسر تھا
مگر شمس الضحیٰ کے اور میرے درمیاں
صدیوں سے چھایا تھا غمامِ غم
نظر تھی میری ژولیدہ تو سوچیں تھیں پراگندہ
خمارِ خود فراموشی سے
خود بھی جاگنا تھا
دوسروں کو بھی جگانا تھا
نگاہِ آشنائے ظلمتِ شب کو
شناسائے تب و تابِ سحر
ہونے کی سختی بھی تو سہنی تھی
مجھے اک نظم کہنی تھی
مرے افکار کو تجسیم کی قوت ملی
تو اِک نگاہِ دور بیں کو
وقت کی تصویر میں پنہاں
بدلتی رُت نظر آئی
مری سوچوں سے
کالک دھل گئی ساری
مجھے منزل دکھائی دے گئی
اُس گھر کی صورت جس کی دیواریں
اُسی عرشِ بریں کے سائے میں تعمیر ہونی تھیں
وہ جس کی چھت میں آویزاں
کئی شمس و قمر ہونے تھے
اُس کو آگہی کی عظمتوں کا
اِک درخشاں باب ہونا تھا
مرے جذبوں کو بازو مل گیا
دیبل کی مٹی سے
رگِ جاں میں لہو اخلاص کا دوڑا
نگاہِ مرد مومن نے ہوا کا رخ بدل ڈالا
فلک سے قدر کی شب میں
ہوئی نازل وہ برکت
جس پہ نازاں آدمیت تھی
بنے گھر کو بسانا کتنا مشکل ہے
مجھے معلوم ہی کب تھا
مجھے شمس و قمر سے جگمگاتا گھر ملا جب تو
مری ظلمت پسند آنکھوں میں
پتھر پڑ گئے ایسے
کہ اپنے آپ کی پہچان تک باقی نہ رہ پائی
گئی آنکھوں سے بینائی
مجھے اب روشنی سے خوف سا آنے لگا ہے
میں پریشاں ہوں
گماں پرور سماعت کے اشاروں پر
شبِ دیجور کو صبحِ مبیں کا نام دیتا ہوں
مگر بے چین رہتا ہوں
وہی مشکل جو پہلے تھی وہی پھر آ پڑی ہے
وقت کی منزل کڑی ہے
میں پریشاں ہوں
بنائے فکر میں لاوا سا کوئی کلبلاتا ہے
تو میرا وہ پہاڑ ایسا ارداہ ڈول جاتا ہے
مجھے
اک نظم کہنی تھی!؟
محمد یعقوب آسی
19 دسمبر 2005ء