آدمی طور ہے
(1)
لامکاں
لامکاں میں کہیں
ایک ایسا جہاں جس کو برزخ کہیں
جس کا ادراک زنہار ممکن نہیں
جس کے بارے کسی نے کہا
کیا کہا؟
ایک نے یہ کہا
وہ جہاں کہ جہاں وقت ہوتا نہیں
دوسرے نے کہا
ماورائے شعور ایک ایسا جہاں
کہ جہاں
قربتیں، دوریاں، رفعتیں، پستیاں
یہ حدود و قیودِ زمان و مکاں
کچھ نہیں!
واں پہ کچھ بھی نہیں
جو کسی طور بھی حیطہء فہم و ادراک میں آ سکے
میرے دل نے کہا،
اور اچھا کہا:۔
عقل کے بال و پر بھسم ہو جائیں جب
فہم و ادراک جس وقت معذور ہوں
سدرۃ المنتہٰی سے پرے ایک عالم ہو وجدان کا
نور ہی نور ہو، رنگ ہی رنگ ہوں
خامشی بھی نہ ہو، گفتگو بھی نہ ہو
جب خودی، بے خودی، خود دہی
ہم کلامی دعا، خود کلامی دعا
دل بہ دل، لب بہ لب
پھیلتی جائے سب
اور ایسے میں جب
شوقِ اظہار بے تاب ہو کر
نمی بن کے آنکھوں میں چھا جائے تب
دل بنے دمدمہ
اور سینے کی دیوار گرنے لگے
(2)
یہ تخیل کی پرواز بھی ہے اگر
تو حقیقت ہے یہ
اس کے پیشِ نظر یوں کہو:۔
وہ جہاں جس کو برزخ کہیں
نائبِ ربِ اعظم کی نظروں سے مستور ہو
تو جنوں کیا ہوا؟
ہاں مگر، وہ نگہ، وہ نظر
وہ جو ادراکِ ہستی کو مقصود ہے
آج مفقود ہے
(3)
لامکاں
لامکاں سے ارے آسماں
آسماں! چاند سورج، ستاروں بھری کہکشاں
جس کو گھیرے ہوئے ایک لاہوت ہے
عالمِ خامشی!!
اک جہانِ بسیط ایسا جس کی حدیں
لامکاں سے ارے
از فلک تا فلک، حدِ ادراک تک
اور اُس سے پرے!
اور اُس سے ارے، نیلگوں وسعتیں
جن میں ہر وقت اک حشر برپا ہے
سب سمت
جب سے کہا اُس نے ”کُن“
تب سے ان
کتنی دنیائیں ظاہر ہوئیں پردہء غیب سے
کتنی دنیائیں بحرِ عدم کی بلا خور موجوں میں گم ہو گئیں!
(4)
نیلگوں وسعتیں، نقرئی بدلیاں
یہ فضاؤں میں گرتے ہوئے
قطرہ قطرہ حوادث کا اک سلسلہ
وہ نتائج کی قوس قزح ہفت رنگ
اور اُس سے اُرے
یہ سنہری شفق، از افق تا افق
سبز فرشِ زمیں،
کوہسارِ سیہ پوش، نیلے سمندر،
یہ ریگِ سپید اور ابرِ کبود
اور مبہوت کن سلسلے رنگ کے
چشمِ حیراں تماشا کرے تو تماشا بنے!
(5)
لامکاں!
لامکاں سے اُرے آسماں
آسماں سے اُرے یہ جہاں
کس کی تخلیق ہے؟
کس کی کاریگری، کس کی قدرت کا شہکار ہے؟
اور، کس کے لئے؟!
یہ ہے میرے لئے، یہ ہے تیرے لئے
آدمی کے لئے!
اور خود آدمی، وہ ہے کس کے لئے؟
(6)
آدمی اسفلِ سافلیں سے دَنی
آدمی سدرۃ المنتہٰی سے وراء
آدمی ہے اِدھر، آدمی ہے اُدھر
آدمی بیچ میں!
آدمی حشر ہے
آدمی یہ جہاں
آدمی وہ جہاں، جس کو برزخ کہیں
جس کا ادراک اب تک نہ ممکن ہوا
(7)
فہم و ادراک جس وقت معذور ہوں
آدمی سنگ ہے
عشق و وجدان جب اپنی آئی یہ آئے تو یہ طور ہے
آدمی نار ہے، آدمی نور ہے
آدمی خاک ہے
خاکِ غیور ہے
آدمی طور ہے!
(19 اپریل 1996)