عاطف بٹ
محفلین
شاہد ملک
روزنامہ پاکستان، لاہور (11 نومبر 2012ء)
مَیں یہ کالم اپنی بیگم، ان کے دونوں بھائیوں اور بیوی بچوں سے چھپ کر لکھ رہا ہوں، جو اسلام آباد والے گھر سے مہمانوں کے چلے جانے کے بعد بھی خوش رنگ تنبو قناتوں کے سائے میں کچھ دیر بیٹھے رہیں گے۔ پھر ایک نیم مطمئن سی آواز سنائی دے گی ’چلو، ابو کی پہلی برسی اچھے طریقے سے ہو گئی۔‘ بیچ میں ان عزیز و اقارب (مقامی صحافیوں اور امی مرحومہ کی ساتھی پروفیسروں ) کے نام بھی لئے جائیں گے جنہوں نے ماحضر تناول کر کے اپنے رشتے کا حق ادا کیا۔ ویسے ایک دو کو چھوڑ کر سیپاروں کو صرف خواتین، باریش بزرگوں اور چھوٹے گریڈ کے ان لوگوں نے ہاتھ لگایا جو پڑھتے کم اور ہلتے زیادہ ہیں۔ یہ ساری کارروائی ایک ایسے آدمی کی یاد میں ہے جس نے اخباری شور شرابے میں پوری چھ دہائیاں خاموشی سے گزاریں اور پھر حدود وقت سے آگے نکل کر چپ چپیتے جنت البقیع میں انٹری ڈال دی۔
منفرد نظم گو آفتاب اقبال شمیم نے ایک جگہ اپنے لئے ’رفتہ کا آئندہ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مَیں آفتاب شمیم جیسا شعری وژن تو نہیں رکھتا، لیکن اپنے بچوں کے نانا سے میری آخری تے ’وڈی‘ ملاقات بھی 30 سال پہلے کے سرسری تعارف کی طرح تھی، جس میں شیخ اکرام الحق کی ’نانا توپ‘ کا کوئی شائبہ نہ دیکھا گیا ( یہ لفظ ’نانا‘ کا پشتو حاصل مصدر ہے)۔ راولپنڈی کے انٹر کانٹی نینٹل میں کسی تقریب کے بعد ایک نوعمر لیکچرار سے مؤقر اخبار ’پاکستان ٹائمز‘ کے چیف رپورٹر نے ایک طالب علم کے والد کے طور پر ہاتھ ملایا۔ پر کچھ عجیب سے رپورٹر تھے کہ نہ تو افغانستان میں تازہ چھڑنے والی سوویت مخالف جنگ پہ روشنی ڈالی نہ پاکستان کی اقتصادی پالیسی سمجھانے کی کوشش کی ’وہ جی، ہیں جی، ہاں جی‘ کو نکال کر ایک ہی بات ہاتھ لگی کہ طاہر اکرام پڑھائی نہیں کرتا، اس سے کہیں کہ پڑھا کرے۔
شائستگی کے اظہار کے لئے کسی جملے کے آغاز، درمیان یا آخر میں ’جی‘ کا استعمال اہل پنجاب میں ہمیشہ سے مقبول ہے، لیکن پاکستان ٹیلی ویژن کے مرحوم ڈائرکٹر نیوز مصلح الدین نے یہ لفظ جس تواتر سے برتا اسی کو ان کے مہذب لب و لہجہ کی پہچان سمجھ لیا گیا تھا۔ ان کے ہم عصر اکرام الحق کے ساتھ یہ تو نہ ہوا، مگر انہوں نے ’جی ‘ کی طرح ایک اور لفظ ’اچھا‘ کے تخلیقی استعمال کو بھی یوں حد کمال تک پہنچا یا کہ اس سے اثباتیہ، سوالیہ اور انکاریہ مفہوم حسب ضرورت ادا ہونے لگا۔ پھر بھی دفتر، سفر اور دوسرے اخباروں کے ساتھی جانتے ہیں کہ اکرام صاحب کو عاجزی اختیار کرنے کے لئے کسی ’ایکسس بیگج‘ کو پھینکنا نہیں پڑا تھا بلکہ طبیعت کی سادگی آپ ہی آپ گھریلو، پیشہ ورانہ اور سماجی زندگی کے پیرایوں میں ڈھل گئی۔
ہمارے یہاں ایسے بھولے آدمی کو یا تو ناول اور شارٹ سٹوری کا فلیٹ کردار سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اسے بہت بڑا فراڈ ثابت کیا جائے۔ اکرام صاحب کی ذات شخصی اور پیشہ ورانہ دلچسپی کے کئی پہلو تھے، لیکن فراڈ والی بات چونکہ دلچسپ ہے، سو اس پہ پہلے غور کر لینا چاہئے۔ آخر فیض احمد فیض، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد اور ممتاز مفتی کو بھی تو جھوٹے انقلاب اور جعلی روحانیت کے طعنے سننا پڑے تھے۔ مشکل یہ ہے کہ میرا فراڈ والا مفروضہ کوئی زیادہ آگے نہیں بڑھتا، اس لئے کہ اگر یہ چوراسی سالہ زندگی محض فنکاری تھی تو اس سیریل کا خاتمہ گھر یا اسپتال کے بستر پہ بھی ہو سکتا تھا جبکہ اللہ میاں نے، جو ’خیر الماکرین ‘ بھی ہے، اس کا کلائمیکس روضہء رسول ﷺ کی چوکھٹ پہ کر دکھایا۔
’پڑھا لکھا‘ مسلمان ہونے کے ناتے سے مجھے بھی عقیدے کی بنیادیں عقل سلیم میں تلاش کرنے کی عادت ہے تو سہی، پھر بھی واقعات کی زمانی ترتیب کو دیکھوں تو اس کلائمیکس تک پہنچتے ہوئے ایک نا آشنا سی پروگرامنگ کا احساس ہونے لگتا ہے۔ بیگم اکرام الحق کی رحلت کے چار برس بعد دل میں حج کی اچانک خواہش، پھر یہ تجویز کہ اکلوتی بیٹی نبیلہ، بڑا بیٹا ثاقب اور اس کی اہلیہ بھی ساتھ ہوں، سب سے بڑھ کر دیرینہ درد دل کو طبی مشورے کے بر عکس یہ کہتے ہوئے دائیں بائیں کر دینے کا فیصلہ کہ ’بس ٹھیک ہے جی، کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘ ہفتہ کی شام میں نے چاروں عازمین کو اسلام آباد کے ہوئی اڈے پہ اتارا تو مجھے لگا کہ اکرام صاحب کا کام اب ’آٹو‘ پہ ہے، اتوار کو خانہء خدا کعبہ میں حاضری، رات کو روضہء پاک کے لئے روانگی اور 24 گھنٹوں کے اندر ایک نئی اڑان سے پہلے بیٹی سے یہ راز کی بات ’نہیں نبیلہ، یہ اور طرح کی تکلیف ہے۔‘
ممتاز شاعر اور کالم نگار خالد احمد نے ہر دم بولتے رہنے والے ایک دوست کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ حضرت منہ میں سونے کا مائیکروفون لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے میرے سسر اکرام الحق کانوں میں سونے کی ’ہیئرنگ ایڈ‘ لے کر پیدا ہوئے ہوں گے۔ اسی لئے نوجوانی ہی میں اپنے دل کی مشکوک تال کی تشخیص کے بعد ہر بے سری راگنی کے ماترے پورے کرتے رہے۔ جن شوقیہ گلو کاروں نے اس صوتی آلے کو ’سر‘ کرنے کے لئے خوشدلی سے خوب ٹھونکا بجایا ان میں بیگم اکرام اور بیٹی بیٹوں کے علاوہ میں بھی شامل ہوں۔ افتتاح عین میری شادی کے دن ہوا تھا جب اکرام صاحب نے میرے ابا کے ولائتی سوٹ کو دیکھ کر کہا کہ ملک صاحب کی شان آپ سے زیادہ ہے، اور میں منہ پھٹ سیالکوٹی لہجے میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکا ’لگتا ہے بیاہ ان کا ہو رہا ہے۔‘
سچ تو یہ ہے کہ کسی کی کم گوئی یا بلند آہنگی اس کے تصور حیات کا معاملہ بھی ہوا کرتی ہے، وگرنہ میرے اپنے گھر میں آج بھی صبح کا آغاز بارہا سونے کے مائیکروفون والے دو بزرگوں کے ہیلتھ بلیٹن سے ہوتا ہے، وہ بھی بی بی سی کی طرح میڈیم کے علاوہ شارٹ ویو پر۔ ایک دن تو ناشتہ کی میز پر حالات حاضرہ کے پروگرام ’سیربین‘ کی طرز پر اس موضوع پہ تجزیہ بھی سنا کہ آیا بیماریوں کی جڑ نزلہ ہے یا معدے کی خرابی۔ اکرام صاحب لاہور آئے ہوتے تو ہمارے گھر کی فضا یکسر بدل جاتی، اتنی زیادہ جیسے کلاسیکی استاد میوزک کی الگ الگ اصناف کا فرق بتاتے ہوئے کہا کرتے ہیں ’ایہہ ملک ای ہور، آب و ہوا ای ہور، کہنوں کدھے نال ملا دتا جے۔‘ پھر آخر میں تھک ہار کر کہیں گے کہ ’سر جی، ٹھمری ٹھمری اے، دادرہ دادرہ اے۔‘
میرے ممدوح انسانی زندگی کی ٹھمری اور دادرے کے فرق سے خوب آشنا تھے، مگر انہوں نے یہ نزاکتیں بچوں پر منکشف کرنے کی شعوری کوشش کبھی نہ کی، شائد اس لئے کہ اس میں بھی خود پسندی کا کوئی پہلو نکل سکتا تھا۔ مثال کے طور پر والد کی سرکاری ملازمت کے دوران اپنی اور بھائی بہنوں کی دہلی میں پیدائش، اینگلو عریبک اور سینٹ سٹیفن کالج کے مرحلے، شفیق استاد ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی کوشش سے آزادی کے وقت کراچی تک کا ہوائی سفر، جہاں ابا حلیم کے نام سے جانے گئے وائس چانسلر اے بی اے حلیم کی سرپرستی میں تعلیم مکمل ہوئی۔ بی اے آنرز میں انگریزی ادب کا انتخاب، تاریخ میں ایم اے کے لئے اضافی مضمون میں ڈگری، مقابلے کے امتحان میں نہائت اچھی پوزیشن کے باوجود سول سروس سے جان کیسے چھوٹ گئی؟ یہ اور ان جیسے کئی اور سوال مدتوں نہ کسی نے پوچھے، نہ جواب ملا۔
بہت سی دلچسپ باتیں تو اب سے تین سال پہلے میری بیوی کی ٹیپ پر محفوظ کئے گئے اس انٹرویو میں افشا ہوئیں جس میں سے ’بس جی، اتنا ہی کافی ہے‘ اور اسی نوعیت کے کلمات کی تکرار کاٹ دی جائے تو اس ’غیر بناوٹی‘ گفتگو کا دورانیہ تین گھنٹے بنے گا۔ یہ بھی پتا چلا کہ آپ سکول میں فٹ بال کے اچھے کھلاڑی رہے، بچپن میں ہندوﺅں کی رام لیلا دیکھنے پر مار بھی پڑی، گھر میں ایک مرتبہ جوش ملیح آبادی کی میز بانی کی، ڈان کراچی کی سب ایڈیٹری سے الطاف حسین کے زیر ادارت صحافتی کیرئر شروع کیا، مگر پاکستان ٹائمز، لاہور میں فیض احمد فیض جیسے نرم خو چیف ایڈیٹر سے اس خبر پہ ڈانٹ بھی سنی کہ عید پہ میو اسپتال میں داخل نہ ہو سکنے پر شیخوپورہ کے ایک مریض اور اس کے کنبے نے تین راتیں سڑک پر گزار دیں ۔ ڈانٹ اس لئے پڑی کہ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور منفر د سرجن ڈاکٹر امیر علی، فیض کے دوست تھے۔
ٹھیک ہے، فیض کی شاعری کی طرح ان کی دوستیاں بھی بے مثل ہیں، البتہ اکرام صاحب نے پہلے ڈان، پھر پاکستان ٹائمز اور آخر میں بزنس ریکارڈر کے لئے 60 سالہ عملی صحافت میں اپنے اس پہلو کی ’مشہوری‘ بھی نہ ہونے دی۔ مجھے ایک دو چکرباز، بلکہ خانہ ساز اخبار نویسوں کے بارے میں کرید تھی کہ ان کے ساتھ آخر آپ کی دوستی کی بنیاد کیا ہوسکتی ہے۔ ہر مرتبہ یہی جواب تھا کہ ’بس جی، پرانے دوست ہیں‘ اور یہ کہہ کر اکثر گھر کے ڈائیننگ ٹیبل، پلنگ یا قالین پر کسی نہ کسی پوتی کو گود میں سنبھالتے ہوئے دوبارہ اس خبر کو ٹائپ کرنے میں مصروف ہو جاتے جو اگلے دن صفحہء اول کی شہ سرخی کا عنوان بننے والی ہوتی۔ صرف ایک دفعہ اتنا سننے کو ملا ’وہ جی دوست ہیں، انہوں نے کبھی انگریزی میں بھی خبر لکھنی ہوتی ہے۔‘ میں خوشی سے کھل اٹھا کیونکہ مجھے پہلی بار انسانی عصبیت کی حرارت محسوس ہوئی تھی۔
مَیں آج کے کالم میں ہونے اور نہ ہونے کا جو منظر نامہ لکھنے والا تھا اس کی تکمیل نہیں ہوئی۔ ابھی تو ایک آدھ پرت ہٹا سکا ہوں کہ ’پے منٹ‘ کے عوض عین اس جگہ سے تنبو قناتیں ہٹانے والے آگئے ہیں جہاں تیس سال ہونے کو آئے میری بارات کے لئے شامیانے نصب ہوئے تھے، پھر تین برس بعد ثاقب فاروق کی دعوت ولیمہ ہوئی اور آج سے پانچ سال پیشتر یہیں سے نبیلہ کی امی کا جنازہ اٹھا جن کے لئے ہم ’خوگرِ پیکرِ محسوس‘ اوپن یونیورسٹی کی طرف ایک چھوٹا سا موڑ کاٹ کر اسلام آباد آتے جاتے قبر پہ فاتحہ بڑھ لیتے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ سر، آپ نے تو یہ مہلت بھی نہیں دی۔ جواب آئے گا ’بس ٹھیک ہے جی، کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘ آپ نے سچ کہا سر جی، خدا کی خدائی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر انسانوں کے اندر کی کائناتیں تو ٹوٹ جاتی ہیں!