اوشو
لائبریرین
ہمیں مرے ہوئے تین منٹ ہو چکے تھے لیکن ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا‘ ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا‘ ہم بھی مر سکتے ہیں‘ میرے ساتھ ایک اسمارٹ قسم کا خوبصورت مردہ بیٹھا تھا‘ اس کے بازو‘ ٹانگیں‘ گردن‘ چھاتی پیٹ اور کمر بتا رہی تھی‘ اس نے زندگی کا زیادہ تر وقت جم میں گزارا ہو گا‘ یہ دنیا کی متوازن اور بہترین خوراک کھاتا ہو گا اور اس نے اپنے جسم کو ہر قسم کی آلودگی‘ بیماری اور بدپرہیزی سے بھی بچا کر رکھا ہو گا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم نے کبھی سگریٹ پیا‘‘ اس نے انکار میں سر ہلا دیا۔
میں نے پوچھا ’’ شراب‘ چرس‘ گانجا‘‘ اس کا سر انکار میں ہلتا رہا‘ میں نے پوچھا تم نے کبھی رش ڈرائیونگ کی‘ پانی میں اندھی چھلانگ لگائی‘ تم سڑک پر پیدل چلتے رہے ہو یا تم لوگوں سے الجھ پڑتے ہو‘‘ اس نے انکار میں سر ہلایا اور دکھی آواز میں بولا ’’ میں نے زندگی میں کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’ تمہاری عمر کتنی تھی‘‘ اس نے جواب دیا ’’ صرف 32 سال‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’ پھر تم کیسے مر گئے‘‘ اس کا دکھ بڑھ گیا‘ میں بھی اس بات پر حیران ہوں‘ میں اپنے آپ سے مسلسل پوچھ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’ تم مرے کیسے تھے‘‘ اس نے چیخ کر جواب دیا ’’ میں اپنے لائونج میں ٹی وی دیکھ رہا تھا‘ مجھے اچانک سینے میں درد محسوس ہوا۔ میں نے چائے کا کپ میز پر رکھا‘ دُہرا ہوا اور اس کے بعد سیدھا نہیں ہو سکا‘ میں مر گیا‘‘۔
میں نے پوچھا ’’ تمہاری اس وقت سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھا اور بولا ’’ تین منٹ کی زندگی‘ میں صرف تین منٹ کے لیے واپس جانا چاہتا ہوں‘ میرے والد میرے ساتھ خفا تھے‘ میں اپنی بیوی سے بدتمیزی کرتا تھا‘ میں نے اپنے بچوں کو کبھی پیار نہیں کیا‘ میں ملازموں کو وقت پر تنخواہ نہیں دیتا تھا‘ اور میں نے اپنے لان میں گلاب کے پھول لگوائے تھے لیکن میں ان کے پاس نہ بیٹھ سکا اور میں نے ہمیشہ اپنے جسم کو اللہ تعالیٰ کی کبریائی سے مقدم رکھا‘ میں تین منٹ میں سب سے معافی مانگنا چاہتا ہوں اور میں اپنے گلابوں کو چھو کر دیکھنا چاہتا ہوں‘‘ ہم سب سناٹے میں آ گئے‘ پہلوان کی بات ابھی جاری تھی کہ دوسرا بول پڑا۔
یہ ایگزیکٹو قسم کا سیریس مردہ تھا‘ اس کے چہرے پر کامیاب بزنس مین کا اعتماد تھا‘ کامیابی انسانی چہرے پر اعتماد کی چند لکیریں چھوڑ جاتی ہے‘ یہ لکیریں کامیاب لوگوں کو عام اشخاص سے مختلف بنا دیتی ہیں‘ آپ دنیا کے مختلف کامیاب لوگوں کی تصویریں لیں‘ یہ تصویریں میز پر رکھیں اور غور سے دیکھیں‘ آپ کو تمام چہروں پر خاص قسم کا اعتماد ملے گا اور وہ خاص اعتماد اس کے چہرے پر بھی موجود تھا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم بھی مر گئے؟‘‘ اس نے افسوس سے سر ہلایا اور جواب دیا ’’ میں بھی اس بات پر حیران ہوں‘ میں دنیا کے بہترین ڈاکٹر‘ اعلیٰ ترین اسپتال اور مہنگی ترین دوائیں افورڈ کر سکتا تھا‘ میں نے دنیا کی مہلک ترین بیماریوں کی ویکسین لگوا رکھی تھی‘ میں امریکا اور یورپ کی بہترین لیبارٹریوں سے ہر چار ماہ بعد اپنے ٹیسٹ کرواتا تھا۔
ہفتے میں دو بار اسٹیم باتھ لیتا تھا‘ میں ڈائیٹ چارٹ کے مطابق خوراک کھاتا تھا‘ ہر ہفتے فل باڈی مساج کرواتا تھا‘ میں کام کا سٹریس بھی نہیں لیتا تھا‘ میں نے ہمیشہ بلٹ پروف گاڑی اور ذاتی جہاز میں سفر کیا‘ میرے پاس پانچ ہزار لوگ ملازم تھے‘ یہ لوگ میرا سارا سٹریس اٹھا لیتے تھے اور میں صرف عیش کرتا تھا مگر پھر مجھے کھانسی آئی‘ میں نیچے جھکا‘ فرش پر گرا اور مر گیا اور میں پچھلے تین منٹ سے یہ سوچ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘ میں نے تو کبھی مرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم اب کیا چاہتے ہو‘‘ اس نے تڑپ کر جواب دیا ’’ تین منٹ کی زندگی‘ میں واپس جا کر اپنی ساری دولت ویلفیئر کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں‘ میں اس سے فری میڈیکل کالج‘ ملک کا سب سے بڑا تھیلیسیمیا اسپتال یا پھر ملک کی سب سے بڑی سائنس یونیورسٹی بنانے کا حکم دوں گا اور پھر واپس آ جائوں گا۔
آپ لوگوں کے پاس‘‘ ابھی اس کی بات جاری تھی تیسرا مردہ بول پڑا‘ یہ مردہ چال ڈھال اور شکل شباہت سے سیاستدان دکھائی دیتا تھا‘ دنیا کے تمام سیاستدانوں کے چہروں پر مکاری ہوتی ہے‘ اس کے چہرے پر بھی مکاری موجود تھی‘ میں نے پوچھا ’’بٹ صاحب آپ بھی فوت ہو گئے‘‘ وہ دکھ میں ڈوبی آواز میں بولا ’’ ہاں اور میں اسی بات پر حیران ہوں‘ سوچ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘ میں تو وہ شخص تھا جس کے ایک نعرے پر لوگ جان دیتے تھے‘ میری گرفتاری‘ میری قید پر میرے ورکر خود سوزی کر لیتے تھے‘ لوگ مجھ سے ٹکٹ لینے کے لیے گیارہ ہزار وولٹ کے کھمبے پر چڑھ جاتے تھے۔
میرے جوتے اٹھا کر سینے سے لگا لیتے تھے اور میں اس وقت تک کوئی چیز کھاتا تھا اور نہ ہی پیتا تھا‘ میرے ڈاکٹر جب تک اس کی تصدیق نہیں کر دیتے تھے‘ میں ہمیشہ بلٹ پروف شیشوں کے پیچھے رہا اور میں تقریر بھی بلٹ پروف کیبن میں کھڑے ہو کر کرتا تھا‘ میں ہر مہینے عمرے کے لیے جاتا تھا اور ہر دوسرے دن دو لاکھ روپے خیرات کرتا تھا مگر آج اچانک میرے سر میں درد ہوا‘ میں نے کنپٹی دبائی‘ میرے دماغ میں ایک ٹیس سی اٹھی‘ میں نے چیخ ماری اور میں مر گیا۔
میرے ڈاکٹر مجھے زندہ کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں مگر میں اب آپ کے ساتھ کھڑا ہوں‘‘ میں نے اس سے بھی پوچھا ’’ آپ کی اس وقت سب سے بڑی خواہش کیا ہے‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’ تین منٹ کی زندگی‘ میں اس دنیا کے تمام سیاستدانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں‘ آپ موت سے نہیں بچ سکتے چنانچہ عوام اور اپنے درمیان سے بلٹ پروف شیشے ہٹا دیں‘ خدمت اور تبدیلی وہی ہے جو آپ آج لے آئے‘ اگر آج کی ٹرین مس کر دی تو دوبارہ نہیں پکڑ سکیں گے‘ آپ خادم ہیں تو خدمت کریں نعرے نہ لگائیں‘‘ وہ خاموش ہوا تو چوتھا مردہ بول پڑا۔
یہ مسکین مردہ تھا‘ نائین ٹو فائیو والا مسکین شخص‘ یہ لوگوں کی وہ کلاس ہے جو کندھے پر کوہلو کا شہتیر لے کر پیدا ہوتی ہے اور زندگی ایک دائرے میں گزار دیتی ہے‘ یہ قانون کے اس قدر پابند ہوتے ہیں کہ یہ قانون کی لکیر پر اپنا اور کسی دوسرے کا پائوں نہیں آنے دیتے‘ یہ ناک کی سیدھ میں زندگی گزارتے ہیں اور ناک ٹیڑھی ہونے دیتے ہیں اور نہ ہی زندگی‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم بھی مر گئے‘‘ اس نے کہا ’’ یہ ہی تو پریشانی ہے‘ میں نے زندگی میں کبھی غلطی نہیں کی‘ حرام کو ہاتھ تک نہ لگایا‘ پونے آٹھ بجے دفتر پہنچا‘ چھٹی کے بعد آدھ گھنٹہ دفتر بیٹھا‘ ہمیشہ فائلیں گھر لے کر آیا اور اپنے عزیز ترین شخص کو بھی کوئی رعایت نہیں دی‘ پانچ وقت نماز پڑھی‘ پورے روزے رکھے‘ اپنے ضمیر کو ہمیشہ مطمئن رکھا۔
نفس کو خواہشوں کے ڈنگ سے بچا کر رکھا مگر میں اس کے باوجود مارا گیا‘ میں نے پوچھا ’’ تم کیسے مارے گئے‘‘ اس نے جواب دیا ’’ میں چھت سے اپنی قمیض اتارنے گیا‘ آوارہ گولی آئی‘ سر میں لگی اور میں بیالیس سیکنڈ میں زندگی کی حد کراس کر گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’ تم اب کیا چاہتے ہو‘‘ اس نے فوراً جواب دیا ’’ میں بھی تین منٹ کی اضافی زندگی چاہتا ہوں‘ میں ان تمام سائلوں سے معافی مانگنا چاہتا ہوں جنھیں میں نے جعلی ضابطوں اور جھوٹے اصولوں کی ٹکٹکی پر لٹکائے رکھا‘ میں اپنے کولیگز کو بھی یہ بتانا چاہتا ہوں‘ ضابطے انسانوں کے لیے ہیں‘ انسان ضابطوں کے لیے نہیں‘ آپ کو کسی کے جائز کام کے لیے ضابطے کی ساری کتاب بھی قربان کرنی پڑے تو کر جائیں کیونکہ آپ نے اصول پسندی کی اس جھوٹی ضد کے باوجود اچانک مر جانا ہے‘‘ ابھی اس کی بات جاری تھی کہ مولوی صاحب کا مردہ سیدھا ہو گیا۔
ان کے ماتھے پر زہد اور تقویٰ کا محراب تھا‘ گردن عجز اور انکساری کے بوجھ سے جھکی ہوئی تھی‘ میں نے انھیں پوچھا ’’ حضور آپ بھی مر چکے ہیں‘‘ مولوی صاحب بولے ’’ میں بھی اس بات پر حیران ہوں‘ میں نے زندگی میں سیکڑوں جنازے پڑھائے‘ اپنی ہر تقریر میں موت‘ میدان حشر اور حساب کا ذکرکیا لیکن اس کے باوجود مجھے یقین تھا میں نہیں مروں گا‘ اللہ تعالیٰ مجھے سو سال سے زائد عمر دے گا اور میں جب تک موت کے فرشتے کو اجازت نہیں دوں گا یہ میرے بستر کے قریب نہیں پھٹکے گا مگر ہوا اس سے الٹ‘ میں موٹر سائیکل سے گرا اور ٹرک میرے اوپر سے گزر گیا اور مجھے بھی اب صرف تین منٹ چاہئیں۔
میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں ہم لوگ آپ کو جو مذہب سکھا رہے ہیں‘ یہ غلط ہے‘ آپ کو اللہ‘ کتاب اور رسولؐ کے سواکسی مولوی‘ کسی پیر‘ فقیر کی ضرورت نہیں‘ اللہ سے اپنی غلطیوں‘ گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگو‘ نماز نہیں پڑھتے تو بھی نماز کے وقت قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کرو اور صرف تین سیکنڈ کے لیے اللہ سے کہو‘ یا اللہ میں حاضر ہو گیا‘ مجھے معاف کر دے‘ قرآن مجید ترجمے کے ساتھ پڑھو اور رسولؐ کی کوئی ایک سنت پوری زندگی سنوارنے کے لیے کافی ہے‘ اس کی بات ابھی ادھوری تھی اور وہ لوگ میری طرف مڑے اور مجھ سے پوچھا ’’ اف جاوید چوہدری تم بھی مر گئے‘ تمہیں تو نہیں مرنا چاہیے تھا‘‘۔
مردوں کی اف میری روح میں ترازو ہوگئی‘ میں نے سوچا ’’ واقعی میں کیسے مر سکتا ہوں‘ میں ڈسپلن میں رہنے والا شخص ہوں‘ میں نے تو ابھی مرنے کا منصوبہ ہی نہیں بنایا تھا مگر میں سویا اور صبح اٹھ نہ سکا‘ میری ننھی بیٹیاں مجھے اٹھاتی رہیں‘ یہ میرے اوپر چھلانگیں لگاتی رہیں‘ ان کا خیال تھا میں ان کے ساتھ مذاق کر رہا ہوں‘ میں ابھی بھی اٹھوں گا‘ مگر میں نہ اٹھا اور ان کے قہقہے چیخوں میں بدل گئے‘ میں نے زندگی میں اپنی بچیوں کو کبھی دکھ نہیں دیا‘ میں انھیں زندگی میں پہلی بار روتے‘ چیختے دیکھ رہا ہوں اور ان کی چیخیں میری روح کو تار تار کر رہی ہیں‘ مجھے بھی تین منٹ چاہیے تھے‘ صرف تین منٹ‘ میں ان کی گیلی پلکوں پر بوسہ دینا چاہتا ہوں‘ میں انھیں روز کی طرح اسکول بھجوانا چاہتا ہوں‘ خدا کے لیے مجھے صرف تین منٹ چاہئیں‘ کوئی مجھے یہ تین منٹ دے دے گا؟ خدا کے لیے‘‘
زیرو پوائنٹ از جاوید چوہدری (روزنامہ ایکسپریس۔14 اپریل 2013)
میں نے پوچھا ’’ شراب‘ چرس‘ گانجا‘‘ اس کا سر انکار میں ہلتا رہا‘ میں نے پوچھا تم نے کبھی رش ڈرائیونگ کی‘ پانی میں اندھی چھلانگ لگائی‘ تم سڑک پر پیدل چلتے رہے ہو یا تم لوگوں سے الجھ پڑتے ہو‘‘ اس نے انکار میں سر ہلایا اور دکھی آواز میں بولا ’’ میں نے زندگی میں کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’ تمہاری عمر کتنی تھی‘‘ اس نے جواب دیا ’’ صرف 32 سال‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’ پھر تم کیسے مر گئے‘‘ اس کا دکھ بڑھ گیا‘ میں بھی اس بات پر حیران ہوں‘ میں اپنے آپ سے مسلسل پوچھ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’ تم مرے کیسے تھے‘‘ اس نے چیخ کر جواب دیا ’’ میں اپنے لائونج میں ٹی وی دیکھ رہا تھا‘ مجھے اچانک سینے میں درد محسوس ہوا۔ میں نے چائے کا کپ میز پر رکھا‘ دُہرا ہوا اور اس کے بعد سیدھا نہیں ہو سکا‘ میں مر گیا‘‘۔
میں نے پوچھا ’’ تمہاری اس وقت سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھا اور بولا ’’ تین منٹ کی زندگی‘ میں صرف تین منٹ کے لیے واپس جانا چاہتا ہوں‘ میرے والد میرے ساتھ خفا تھے‘ میں اپنی بیوی سے بدتمیزی کرتا تھا‘ میں نے اپنے بچوں کو کبھی پیار نہیں کیا‘ میں ملازموں کو وقت پر تنخواہ نہیں دیتا تھا‘ اور میں نے اپنے لان میں گلاب کے پھول لگوائے تھے لیکن میں ان کے پاس نہ بیٹھ سکا اور میں نے ہمیشہ اپنے جسم کو اللہ تعالیٰ کی کبریائی سے مقدم رکھا‘ میں تین منٹ میں سب سے معافی مانگنا چاہتا ہوں اور میں اپنے گلابوں کو چھو کر دیکھنا چاہتا ہوں‘‘ ہم سب سناٹے میں آ گئے‘ پہلوان کی بات ابھی جاری تھی کہ دوسرا بول پڑا۔
یہ ایگزیکٹو قسم کا سیریس مردہ تھا‘ اس کے چہرے پر کامیاب بزنس مین کا اعتماد تھا‘ کامیابی انسانی چہرے پر اعتماد کی چند لکیریں چھوڑ جاتی ہے‘ یہ لکیریں کامیاب لوگوں کو عام اشخاص سے مختلف بنا دیتی ہیں‘ آپ دنیا کے مختلف کامیاب لوگوں کی تصویریں لیں‘ یہ تصویریں میز پر رکھیں اور غور سے دیکھیں‘ آپ کو تمام چہروں پر خاص قسم کا اعتماد ملے گا اور وہ خاص اعتماد اس کے چہرے پر بھی موجود تھا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم بھی مر گئے؟‘‘ اس نے افسوس سے سر ہلایا اور جواب دیا ’’ میں بھی اس بات پر حیران ہوں‘ میں دنیا کے بہترین ڈاکٹر‘ اعلیٰ ترین اسپتال اور مہنگی ترین دوائیں افورڈ کر سکتا تھا‘ میں نے دنیا کی مہلک ترین بیماریوں کی ویکسین لگوا رکھی تھی‘ میں امریکا اور یورپ کی بہترین لیبارٹریوں سے ہر چار ماہ بعد اپنے ٹیسٹ کرواتا تھا۔
ہفتے میں دو بار اسٹیم باتھ لیتا تھا‘ میں ڈائیٹ چارٹ کے مطابق خوراک کھاتا تھا‘ ہر ہفتے فل باڈی مساج کرواتا تھا‘ میں کام کا سٹریس بھی نہیں لیتا تھا‘ میں نے ہمیشہ بلٹ پروف گاڑی اور ذاتی جہاز میں سفر کیا‘ میرے پاس پانچ ہزار لوگ ملازم تھے‘ یہ لوگ میرا سارا سٹریس اٹھا لیتے تھے اور میں صرف عیش کرتا تھا مگر پھر مجھے کھانسی آئی‘ میں نیچے جھکا‘ فرش پر گرا اور مر گیا اور میں پچھلے تین منٹ سے یہ سوچ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘ میں نے تو کبھی مرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم اب کیا چاہتے ہو‘‘ اس نے تڑپ کر جواب دیا ’’ تین منٹ کی زندگی‘ میں واپس جا کر اپنی ساری دولت ویلفیئر کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں‘ میں اس سے فری میڈیکل کالج‘ ملک کا سب سے بڑا تھیلیسیمیا اسپتال یا پھر ملک کی سب سے بڑی سائنس یونیورسٹی بنانے کا حکم دوں گا اور پھر واپس آ جائوں گا۔
آپ لوگوں کے پاس‘‘ ابھی اس کی بات جاری تھی تیسرا مردہ بول پڑا‘ یہ مردہ چال ڈھال اور شکل شباہت سے سیاستدان دکھائی دیتا تھا‘ دنیا کے تمام سیاستدانوں کے چہروں پر مکاری ہوتی ہے‘ اس کے چہرے پر بھی مکاری موجود تھی‘ میں نے پوچھا ’’بٹ صاحب آپ بھی فوت ہو گئے‘‘ وہ دکھ میں ڈوبی آواز میں بولا ’’ ہاں اور میں اسی بات پر حیران ہوں‘ سوچ رہا ہوں‘ میں کیسے مر سکتا ہوں‘ میں تو وہ شخص تھا جس کے ایک نعرے پر لوگ جان دیتے تھے‘ میری گرفتاری‘ میری قید پر میرے ورکر خود سوزی کر لیتے تھے‘ لوگ مجھ سے ٹکٹ لینے کے لیے گیارہ ہزار وولٹ کے کھمبے پر چڑھ جاتے تھے۔
میرے جوتے اٹھا کر سینے سے لگا لیتے تھے اور میں اس وقت تک کوئی چیز کھاتا تھا اور نہ ہی پیتا تھا‘ میرے ڈاکٹر جب تک اس کی تصدیق نہیں کر دیتے تھے‘ میں ہمیشہ بلٹ پروف شیشوں کے پیچھے رہا اور میں تقریر بھی بلٹ پروف کیبن میں کھڑے ہو کر کرتا تھا‘ میں ہر مہینے عمرے کے لیے جاتا تھا اور ہر دوسرے دن دو لاکھ روپے خیرات کرتا تھا مگر آج اچانک میرے سر میں درد ہوا‘ میں نے کنپٹی دبائی‘ میرے دماغ میں ایک ٹیس سی اٹھی‘ میں نے چیخ ماری اور میں مر گیا۔
میرے ڈاکٹر مجھے زندہ کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں مگر میں اب آپ کے ساتھ کھڑا ہوں‘‘ میں نے اس سے بھی پوچھا ’’ آپ کی اس وقت سب سے بڑی خواہش کیا ہے‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’ تین منٹ کی زندگی‘ میں اس دنیا کے تمام سیاستدانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں‘ آپ موت سے نہیں بچ سکتے چنانچہ عوام اور اپنے درمیان سے بلٹ پروف شیشے ہٹا دیں‘ خدمت اور تبدیلی وہی ہے جو آپ آج لے آئے‘ اگر آج کی ٹرین مس کر دی تو دوبارہ نہیں پکڑ سکیں گے‘ آپ خادم ہیں تو خدمت کریں نعرے نہ لگائیں‘‘ وہ خاموش ہوا تو چوتھا مردہ بول پڑا۔
یہ مسکین مردہ تھا‘ نائین ٹو فائیو والا مسکین شخص‘ یہ لوگوں کی وہ کلاس ہے جو کندھے پر کوہلو کا شہتیر لے کر پیدا ہوتی ہے اور زندگی ایک دائرے میں گزار دیتی ہے‘ یہ قانون کے اس قدر پابند ہوتے ہیں کہ یہ قانون کی لکیر پر اپنا اور کسی دوسرے کا پائوں نہیں آنے دیتے‘ یہ ناک کی سیدھ میں زندگی گزارتے ہیں اور ناک ٹیڑھی ہونے دیتے ہیں اور نہ ہی زندگی‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم بھی مر گئے‘‘ اس نے کہا ’’ یہ ہی تو پریشانی ہے‘ میں نے زندگی میں کبھی غلطی نہیں کی‘ حرام کو ہاتھ تک نہ لگایا‘ پونے آٹھ بجے دفتر پہنچا‘ چھٹی کے بعد آدھ گھنٹہ دفتر بیٹھا‘ ہمیشہ فائلیں گھر لے کر آیا اور اپنے عزیز ترین شخص کو بھی کوئی رعایت نہیں دی‘ پانچ وقت نماز پڑھی‘ پورے روزے رکھے‘ اپنے ضمیر کو ہمیشہ مطمئن رکھا۔
نفس کو خواہشوں کے ڈنگ سے بچا کر رکھا مگر میں اس کے باوجود مارا گیا‘ میں نے پوچھا ’’ تم کیسے مارے گئے‘‘ اس نے جواب دیا ’’ میں چھت سے اپنی قمیض اتارنے گیا‘ آوارہ گولی آئی‘ سر میں لگی اور میں بیالیس سیکنڈ میں زندگی کی حد کراس کر گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’ تم اب کیا چاہتے ہو‘‘ اس نے فوراً جواب دیا ’’ میں بھی تین منٹ کی اضافی زندگی چاہتا ہوں‘ میں ان تمام سائلوں سے معافی مانگنا چاہتا ہوں جنھیں میں نے جعلی ضابطوں اور جھوٹے اصولوں کی ٹکٹکی پر لٹکائے رکھا‘ میں اپنے کولیگز کو بھی یہ بتانا چاہتا ہوں‘ ضابطے انسانوں کے لیے ہیں‘ انسان ضابطوں کے لیے نہیں‘ آپ کو کسی کے جائز کام کے لیے ضابطے کی ساری کتاب بھی قربان کرنی پڑے تو کر جائیں کیونکہ آپ نے اصول پسندی کی اس جھوٹی ضد کے باوجود اچانک مر جانا ہے‘‘ ابھی اس کی بات جاری تھی کہ مولوی صاحب کا مردہ سیدھا ہو گیا۔
ان کے ماتھے پر زہد اور تقویٰ کا محراب تھا‘ گردن عجز اور انکساری کے بوجھ سے جھکی ہوئی تھی‘ میں نے انھیں پوچھا ’’ حضور آپ بھی مر چکے ہیں‘‘ مولوی صاحب بولے ’’ میں بھی اس بات پر حیران ہوں‘ میں نے زندگی میں سیکڑوں جنازے پڑھائے‘ اپنی ہر تقریر میں موت‘ میدان حشر اور حساب کا ذکرکیا لیکن اس کے باوجود مجھے یقین تھا میں نہیں مروں گا‘ اللہ تعالیٰ مجھے سو سال سے زائد عمر دے گا اور میں جب تک موت کے فرشتے کو اجازت نہیں دوں گا یہ میرے بستر کے قریب نہیں پھٹکے گا مگر ہوا اس سے الٹ‘ میں موٹر سائیکل سے گرا اور ٹرک میرے اوپر سے گزر گیا اور مجھے بھی اب صرف تین منٹ چاہئیں۔
میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں ہم لوگ آپ کو جو مذہب سکھا رہے ہیں‘ یہ غلط ہے‘ آپ کو اللہ‘ کتاب اور رسولؐ کے سواکسی مولوی‘ کسی پیر‘ فقیر کی ضرورت نہیں‘ اللہ سے اپنی غلطیوں‘ گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگو‘ نماز نہیں پڑھتے تو بھی نماز کے وقت قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کرو اور صرف تین سیکنڈ کے لیے اللہ سے کہو‘ یا اللہ میں حاضر ہو گیا‘ مجھے معاف کر دے‘ قرآن مجید ترجمے کے ساتھ پڑھو اور رسولؐ کی کوئی ایک سنت پوری زندگی سنوارنے کے لیے کافی ہے‘ اس کی بات ابھی ادھوری تھی اور وہ لوگ میری طرف مڑے اور مجھ سے پوچھا ’’ اف جاوید چوہدری تم بھی مر گئے‘ تمہیں تو نہیں مرنا چاہیے تھا‘‘۔
مردوں کی اف میری روح میں ترازو ہوگئی‘ میں نے سوچا ’’ واقعی میں کیسے مر سکتا ہوں‘ میں ڈسپلن میں رہنے والا شخص ہوں‘ میں نے تو ابھی مرنے کا منصوبہ ہی نہیں بنایا تھا مگر میں سویا اور صبح اٹھ نہ سکا‘ میری ننھی بیٹیاں مجھے اٹھاتی رہیں‘ یہ میرے اوپر چھلانگیں لگاتی رہیں‘ ان کا خیال تھا میں ان کے ساتھ مذاق کر رہا ہوں‘ میں ابھی بھی اٹھوں گا‘ مگر میں نہ اٹھا اور ان کے قہقہے چیخوں میں بدل گئے‘ میں نے زندگی میں اپنی بچیوں کو کبھی دکھ نہیں دیا‘ میں انھیں زندگی میں پہلی بار روتے‘ چیختے دیکھ رہا ہوں اور ان کی چیخیں میری روح کو تار تار کر رہی ہیں‘ مجھے بھی تین منٹ چاہیے تھے‘ صرف تین منٹ‘ میں ان کی گیلی پلکوں پر بوسہ دینا چاہتا ہوں‘ میں انھیں روز کی طرح اسکول بھجوانا چاہتا ہوں‘ خدا کے لیے مجھے صرف تین منٹ چاہئیں‘ کوئی مجھے یہ تین منٹ دے دے گا؟ خدا کے لیے‘‘
زیرو پوائنٹ از جاوید چوہدری (روزنامہ ایکسپریس۔14 اپریل 2013)