ساجدتاج
محفلین
مجھے موت سے ڈر لگنے لگا ہے
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
موت ایک ایسی بھیانک حقیقت جسے ہم چاہ کر بھی فراموش نہیں کر سکتے۔موت ایک ایسی چیز ہے جو اپنا وقت مقرر کیئے ہوئے ہے کیونکہ جب موت نے آنا ہے تو اُس نے آکر ہی رہنا ہے اور اُسے کوئی ٹال نہیںسکتا(سوائے اللہ کے) موت کا خوف انسان کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے کچھ لوگ کہتے ہیں بڑے فخر سے کہ ہمیں موت سے ڈر نہیںلگتا جو کہ سراسر اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ حانکہ انسان سب سے زیادی پیار اپنی زندگی سے کرتا ہے اور سب سے زیادہ ڈر اُسے موت سے لگتا ہے۔ ہم لوگ موت جیسے خوف سے انجان ہیں یا انجان بننے کی کوشش کرتا ہے۔ موت کا سامنا کرنے والے انسان اپنا آپ کھو بیٹھتے ہیں۔
اکثر اوقات جب میںاکیلا ہوتا ہوں تو ایک عجہب سی اُداسی ، ایک عجیب سا خؤف ، ایک عجیب سی پریشانی ، ایک عجیب سی وحشت مجھ پہ طاری ہونے لگتی ہے کہ آخر میںہوں کیا ؟ اور کیسے اپنی زندگی کو گزار رہا ہوں۔ صبح سے شام تک آفس پھر پھر گھر پر آنا، پھر تھوڑی دیر گھر والوں اور شریک حیات کے ساتھ وقت گزارنا اور پھر تھوڑی دیر بعد سو جانا اور پھر اگلے دن اُٹھ کر وہی روٹین شروع۔ کبھی کبھی اکیلے بیٹھے ہوئے بہت رونا آتا ہے کہ میںنے اپنی لائف کو کیا بنا دیا ہے۔ کیا لائف کا مقصد صرف نوکری ، پیسہ ، گھر ، بنک بیلنس ، دوست ، رستے دار یا صرف ہنسی مذاق ہی رہ گیا ہے؟ اپنے آپ سے ہزاروں سوال کرتا ہوں مگر جواب ایک بھی نہیں ملتا اور پھر اپنے اندر ہی اندر گھٹتا رہتا ہوں۔ کہ آخر میں چاہتا کیا ہوں؟ کیا کرنا چاہتا ہوں ؟ کیا ہے میرے دل میں جو سب کو بتانا چاہتا ہوں؟ مگر آخر میں یہ سوچ کر چُپ ہو جاتا ہوںکہ مجھے خود نہیں پتہ کہ میںکیا کہنا/کرنا/ اور بتانا چاہتا ہوں۔
میں صبح چھ بجے اپنے گھر سے نکلتا ہوں آفس جانے کے لیے تو اُس وقت کچھ کچھ مساجد میں اذان کی آواز آرہی ہوتی ہے۔ مجھے گھر سے اسٹیشن کا سفر موٹر سائیکل پر کرنا پڑتا ہے تو جب صبح صبح یہ سفر کر رہا ہوتا ہوں تو ہر طرف اندھیرا ہی چھایا ہوتاہے نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ تب بھی ایک عجیب سا خوف اور ایک دل دہلا دینے والی سوچ میرے ذہن میں گردش کرتی ہے کہ جتنا اندھیرا سڑکوں پر نظر آرہا ہے اس سے کہیں زیادہ اندھیرا ہماری قبروںمیں ہو گا۔یہ سوچنے کی دیر ہوتی ہے کہ مجھے اپنے جسم میںایک عجیب سی لہر دوڑتی ہے اور جسم کانپنے لگتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مجھے ابھی کچھ ہونے والا ہے۔
اسٹیشن پر پہنچنے کے بعد سفر ٹرین پر گزرتا ہے اور واپسی کا سفر بھی ٹرین پر ہی ہوتا ہے۔ ٹرین کے باہر دیکھوں یا ٹرین کے اندر ہر انسان اپنی اپنی لائف میںمگن نظر آتا ہے۔ کچھ لوگ دنیا کو جیتنے کی باتیں کرتے ہیں ، کہیں پیسے کی بات ہو رہی ہے ، کہیں گھر کی تو کہیںگھروالوںکی، کہیںشادی کی ، کہیں بیوی بچوں کی ، کہیں گاڑیاں خریدنے کی ، کہیں کسی کی چغلی ہو رہی ہوتی ہے ، کہیں بے حیا باتیں ، کہیں مستقبل سنوارنے کی ، کہیںکسی کی غیبت ، کہیںکسی کے خلاف سازششیں ، کہیں سیاسیت کی باتیں ، کہیں حکمرانوں کو گالیاں دی جارہی ہیں تو کہیںملک کے حالات کو لے کر ڈسکشن ہو رہی ہے۔ لیکن کہیں کوئی اپنی آخرت کو لے کر بات نہیںکرتا ہے کہ ہم کس لیے دنیا میں آئے ہیں اور کیا کر رہے ہیںاور کیا لے کر جائیںگے۔ ساری انسانیت دنیا کو خوش کرنے میں لگی ہوئی ہے جو کہ عارضی ہے اور اپنے رَب کو ناراض کرتے جاتے ہیں جو اس پوری دنیا کا مالک ہے۔
ہمیںاللہ تعالی سے ڈر کیوں نہیںلگتا ؟ ہمیں اُس پاک ذات کے عذاب سے ڈر کیوں نہیں لگتا ؟ ہمیں اُس ہمیشہ رہنے والی سے ذات کے جلال سے ڈر کیوںنہیں لگتا؟ ہمیں اُس دو جہانوں کے مالک سے ڈر کیوں نہیں لگتا ہے جو زندگی اور موت کا مالک ہے ؟ ہمیں اُس رحیم سے ڈر کیوںنہیںلگتا جو ہر حال میں اپنے بندے کو معاف کر دیتا ہے اگر توبہ کرے تو ؟ ہمیں اُس رحمن سے ڈر کیوں نہیں لگتا ہے جو ہمیں ہزار موقعے دیتا ہے دوزخ کی آگ سے بچنے کے لیے ؟ ہم یہ کیوں بھول بیٹھے ہیں کہ جس نے ہمیںیہ زندگی دی ہوئی ہے وہ ہمیں موت دینے کا بھی حق رکھتا ہے وہ جب چاہے کسی کو زندگی دے اور جب چاہے کسی کو موت دے دے اور یہ موت ہمیں کب کہاں اور کیسے آجائے گی یہ ہم کبھی جان نہیںسکتے۔ موت ایک حقیقت ہے جو جب آئے گی تو اپنے ساتھ سب بہا لے جائے گی۔ موت کسی کے کہنے پر نہیں رُک سکتی (سوائے اللہ تعالی کے)۔ جس پر موت کا وقت مقرر ہے اُس کو موت اُسی وقت آئے گی نہ ایک سیکنڈ آگے نہ ایک سیکنڈ پیچھے۔
آج کل روز اپنے بارے میں سوچتا ہوں کہ میں نے اپنے رَب کو خوش کرنے کے یے آج تک کیا کیا ؟ یا کیا کرتا ہوں ؟ یا آگے کیا کروں گا؟ مجھے اپنی ذات پر بہت افسوس اور دُکھ ہوتا ہے کہ اپنے رَب کی عبادت اُس طرح نہیںکر پاتا ہوں یا نہیں کرتا ہوں کہ جس طرح اُس پاک ذات کی عبادت کرنے کا حق ہے۔وہ مجھے بن مانگے عطا کر رہا ہے اور میںہر نعمت لے کر اُس کی ناشکری کرتا رہتاہوں۔ وہ ہر لمحے میرے ساتھ رہتا ہے جب بھی میںاُس کو پکاروںیا نہ پکاروں۔ مگر میںاپنے اعمال کی بدولت خود سے اپنے پیارے رَب کو دور کرتا جارہا ہوں۔ وہ مجھے ہر وقت سیدھی راہ دکھاتا ہے اور میںہوں کہ گمراہی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہوں۔
میں اپنے آنے والے وقت سے ڈر لگنے لگا ہوں۔ میں اب اپنی موت سے ڈرنے لگا ہوں کہ پتہ نہیں وہ مجھے کب اپنے ساتھ لے جائے گی میں سچ کہہ رہا ہوں دوستو مجھے موت سے ڈر لگنے لگا ہے۔
نوٹ : انسان کو جب سوئی جیسی چھوٹی چیز بھی چھبتی ہے تو وہ کتنی دیر تک تکلیف میں رہتا ہے اور اکثر اوقات آپ لوگوں نے غور کیا ہو گا کہ آگ کی چھوٹی سی چنگاری لگنے سے انسان کس طرح بوکھلا سا جاتا ہے اور کتنے دن تک جلن کا احساس ہوتا رہتا ہے لیکن کبھی انسان نے سوچا ہے کہ قیامت کے روز جب ہمیں دوزخ کی آگ میں پھینکا جائے گا تو ہمارا کیا حال ہو گا؟ جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے بہت تیز ہو گی اور ہمیں بار بار اس آگ میں پھینکا جائے اور مر جانے کے بعد پھر سے زندہ کیا جائے گا اور پتہ نہیں کن کن عذاب سے گزرنا پڑے گا۔ اگر انسان اپنے اعمال کے بارے میںسوچے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور اُس کو کیا سزا ملے گی اُس کے اعمالوں کی تو انسان کھانا پینا چھوڑ دے ، سب سے بات کرنا چھوڑ دے اور اُس روح کانپ جائے اگر وہ اس بات کا یقین کر لے کہ موت کے بعد ہمارا حساب کیا جائے گا اور ہمارے اعمال ہمیں بتائیں گے کہ ہم جنت میں جائیں گے یا جہنم میں۔
تحریر : ساجد تاج
اپنے اعمال کو دیکھ کر مجھے یہ خیال آنے لگا ہے
کہ دوستو مجھے بھی موت سے ڈر لگنے لگا ہے
ہو جائوں گا میںرُسوا دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر
نہ چاہ کر بھی دل خون کے آنسو رونے لگا ہے
یوں تو ملتی ہے ہر خوشی دنیاوی ہر رشتے میں ساجد
ان عارضی رشتوں کونبھاتے نبھاتے دل میرا ٹوٹنے لگا ہے
اپنی اصلاح کے لیے مجھے ہر اِک نیک کام کرنا ہو گا
اس سے پہلے موت گلے لگائے مجھے اپنے رَب کو راضی کرنا ہوگا
موت کے خوف سے کانپ اُٹھتی ہے روح تک میری
مانگ کر معافی اپنے رَب سے مجھے اپنی زندگی کو سنوارنا ہو گا
بہت کر لیا خفا میں نے اپنے پیارے رَب کو ساجد
توڑ کر دنیا کی ہر اِک زنجیر کو اپنے رَب کو منانا ہوگا