طالوت
محفلین
مجھے تیری یاد سے نفرت ہے
مجھے تیری ہر بات سے نفرت ہے
مجھے زندگی نے یوں چنا دیوار میں
مجھے ہرامید و آس سے نفرت ہے
میں کھیلتا ہوں رات بھر خیالوں سے
مجھے تیرے ہر خیال سے نفرت ہے
کوشش تو کر رہا ہوں جینے کی مگر
مجھے ہر ملاقات سے نفرت ہے
میں نے سوچا زہر ہی پی جاؤں مگر
مجھے تو ہر مٹھاس سے نفرت ہے
ترے کوچے میں جب بھی صدا بلند ہوتی ہے
مجھے یاد آتا ہے مجھے ہر آواز سے نفرت ہے
محبتوں کو نفرتوں میں بدل دے تو بھی
مجھے اسیری کی ہر شب فراق سے نفرت ہے
اب تو کچھ بھی ہنر باقی نہیں بچا
کہ مجھے میری ذات سے نفرت ہے
مجھے تیری ہر بات سے نفرت ہے
مجھے زندگی نے یوں چنا دیوار میں
مجھے ہرامید و آس سے نفرت ہے
میں کھیلتا ہوں رات بھر خیالوں سے
مجھے تیرے ہر خیال سے نفرت ہے
کوشش تو کر رہا ہوں جینے کی مگر
مجھے ہر ملاقات سے نفرت ہے
میں نے سوچا زہر ہی پی جاؤں مگر
مجھے تو ہر مٹھاس سے نفرت ہے
ترے کوچے میں جب بھی صدا بلند ہوتی ہے
مجھے یاد آتا ہے مجھے ہر آواز سے نفرت ہے
محبتوں کو نفرتوں میں بدل دے تو بھی
مجھے اسیری کی ہر شب فراق سے نفرت ہے
اب تو کچھ بھی ہنر باقی نہیں بچا
کہ مجھے میری ذات سے نفرت ہے